Add Your Heading Text Here
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیْدَ یَعْنِی الْوَاسِطِیَ عَنْ سُفْیَانَ یَعْنِی بْنَ حُسَیْنٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیْہِ (عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدْ کَتَبَ الصَّدَقَۃَ وَلَمْ یُخْرِجْہَا، اِلٰی عُمَّالِہِ حَتّٰی تُوُفِّیَ، قَالَ فَأَخْرَجَہَا أَبُوْ بَکْرٍ رضی اللہ عنہ مِنْ بَعْدِہِ فَعَمِلَ بِہَا حَتّٰی تُوُفِّیَ، ثُمَّ أَخْرَجَہَا عُمَرُ مِنْ بَعْدِہِ فَعَمِلَ بِہَا، قَالَ فَلَقَدْ ہَلَکَ عُمَرُ یَوْمَ ہَلَکَ وَإِنَّ ذَالِکَ لَمَقْرُوْنٌ بِوَصِیَّتِہِ، فَقَالَ کَانَ فِیْہَا فِی الإِبِلِ فِی کُلِّ خَمْسٍ شَاۃٌ، حَتّٰی تَنْتَہِیَ إِلٰی أَرْبَعٍ وَعِشْرِیْنَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِلٰی خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ فَفِیْہَا بِنْتُ مَخَاضٍ، إِلٰی خَمْسٍ وَثَلاَثِیْنَ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ ابْنَۃُ مَخَاضٍ فَأبْنُ لَبُوْنٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلٰی خَمْسٍ وَثَلَاثِیْنَ فَفِیْہَا ابْنَۃُ لَبُوْنٍ، إِلٰی خَمْسٍ وَأَرْبَعِیْنَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا حِقَّہٌ، إِلٰی سِتِّیْنَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِیْہَا حِقَّتَانِ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ، فَإِذَا کَثُرَتْ الإِبِلَ فَفِی کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّہٌ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِیْنَ ابْنَۃُ لَبُوْنَ، (وَفِی الْغَنَمِ) مِنْ أَرْبَعِیْنَ شَاۃٌ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمَائَۃٍ، فَإِذَا زَادَتْ بَعْدُ فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ حَتّٰی تَبلْغُ َأَرْبَعَمِائَہٍ، فَإِذَا کَثُرَتِ الْغَنَمُ فَفِی کُلِّ مِائَۃٍ شَاۃٌ، وَکَذَالِکَ لَا یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ وَلَا یُجْمَعُ بَیْنَ مُتَفَرِّقٍ مَخَافَۃَ الصَّدَقَۃِ، وَمَا کَانَ مِنْ خَلِیْطَیْنِ فَہُمَا یَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوْیَّۃِ، لَا تُؤْخَذُ ہَرِمَۃٌ۔ وَلَا ذَاتُ عَیْبٍ مِنَ الْغَنَمِ۔ (مسند احمد: ۴۶۳۴)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوۃ کے احکام تحریر کروائے، لیکن ابھی تک ان کو عاملین کی طرف نہیں بھیجاتھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتقال فرما گئے، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ تحریر عمال کی طرف بھجوائی اور ان کی وفات تک اس پر عمل ہوتا رہا، ان کے بعد سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی تحریر اپنے عمال کو بھجوائی اور اس پر عمل ہوتا رہا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت وہ تحریر ان کی وصیت کے ساتھ موجود تھی، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس میں یہ تفصیل لکھی ہوئی تھی: چوبیس اونٹوں تک ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری بطور زکوۃ مقرر ہے، جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو ایک بنت ِ مخاض فرض ہے، اگر بنت ِ مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیا جا سکتا ہے، زکوۃ کی یہ مقدار پینتیس اونٹوں تک ہے، جب چھتیس ہو جائیں تو پینتالیس اونٹوں تک بنت ِ لبون واجب ہے، پھر چھیالیس سے ساٹھ تک حِقّہ ہے، اس سے بڑھ جائیں تو پچھتر تک جذعہ ہے، جب اونٹ اس مقدار سے بھی بڑھ جائیں تو نوے (۹۰) تک دو عدد بنت ِ لبون ہوں گی۔ اس کے بعد اکانوے سے ایک سو بیس تک تین حقّے واجب ہیں اور جب اونٹ اس سے بھی زائد ہوں تو ہر پچاس پرایک حقّہ اور ہر چالیس میں ایک بنت ِ لبون بطور زکوۃ فرض ہے۔ رہا مسئلہ بکریوں کی زکوۃ کا تو (۴۰) سے (۱۲۰) بکریوں تک ایک بکری اور (۱۲۱) سے (۲۰۰)تک دو بکریاں بطورِ زکوۃ فرض ہیں، اگر وہ اس سے زیادہ ہو جائیں تو (۳۰۰) تک تین بکریاں اور اس کے بعد (۴۰۰) ہو جائیں تو چار بکریاں ہیں۔ اس سے بھی زیادہ بکریاں ہوں تو ہر (۱۰۰) میں ایک بکری۔زکوۃ سے بچنے کے لیے ایک ریوڑ کو الگ الگ یا الگ الگ ریوڑوں کو اکٹھا نہ کیا جائے۔ اگر ایک سے زائد شرکاء کی بکریوں میں سے زکوۃ واجب ہو گئی تو وہ آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیں گے۔ زکوۃ میں کوئی بوڑھی یا عیب والی بکری نہ لی جائے۔
Musnad Ahmed#3378
(۳۳۶۷) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: ((مَا مِنْ صَاحِبِ کَنْزٍ، لَا یُؤَدِّی زَکَاتَہُ إِلَّا جِیْئَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَبِکَنْزِہِ فَیُحْمٰی عَلَیْہِ صَفَائِحُ فِی نَارِجَہَنَّمَ فَیُکْوٰی بِہَا جَبِیْنُہُ وَظَہْرُہُ حَتّٰی یَحْکَمَ اللّٰہُ بَیْنَ عِبَادِہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ، ثُمَّ یَرٰی سَبِیْلَہُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لایُؤَدِّی زَکَاتَہَا إِلاَّجِیْئَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَبِإِبِلِہِ کَأَوْفَرِ مَا کَانَتْ عَلَیْہِ، فَیُبْطَحُ لَہَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ کُلَّمَا مَضٰی أُخْرَاہَا رُدَّ عَلَیْہِ أُوْلَاہَا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہَ بَیْنَ عِبَادِہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ، ثُمَّ یَرٰی سَبِیْلَہُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَاِمَّا اِلَی النَّارِ،وَمَا مِنْ صَاحِبِ غَنَمٍ لاَ یُؤَدِّیْ زَکَاتَہَا إِلاَّجِیْ ئَ بِہِ وَبِغَنَمِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَوْفَرِ مَا کَانَتْ فَیُبْطَحُ لَہَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُہُ بِأَظْلَافِہَا، وَتَنْطَحُہُ بِقُرُوْنِہَا کُلَّمَا مَضَتْ أُخْرَاہَا رُدَّتْ عَلَیْہِ أُوْلَاہَا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَ عِبَادِہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ، ثُمَّ یَرٰی سَبِیْلَہُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ۔)) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَالْخَیْلُ؟ قَالَ: ((اَلْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ بِنَوَاصِیْہَا الْخَیْرُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَالْخَیْلُ ثَلَاثَۃٌ، وَہِیَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَہِیَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَہِیَ عَلٰی رَجُلٍ وِزْرٌ (فَأَمَّا الَّذِی ہِیَ لَہُ أَجْرٌ) الَّذِی یَتَّخِذُہَا وَیَحْبِسُہَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَمَا غَیَّبَتْ فِی بَطُوْنِہَا فَہُوَ لَہُ أَجْرٌ، وَإِنِ اسْتَنَّتْ مِنْہُ شَرَفًا أَوْشَرَفَیْنِ کَانَ لَہُ فِی کُلِّ خُطْوَہٍ خَطَاہَا أَجْرٌ، وَلَوْ عَرَضَ لَہُ نَہْرٌ فَسَقَاہَا مِنْہُ کَانَ لَہُ بِکُلِّ قَطْرَۃٍ غَیِّبَتْہُ فِی بُطُوْنِہَا أَجْرٌ،حَتّٰی ذَکَرَ الْأَجْرَ فِی أَرْوَاثِہَا وَأَبْوَالِہَا، (وَأَمَّا الَّذِی ہِیَ لَہُ سِتْرٌ) فَرَجُلٌ یَتَّخِذُہَا تَعَفُّفًا وَتَجَمُّلًا وَتَکَرُّمًا وََلَا یَنْسٰی حَقَّہَا فِی ظُہُوْرِہَا وَبُطُوْنِہَا فِی عُسْرِہَا وَیُسْرِہَا (وَأَمَّا الَّذِی عَلَیْہِ وِزْرٌ) فَرَجُلٌ یَتَّخِذُہَا أَشَرًا وَرِئَائَ النَّاسِ وَبَذَخًا عَلَیْہِمْ۔)) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَالْحُمُرُ؟ قَالَ: ((مَا اُنْزِلَ عَلَیَّ فِیْہَا شَیْئٌ إِلَّا ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ۔})) (مسند احمد: ۸۹۶۵)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خزانے کامالک، جو اس کی زکوۃ ادا نہیں کرتا، اسے قیامت کے دن خزانے سمیت لایا جائے گا اور اس کے خزانے کو تختیوں کی شکل دے کر جہنم کی آگ پر خوب گرم کیا جائے گا، پھر اس سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ کو داغا جاتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرنے سے فارغ ہو جائے گا، تمہارے حساب کے مطابق یہ پچاس ہزار سال کے برابر دن ہو گا، اس کے بعد وہ بندہ اپنا راستہ دیکھے گا کہ وہ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف۔ اسی طرح جو کوئی اونٹوں کا مالک ہو اور وہ ان کی زکوۃ ادا نہ کرے تو اسے قیامت کے دن اونٹوں سمیت لایا جائے گا، جبکہ وہ اونٹ بھی خوب موٹے تازے ہوں گے، پھر اس مالک کو ایک وسیع چٹیل میدان میں لٹا کر اونٹ اس کے اوپر سے گزارے جائیں گے، جب آخری اونٹ گزر جائے گا تو پہلے اونٹ کو دوبارہ لایا جائے گا۔اس کے ساتھ یہ سلوک اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کرنے سے فارغ نہ ہو جائے،وہ دن تمہارے حساب کے مطابق پچاس ہزار برس کا ہو گا، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کا راستہ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف۔ اسی طرح جو آدمی بکریوں کا مالک ہو اور وہ ان کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو تو اسے بھی قیامت کے دن بکریوں سمیت لایا جائے گا، جبکہ وہ بکریاں خوب موٹی تازی ہوں گی۔ اس آدمی کو وسیع چٹیل میدان میں لٹا دیا جائے گا اور وہ بکریاں اپنے کھروں سے اسے روندیں گی اور سینگوں سے ماریں گی، جب آخری بکری گزر جائے گی تو پہلی بکری کو دوبارہ لایا جائے گا اور اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتارہے گا، تاآنکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے کرنے سے فارغ ہوجائے، وہ دن تمہارے اعداد و شمار کے مطابق پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوگا، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کا راستہ جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! گھوڑوں کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت تک گھوڑوں کی پیشانی میں خیر وبرکت رکھ دی گئی ہے، (دراصل) گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک (اپنے مالک کے لیے) اجرو ثواب، ایک پردہ پوشی اور ایک گناہ کا سبب ہوتا ہے، جو اجر وثواب کا ذریعہ ہوتا ہے، وہ وہ گھوڑا ہوتا ہے کہ جس کو اس کا مالک جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے پالتا ہے، ایساگھوڑا اپنے پیٹ میں جو کچھ ڈالے گا، وہ اس کے مالک کے لیے اجر ہو گا، جب وہ ایک دو ٹیلوں تک چلے گا تو اس کے ہر ہر قدم کے بدلے مالک کو اجر ملے گا اور اگر اس کے سامنے نہر آجاتی اور وہ اس سے پانی پی لیتا ہے تو ہر قطرہ، جو وہ اپنے پیٹ میں داخل کرتا ہے، اس کے عوض اس کو اجر ملے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے پیشاب اور لید کی وجہ سے بھی اجر کا ذکر کیا۔ جو گھوڑا آدمی کے لیے پردہ پوشی کا ذریعہ ہے، یہ وہ گھوڑا ہے کہ جس کو پالنے کا سبب یہ ہے کہ ضرورت کے وقت کسی سے مانگنا نہ پڑے اور اس سے اسے زینت وجمال اور عزت حاصل ہو، ہاں یہ بات ہے کہ ایسا مالک اپنے گھوڑے کی پشت اور پیٹ کے حق سے غافل نہ ہو، رہا اس گھوڑے کا مسئلہ جو اپنے مالک کے لیے گناہ کا سبب بنتا ہے تو وہ وہ ہوتاہے کہ جس کا مالک فخر، تکبر اور لوگوں کے سامنے ریاکاری کرنے کے لیے اسے پالتا ہے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! گدھوں کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کے متعلق مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں کیا گیا، البتہ ایک آیت ہے جو بے مثال اور (ہر خیر کو) شامل ہے، یعنی: {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہٗ} (سورۂ زلزال:۸) یعنی: جو کوئی ایک ذرہ برابرنیکی کرے گا، وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ برابر گناہ کرے گا تو وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔
Musnad Ahmad #7965