بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
قَالَ مُجَاهِدٌ {سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ} السَّحْنَةُ. وَقَالَ مَنْصُورٌ عَنْ مُجَاهِدٍ التَّوَاضُعُ. {شَطْأَهُ} فِرَاخَهُ {فَاسْتَغْلَظَ} غَلُظَ. {سُوقِهِ} السَّاقُ حَامِلَةُ الشَّجَرَةِ. وَيُقَالُ {دَائِرَةُ السَّوْءِ} كَقَوْلِكَ رَجُلُ السَّوْءِ. وَدَائِرَةُ السَّوْءِ الْعَذَابُ. {تُعَزِّرُوهُ} تَنْصُرُوهُ. {شَطْأَهُ} شَطْءُ السُّنْبُلِ، تُنْبِتُ الْحَبَّةُ عَشْرًا أَوْ ثَمَانِيًا وَسَبْعًا، فَيَقْوَى بَعْضُهُ بِبَعْضٍ فَذَاكَ قَوْلُهُ تَعَالَى {فَآزَرَهُ} قَوَّاهُ، وَلَوْ كَانَتْ وَاحِدَةً لَمْ تَقُمْ عَلَى سَاقٍ، وَهُوَ مَثَلٌ ضَرَبَهُ اللَّهُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِذْ خَرَجَ وَحْدَهُ، ثُمَّ قَوَّاهُ بِأَصْحَابِهِ، كَمَا قَوَّى الْحَبَّةَ بِمَا يَنْبُتُ مِنْهَا.
1. باب قَوْلِهِ:{إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا}
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَسِيرُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسِيرُ مَعَهُ لَيْلاً، فَسَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ شَىْءٍ، فَلَمْ يُجِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فُلَمْ يُجِبْهُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثَكِلَتْ أُمُّ عُمَرَ، نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، كُلَّ ذَلِكَ لاَ يُجِيبُكَ. قَالَ عُمَرُ فَحَرَّكْتُ بَعِيرِي، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ أَمَامَ النَّاسِ، وَخَشِيتُ أَنْ يُنْزَلَ فِيَّ الْقُرْآنُ، فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي فَقُلْتُ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ. فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ " لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَىَّ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَىَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ ". ثُمَّ قَرَأَ "{إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا}"
Narrated By Aslam : While Allah's Apostle was proceeding at night during one of his journeys and 'Umar bin Al-Khattab was travelling beside him, 'Umar asked him about something but Allah's Apostle did not reply. He asked again, but he did not reply, and then he asked (for the third time) but he did not reply. On that, 'Umar bin Al-Khattab said to himself, "Thakilat Ummu 'Umar (May 'Umar's mother lose her son)! I asked Allah's Apostle three times but he did not reply." 'Umar then said, "I made my camel run faster and went ahead of the people, and I was afraid that some Qur'anic Verses might be revealed about me. But before getting involved in any other matter. I heard somebody calling me. I said to myself, 'I fear that some Qur'anic Verses have been revealed about me,' and so I went to Allah's Apostle and greeted him.
He (Allah's Apostle) said, 'Tonight a Sura has been revealed to me, and it is dearer to me than that on which the sun rises (i.e. the world)' Then he recited: "Verily, We have given you a manifest victory." (48.1)
ہم سے عبداللہ بن مسلم قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک سے، انہوں نے زید بن اسلم سے، انہوں نے اپنے والد سے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر (حدیبیہ) میں تشریف لے جا رہے تھے۔ عمرؓ بھی آپؐ کے ساتھ تھے ۔ رات کا وقت تھا۔ عمرؓ نے آپؐ سے کچھ پوچھا۔ آپؐ نے جواب نہ دیا (آپؐ پر وحی آ رہی تھی) ۔ انہوں نے پھر پوچھا۔ آپؐ نے تب بھی جواب نہ دیا۔ پھر پوچھا تو تب بھی جواب نہ دیا۔ آخر عمرؓ اپنے تئیں کوسنے لگے کہنے لگے عمرؓ (کاش تو مر جائے) تجھ پر تیری ماں روئے تو نے رسول اللہ ﷺ سے تین بار عاجزی سے پوچھا لیکن آپؐ نے کچھ جواب نہ دیا۔ عمرؓ کہتے ہیں میں نے اپنے سواری کے اونٹ کو ایڑھ لگائی اور لوگوں کے آگے نکل گیا۔ دل میں ڈر رہاتھا کہ کہیں ایسا نہ ہو میرے باب میں قرآن اترے۔ تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی پکار سنی۔ وہ مجھ کو پکار رہا تھا (کہ رسول اللہ ﷺ نے تجھ کو بلایا ہے) میں دل میں ڈرا شاید میرے باب میں قرآن نازل ہوا (کیونکہ میں اللہ کے رسولﷺ سے خفا ہو کر آگے بڑھ آیا تھا)آخر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا۔ میں نے آپؐ کو سلام کیا۔ آپؐ نے فرمایا (ابھی ابھی) اسی رات کو مجھ پر ایک سورت اتری وہ مجھ کو ان سب چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پر سورج کی روشنی پہنچتی ہے۔ پھر آپؐ نے یہ سورت پڑھی اِنَّا فَتَحنَا لَکَ فَتحًا مُّبِینًا اخیر تک۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا} قَالَ الْحُدَيْبِيَةُ.
Narrated By Anas : "Verily, We have given you (O Muhammad) a manifest victory." refers to Al-Hudaibiya Peace treaty.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم نے غندر نے، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا میں نے قتادہؓ سے سنا، انہوں نے انسؓ سے وہ کہتے تھے اِنَّا فَتَحنَا لَکَ فَتحًا مُّبِینًا سے مراد حدیبیہ کی صلح ہے۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ قَرَأَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ سُورَةَ الْفَتْحِ فَرَجَّعَ فِيهَا. قَالَ مُعَاوِيَةُ لَوْ شِئْتُ أَنْ أَحْكِيَ لَكُمْ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لَفَعَلْتُ.
Narrated By 'Abdullah bin Mughaffal : On the Day of the Conquest of Mecca, the Prophet recited Surat Al-Fath in a vibrating and pleasant voice. (Muawaiya, the sub-narrator said, "If I could imitate the recitation of the Prophet I would do so.")
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سےمعاویہ بن قرّہ نے، انہوں نے عبداللہ بن مغفل سے، انہوں نے کہا نبیﷺ نے جس دن مکہ فتح ہوا سورۃ فتح (بہت خوش آوازی کے ساتھ) آواز دہرا کر پڑھی۔ معاویہ بن قرہ نے کہا اگر میں چاہوں تو نبی ﷺ کی قراءت تم کو سنا سکتا ہوں۔
2. باب {لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا}
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادٌ، أَنَّهُ سَمِعَ الْمُغِيرَةَ، يَقُولُ قَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ فَقِيلَ لَهُ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ " أَفَلاَ أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ".
Narrated By Al-Mughira : The Prophet used to offer night prayers till his feet became swollen. Somebody said, to him," "Allah has forgiven you, your faults of the past and those to follow." On that, he said, "Shouldn't I be a thankful slave of Allah)?"
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا ہم سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، انہوں نے مغیرہ بن شعبہ سے سنا، وہ کہتے تھے نبی ﷺ (تہجد کی نماز میں) اتنا کھڑا ہونے لگے کہ آپؐ کے (مبارک) پاؤں سوج گئے۔ لوگوں نے کہا اللہ تعالٰی نے تو یہ آیت اتاری ہے لِیَغفِرَلَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ اور آپؐ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیئے ہیں (پھر آپؐ کیوں اتنی محنت کرتے ہیں)۔ آپؐ نے فرمایا کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنو (اس نعمت کا شکر ادا نہ کروں)۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ، سَمِعَ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ تَصْنَعُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ " أَفَلاَ أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا ". فَلَمَّا كَثُرَ لَحْمُهُ صَلَّى جَالِسًا فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ، فَقَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ
Narrated By 'Aisha : The Prophet used to offer prayer at night (for such a long time) that his feet used to crack. I said, "O Allah's Apostle! Why do you do it since Allah has forgiven you your faults of the past and those to follow?" He said, "Shouldn't I love to be a thankful slave (of Allah)?' When he became old, he prayed while sitting, but if he wanted to perform a bowing, he wound get up, recite (some other verses) and then perform the bowing.
ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن یحیٰی نے، کہا ہم کو حیوہ بن شریح نے، انہوں نے ابو الاسود (محمد بن عبد الرحمٰن) سے، انہوں نے عروہ سے سنا، انہوں نے عائشہؓ سے، انہوں نے کہا نبیﷺ رات کونماز میں اتنا کھڑے رہتے کہ آپؐ کے پاؤں تڑخ جاتے۔ عائشہؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! آپؐ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں۔ آپؐ کے تو اللہ تعالٰی نے اگلے پچھلے (سب) گناہ بخش دیئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کیا میں (عبادت کر کے) اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔ جب (آپؐ کی عمر زیادہ ہوئی) آپؐ کا جسم فربہ ہو گیا تو آپؐ (تہجد کی نماز) بیٹھ کر پڑھا کرتے۔ (قراءت کرتے رہتے) جب رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہو کر کچھ قراءت کر کے رکوع کرتے۔
3. باب {إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا}
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ هَذِهِ، الآيَةَ الَّتِي فِي الْقُرْآنِ {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا} قَالَ فِي التَّوْرَاةِ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَحِرْزًا لِلأُمِّيِّينَ، أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلاَ غَلِيظٍ وَلاَ سَخَّابٍ بِالأَسْوَاقِ وَلاَ يَدْفَعُ السَّيِّئَةَ بِالسَّيِّئَةِ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللَّهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ بِأَنْ يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَيَفْتَحَ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا وَآذَانًا صُمًّا وَقُلُوبًا غُلْفًا.
Narrated By Abdullah bin Amr bin Al-As : This Verse: 'Verily We have sent you (O Muhammad) as a witness, as a bringer of glad tidings and as a warner.' (48.8)
Which is in the Qur'an, appears in the Surah thus: 'Verily We have sent you (O Muhammad) as a witness, as a bringer of glad tidings and as a warner, and as a protector for the illiterates (i.e., the Arabs.) You are my slave and My Apostle, and I have named you Al-Mutawakkil (one who depends upon Allah). You are neither hard-hearted nor of fierce character, nor one who shouts in the markets. You do not return evil for evil, but excuse and forgive. Allah will not take you unto Him till He guides through you a crocked (curved) nation on the right path by causing them to say: "None has the right to be worshipped but Allah." With such a statement He will cause to open blind eyes, deaf ears and hardened hearts.'"
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی مسلمہ نے، انہوں نے ہلال بن ابی ہلال سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے، انہوں نے کہا قرآن کی یہ آیت یٰاَیُّھَاالنَّبِیُّ اِنَّا اَرسَلنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیرًا تورات میں اس طرح ہے اے نبی! ہم نے تجھ کو گواہ بنا کر خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا بھیجا۔ تو اَن پڑھ لوگوں (یعنی عربوں) کی پشت پناہ ہےتُو میرا بندہ میرا بھیجا ہوا ہے۔ میں نے تیرا نام متوکل (اللہ پر بھروسہ کرنے والا) رکھا۔ نہ تو بدخو ہے، نہ سخت دل، نہ بازاروں میں شور کرنے والا۔ برائی کا بدلہ برائی نہیں کرنے کا، بلکہ معاف کرے درگزر کرے گا۔ اللہ تعالٰی تجھ کو (دنیا سے) اس وقت تک نہیں اٹھائے گا جب تک ٹیڑھی ملت (یعنی کفر و شرک کی ملت) کو تیری وجہ سے سیدھا (درست) نہ کر دے یعنی لوگ لا الہ الا اللہ کہنے لگیں۔ اس کلمے سے اندھی آنکھوں بھرے کونوں، غفلت والے دلوں کو کھول دے گا۔
4. باب {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ المُؤْمِنِينَ}
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَقْرَأُ، وَفَرَسٌ لَهُ مَرْبُوطٌ فِي الدَّارِ، فَجَعَلَ يَنْفِرُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ فَنَظَرَ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، وَجَعَلَ يَنْفِرُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " تِلْكَ السَّكِينَةُ تَنَزَّلَتْ بِالْقُرْآنِ ".
Narrated By Al-Bara : While a man from the companions of the Prophet was reciting (Qur'an) and his horse was tied in the house, the horse got startled and started jumping. The man came out, looked around but could not find anything, yet the horse went on jumping. The next morning he mentioned that to the Prophet. The Prophet said, "That was the tranquillity (calmness) which descended because of the recitation of the Qur'an."
ہم سے عبیداللہ بن موسٰی نےبیان کیا، انہوں نے اسرائیل سے، انہوں نے ابو اسحاق سے، انہوں نے براء بن عازبؓ سے، انہوں نے کہا ایک بار ایسا ہوا نبیﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص (اسید بن حضیرؓ) سورہ کھف پڑھ رہے تھے۔ ان کا گھوڑا جو گھر میں بندھا ہوا تھا بھڑکنے لگا۔ یہ حال دیکھ کر وہ شخص باہر نکلے۔ دیکھا تو وہاں کچھ نہ تھا لیکن گھوڑا بھڑک رہا ہے۔ صبح کو نبیﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا یہ سکینہ تھی جو قرآن پڑھنے کی وجہ سے اتری (جس کا ذکر اسآیت میں ہے) ھُوَ الَّذِی اَنزَلَ السَّکِینَۃَ فی قُلُوبِ المُؤمِنِین۔
5. باب {إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ}
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَأَرْبَعَمِائَةٍ.
Narrated By Jabir : We were one thousand and four hundred on the Day of Al-Hudaibiya.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، انہوں نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے، انہوں نے کہا ہم حدیبیہ کے دن ایک ہزار چار سو آدمی تھے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ صُهْبَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيِّ، إِنِّي مِمَّنْ شَهِدَ الشَّجَرَةَ، نَهَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْخَذْفِ.
Narrated By 'Uqba bin Sahban : 'Abdullah bin Mughaffal Al-Muzani who was one of those who witnessed (the event of) the tree, said, "The Prophet forbade the throwing of small stones (with two fingers)."
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شبابہ نے، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے کہا میں نے عقبہ بن صہبا سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مغفل مزنی سے جو بیعت رضوان میں موجود تھے۔ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے کنکریاں پھیجکنے سے منع فرمایا ۔
وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ صُهْبَانَ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُغَفَّلِ الْمُزَنِيِّ، فِي الْبَوْلِ فِي الْمُغْتَسَلِ.
'Abdullah bin Al-Mughaffal Al-Muzani also said, "The Prophet also forbade urinating at the place where one takes a bath."
اور (اسی سند سے) عقبہ بن صہبان سے مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن مغفل سے سنا غسل کے مقام میں پیشاب کرنا منع ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ ـ رضى الله عنه ـ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ.
Narrated By Thabit bin Ad-Dahhak : Who was one of the companions of the tree (those who swore allegiance to the Prophet beneath the tree at Al-Hudaibiya).
ہم سے محمد بن ولید نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن جعفر نے کہا ہم سے شعبہ نے انہوں نے خالد حذاء سے انہوں نے ابو قلابہ سے انہوں نے ثابت بن ضّحاکؓ سے وہ ان صحابہ میں تھے جنھوں نے درخت کے تلے آپؐ سے بیعت کی تھی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ أَتَيْتُ أَبَا وَائِلٍ أَسْأَلُهُ فَقَالَ كُنَّا بِصِفِّينَ فَقَالَ رَجُلٌ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ. فَقَالَ عَلِيٌّ نَعَمْ. فَقَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ ـ يَعْنِي الصُّلْحَ الَّذِي كَانَ بَيْنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالْمُشْرِكِينَ ـ وَلَوْ نَرَى قِتَالاً لَقَاتَلْنَا، فَجَاءَ عُمَرُ فَقَالَ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ أَلَيْسَ قَتْلاَنَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلاَهُمْ فِي النَّارِ قَالَ " بَلَى ". قَالَ فَفِيمَ أُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا، وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا. فَقَالَ " يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا ". فَرَجَعَ مُتَغَيِّظًا، فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّى جَاءَ أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا. فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ.
Narrated By Habib bin Abi Thabit : I went to Abu Wail to ask him (about those who had rebelled against 'Ali). On that Abu Wail said, "We were at Siffin (a city on the bank of the Euphrates, the place where me battle took place between 'Ali and Muawiya) A man said, "Will you be on the side of those who are called to consult Allah's Book (to settle the dispute)?" 'Ali said, 'Yes (I agree that we should settle the matter in the light of the Qur'an)." ' Some people objected to 'Ali's agreement and wanted to fight. On that Sahl bin Hunaif said, 'Blame yourselves! I remember how, on the day of Al-Hudaibiya (i.e. the peace treaty between the Prophet and the Quraish pagans), if we had been allowed to choose fighting, we would have fought (the pagans). At that time 'Umar came (to the Prophet) and said, "Aren't we on the right (path) and they (pagans) in the wrong? Won't our killed persons go to Paradise, and theirs in the Fire?" The Prophet replied, "Yes." Umar further said, "Then why should we let our religion be degraded and return before Allah has settled the matter between us?" The Prophet said, "O the son of Al-Khattab! No doubt, I am Allah's Apostle and Allah will never neglect me." So Umar left the place angrily and he was so impatient that he went to Abu Bakr and said, "O Abu Bakr! Aren't we on the right (path) and they (pagans) on the wrong?" Abu Bakr said, "O the son of Al-Khattab! He is Allah's Apostle, and Allah will never neglect him." Then Sura Al-Fath (The Victory) was revealed."
ہم سے احمد بن اسحاق سلمی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعلی بن عبید نے، کہا ہم سے عبدالعزیز بن سیارہ نے، انہوں نے حبیب بن ابی ثابت سے، انہوں نے کہا میں ابو وائل شقیق بن سلمہ کے پاس گیا۔ ان سے پوچھتا تھا۔ انہوں نے کہا ایسا ہوا ہم صفین میں تھے۔ اتنے میں ایک شخص
(عبداللہ بن الکواء علیؓ سے) کہنے لگا کیا آپؐ ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جو اللہ کی کتاب کی طرف بلاتے ہیں۔ سہل بن حنیف (ان خارجیوں سے) کہنے لگے اپنی رائے غلط سمجھو۔ دیکھو ہم لوگ صلح حدیبیہ میں نبیﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ جب آپؐ نے (مکہ کے) مشرکوں سے صلح کی ہے۔ اگر ہم مناسب سمجھتے تو لڑ سکتے تھے۔ عمرؓ آئے کہنے گلے (یا رسول اللہﷺ) کیا ہم سچے طریق پر اور مشرک لوگ جھوتے طریق پر نہیں ہیں۔ کیا ہم میں جو لوگ مارے جائیں وہ بہشت میں اور مشرکوں میں جو لوگ مارے جائیں وہ دوزخ میں نہیں جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں یہ سب صحیح ہے۔ عمر نے عرض کیا پھر ہم اپنے (سچے) دین کو کیوں ذلیل کریں۔اور خالی مدینہ کو کیوں لوٹ جائیں۔ جب تک اللہ ہمارا اور ان کا فیصلہ نہ کر دے گا۔ آپﷺ نے فرمایا خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں اور مجھ کو کوئی تباہ نہیں کرے گا۔ عمرؓ یہ سن کر غصے سے لوٹ گئےاور ذرا نہیں ٹھہرے تھے کہ ابو بکرؓ کے پاس پہنچے کہنے لگے ابو بکرؓ کیا ہم (مسلمان) سچے دین پر اور کافر جھوٹے طریق پر نہیں۔ ابو بکرؓ نے کہا خطاب کے بیٹے رسول ﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ آپؐ کو تباہ کرے۔ اس وقت سورہ فتح نازل ہوئی۔