- احادیثِ نبوی ﷺ

 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم

‏{‏فَلاَ يَرْبُو‏}‏ مَنْ أَعْطَى يَبْتَغِي أَفْضَلَ فَلاَ أَجْرَ لَهُ فِيهَا‏.‏ قَالَ مُجَاهِدٌ ‏{‏يُحْبَرُونَ‏}‏ يُنَعَّمُونَ‏.‏ ‏{‏يَمْهَدُونَ‏}‏ يُسَوُّونَ الْمَضَاجِعَ، الْوَدْقُ الْمَطَرُ‏.‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ‏{‏هَلْ لَكُمْ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ‏}‏ فِي الآلِهَةِ، وَفِيهِ ‏{‏تَخَافُونَهُمْ‏}‏ أَنْ يَرِثُوكُمْ كَمَا يَرِثُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا‏.‏ ‏{‏يَصَّدَّعُونَ‏}‏ يَتَفَرَّقُونَ، ‏{‏فَاصْدَعْ‏}‏ وَقَالَ غَيْرُهُ ضُعْفٌ وَضَعْفٌ لُغَتَانِ‏.‏ وَقَالَ مُجَاهِدٌ ‏{‏السُّوأَى‏}‏ الإِسَاءَةُ، جَزَاءُ الْمُسِيئِينَ‏.‏

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، وَالأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ فِي كِنْدَةَ فَقَالَ يَجِيءُ دُخَانٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَأْخُذُ بِأَسْمَاعِ الْمُنَافِقِينَ وَأَبْصَارِهِمْ، يَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ‏.‏ فَفَزِعْنَا، فَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَغَضِبَ فَجَلَسَ فَقَالَ مَنْ عَلِمَ فَلْيَقُلْ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ‏.‏ فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لاَ يَعْلَمُ لاَ أَعْلَمُ‏.‏ فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ لِنَبِيِّهِ صلى الله عليه وسلم ‏{‏قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ‏}‏ وَإِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنِ الإِسْلاَمِ فَدَعَا عَلَيْهِمِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا، وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ وَيَرَى الرَّجُلُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ ‏"‏، فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُنَا بِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ، فَقَرَأَ ‏{‏فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏عَائِدُونَ‏}‏ أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمْ عَذَابُ الآخِرَةِ إِذَا جَاءَ ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى ‏{‏يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى‏}‏ يَوْمَ بَدْرٍ وَلِزَامًا يَوْمَ بَدْرٍ ‏{‏الم * غُلِبَتِ الرُّومُ‏}‏ إِلَى ‏{‏سَيَغْلِبُونَ‏}‏ وَالرُّومُ قَدْ مَضَى‏.‏

Narrated By Masruq : While a man was delivering a speech in the tribe of Kinda, he said, "Smoke will prevail on the Day of Resurrection and will deprive the hypocrites their faculties of hearing and seeing. The believers will be afflicted with something like cold only thereof." That news scared us, so I went to (Abdullah) Ibn Mas'ud while he was reclining (and told him the story) whereupon he became angry, sat up and said, "He who knows a thing can say, it, but if he does not know, he should say, 'Allah knows best,' for it is an aspect of knowledge to say, 'I do not know,' if you do not know a certain thing. Allah said to His prophet. 'Say (O Muhammad): No wage do I ask of you for this (Qur'an), nor I am one of the pretenders (a person who pretends things which do not exist.)' (38.86) The Quraish delayed in embracing Islam for a period, so the Prophet invoked evil on them, saying, 'O Allah! Help me against them by sending seven years of (famine) like those of Joseph.' So they were afflicted with such a severe year of famine that they were destroyed therein and ate dead animals and bones. They started seeing something like smoke between the sky and the earth (because of severe hunger). Abu Sufyan then came (to the Prophet) and said, "O Muhammad! You came to order us for to keep good relations with Kith and kin, and your kinsmen have now perished, so please invoke Allah (to relieve them).' Then Ibn Mas'ud recited: 'Then watch you for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible... but truly you will return! (to disbelief) (44.10-15) Ibn Mas'ud added, Then the punishment was stopped, but truly, they reverted to heathenism (their old way). So Allah (threatened them thus): 'On the day when we shall seize you with a mighty grasp.' (44.16) And that was the day of the Battle of Badr. Allah's saying- "Lizama" (the punishment) refers to the day of Badr Allah's Statement: 'Alif-Lam-Mim, the Romans have been defeated, and they, after their defeat, will be victorious,' (30.1-3) (This verse): Indicates that the defeat of Byzantine has already passed.

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے منصور اور اعمش نے، انہوں نے ابو الضحٰی سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے کہا کندہ میں ایک شخص (نام نا معلوم) یہ بیان کر رہا تھا کہ قیامت کے دن دھواں آئیگا جس سے منافقوں کے تو آنکھ کان بالکل بیکار ہو جائیں گے(اندھے اور بہرے ہو جائینگے) اور مومنوں کو زکام کی سی کیفیت پیدا ہو گی۔ یہ سن کر ہم گھبرا گئے۔ میں عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آیا وہ تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ وہ غصّے ہو گئے اور سیدھے ہو بیٹھے۔ انہوں نے کہا بات یہ ہے آدمی کو چاہیے کہ جس چیز کا علم ہو اس کو بیان کرے اور جس کا علم نہ ہو تو یوں کہےاللہ اعلم اور علم کی نشانی یہ ہے کہ جس چیز کو نہ جانتا ہو اس کو کہے میں نہیں جانتا۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبرﷺ سے فرمایا کہہ دو میں اس وعظ اور نصیحت پر تم سے کوئی نیگ نہیں مانگتا اور نہ بات بنانے والوں میں ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا ہوا یہ تھا کہ قریش کے لوگوں نے اسلام قبول کرنے میں دیر لگائی تو نبیﷺ نے ان پر بددعا کی۔اے اللہ! قریش کے لوگوں کے مقابل اس طرح میری مدد کر کہ ان پر یوسفؑ کے سات سال کے قحط کی طرح سات برس کا قحط بھیج۔ آخر ان پر قحط آن پہنچا ۔ایسا سخت قحط ہوا جس سے وہ تباہ ہو گئے۔ مردار ہڈیاں تک کھا گئے(بھوک کے مارے) آدمی کا حال یہ تھا کہ آسمان اور زمین کے بیچ ایک دھواں سا دکھلائی دیتا تھا۔ آخر ابو سفیان (مجبور ہو کر) رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ کہنے لگا اے محمدﷺ! تم تو ہم کو ناطہ جوڑنے کا حکم دیتے ہو اور تمھاری قوم (ناتے والوں) کا یہ حال ہو رہا ہے وہ (قحط کے مارے) تباہ ہو گئے۔ اللہ سے کچھ دعا کرو۔ اس وقت آپ نے یہ آیت پڑھی فَارتَقِب یَومَ یَاتِی السَّمآءِ بِدُخَانٍ مُّبِین اخیر آیت عَائِدُون تک۔ کہیں آخرت کا عذاب بھی آنے کے بعد موقوف ہو گا۔ اس عذاب کے موقوف ہونے پر قریش کے لوگ پھر کفر پرقائم رہے۔ اللہ تعالٰی نے جو فرمایا یَومَ نَبطِشُ البَطشَۃَ الکُبرٰی اس سے بھی بدر کی لڑائی مراد ہے اور لزام سے بھی وہی مقصود ہے (جو سورہ فرقان میں ہے) اسی طرح جو سورہ روم میں ہے الم غُلِبَتِ الرُّومُ اخیر آیت سَیَغلِبُون تک۔ یہ واقعہ بھی گزر چکا ہے۔


حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلاَّ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ، كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ‏"‏ ثُمَّ يَقُولُ ‏{‏فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ‏}‏

Narrated By Abu- Huraira : Allah's Apostle said, "No child is born except on Al-Fitra (Islam) and then his parents make him Jewish, Christian or Magian, as an animal produces a perfect young animal: do you see any part of its body amputated?" Then he recited: "The religion of pure Islamic Faith (Hanifa),(i.e. to worship none but Allah), The pure Allah's Islamic nature with which He (Allah) has created mankind. Let There be no change in Allah's religion (i.e. to join none in Allah's worship). That is the straight religion; but most of men know not..." (30.30)

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے، کہا ہم کو یونس بن یزید نے، انہوں نے زہری سے، کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نےکہ ابو ہریرہؓ نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر ایک بچہ (آدمی کا) فطرت (یعنی اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا پارسی بنا ڈالتے ہیں۔ جیسے دیکھو! ہر ایک چوپایہ جونور کا بچہ پورے بدن کا پیدا ہوتا ہے۔ کہیں تم نے دیکھا ہےکوئی بچہ کن کٹا (یا نکٹا) پیدا ہوا۔ اس کے بعد ابو ہریرہؓ نے یہ آیت پڑھی فِطرَۃَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیھَا لَا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللہِ ذالِکَ الدِّینُ القَیِّمُ ۔

1. باب

 

2. باب ‏{‏لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ‏}

‏ لِدِينِ اللَّهِ.‏{‏خَلْقُ الأَوَّلِينَ‏}‏ دِينُ الأَوَّلِينَ‏.‏ وَالْفِطْرَةُ الإِسْلاَمُ‏.