ہندو مت کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ مذہب کسی ایک فرد واحد کی دی گئی تعلیمات یا آسمانی احکامات سے جنم لینے والا مذہب نہیں ہے بلکہ متنوّع خیالات اور افسانوی داستانوں کی کوکھ سے جنم لینے والے عقائد کا ایسا مجموعہ ہے جس کی بنیاد ہوائی قلعے جیسی ہے، جو ایک جھونکے سے کبھی کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔ ہندو مت کے تکوینی نظریات (cosmogonies) کے مطابق تخلیق کائنات کو کہیں بھینٹ کا صلہ سمجھا جاتا ہے اور کہیں ذات مطلق خود بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور اسی کے اعضاء سے کائنات کے مختلف حصے وجود میں آتے ہیں۔ اسی نظریے کے مطابق ہندو معاشرے میں ذات پات کی تقسیم اور چھوت اچھوت کا تصور پیدا ہوتا ہے، جس کے مطابق برہمن، برہما کے منہ سے، کھشتری اس کے بازوؤں سے، ویش اس کی رانوں اور شودر اس کے پاؤں سے پیدا ہوئے ہیں۔

ویسے تو ہندو دھرم میں بھگوانوں کی تعداد تینتیس کروڑ تینتیس لاکھ تینتیس ہزار تین سو تینتیس تک پہنچ چکی ہے لیکن ان میں سے تین بھگوان مرکزی اہمیت کے حامل ہیں، برہما، شیو اور وشنو۔ وشنو دھرتی بسانے والا دیوتا، زندگی دینے والا اور شیو موت اور بربادی کی علامت جب کہ برہما پیدا کرنے والا دیوتا مانا جاتا ہے۔ تمام تکوینی نظریات میں بیضہ زرین (Golden Egg) کے نظریے کو اہمیت حاصل ہوئی، جس میں بتایا جاتا ہے کہ وجود الٰہی نے سب سے پہلے سمندر پیدا کیے، جس میں بیضہ زرین تیرتا پھرتا تھا۔ تن وجود الٰہی اس میں داخل ہوگیا اور پھر اولین مخلوق بن کر پیدا ہوا اور برہما کہلایا۔ پھر برہما نے دیوتا، بہشت، آسمان، سورج، چاند، ستارے اور انسان پیدا کیےرگ وید کے ایک اشلوک میں کہا گیا ہے کہ برہما نے سوم رس پی کر مدہوشی کے عالم میں اس کائنات کی تخلیق کی ہے۔

روح، مادہ، آکاش اور زمانہ کو خدا کے برابر ازلی اور ابدی تسلیم کرنا، شرک فی الصفات اور آگ، پانی، دریا، پہاڑ، زمین،سورج، چاند کی عبادت شرک در عبادت ہے۔

ہندو مت میں تصور رسالت بھی مبہم اور دھندلا سا ہے جس میں ریشوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اصطلاح میں رشی، رسول نبی اور مصلح تمام معنوں میں یکساں استعمال ہوتا ہے۔ رشی ہندوؤں کے قوانین و ضوابط کا سرچشمہ اور دھرم کے ارکان و ستون تسلیم کیے جاتے ہیں۔ رشی حقیقت میں نارائن ہوتا ہے جو دنیا میں آتے وقت انسان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی بعثت کا مقصد دنیا پر چھائے ہوئے شر کا خاتمہ اور گمراہ دنیا کو پھر سے صحیح راستے پر ڈالنا ہوتا ہے۔ رشی براہ راست سومبھو یا قائم بالذات سے رہنمائی لیتے ہیں درمیان میں کسی واسطے، فرشتے یا ملائکہ کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ منو شاستر میں لکھا ہے کہ “عظیم رشی دھیان میں بیٹھے منو کے پاس پہنچے اور اس کی شایان شان پوجا کے بعد کہنے لگے اے بھگوان! چار ذاتوں اور ان کے ملاپ سے پیدا ہونے والی(دوغلی) ذاتوں کے متعلق احکام صحت اور ترتیب کے ساتھ بیان اور سرفراز کر”

ہندو مت کے بنیادی ماخذ وید سمجھے جاتے ہیں جن کے شاعر یا مصنف رشی کہلاتے ہیں جس کا لغوی معنی” منتر دیکھنے والا” ہے۔ ایک رشی کے مکمل کلام کو سوکت کہا جاتا ہے جب کہ جس دیوتا سے کوئی تمنا پوری ہونے کی آرزو کر کے رشی نے اس کہ تعریف وہ اس منتر کا” دیوتا” کہلاتا ہے۔ مثلاً رگ وید کے پہلے منتر میں “اگنی” دوسرے میں “واہ” اور تیسرے میں “آسون” اور چوتھے میں” اندرا” دیوتا کی تعریف کی گئی ہے۔

رشیوں نے الہامی ہونے کا دعوٰی بھی نہیں کیا جیسا کہ ایک رشی ” سوما” مشروب کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب میں سوما پی لیتا ہوں تو بھجن میرے ذہن میں یوں آتا ہے جیسے گائے اپنے پیارے بچھڑے کے پاس آتی ہے۔اس کے علاوہ ویدوں کے کئی منتر ایسے ہیں جن میں رشیوں کا یہ دعوٰی موجود ہے کہ یہ ان کے بنائے ہوئے ہیں۔

اب ہم ایک نظر اسلام کے نظریہ توحید پر ڈالتے ہیں، اسلام دین فطرت ہے اور اس کی بنیاد توحید پر ہے، اسلام کا رکن اول ہی کلمہ شہادت ہے۔ جو دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ شہادت توحید اور دوسرا شہادت رسالت سے متعلق ہے۔ شہادت توحید کا پہلا حصہ نفی ماسوا اللہ پر مشتمل ہے جس کا مفہوم اس بات پر مقتضی ہے کہ بندہ اپنے قلب و باطن کی اتھاہ گہرائیوں سے کائنات ارض و سما میں موجود ہر چھوٹی بڑی اور ادنیٰ و اعلیٰ مخلوق کی الوہیت کے ہر امکان کی کلی طور پر نفی کرے اور یہ اقرار کرے کہ کائنات ہست و بود کی کوئی چیز اصلاً بالفعل یا بالقوہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ نیز وہ اس امر کی گواہی دے کہ شجر و حجر، شمس و قمر، جمادات و نباتات، جن و انس و ملائک میں کوئی بھی اس کا مسجود و معبود ہونے کے اہل و سزاوار نہیں۔

(جاری ہے)