بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَرِيَاشًا الْمَالُ {الْمُعْتَدِينَ} فِي الدُّعَاءِ وَفِي غَيْرِهِ {عَفَوْا} كَثُرُوا وَكَثُرَتْ أَمْوَالُهُمْ {الْفَتَّاحُ} الْقَاضِي {افْتَحْ بَيْنَنَا} اقْضِ بَيْنَنَا. {نَتَقْنَا} رَفَعْنَا {انْبَجَسَتْ} انْفَجَرَتْ {مُتَبَّرٌ} خُسْرَانٌ {آسَى} أَحْزَنُ {تَأْسَ} تَحْزَنْ. وَقَالَ غَيْرُهُ {مَا مَنَعَكَ أَنْ لاَ تَسْجُدَ} يَقُولُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ {يَخْصِفَانِ} أَخَذَا الْخِصَافَ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ، يُؤَلِّفَانِ الْوَرَقَ، يَخْصِفَانِ الْوَرَقَ بَعْضَهُ إِلَى بَعْضٍ. {سَوْآتِهِمَا} كِنَايَةٌ عَنْ فَرْجَيْهِمَا، {وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ} هَا هُنَا إِلَى الْقِيَامَةِ، وَالْحِينُ عِنْدَ الْعَرَبِ مِنْ سَاعَةٍ إِلَى مَا لاَ يُحْصَى عَدَدُهَا، الرِّيَاشُ وَالرِّيشُ وَاحِدٌ وَهْوَ مَا ظَهَرَ مِنَ اللِّبَاسِ. {قَبِيلُهُ} جِيلُهُ الَّذِي هُوَ مِنْهُمْ. {ادَّارَكُوا} اجْتَمَعُوا، وَمَشَاقُّ الإِنْسَانِ وَالدَّابَّةِ كُلُّهُمْ يُسَمَّى سُمُومًا وَاحِدُهَا سَمٌّ وَهْىَ عَيْنَاهُ وَمَنْخِرَاهُ وَفَمُهُ وَأُذُنَاهُ وَدُبُرُهُ وَإِحْلِيلُهُ. {غَوَاشٍ} مَا غُشُّوا بِهِ. {نُشُرًا} مُتَفَرِّقَةً. {نَكِدًا} قَلِيلاً. {يَغْنَوْا} يَعِيشُوا {حَقِيقٌ} حَقٌّ. {اسْتَرْهَبُوهُمْ} مِنَ الرَّهْبَةِ {تَلَقَّفُ} تَلْقَمُ. {طَائِرُهُمْ} حَظُّهُمْ. طُوفَانٌ مِنَ السَّيْلِ وَيُقَالُ لِلْمَوْتِ الْكَثِيرِ الطُّوفَانُ. الْقُمَّلُ الْحُمْنَانُ يُشْبِهُ صِغَارَ الْحَلَمِ. عُرُوشٌ وَعَرِيشٌ بِنَاءٌ. {سُقِطَ} كُلُّ مَنْ نَدِمَ فَقَدْ سُقِطَ فِي يَدِهِ. الأَسْبَاطُ قَبَائِلُ بَنِي إِسْرَائِيلَ. {يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ} يَتَعَدَّوْنَ لَهُ يُجَاوِزُونَ تَعْدُ تُجَاوِزْ. {شُرَّعًا} شَوَارِعَ {بَئِيسٍ} شَدِيدٍ، {أَخْلَدَ} قَعَدَ وَتَقَاعَسَ {سَنَسْتَدْرِجُهُمْ} نَأْتِيهِمْ مِنْ مَأْمَنِهِمْ كَقَوْلِهِ تَعَالَى {فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا} {مِنْ جِنَّةٍ} مِنْ جُنُونٍ. {فَمَرَّتْ بِهِ} اسْتَمَرَّ بِهَا الْحَمْلُ فَأَتَمَّتْهُ {يَنْزَغَنَّكَ} يَسْتَخِفَّنَّكَ، طَيْفٌ مُلِمٌ بِهِ لَمَمٌ وَيُقَالُ {طَائِفٌ} وَهْوَ وَاحِدٌ. {يَمُدُّونَهُمْ} يُزَيِّنُونَ. {وَخِيفَةً} خَوْفًا وَخُفْيَةً مِنَ الإِخْفَاءِ، وَالآصَالُ وَاحِدُهَا أَصِيلٌ مَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى الْمَغْرِبِ كَقَوْلِهِ {بُكْرَةً وَأَصِيلاً}.
1. باب قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ}
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قُلْتُ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ، وَرَفَعَهُ. قَالَ " لاَ أَحَدَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ، فَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلاَ أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنَ اللَّهِ، فَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ "
Narrated By Abdullah bin Mas'ud : Allah's Apostle said, "None has more sense of ghaira than Allah, and for this He has forbidden shameful sins whether committed openly or secretly, and none loves to be praised more than Allah does, and this is why He Praises Himself."
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے عمرو بن مرہ سے، انہوں نے ابو وائل سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعودؓ سے۔ عمرو بن مرہ نے کہا میں نے ابو وائل سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعودؓ سے سنی ہے۔ انہوں نے کہا ہاں۔ عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایااللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں اسی لئے اس نے فحش (برے بے حیائی) کے کاموں کو حرام کیا ہے کھلے ہوں یا پوشیدہ۔ اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اور کسی کو تعریف ہونا پسند نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے آپ اپنی تعریف کی ہے۔
2. باب {وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ}الآية
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {أَرِنِي} أَعْطِنِي
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَدْ لُطِمَ وَجْهُهُ وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِكَ مِنَ الأَنْصَارِ لَطَمَ وَجْهِي. قَالَ " ادْعُوهُ ". فَدَعَوْهُ قَالَ " لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ ". قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي مَرَرْتُ بِالْيَهُودِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ. فَقُلْتُ وَعَلَى مُحَمَّدٍ وَأَخَذَتْنِي غَضْبَةٌ فَلَطَمْتُهُ. قَالَ " لاَ تُخَيِّرُونِي مِنْ بَيْنِ الأَنْبِيَاءِ، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلاَ أَدْرِي أَفَاقَ قَبْلِي أَمْ جُزِيَ بِصَعْقَةِ الطُّورِ "
Narrated By Abu Said Al-Khudri : A man from the Jews, having been slapped on his face, came to the Prophet and said, "O Muhammad! A man from your companions from the Ansar has slapped me on my face!" The Prophet said, "Call him." When they called him, the Prophet said, "Why did you slap him?" He said, "O Allah's Apostle! While I was passing by the Jews, I heard him saying, 'By Him Who selected Moses above the human beings,' I said, 'Even above Muhammad?' I became furious and slapped him on the face." The Prophet said, "Do not give me superiority over the other prophets, for on the Day of Resurrection the people will become unconscious and I will be the first to regain consciousness. Then I will see Moses holding one of the legs of the Throne. I will not know whether he has come to his senses before me or that the shock he had received at the Mountain, (during his worldly life) was sufficient for him."
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، انہوں نے عمرو بن یحیٰی سے، انہوں نے اپنے والد (یحیٰی بن عمارہ) سے انہوں نے ابو سعید خدریؓ سے انہوں نے کہا ایک یہودی (فحاص یا اور کوئی)نبی ﷺ کے پاس آیا۔ اس کو کسی مسلمان نے طمانچہ (تھپڑ) رسید کیا تھا۔ وہ کہنے لگا اے محمدﷺ! تمھارے ایک انصاری صحابی نے میرے منہ پر تمانچہ مارا ہے۔ آپؐ نے فررمایا اس کو بلاؤ، تو بلایا اور وہ حاضر ہوا۔ آپؐ نے پوچھا تم نے اس کے منہ پر طمانچہ کیوں مارا ہے؟ وہ کہنے لگا یا رسول اللہﷺ! میں راستے میں یہودیوں پر سے گزرا (جن میں یہ بھی تھا) یہ کہنے لگا قسم اس خدا کی جس نے موسیٰ پیغمبر کو سارے آدمیوں میں سے چن لیا۔ میں نے کہا کیا وہ محمدﷺ سے بھی بڑھ کر ہیں اور مجھے غصہ آ گیا میں نے طمانچہ لگایا۔ یہ سن کر رسولا للہ ﷺ نے فرمایا دیکھو دوسرے پیغمبروں پر مجھ کو فضیلت نہ دو۔ ایسا ہو گا قیامت کے دن لوگ
(ایک ہی ایکا) بیہوش ہو جائیں گے۔ میں سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا۔ کیا دیکھوں گا موسیٰ پیغمبر (مجھ سے پہلے) عرش کا پایا تھامے کھڑے ہیں۔ اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کو مجھ سے پہلے ہی ہوش آ جائے گا یا وہ بیہوش ہی نہ ہوں گے کیونکہ دنیا میں کوہ طور پر بیہوش ہو چکے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُهَا شِفَاءُ الْعَيْنِ "
Narrated By Said Ibn Zaid : The Prophet said, "Al-Kam'a is like the Mann (sweet resin or gum) (in that it grows naturally without human care) and its water is a cure for the eye diseases."
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے شعبہ سے، انہوں نے عبد الملک بن عمیر سے، انہوں نے عمرو بن حریث سے، انہوں نے سعید بن زید سے، انہوں نے نبی ﷺ سے، آپؐ نے فرمایا کنبی مَن کی قسم ہے (خود بخود پیدا ہوتی ہے) اور اس کا پانی آنکھ کی دوا ہے۔
3. باب {قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ}
حَدَّثَنِى عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُوسَى بْنُ هَارُونَ، قَالاَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلاَءِ بْنِ زَبْرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيُّ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، يَقُولُ كَانَتْ بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ مُحَاوَرَةٌ، فَأَغْضَبَ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ، فَانْصَرَفَ عَنْهُ عُمَرُ مُغْضَبًا، فَاتَّبَعَهُ أَبُو بَكْرٍ يَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَهُ، فَلَمْ يَفْعَلْ حَتَّى أَغْلَقَ بَابَهُ فِي وَجْهِهِ، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أَمَّا صَاحِبُكُمْ هَذَا فَقَدْ غَامَرَ ". قَالَ وَنَدِمَ عُمَرُ عَلَى مَا كَانَ مِنْهُ فَأَقْبَلَ حَتَّى سَلَّمَ وَجَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَقَصَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْخَبَرَ. قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ وَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يَقُولُ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لأَنَا كُنْتُ أَظْلَمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو لِي صَاحِبِي هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو لِي صَاحِبِي إِنِّي قُلْتُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ. وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ صَدَقْتَ ".قَالَ أَبُو عَبداللهِ: غَامَرَ: سَبَقَ بِالخَيرِ.
Narrated By Abu Ad-Darda : There was a dispute between Abu Bakr and 'Umar, and Abu Bakr made Umar angry. So 'Umar left angrily. Abu Bakr followed him, requesting him to ask forgiveness (of Allah) for him, but 'Umar refused to do so and closed his door in Abu Bakr's face. So Abu Bakr went to Allah's Apostle while we were with him. Allah's Apostle said, "This friend of yours must have quarrelled (with somebody)." In the meantime 'Umar repented and felt sorry for what he had done, so he came, greeted (those who were present) and sat with the Prophet and related the story to him. Allah's Apostle became angry and Abu Bakr started saying, "O Allah's Apostle! By Allah, I was more at fault (than Umar)." Allah's Apostle said, "Are you (people) leaving for me my companion? (Abu Bakr), Are you (people) leaving for me my companion? When I said, 'O people I am sent to you all as the Apostle of Allah,' you said, 'You tell a lie.' while Abu Bakr said, 'You have spoken the truth."
ہم سے عبداللہ (حماد آئلی) نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن اور موسیٰ بن ہارون نے، دونوں نے کہا ہم سے ولید بن مسلم نے، کہا ہم سے عبداللہ بن علاء بن زبیر نے، کہا مجھ سے بسر بن عبیداللہ نے، کہا مجھ سے ابو ادریس خولانی نے، کہا میں نے ابو درداءؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ابو بکرؓ اور عمرؓ دونوں کے درمیان (کسی بات پر) تکرار ہو گیا۔ عمرؓ کو غصہ آیا اور غصے میں لوٹ کر چلے۔ ابو بکرؓ ان کے پیچھے چلے اور کہتے جاتے تھے
(بھائی) معاف کر دو لیکن عمرؓ نے نہ سنا اور گھر میں جا کر اندر سے دروازہ بند کر لیا (تا کہ ابو بکرؓ اندر نہ آ سکیں) ۔ آخر ابو بکرؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ ابو درداءؓ کہتے ہیں اس وقت میں رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھا تھا۔ آپؐ نے (ابو بکرؓ کی صورت دیکھتے ہی) فرمایا تمھارے یہ صاحب کسی سے لڑ کر آئے ہیں۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ عمرؓ بھی شرمندہ ہوئے اور نبی ﷺ کے پاس آئے۔ سلام کر کے بیٹھے اور سارا واقعہ بیان کیا (کہ ابو بکرؓ نے مجھ سے معافی مانگی اور میں نے سنا نہیں) ابو درداءؓ کہتے ہیں یہ واقعہ سنتے ہی رسول اللہ ﷺ غصے ہو گئے۔ اور ابو بکرؓ (آپؐ کا غصہ فِرو کرنے لگے) کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ! خدا کی قسم؛ اس مسئلہ میں میں قصور وار تھا (عمرؓ کی زیادتی نہ تھی)۔ رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے)فرمایا (تم کو کیا ہو گیا ہے؟) تم کو میرا بھی لحاظ نہیں۔ میرا تو لحاظ کرو۔ میرے دوست کو مت ستاؤ۔ میرا تو لحاظ کرو۔ میرے دوست کو مت ستاؤ۔دیکھو جب لوگوں سے میں نے یہ کہا قُل یَا ایُّھا النَّاسُ اِنِّی رَسُولُ اللہِ الیکم جمیعا تو تم لوگوں نے میری بات کو جھٹلایا اور ابو بکرؓ نے کہا آپؐ سچ کہتے ہیں۔ امام بخاری نے کہا غامر کا معنی حدیث میں یہ ہے کہ ابو بکرؓ نے بھلائی میں سبقت کی۔
4. باب قَوْلِهِ {وَقُولُوا حِطَّةٌ}
حَدَّثَنِى إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ {ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ} فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ وَقَالُوا حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ "
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "It was said to the children of Israel, 'Enter the gate in prostration and say Hitatun. (7.161) We shall forgive you, your faults.' But they changed (Allah's Order) and entered, dragging themselves on their buttocks and said, 'Habatun (a grain) in a Sha'ratin (hair)."
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے، انہوں نے ہمام بن منبہ سے، انہوں نے ابو ہریرہؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو یہ حکم ہوا تھا کہ سجدہ کرتے ہوئے (یعنی جھک کر) بیت المقدس کے دروازے میں جاؤ اور یوں کہو حِطَّۃٌ یعنی اللہ ہمارے گناہ بخش دے۔ تو ہم تمھارے گناہ بخش دیں گے۔ انہوں نے کیا کیا اللہ کا حکم بدل ڈالا (سجدے کے بدلے) چوتڑوں پر گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حِطَّۃٌ کے بدلے حِبَّۃٌ فِی شَعرَۃ کہنے لگے۔
5. باب {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ}
الْعُرْفُ: الْمَعْرُوفُ
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِيهِ الْحُرِّ بْنِ قَيْسٍ، وَكَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ، وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجَالِسِ عُمَرَ وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولاً كَانُوا أَوْ شُبَّانًا. فَقَالَ عُيَيْنَةُ لاِبْنِ أَخِيهِ يَا ابْنَ أَخِي، لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الأَمِيرِ فَاسْتَأْذِنْ لِي عَلَيْهِ. قَالَ سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَيْهِ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَاسْتَأْذَنَ الْحُرُّ لِعُيَيْنَةَ فَأَذِنَ لَهُ عُمَرُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ هِيْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَوَاللَّهِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ، وَلاَ تَحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ. فَغَضِبَ عُمَرُ حَتَّى هَمَّ بِهِ، فَقَالَ لَهُ الْحُرُّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِنَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} وَإِنَّ هَذَا مِنَ الْجَاهِلِينَ. وَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلاَهَا عَلَيْهِ، وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ.
Narrated By Ibn Abbas : 'Uyaina bin Hisn bin Hudhaifa came and stayed with his nephew Al-Hurr bin Qais who was one of those whom 'Umar used to keep near him, as the Qurra' (learned men knowing Qur'an by heart) were the people of 'Umar's meetings and his advisors whether they were old or young. 'Uyaina said to his nephew, "O son of my brother! You have an approach to this chief, so get for me the permission to see him." Al-Hurr said, "I will get the permission for you to see him." So Al-Hurr asked the permission for 'Uyaina and 'Umar admitted him. When 'Uyaina entered upon him, he said, "Beware! O the son of Al-Khattab! By Allah, you neither give us sufficient provision nor judge among us with justice." Thereupon 'Umar became so furious that he intended to harm him, but Al-Hurr said, "O chief of the Believers! Allah said to His Prophet: "Hold to forgiveness; command what is right; and leave (don't punish) the foolish." (7.199) and this (i.e. 'Uyaina) is one of the foolish." By Allah, 'Umar did not overlook that Verse when Al-Hurr recited it before him; he observed (the orders of) Allah's Book strictly.
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے، کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے کہ عبداللہ بن عباسؓ نے کہا عیینہ بن حصن بن حذیفہ (مدینہ) آئےاور اپنے بھتیجے حر بن قیس بن حصن کے پاس اترے، جو عمرؓ کے مقرب (پاس بیٹھنے والے) تھے۔ عمرؓ کی عادت تھی کہ وہ اپنا مقرب اس کو بناتے جو قرآن کا قاری (عالم) ہوتا۔ ایسے ہی لوگ ان کی مجلس اور مشورے میں شریک رہتے۔ بوڑھے اور جوان کی کوئی قید نہ ہوتی۔ خیر عیینہ بن حصن نے اپنے بھتیجے سے کہا،بھتیجے تمھاری تو امیر المؤمنین کے پاس رسائی ہے، مجھے بھی اجازت لے کر ان کی خدمت میں لے چلو۔ حر بن قیس نے کہا اچھا میں اجازت لوں گا۔ حر نے عمرؓ سے عیینہ کولانے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے اجازت دی۔ جب عیینہ عمرؓ کے پاس گئے تو کہنے لگے (غضب سے غضب لیو۔ سنو) اے خطاب کے بیٹے! نہ تو تم (میں سخاوت ہے) ہم کو بہت داد و دہش کرتے ہو، نہ عدل اور انصاف ہے۔ یہ سن کر عمرؓ غصے ہوئے۔ قریب تھا کہ عیینہ کو مار بیٹھیں۔ اس وقت حر نے عرض کیا۔ اے امیرلامؤمنین! اللہ اپنے پیغمبرﷺ سے فرماتا ہے خُذِ العَفوَ وأمر بالعرف و اعرض عن الجاھلین۔ یہ شخص (عیینہ) بھی جاہل ہے (درگزر کریں)۔ خدا کی قسم! عمرؓ نے اس آیت کے سنتے ہی اس پر عمل کیا۔ جب حر نے یہ آیت پڑھی اور عمرؓ اللہ کی کتاب (پر پورا پورا چلتے ذرا بھی اس) کے خلاف نہ کرتے۔
حَدَّثَنِى يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ} قَالَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلاَّ فِي أَخْلاَقِ النَّاسِ.
Narrated By 'Abdullah bin AzZubair : (The Verse) "Hold to forgiveness; command what is right..." was revealed by Allah except in connection with the character of the people.
ہم سے یحیٰی بن موسیٰ (یا یحیٰ بن جعفر) نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے، انہوں نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عبداللہ بن زبیرؓ سے، انہوں نے کہا یہ آیت جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی خُذِ العَفوَ وَأمُر بِالعُرفِ تو اخلاق کے باب میں نازل فرمائی (یعنی اپنے اخلاق کو کیسا رکھنا چاہیے)۔
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ أَمَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَأْخُذَ الْعَفْوَ مِنْ أَخْلاَقِ النَّاسِ. أَوْ كَمَا قَالَ.
'Abdullah bin Az-Zubair said: Allah ordered His Prophet to forgive the people their misbehaviour (towards him).
اور عبداللہ بن برّاد نے کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے عبداللہ بن زبیرؓ سے، انہوں نے کہا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اخلاق (عادات) میں سے اپنے پیغمبرﷺ کو معاف فرمانے کا حکم دیا یا کچھ ایسا ہی۔