- احادیثِ نبوی ﷺ

 

12

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم

{‏مِنْ خِلاَلِهِ‏}‏ مِنْ بَيْنِ أَضْعَافِ السَّحَابِ‏.‏ ‏{‏سَنَا بَرْقِهِ‏}‏ الضِّيَاءُ‏.‏ ‏{‏مُذْعِنِينَ‏}‏‏.‏ يُقَالُ لِلْمُسْتَخْذِي مُذْعِنٌ، أَشْتَاتًا وَشَتَّى وَشَتَاتٌ وَشَتٌّ وَاحِدٌ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ‏{‏سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا‏}‏ بَيَّنَّاهَا‏.‏ وَقَالَ غَيْرُهُ سُمِّيَ الْقُرْآنُ لِجَمَاعَةِ السُّوَرِ، وَسُمِّيَتِ السُّورَةُ لأَنَّهَا مَقْطُوعَةٌ مِنَ الأُخْرَى فَلَمَّا قُرِنَ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ سُمِّيَ قُرْآنًا‏.‏ وَقَالَ سَعْدُ بْنُ عِيَاضٍ الثُّمَالِيُّ الْمِشْكَاةُ الْكُوَّةُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ، وَقَوْلُهُ تَعَالَى ‏{‏إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ‏}‏ تَأْلِيفَ بَعْضِهِ إِلَى بَعْضٍ، ‏{‏فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ‏}‏ فَإِذَا جَمَعْنَاهُ وَأَلَّفْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ، أَىْ مَا جُمِعَ فِيهِ، فَاعْمَلْ بِمَا أَمَرَكَ، وَانْتَهِ عَمَّا نَهَاكَ اللَّهُ، وَيُقَالُ لَيْسَ لِشِعْرِهِ قُرْآنٌ أَىْ تَأْلِيفٌ، وَسُمِّيَ الْفُرْقَانَ لأَنَّهُ يُفَرِّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَيُقَالُ لِلْمَرْأَةِ مَا قَرَأَتْ بِسَلاً قَطُّ أَىْ لَمْ تَجْمَعْ فِي بَطْنِهَا وَلَدًا‏.‏ وَقَالَ ‏{‏فَرَّضْنَاهَا‏}‏ أَنْزَلْنَا فِيهَا فَرَائِضَ مُخْتَلِفَةً وَمَنْ قَرَأَ ‏{‏فَرَضْنَاهَا‏}‏ يَقُولُ فَرَضْنَا عَلَيْكُمْ وَعَلَى مَنْ بَعْدَكُمْ‏.‏ وَقَالَ مُجَاهِدٌ ‏{‏أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا‏}‏ لَمْ يَدْرُوا لِمَا بِهِمْ مِنَ الصِّغَرِ‏.

 

1. باب قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ‏}‏

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ عُوَيْمِرًا، أَتَى عَاصِمَ بْنَ عَدِيٍّ وَكَانَ سَيِّدَ بَنِي عَجْلاَنَ فَقَالَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي رَجُلٍ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ فَأَتَى عَاصِمٌ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَسَائِلَ، فَسَأَلَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَرِهَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ وَاللَّهِ لاَ أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ فَجَاءَ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ الْقُرْآنَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ ‏"‏‏.‏ فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالْمُلاَعَنَةِ بِمَا سَمَّى اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، فَلاَعَنَهَا ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ حَبَسْتُهَا فَقَدْ ظَلَمْتُهَا، فَطَلَّقَهَا، فَكَانَتْ سُنَّةً لِمَنْ كَانَ بَعْدَهُمَا فِي الْمُتَلاَعِنَيْنِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ انْظُرُوا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَلاَ أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلاَّ قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلاَ أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا، إِلاَّ قَدْ كَذَبَ عَلَيْهَا ‏"‏‏.‏ فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ تَصْدِيقِ عُوَيْمِرٍ، فَكَانَ بَعْدُ يُنْسَبُ إِلَى أُمِّهِ‏.‏

Narrated By Sahl bin Saud : 'Uwaimir came to 'Asim bin 'Adi who was the chief of Bani Ajlan and said, "What do you say about a man who has found another man with his wife? Should he kill him whereupon you would kill him (i.e. the husband), or what should he do? Please ask Allah's Apostle about this matter on my behalf." Asim then went to the Prophet and said, "O Allah's Apostle! (And asked him that question) but Allah's Apostle disliked the question," When 'Uwaimir asked 'Asim (about the Prophet's answer) 'Asim replied that Allah's Apostle disliked such questions and considered it shameful. "Uwaimir then said, "By Allah, I will not give up asking unless I ask Allah's Apostle about it." Uwaimir came (to the Prophet) and said, "O Allah's Apostle! A man has found another man with his wife! Should he kill him whereupon you would kill him (the husband, in Qisas) or what should he do?" Allah's Apostle said, "Allah has revealed regarding you and your wife's case in the Qur'an "So Allah's Apostle ordered them to perform the measures of Mula'ana according to what Allah had mentioned in His Book. So 'Uwaimir did Mula'ana with her and said, "O Allah's Apostle! If I kept her I would oppress her." So 'Uwaimir divorced her and so divorce became a tradition after them for those who happened to be involved in a case of Mula'ana. Allah's Apostle then said, "Look! If she (Uwaimir's wife) delivers a black child with deep black large eyes, big hips and fat legs, then I will be of the opinion that 'Uwaimir has spoken the truth; but if she delivers a red child looking like a Wahra then we will consider that 'Uwaimir has told a lie against her." Later on she delivered a child carrying the qualities which Allah's Apostle had mentioned as a proof for 'Uwaimir's claim; therefore the child was ascribed to its mother henceforth.

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے، کہا ہم سے اوزاعی نے، کہا مجھ سے زہری نے، انہوں نے سہل بن سعدؓ سے کہ عویمر (بن حارث بن زید بن جید بن عجلان) عاصم بن عدی کے پاس آیا جو بنی عجلان قبیلے کا سردار تھا۔ اور پوچھنے لگا بھلا اگر کوئی شخص اپنی جورو کے پاس کسی اجنبی مرد کو پائے(جو اس سے صحبت کر رہا ہو) تم کیا کہتے ہو کیا اس کو مار ڈالے پھر تو تم لوگ بھی اسکو (قصاص میں) مار ڈالو گے۔پھر کیا کرے۔ عویمر نے کہا عاصم تم میرے لئے یہ مسئلہ نبی ﷺ سے پوچھو۔ عاصم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپؐ سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوالات کو برا جانا۔ جب عویمر نے عاصم سے پوچھا (کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا) تو عاصم نے کہا رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوالات کو برا سمجھا ہے۔ عویمر نے کہا میں باز نہیں آؤنگا جب تک رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ نہ پاچھ لوں۔ آخر عویمر آیا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر کوئی شخص اپنی جورو کو غیر مرد کے ساتھ (برا کام کرتے ہوئے) دیکھے تو کیا کرے کیا اس کو مار ڈالے پھر تو آپؐ بھی اسکو (قصاص میں) مار ڈالیں گے۔ نہیں تو پھر کیا کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا الہ نے تیرے اور تیری جورو کے بارے میں قرآن کریم نازل فرمایا۔ پھر آپؐ نے جورو اور مرد دونوں کو لعان کرنے کا حکم دیا اسی طرح سے جس طرح قرآن میں اترا۔ عویمر نے اپنی بیوی لے لعان کیا پھر کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ! اگر میں اب اس عورت کو رکھوں تو میں ظالم ہوں۔ عویمر نے اس کو طلاق دے دی۔ پھر ان جورو اور مرد میں جو لعان کریں یہی طریقہ قائم ہو گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دیکھتے رہو (اس عورت کا بچہ کس صورت میں پیدا ہوتا ہت) اگر سانولا، کالی آنکھوں والا، بڑی سیرین والا، موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہوا تب تو میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا تھا جو اس نے اپنی جورو کی نسبت بیان کیا تھا اور اگر سرخ سرخ گرگٹ کیطرح پیدا ہو (عویمر کا یہی رمگ تھا) تم تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اپنی عورت پر جھوٹی تہمت لگائی۔ خیر جب بچہ پیدا ہوا۔ دیکھا تو اسی شکل کا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی تھی جب عویمر سچا ہو (یعنی سانولا، کالی آنکھوں والا، بڑی سیرین والا، موٹی پنڈلیوں والا) اب اس بچے کا نسب اس کی ماں کی طرف رکھا گیا۔

2. باب ‏{‏وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ‏}‏

حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَجُلاً، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلاً رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِمَا مَا ذُكِرَ فِي الْقُرْآنِ مِنَ التَّلاَعُنِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قَدْ قُضِيَ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ ‏"‏‏.‏ قَالَ فَتَلاَعَنَا، وَأَنَا شَاهِدٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَفَارَقَهَا فَكَانَتْ سُنَّةً أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ وَكَانَتْ حَامِلاً، فَأَنْكَرَ حَمْلَهَا وَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمِيرَاثِ أَنْ يَرِثَهَا، وَتَرِثَ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهَا‏.‏

Narrated By Sahl bin Sad : A man came to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! Suppose a man saw another man with his wife, should he kill him whereupon you might kill him (i.e. the killer) (in Qisas) or what should he do?" So Allah revealed concerning their case what is mentioned of the order of Mula'ana. Allah's Apostle said to the man, "The matter between you and your wife has been decided." So they did Mula'ana in the presence of Allah's Apostle and I was present there, and then the man divorced his wife. So it became a tradition to dissolve the marriage of those spouses who were involved in a case of Mula'ana. The woman was pregnant and the husband denied that he was the cause of her pregnancy, so the son was (later) ascribed to her. Then it became a tradition that such a son would be the heir of his mother, and she would inherit of him what Allah prescribed for her.

مجھ سے سلیمان بن داؤد ابو الربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے سہل بن سعد سے کہ ایک شخص (عویمر عجلانی) رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ! آپؐ کیا فرماتے ہیں اگر کوئی شخص اپنی جورو کیساتھ غیر مرد کو (مصروف بکار) دیکھے تو کیا اس کو مار ڈالے۔ اگر مار ڈالے تو پھر آپؐ اس کو بھی مار ڈالیں گے (اس کے قصاص میں) نہ مارے تو کیا کرے۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں لعان کا حکم اتارا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا تیرا اور تیری جورو کا فیصلہ ہو گیا۔ خیر دونوں نے لعان کیا۔ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا۔ اس کے بعد یہ طریقہ قائم ہو گیا کہ لعان کرنیوالوں (مرد اور جورو) میں جدائی کر دی جائے۔ وہ عورت حاملہ تھی۔ خاوند نے کہا یہ میرا حمل نہیں ہے۔ خیر اس کا بچہ جو پیدا ہوا وہ اپنی ماں کا بیٹا کہلایا۔ اسی وقت سے یہ طریقہ قائم ہوا کہ ایسا بچہ اپنی ماں کا وارث ہو گا اور ماں اس بچے کی وارث ہو گی۔ ماں کو اپنا مقرری حصہ جو اللہ کی کتاب میں ہے (سدس یا ثلث) ملیگا۔

3. باب: ‏{‏وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ‏}الآية‏

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلاَلَ بْنَ أُمَيَّةَ، قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الْبَيِّنَةَ أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا رَأَى أَحَدُنَا عَلَى امْرَأَتِهِ رَجُلاً يَنْطَلِقُ يَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ‏.‏ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ الْبَيِّنَةَ وَإِلاَّ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ ‏"‏ فَقَالَ هِلاَلٌ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ، فَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ ‏{‏وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ‏}‏ فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ ‏{‏إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ‏}‏ فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَجَاءَ هِلاَلٌ، فَشَهِدَ، وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ‏"‏‏.‏ ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ الْخَامِسَةِ وَقَّفُوهَا، وَقَالُوا إِنَّهَا مُوجِبَةٌ‏.‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا تَرْجِعُ ثُمَّ قَالَتْ لاَ أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَمَضَتْ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ، فَهْوَ لِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ ‏"‏‏.‏ فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَوْلاَ مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ ‏"‏‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : Hilal bin Umaiya accused his wife of committing illegal sexual intercourse with Sharik bin Sahma' and filed the case before the Prophet. The Prophet said (to Hilal), "Either you bring forth a proof (four witnesses) or you will receive the legal punishment (lashes) on your back." Hilal said, "O Allah's Apostle! If anyone of us saw a man over his wife, would he go to seek after witnesses?" The Prophet kept on saying, "Either you bring forth the witnesses or you will receive the legal punishment (lashes) on your back." Hilal then said, "By Him Who sent you with the Truth, I am telling the truth and Allah will reveal to you what will save my back from legal punishment." Then Gabriel came down and revealed to him: 'As for those who accuse their wives...' (24.6-9) The Prophet recited it till he reached: '...(her accuser) is telling the truth.' Then the Prophet left and sent for the woman, and Hilal went (and brought) her and then took the oaths (confirming the claim). The Prophet was saying, "Allah knows that one of you is a liar, so will any of you repent?" Then the woman got up and took the oaths and when she was going to take the fifth one, the people stopped her and said, "It (the fifth oath) will definitely bring Allah's curse on you (if you are guilty)." So she hesitated and recoiled (from taking the oath) so much that we thought that she would withdraw her denial. But then she said, "I will not dishonour my family all through these days," and carried on (the process of taking oaths). The Prophet then said, "Watch her; if she delivers a black-eyed child with big hips and fat shins then it is Sharik bin Sahma's child." Later she delivered a child of that description. So the Prophet said, "If the case was not settled by Allah's Law, I would punish her severely."

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے، انہوں نے ہشام بن حسان سے، کہا ہم سے عکرمہؓ نے، انہوں نے ابن عباسؓ سے کہ ہلال بن امیہ نے نبیﷺ کے سامنے اپنی جورو (خولہ بنت عاصم) کو شریک بن سہحماء سے تہمت لگائی۔ نبیﷺ نے (ہلال سے) فرمایا تو (چار) گواہ لا نہیں تو تیری پیٹھ پر حد قذف پڑے گی۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے کوئی اپنی عورت سے کسی کو برا کام کرتے دیکھے تو گواہ ڈھنڈتا پھرے (یہ تو بڑی مشکل ہے)۔ رسول اللہ ﷺ یہی فرماتے رہے گواہ لا ورنہ تیری پیٹھ پر حد پڑے گی۔ ہلالؓ نے کہا قسم اس پروردگار کی جس نے آپؐ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے، میں سچا ہوں اور اللہ میرے بارے میں ضرور کوئی حکم اتارے گا جس سے میری پیٹھ سزا سے بچا دے گا۔ اس کے بعد جبرائیلؑ اترے اور یہ آیت نازل فرمائی ‏وَالَّذِینَ یرمُونَ أزوَاجَھم‏اخیر ان کَانَ مِنَ الصَّادِقِین تک۔ نبی ﷺ (ان آیتوں کے اترنے کے بعد ) اور ہلالؓ کی جورو کو بلا بھیجا۔ ہلالؓ نے لعان کی گواہیاں دیں اور رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے دیکھو اللہ خوب جانتا ہے تم دونوں میں سے ایک کی بات ضرور جھوٹ ہے۔ کوئی تم میں سے (جو جھوٹ ہے ) توبہ کرتا ہے یا نہیں۔پھر عورت کھڑی ہوئی اس نے بھی (چار) گواہیاں دیں جب پانچویں گواہی کا وقت آیا تو لوگوں نے اس کو ٹھہرایا (سمجھایا) یہ پانچویں گواہی (اگر جھوٹ ہے تو)تجھ کو عذاب میں مبتلا کر ے گی۔ یہ سن کر عورت ذرا جھجکی اور رک گئی۔ ہم سمجھے کہ وہ اقرار کر لے گی (بیشک مجھ سے برا کام ہوا ہے) پھر کیا کہنے لگی کہ میں اپنی قوم کو تمام عمر کے لئے رسوا نہیں کر سکتی اور پانچویں گواہی بھی اس نے دےدی۔ نبیﷺ نے فرمایا دیکھتے رہو اب اگر اس عورت کا بچہ کالی آنکھوں والا، موٹی سیرین والا، موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا نطفہ ہو گا۔ پھر اس عورت کا بچہ اسی صورت کا پیدا ہوا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر یہ حکم جو لعان کے باب میں اترا نہ آیا ہوتا تو میں اس عورت کو اچھی سزا دیتا۔

4. باب قَوْلِهِ ‏{‏وَالْخَامِسَةُ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ‏}‏

حَدَّثَنَا مُقَدَّمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَمِّي الْقَاسِمُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَقَدْ سَمِعَ مِنْهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَجُلاً، رَمَى امْرَأَتَهُ فَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَتَلاَعَنَا كَمَا قَالَ اللَّهُ، ثُمَّ قَضَى بِالْوَلَدِ لِلْمَرْأَةِ وَفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ‏.‏

Narrated By Ibn Umar : A man accused his wife of illegal sexual intercourse and denied his paternity to her (conceived) child during the lifetime of Allah's Apostle. Allah's Apostle ordered them both to do Mula'ana as Allah decreed and then gave his decision that the child would be for the mother, and a divorce decree was issued for the couple involved in a case of Mula'ana.

ہم سے مقدم بن محمد بن یحیٰی نے بیان کیا،کہا ہم سے چچا قاسم بن یحیی نے،انہوں نے عبیداللہ عمری سے، قاسم نے ان سے سنا، انہوں نے نافع سے ، انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ سے انہوں نے کہا ایک شخص (عویمر) نے اپنی جورو پر تہمت رکھی۔ اور اس کے لڑکے کو کہا یہ میرا نطفہ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپؐ نے دونوں کو حکم دیا کہ لعان کرو۔ انہوں نے لعان کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے وہ لڑکا عورت کو دلا دیا اور جورو مرد میں جدائی کرا دی۔

5. باب قَوْلِهِ ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ }الآية‏

{أَفَّاكٍ}:كَذَّابٍ

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها – ‏{‏وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ‏}‏ قَالَتْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ‏.‏

Narrated By 'Aisha : And as for him among them who had the greater share...' (24.11) was Abdullah bin Ubai bin Salul.

ہم سے ابو نعیم (فضل بن دکین) نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، انہوں نے معمر سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہؓ سے، انہوں نے کہا وَ الَّذِی تَوَلّٰی کِبرَہُ سے عبداللہ بن ابی سلول (منافق) مراد ہے۔

6. باب ‏{‏لَوْلاَ إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ، وَالْمُؤْمِنَاتُ، بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا}‏

إِلَى قَولِهِ:{الْكَاذِبُونَ‏}‏

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ حَدِيثِ، عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ مَا قَالُوا، فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكُلٌّ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ، وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا، وَإِنْ كَانَ بَعْضُهُمْ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضٍ الَّذِي حَدَّثَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَقْرَعَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَعَهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا، فَخَرَجَ سَهْمِي، فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ مَا نَزَلَ الْحِجَابُ، فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي وَأُنْزَلُ فِيهِ فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ غَزْوَتِهِ تِلْكَ وَقَفَلَ، وَدَنَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ قَافِلِينَ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ، فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ، فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى رَحْلِي، فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي وَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يَرْحَلُونَ لِي، فَاحْتَمَلُوا هَوْدَجِي، فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِي الَّذِي كُنْتُ رَكِبْتُ، وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ، وَكَانَ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يُثْقِلْهُنَّ اللَّحْمُ، إِنَّمَا تَأْكُلُ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ خِفَّةَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَفَعُوهُ، وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا، فَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ، فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ، وَلَيْسَ بِهَا دَاعٍ وَلاَ مُجِيبٌ، فَأَمَمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ بِهِ وَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَىَّ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي فَنِمْتُ، وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ، فَأَدْلَجَ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي، فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ، فَأَتَانِي فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي، وَكَانَ يَرَانِي قَبْلَ الْحِجَابِ، فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي، وَاللَّهِ مَا كَلَّمَنِي كَلِمَةً وَلاَ سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ، حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَوَطِئَ عَلَى يَدَيْهَا فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ، بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى الإِفْكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَىٍّ ابْنَ سَلُولَ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْتُ شَهْرًا، وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَصْحَابِ الإِفْكِ، لاَ أَشْعُرُ بِشَىْءٍ مِنْ ذَلِكَ، وَهْوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لاَ أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اللَّطَفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي، إِنَّمَا يَدْخُلُ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَيُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُولُ ‏"‏ كَيْفَ تِيكُمْ ‏"‏‏.‏ ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَذَاكَ الَّذِي يَرِيبُنِي، وَلاَ أَشْعُرُ حَتَّى خَرَجْتُ بَعْدَ مَا نَقَهْتُ، فَخَرَجَتْ مَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ، وَهْوَ مُتَبَرَّزُنَا، وَكُنَّا لاَ نَخْرُجُ إِلاَّ لَيْلاً إِلَى لَيْلٍ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا، وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الأُوَلِ فِي التَّبَرُّزِ قِبَلَ الْغَائِطِ، فَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ، وَهْىَ ابْنَةُ أَبِي رُهْمِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَأُمُّهَا بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ، فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ بَيْتِي، قَدْ فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا، فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ‏.‏ فَقُلْتُ لَهَا بِئْسَ مَا قُلْتِ أَتَسُبِّينَ رَجُلاً شَهِدَ بَدْرًا قَالَتْ أَىْ هَنْتَاهُ، أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ قَالَتْ قُلْتُ وَمَا قَالَ فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الإِفْكِ فَازْدَدْتُ مَرَضًا عَلَى مَرَضِي، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَدَخَلَ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَعْنِي سَلَّمَ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ كَيْفَ تِيكُمْ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَىَّ قَالَتْ وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا، قَالَتْ فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجِئْتُ أَبَوَىَّ فَقُلْتُ لأُمِّي يَا أُمَّتَاهْ، مَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ قَالَتْ يَا بُنَيَّةُ، هَوِّنِي عَلَيْكَ فَوَاللَّهِ، لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةً عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلاَّ كَثَّرْنَ عَلَيْهَا‏.‏ قَالَتْ فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَلَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا قَالَتْ فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ، وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ حَتَّى أَصْبَحْتُ أَبْكِي فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ـ رضى الله عنهما ـ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْىُ، يَسْتَأْمِرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، قَالَتْ فَأَمَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ، وَبِالَّذِي يَعْلَمُ لَهُمْ فِي نَفْسِهِ مِنَ الْوُدِّ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَهْلَكَ، وَمَا نَعْلَمُ إِلاَّ خَيْرًا، وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ يُضَيِّقِ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ، وَإِنْ تَسْأَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ، قَالَتْ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَرِيرَةَ فَقَالَ ‏"‏ أَىْ بَرِيرَةُ، هَلْ رَأَيْتِ عَلَيْهَا مِنْ شَىْءٍ يَرِيبُكِ ‏"‏‏.‏ قَالَتْ بَرِيرَةُ لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ، تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَاسْتَعْذَرَ يَوْمَئِذٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَىٍّ ابْنِ سَلُولَ، قَالَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ عَلَى الْمِنْبَرِ ‏"‏ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ، قَدْ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلاَّ خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلاً، مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا، وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلاَّ مَعِي ‏"‏‏.‏ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَعْذِرُكَ مِنْهُ، إِنْ كَانَ مِنَ الأَوْسِ، ضَرَبْتُ عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ، أَمَرْتَنَا، فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ، قَالَتْ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهْوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ، وَكَانَ قَبْلَ ذَلِكَ رَجُلاً صَالِحًا، وَلَكِنِ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ فَقَالَ لِسَعْدٍ كَذَبْتَ، لَعَمْرُ اللَّهِ لاَ تَقْتُلُهُ، وَلاَ تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ، فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهْوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدٍ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ كَذَبْتَ، لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ، فَتَثَاوَرَ الْحَيَّانِ الأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ، قَالَتْ فَمَكُثْتُ يَوْمِي ذَلِكَ لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، قَالَتْ فَأَصْبَحَ أَبَوَاىَ عِنْدِي ـ وَقَدْ بَكَيْتُ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمًا لاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ وَلاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ ـ يَظُنَّانِ أَنَّ الْبُكَاءَ فَالِقٌ كَبِدِي، قَالَتْ فَبَيْنَمَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي، فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَىَّ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَأَذِنْتُ لَهَا، فَجَلَسَتْ تَبْكِي مَعِي، قَالَتْ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ قَالَتْ وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ مَا قِيلَ قَبْلَهَا، وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا، لاَ يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي، قَالَتْ فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ جَلَسَ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ، فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِهِ ثُمَّ تَابَ إِلَى اللَّهِ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ ‏"‏‏.‏ قَالَتْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَقَالَتَهُ، قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً، فَقُلْتُ لأَبِي أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيمَا قَالَ‏.‏ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ لأُمِّي أَجِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَتْ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لاَ أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ، إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَقَدْ سَمِعْتُمْ هَذَا الْحَدِيثَ حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي أَنْفُسِكُمْ، وَصَدَّقْتُمْ بِهِ فَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لاَ تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ، وَلَئِنِ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي مِنْهُ بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّي، وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لَكُمْ مَثَلاً إِلاَّ قَوْلَ أَبِي يُوسُفَ قَالَ ‏{‏فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ‏}‏ قَالَتْ ثُمَّ تَحَوَّلْتُ فَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي، قَالَتْ وَأَنَا حِينَئِذٍ أَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ، وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي، وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ مُنْزِلٌ فِي شَأْنِي وَحْيًا يُتْلَى، وَلَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى، وَلَكِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا، قَالَتْ فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلاَ خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ، وَهْوَ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِي يُنْزَلُ عَلَيْهِ، قَالَتْ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سُرِّيَ عَنْهُ وَهْوَ يَضْحَكُ، فَكَانَتْ أَوَّلُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا ‏"‏ يَا عَائِشَةُ، أَمَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ بَرَّأَكِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَتْ أُمِّي قُومِي إِلَيْهِ‏.‏ قَالَتْ فَقُلْتُ وَاللَّهِ، لاَ أَقُومُ إِلَيْهِ، وَلاَ أَحْمَدُ إِلاَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ‏.‏ وَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لاَ تَحْسِبُوهُ‏}‏ الْعَشْرَ الآيَاتِ كُلَّهَا، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ هَذَا فِي بَرَاءَتِي قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ـ رضى الله عنه ـ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ، وَفَقْرِهِ وَاللَّهِ لاَ أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي قَالَ لِعَائِشَةَ مَا قَالَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ‏}‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ بَلَى، وَاللَّهِ إِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي، فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ، وَقَالَ وَاللَّهِ لاَ أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا‏.‏ قَالَتْ عَائِشَةُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَسْأَلُ زَيْنَبَ ابْنَةَ جَحْشٍ عَنْ أَمْرِي، فَقَالَ ‏"‏ يَا زَيْنَبُ مَاذَا عَلِمْتِ أَوْ رَأَيْتِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي، مَا عَلِمْتُ إِلاَّ خَيْرًا‏.‏ قَالَتْ وَهْىَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ، وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ تُحَارِبُ لَهَا فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ مِنْ أَصْحَابِ الإِفْكِ‏

Narrated By 'Aisha : (The wife of the Prophet) Whenever Allah's Apostle intended to go on a journey, he used to draw lots among his wives and would take with him the one on whom the lot had fallen. Once he drew lots when he wanted to carry out a Ghazwa, and the lot came upon me. So I proceeded with Allah's Apostle after Allah's order of veiling (the women) had been revealed and thus I was carried in my howdah (on a camel) and dismounted while still in it. We carried on our journey, and when Allah's Apostle had finished his Ghazwa and returned and we approached Medina, Allah's Apostle ordered to proceed at night. When the army was ordered to resume the homeward journey, I got up and walked on till I left the army (camp) behind. When I had answered the call of nature, I went towards my howdah, but behold ! A necklace of mine made of Jaz Azfar (a kind of black bead) was broken and I looked for it and my search for it detained me. The group of people who used to carry me, came and carried my howdah on to the back of my camel on which I was riding, considering that I was therein. At that time women were light in weight and were not fleshy for they used to eat little (food), so those people did not feel the lightness of the howdah while raising it up, and I was still a young lady. They drove away the camel and proceeded. Then I found my necklace after the army had gone. I came to their camp but found nobody therein so I went to the place where I used to stay, thinking that they would miss me and come back in my search. While I was sitting at my place, I felt sleepy and slept. Safwan bin Al-Mu'attil As-Sulami Adh-Dhakw-ani was behind the army. He had started in the last part of the night and reached my stationing place in the morning and saw the figure of a sleeping person. He came to me and recognized me on seeing me for he used to see me before veiling. I got up because of his saying: "Inna Lillahi wa inna ilaihi rajiun," which he uttered on recognizing me. I covered my face with my garment, and by Allah, he did not say to me a single word except, "Inna Lillahi wa inna ilaihi rajiun," till he made his she-camel kneel down whereupon he trod on its forelegs and I mounted it. Then Safwan set out, leading the she-camel that was carrying me, till we met the army while they were resting during the hot midday. Then whoever was meant for destruction, fell in destruction, and the leader of the Ifk (forged statement) was 'Abdullah bin Ubai bin Salul. After this we arrived at Medina and I became ill for one month while the people were spreading the forged statements of the people of the Ifk, and I was not aware of anything thereof. But what aroused my doubt while I was sick, was that I was no longer receiving from Allah's Apostle the same kindness as I used to receive when I fell sick. Allah's Apostle would enter upon me, say a greeting and add, "How is that (lady)?" and then depart. That aroused my suspicion but I was not aware of the propagated evil till I recovered from my ailment. I went out with Um Mistah to answer the call of nature towards Al-Manasi, the place where we used to relieve ourselves, and used not to go out for this purpose except from night to night, and that was before we had lavatories close to our houses. And this habit of ours was similar to the habit of the old 'Arabs (in the deserts or in the tents) concerning the evacuation of the bowels, for we considered it troublesome and harmful to take lavatories in the houses. So I went out with Um Mistah who was the daughter of Abi Ruhm bin Abd Manaf, and her mother was daughter of Sakhr bin Amir who was the aunt of Abi Bakr As-Siddiq, and her son was Mistah bin Uthatha. When we had finished our affair, Um Mistah and I came back towards my house. Um Mistah stumbled over her robe whereupon she said, "Let Mistah be ruined ! " I said to her, "What a bad word you have said! Do you abuse a man who has taken part in the Battle of Badr?' She said, "O you there! Didn't you hear what he has said?" I said, "And what did he say?" She then told me the statement of the people of the Ifk (forged statement) which added to my ailment. When I returned home, Allah's Apostle came to me, and after greeting, he said, "How is that (lady)?" I said, "Will you allow me to go to my parents?" At that time I intended to be sure of the news through them. Allah's Apostle allowed me and I went to my parents and asked my mother, "O my mother! What are the people talking about?" My mother said, "O my daughter! Take it easy, for by Allah, there is no charming lady who is loved by her husband who has other wives as well, but that those wives would find fault with her." I said, "Subhan Allah! Did the people really talk about that?" That night I kept on weeping the whole night till the morning. My tears never stopped, nor did I sleep, and morning broke while I was still weeping, Allah's Apostle called 'Ali bin Abi Talib and Usama bin Zaid when the Divine Inspiration delayed, in order to consult them as to the idea of divorcing his wife. Usama bin Zaid told Allah's Apostle of what he knew about the innocence of his wife and of his affection he kept for her. He said, "O Allah's Apostle! She is your wife, and we do not know anything about her except good." But 'Ali bin Abi Talib said, "O Allah's Apostle! Allah does not impose restrictions on you; and there are plenty of women other than her. If you however, ask (her) slave girl, she will tell you the truth." 'Aisha added: So Allah's Apostle called for Barira and said, "O Barira! Did you ever see anything which might have aroused your suspicion? (as regards 'Aisha). Barira said, "By Allah Who has sent you with the truth, I have never seen anything regarding 'Aisha which I would blame her for except that she is a girl of immature age who sometimes sleeps and leaves the dough of her family unprotected so that the domestic goats come and eat it." So Allah's Apostle got up (and addressed) the people an asked for somebody who would take revenge on 'Abdullah bin Ubai bin Salul then. Allah's Apostle, while on the pulpit, said, "O Muslims! Who will help me against a man who has hurt me by slandering my family? By Allah, I know nothing except good about my family, and people have blamed a man of whom I know nothing except good, and he never used to visit my family except with me," Sad bin Muadh Al-Ansari got up and said, "O Allah's Apostle! By Allah, I will relieve you from him. If he be from the tribe of (Bani) Al-Aus, then I will chop his head off; and if he be from our brethren, the Khazraj, then you give us your order and we will obey it." On that, Sad bin 'Ubada got up, and he was the chief of the Khazraj, and before this incident he had been a pious man but he was incited by his zeal for his tribe. He said to Sad (bin Muadh), "By Allah the Eternal, you have told a lie! You shall not kill him and you will never be able to kill him!" On that, Usaid bin Hudair, the cousin of Sad (bin Muadh) got up and said to Sad bin 'Ubada, "You are a liar! By Allah the Eternal, we will surely kill him; and you are a hypocrite defending the hypocrites!" So the two tribes of Al-Aus and Al-Khazraj got excited till they were on the point of fighting with each other while Allah's Apostle was standing on the pulpit. Allah's Apostle continued quietening them till they became silent whereupon he became silent too. On that day I kept on weeping so much that neither did my tears stop, nor could I sleep. In the morning my parents were with me, and I had wept for two nights and a day without sleeping and with incessant tears till they thought that my liver would burst with weeping. While they were with me and I was weeping, an Ansari woman asked permission to see me. I admitted her and she sat and started weeping with me. While I was in that state, Allah's Apostle came to us, greeted, and sat down,. He had never sat with me since the day what was said, was said. He had stayed a month without receiving any Divine Inspiration concerning my case. Allah's Apostle recited the Tashahhud after he had sat down, and then said, "Thereafter, O 'Aisha! I have been informed such and-such a thing about you; and if you are innocent, Allah will reveal your innocence, and if you have committed a sin, then ask for Allah's forgiveness and repent to Him, for when a slave confesses his sin and then repents to Allah, Allah accepts his repentance." When Allah's Apostle had finished his speech, my tears ceased completely so that I no longer felt even a drop thereof. Then I said to my father, "Reply to Allah's Apostle on my behalf as to what he said." He said, "By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle." Then I said to my mother, "Reply to Allah's Apostle." She said, "I do not know what to say to Allah's Apostle." Still a young girl as I was and though I had little knowledge of Qur'an, I said, "By Allah, I know that you heard this story (of the Ifk) so much so that it has been planted in your minds and you have believed it. So now, if I tell you that I am innocent, and Allah knows that I am innocent, you will not believe me; and if I confess something, and Allah knows that I am innocent of it, you will believe me. By Allah, I cannot find of you an example except that of Joseph's father: "So (for me) patience is most fitting against that which you assert and it is Allah (Alone) Whose help can be sought. Then I turned away and lay on my bed, and at that time I knew that I was innocent and that Allah would reveal my innocence. But by Allah, I never thought that Allah would sent down about my affair, Divine Inspiration that would be recited (forever), as I considered myself too unworthy to be talked of by Allah with something that was to be recited: but I hoped that Allah's Apostle might have a vision in which Allah would prove my innocence. By Allah, Allah's Apostle had not left his seat and nobody had left the house when the Divine Inspiration came to Allah's Apostle. So there overtook him the same hard condition which used to overtake him (when he was Divinely Inspired) so that the drops of his sweat were running down, like pearls, though it was a (cold) winter day, and that was because of the heaviness of the Statement which was revealed to him. When that state of Allah's Apostle was over, and he was smiling when he was relieved, the first word he said was, "'Aisha, Allah has declared your innocence." My mother said to me, "Get up and go to him." I said, "By Allah, I will not go to him and I will not thank anybody but Allah." So Allah revealed: "Verily! They who spread the Slander are a gang among you. Think it not..." (24.11-20). When Allah revealed this to confirm my innocence, Abu Bakr As-Siddiq who used to provide for Mistah bin Uthatha because of the latter's kinship to him and his poverty, said, "By Allah, I will never provide for Mistah anything after what he has said about 'Aisha". So Allah revealed: "Let not those among you who are good and are wealthy swear not to give (help) to their kinsmen, those in need, and those who have left their homes for Allah's Cause. Let them Pardon and forgive (i.e. do not punish them). Do you not love that should forgive you? Verily Allah is Oft-forgiving. Most Merciful." (24.22) Abu Bakr said, "Yes, by Allah, I wish that Allah should forgive me." So he resumed giving Mistah the aid he used to give him before and said, "By Allah, I will never withold it from him at all." 'Aisha further said: Allah's Apostle also asked Zainab bint Jahsh about my case. He said, "O Zainab! What have you seen?" She replied, "O Allah's Apostle! I protect my hearing and my sight (by refraining from telling lies). I know nothing but good (about 'Aisha)." Of all the wives of Allah's Apostle, it was Zainab who aspired to receive from him the same favour as I used to receive, yet, Allah saved her (from telling lies) because of her piety. But her sister, Hamna, kept on fighting on her behalf so she was destroyed as were those who invented and spread the slander.

ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، انہوں نے یونس بن یزید سے، انہوں نے ابن شھاب سے کہا ، کہا مجھ سے عائشہؓ کی تہمت کی حدیث، جبکہ تہمت لگانے والوں نے تین باتیں بنائیں۔ اور اللہ تعالٰی نے عائشہؓ کی ان باتوں سے پاکی ظاہر کی۔ عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص، عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے نقل کی، اور ان چاروں میں سے ہر ایک نے اس حدیث کا ایک ایک ٹکڑا نقل کیا، اور ایک کی روایت دوسرے کی روایت کی تصدیق کرتی ہے۔ گو کہ ان میں سے بعضوں کا حافظہ دوسرے سے اچھا تھا۔ خیر عروہ بن زبیر نے جو عائشہؓ سے روایت کی وہ یہ ہے کہ عائشہؓ فرماتیں تھیں کہ نبی ﷺ کا قاعدہ یہ تھا کہ جب سفر میں جاتے تو اپنی بیویوں پر قرعہ ڈالتے۔ قرعہ میں جس بی بی کا نام نکلتا اس کو سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے۔ ایک لڑائی میں آپؐ جا رہے تھے (غزوہ بنی مصطلق)۔ آپؐ نے قرعہ ڈالا تو میرا نام نکلا۔ میں آپؐ کے ساتھ روانہ ہوئی اور یہ واقعہ حجاب کو حکم اترنے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودے میں سوار رہتی۔ جب اترتی تو ہودے سمیت اتاری جاتی۔ خیر ہم اسی طرح سفر میں چلتے رہے جب رسول اللہ ﷺ لڑائی سے فارغ ہوئے اور سفر سے لوٹے تو ہم لوگ مدینہ منورہ کے قریب آ پہنچے۔ ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ کوچ کا حکم دیا گیا۔ میں کوچ کا حکم ہونے پر اٹھی اور پاؤں سے چل کر لشکر کے پار نکل گئی۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی اور لوٹ کر اپنے ٹھکانے آنے لگی تو اس وقت میں نے خیال کیا تو ظفّار کے نگینوں کا ہار (جو میرے گلے میں تھا) ٹوٹ کر گر گیا تھا۔ میں اس کو ڈھنڈنے لگی۔ اس کے ڈھنڈنے میں دیر ہوئی۔ اتنے میں وہ لوگ آن پہنچے جو میرا ہودہ اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے ۔ انہوں نے ہودہ اتھا لیا اور میرے اونٹ پر لاد دیا۔ وہ سمجھے کے میں ہودے کے اندر بیٹھی ہوں کیونکہ اس زمانے میں عورتیں ہلکی پھلکی (دبلی پتلی) ہوا کرتیں تھیں۔ ایسی پر گوشت بھاری کم نہ تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ذرا سا کھانا کھایا کرتیں تھیں (وہ بھی سوکھا جیسے کھجور، جو کی روٹی)اس وجہ سے ان لوگوں کے ہودے کے ہلکے پن کا خیال نہ آیا جب انہوں نے ہودہ اٹھایا۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ اس زمانے میں بالکل کم سن بچی تھی (میرا بوجھ ہی کیا تھا) خیر وہ ہودہ اونٹ پر لاد کر چل دیئے۔ اور جب سارا لشکر چل دیا تو اس وقت کہیں میرا ہار ملا۔ جب میں لشکر کے ٹھکانے پر آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ وہاں (آدمی کا نام نہیں) نہ کوئی بلانے والا نہ کوئی جواب دینے والا۔ آخر میں اسی ٹھکانے کی طرف چل پڑی جہاں (رات کو) میں اتری تھی۔ میں نے خیال کیا کہ جب لشکر کے لوگ مجھ کو (اونٹ پر) نہ پائیں گے تو میری تلاش میں یہیں آئینگے۔ میں اسی جگہ بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگی تو میری آنکھ لگ گئی(سو رہی) لشکر کے پیچھے پیچھے (گرے پڑے کی خبر رکھنے کو) ایک شخص مقرر تھا جس کو صفوان بن معطل سلمی کہا کرتے ہیں۔ وہ پچھلی رات کو چلا آرہا تھا۔ صبح کو اس جگہ پہنچا جہاں میں پڑی ہوئی تھی۔ دور سے اس کو ایک سوتا شخص معلوم ہوا تو میرے پاس آیا۔ مجھ کو پہچان لیا۔ کیونکہ حجاب کا حکم اترنے سے پہلے میں اس کے سامنے نکلا کرتی تھی۔ اس نے مجھ کو دیکھ کر جو انّا للہ و انّا الیہ راجعون پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی اور اس نے مجھ کو پہچان لیا، میں نے اپنا منہ دوپٹے سے ڈھانپ لیا۔ خدا کی قسم! اس نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی نہ میں نے انّا للہ و انّا الیہ راجعون کے سوا کوئی اور بات اس کے منہ سے سنی۔ اس نے کہا کیا۔ اپنی اونٹنی بٹھائی اور اس کا پاؤں اپنے پاؤں سے دبائے رکھا۔ میں اونٹنی پر چڑھ گئی اور وہ بیچارہ پیدل چلتا رہا، اونٹنی کو چلاتا رہا۔ یہاں تک کہ ہم لشکر میں اس وقت پہنچے جب عین دوپہر کو گرمی کی شدت میں وہ اترے ہوئے تھے۔ اب لوگوں نے طوفان اٹھایا۔ اب جس کی قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوا۔ سب سے بڑے طوفان کا بانی عبداللہ بن ابی سلول (منافق مردود) تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے وہاں پہنچ کر میں بیمار ہو گئی۔ ایک مہینے تک میں بیمار رہی۔ لوگ طوفان جوڑنے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے لیکن مجھ کو کچھ خبر نہ ہوئی۔ ایک ذرا سا وہم مجھ کو اس سے پیدا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی وہ مہربانی جو اپنے حال پر جب کبھی میں بیمار ہوا کرتی تھی اس بیماری میں نہیں پائی تھی۔ رسول اللہ ﷺ (میرے حجرے میں) تشریف لاتے سلام علیک کرتے پھر (کھڑے ہی کھڑے) اتنا پوچھ کر کہ اب کیسی ہے توشریف لے جاتے (نہ میرے پاس بیٹھتے نہ باتیں کرتے)۔ اس سے بیشک مجھ کو وہم ہوا مگر اس طوفان کی مجھ کو خبر نہ تھی۔ بیماری سے چنگی ہو کر ابھی ناتوں ہی تھی۔ مناصع کی طرف گئی تو میرے ساتھ مسطح کی ماں (سلمٰی تھی)۔ مناصع میں ہم لوگ پاخانہ پھرنے جایا کرتے اور رات ہی کو جاتے۔ پھر دوسری رات کو یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب گھروں کے نزدیک پاخانے نہیں بنے تھے اور جیسے اگلے زمانہ کے عربوں کی رسم تھی ہم بھی اسی طرح جنگل کو پاخان کے لئے جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہم کو بدبو کی وجہ سے گھروں کے پاس پاخانے بنانے میں تکلیف ہوتی۔ خیر میں اور مسطح کی ماں جو ابو رہم عند مناف کی بیٹی تھی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی (رائطہ اس کا نام تھا) ابو بکر صدیقؓ کی خالہ تھیں اسی کا بیٹا مسطح تھا۔ دونوں حاجت سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کو آ رہی تھیں۔ اتنے میں مسطح کی ماں کا پاؤں چادر میں الجھ کو پھسلا۔ تو وہ کیا کہنے لگی ابو مسطح اللہ کرے مر جائے۔ تو میں نے کہا یہ کیا بکتی ہے مسطح تو بدر کی لڑائی میں شریک تھا تو اس کو کوستی ہے۔ اس نے کہا ارے بھولی بھالی (دیوانی لڑکی) تو نے مسطح کی باتیں نہیں سنیں۔ میں نے پوچھا کونسی باتیں (کچھ کہو تو) تب اس نے طوفان جوڑنے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں۔ یہ سن کر تو میں پہلے سے ہی بیمار تھی اور زیادہ بیمار ہو گئی اور اپنے حجرے میں لوٹ آئی۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے دور ہی سے سلام کر کے پوچھا کیوں ان کیسی ہے۔ میں نے عرض کیا آپؐ ذرا مجھ کو اجازت دیجیئے میں ذرا اپنے ماں باپ کے پاس جاتی ہوں۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ان سے تحقیق کروں کیا حقیقت میں لوگوں نے ایسا طوفان اٹھایا ہےَ رسول اللہ ﷺ نے اجازت دے دی۔ میں چلی گئی۔ میں نے والدہ سے پوچھا اماں! یہ لوگ (میری نسبت) کیا بک رہے ہیں۔ انہوں نے کہا بیٹی تو اتنا رنج مت کر۔ خدا کی قسم! ایسا اکثر ہوا ہے جب کسی مرد کہ پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے جس سے مرد محبت کرتا ہے۔ اس کی سوکنیں بھی ہوں تو عورتیں ایسی بہت سی چلترکیا کرتی ہیں۔ میں نے کہا واہ سبحان اللہ ! کیا لوگوں نے اس کا بھی چرچا کر دیا۔ خیر وہ ساری رات گزری۔ میں روتی رہی، صبح ہو گئی۔ نہ میرے آنسو تھمتے تھے نہ نیند آتی تھی۔ صبح کو میں رو رہی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے علیؓ اور اسامہ بن زیدؓ کو بلوایا۔ آپؐ ان سے میرے چھوڑ دینے کے لئے مشورہ چاہتے تھے۔ کیونکہ وحی کے اترنے میں دیر ہوئی تھی۔ عائشہؓ کہتی ہیں کہ اسامہ بن زیدؓ نے وہی مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ میں ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہوں اور جیسے ان کو دل میں رسول اللہ ﷺ کی بیبیوں سے محبت تھی یعنی انہوں نے صاف کہہ دیا کہ عائشہؓ پاکدامن اور بے قصور ہیں۔ یہ جھوٹا طوفان ہے۔ اور علیؓ نے (آپؐ کا رنج دیکھ کر) آپؐ کی تسلی کے لئے یہ کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! کیا عورتوں کی کچھ کمی ہے۔ عائشہؓ کے سوا بہت سی عورتیں موجود ہیں۔ بھلا آپؐ لونڈی (بریرہ) سے تو پوچھئے وہ سچ سچ حال بتا دےگی۔ رسول اللہ ﷺ نے بریرہؓ سے فرمایا بریرہؓ (سچ بتا) تو نے عائشہؓ کی کوئی بات کبھی بھی ایسی دیکھی ہے جس سے تجھ کو کوئی شبہ(بد کاری کا) اس پر پیدا ہوا ہو۔بریرہؓ نے کہا خدا کی قسم جس نے آپؐ کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا میں نے تو کوئی بات عائشہؓ کی ایسی نہیں دیکھی جس پر میں عیب لگا سکوں (اللہ رکھے) وہ ابھی کمسن بچی ہے۔ (اور بھولی) کہ گھر کا آٹا گوندھا ہوا چھوڑ کر سو جاتی ہے تو بکری آ کر آٹا کھا لیتی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ اس دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے ۔ عبداللہ بن ابی سلول کے مقابل آپؐ نے مدد چاہی۔ فرمایا مسلمانوں کون میری حمایت کرتا ہے، مدد کرتا ہے میری اس شخص کے مقابل جس نے میرے گھر والوں پر تہمت لگا کر یہ بات مجھ تک پہنچائی۔ خدا کی قسم میں تو اپنے گھر والوں (یعنی عائشہؓ) کو نیک، پاکدامن ہی سمجھتا ہوں اور جس مرد سے تہمت لگائی ہے اس کو بھی نیک بخت جانتا ہوں۔ وہ کبھی بھی میرے گھر میں اکیلا نہیں آیا، ہمیشہ میرے ساتھ آیا کرتا۔ یہ سن کر سعد بن معاذ (اوس قبیلے کے سردار)کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ ! میں اس شخص کے مقابل آپؐ کی مدد کو تیار ہوں۔ اگر یہ شخص اوس قبیلے کا ہ تو میں اس کی گردن مارتا ہوں(کمبخت حس کم جہاں پاک) اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج کے قبیلے کا ہے تو آپؐ جو حکم دیں گے ہم بجا لائیں گے۔ عائشہؓ نے کہا سعد بن معاذؓ کی یہ بات سن کو سعد بن عبادہؓ کھڑے ہوئے جو خزرج قبیلے کے سردار تھے۔ پہلے وہ اچھے اور نیک آدمی تھے۔ مگر (خدا تعصب کا خابہ خراب کرے) ان کو ایک قومی غیرت نے آ دبوچہ۔ سعد بن معاذؓ سے کہنے لگے اللہ تعالٰی کی بقا کی قسم تو جھوٹ کہتا ہے تو نہ اس کو مارے گا نہ مار سکے گا۔ اتنے میں اسید بن حضیرؓ (جانثار صحابی) جو سعد بن معاذؓ کے چچا زاد بھائی تھے کھڑے ہو گئے اور سعد بن عبادہؓ سے کہنے لگےاللہ کی بقا کی قسم ہم تو ضرور اس کو قتل کریں گے۔ کیا تو بھی منافق ہو گیا ہے جو منافقوں کی طرفداری کرتا ہے۔ بس اس گفتگو پر اوس اور خزرج دونوں قبیلوں کے لوگ کھڑے ہوئےاور آپس میں لڑنے ہی والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ منبر پر ہی تھے۔ آپؐ برابر ان کو تھماتے اور سمجھاتے رہے جب وہ خاموش ہوئے اور آپؐ بھی خاموش ہو رہے۔ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس دن سارا دن میرا یہ حال رہا کہ میرے نہ آنسو بند ہوتے تھے اور نہ نیند آتی تھی۔ صبح کو میرے والدین بھی میرے پاس موجود تھے۔ میرا تو دو دن اور رات سے یہی حال تھا کہ نہ نیند آتی تھی نہ آنسو تھمتے تھے ، میرے والدین یہ سمجھے کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی۔ اتنے میں ایک انصاری عورت (نام نامعلوم) نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ میں نے اس کو اجازت دی وہ ھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپؐ نے سلام کیا اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جب مجھ پر طوفان لگایا گیا تھا آپؐ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینے تک ٹھہرے رہے۔ میرے باب میں کوئی وحی نہ آئی۔ خیر آپؐ نے بیٹھ کر تشھد پڑھا پھر فرمایا امّا بعد! عائشہ مجھ کو تیری نسبت ایسی خبر پہنچی ہے۔ اب اگر تو پاک ہے (اور یہ خبر جھوٹی ہے) تو اللہ تعالٰی تیری پاکدامنی کو عنقریب بیان کر دے گا۔ اور اگر واقعی تجھ سے کوئی قصور ہو گیا ہے تو اللہ تعالٰی سے اپنے قصور کی بخشش مانگ اور توبہ کر کیونکہ جب کوئی بندہ اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے پھر اللہ تعالٰی کی درگاہ میں (آئیندہ کے لئے) توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کا گناہ بخش دیتا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ یہ گفتگو ختم کر چکے تو (خدا کی قدرت) ایک بارگی میرے آنسو تھم گئےیہاں تک کہ ایک قطرہ بھی مجھ کو معلوم نہ ہوا۔ میں نے اپنے والد (ابو بکر صدیقؓ) سے کہا تم رسول اللہ ﷺ کا جواب دو۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم میں نہیں جانتا آپؐ کو کیا جواب دوں۔ پھر میں نے اپنی والدہ(ام رمان) سے کہا تم تو رسول اللہ ﷺ کو کچھ جواب دو۔ انہوں نے کہا میں نہیں جانتی کہ کیا جواب دوں۔آخر (میں خود ہی جواب پر مستعد ہوئی) میں ایک کمسن بچی تھی۔ قرآن مجید بھی مجھ کو بہت سا یاد نہ تھا۔ میں نے کہا خدا کی قسم میں جانتی ہوں کہ یہ بات جو آپؐ نے سنی ہے تمھارے دلوں میں جم گئی ہے اور تم اس کو سچ سمجھنے لگے ہو۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں جب بھی تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے۔ اور اگر میں ایک (جھوٹ) گناہ کا اقرار کر لوں(جو میں نے نہیں کیا) اور اللہ تعالٰی جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو تم مجھ کو سچا سمجھو گے۔ خدا کی قسم میں اس وقت اپنی اور تمھاری مثال (بالکل) ایسی ہی سمجھتی ہوں جیسے یوسفؑ پیغمبر کے والد (یعقوبؑ) کی تھی۔ انہوں نے بھی یہی کہا تھا (میں بھی یہی کہتی ہوں) اب اچھا صبر کرنا یہی بہتر ہے۔ اور تمھاری باتوں پر اللہ تعالٰی میری مدد کرنے والا ہے۔ یہ کہہ کر عائشہؓ نے (بچھونے پر) کروٹ بدل لی۔ عائشہؓ فرماتی ہیں مجھ کو یہ یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں اللہ میری پاکی ضرور ظاہر کرے گا۔ مگر خدا کی قسم! مجھ کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالٰی میرے باب میں قرآن مجید کی ایسی آیتیں اتارے گا (جو ہمیشہ کے لئے قیامت تک) پڑھی جائینگے ۔ میں اپنی شان اس سے حقیر سمجھتی تھی کہ میرے بارے میں خدا اپنا کلام اتارے جس کو (ہمیشہ) پڑھتے ہیں۔ ہاں مجھ کو یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی خواب دکھایا جائیگا جس سے آپؐ پر میری پاکدامنی کھل جائے گی۔ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ پھر ایسا ہوا خدا کی قسم نہ رسول اللہ ﷺ جس جگہ بیٹھے تھے وہاں سے سرکے اور نہ گھر میں جو لوگ تھے ان میں سے کوئی باہر گیا ۔ اور آپؐ پر وحی آنی شروع ہو گئی۔ معمول کے موافق آپؐ پر سختی ہونے لگی اور پسینہ موتیوں کی طرح آپؐ کے بدن اطہر سے ٹپکنے لگا حالانکہ وہ دن سردی کا دن تھا مگر وحی اترنے میں ایسی ہی سختی ہوتی۔ خیر جب وحی کی حالت موقوف ہو گئی دیکھا تو آپؐ ہنس رہے ہیں (خوش ہیں) پھر پہلی بات آپؐ نے یہی کہی فرمایا اے عائشہؓ! اللہ نے تجھ کو پاک صاف کر دیا۔ یہ سنتے ہی میری والدہ کہنے لگیں اٹھ (آپؐ کا شکریہ ادا کر) میں نے کہا واہ! خدا کی قسم! میں تو کبھی نہیں اٹھوں گی (آپؐ کا شکریہ نہیں کرنے کی) میں تو فقط اپنے پروردگار کا شکریہ ادا کرونگی جو عزت اور بزرگی والا ہے۔ اس وقت اللہ نے یہ آیتیں اتریں اِنَّ الَّذِینَ جَآءُوا بِالاِفکِ عُصبَۃٌ مِنکُم الخ پوری دس آیتیں۔ جب یہ آیتیں میری پاکی ظاہر کرنے کے لئے نازل ہو چکیں (اور طوفان لگانے والوں کو سزا دی گئی) تو ابو بکر صدیقؓ پہلے مسطح بن اثاثہ سے رشتہ داری کی وجہ سے کچھ سلوک کیا کرتے تھے کہنے لگے خدا کی قسم! اب تو میں مسطح کو کبھی کچھ نہیں دونگا۔ جب اس نے عائشہؓ کے حق میں ایسی ایسی باتیں کیں (اس کو اپنی قرابت کا کچھ خیال نہ آیا) تب اللہ تعالٰی نے یہ آیت ناز ل فرمائی وَ لَا یَأ تَلِ اُولُوا الفَضلِ مِنکُم وَ السَّعَۃِ اَن یُّؤتُوا الی قولہ غَفُورٌ رَّحِیم تو ابو بکر صدیقؓ (یہ آیت سن کر) کہنے لگےالبتہ خدا کی قسم مجھ کو یہ پسند ہے کہ اللہ مجھ کو بخش دےاور مسطح سے اگلی عادت کے موافق سلوک کرنے لگے اور کہنے لگے خدا کی قسم! میں مسطح کا یہ معمول کبھی بند نہیں کرونگا (بلکہ جئے تک جاری رکھوں گا) عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (طوفان کے زمانے میں) ام المؤمنین زینب جحشؓ سے (جو میری سوکن تھیں) میرا حال پوچھتے کہ تم عائشہؓ کو کیسی سمجھتی ہو۔ تم نے کیا دیکھا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط کرتی ہوں میں تو عائشہؓ کو اچھا ہی سمجھتی ہوں۔ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ام المؤمنین زینبؓ ہی رسول اللہ ﷺ کی بیبیوں میں سے میرے برابر کی تھیں۔ بڑھ چڑھ کر رہنا چاہتی تھیں۔ اللہ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے ان کو بچا لیا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش اپنی بہن کے بیچ میں جھگڑنے لگی۔ جیسے اور طوفان جوڑنے والے تباہ ہوئے وہ بھی تباہ و برباد ہوئی۔

7. باب قَوْلِهِ ‏{‏وَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ‏}‏

وَقَالَ مُجَاهِدٌ ‏{‏تَلَقَّوْنَهُ‏}‏ يَرْوِيهِ بَعْضُكُمْ عَنْ بَعْضٍ، ‏{‏تُفِيضُونَ‏}‏ تَقُولُونَ‏.‏

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ أُمِّ رُومَانَ أُمِّ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ لَمَّا رُمِيَتْ عَائِشَةُ خَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا‏

Narrated By Um Ruman : 'Aisha's mother, When 'Aisha was accused, she fell down Unconscious.

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سلیمان بن کثیر نے، انہوں نے حصین بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے ابو وائل سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے ام رومان سے جو عائشہؓ کی والدہ تھیں وہ کہتی تھیں جب عائشہؓ نے طوفان کی خبر سنی تو بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔

8. باب ‏{‏إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ‏}الآية‏

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقْرَأُ ‏{‏إِذْ تَلِقُونَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ‏}‏

Narrated By Ibn Abi Mulaika : I heard 'Aisha reciting: "When you invented a lie (and carry it) on your tongues." (24.15)

ہم سے ابراہیم بن موسٰی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے، ان کو ابن جریج نے خبر دی، کہ ابن ابی ملیکہ نے کہا میں نے عائشہؓ سے سنا وہ اس آیت کو یوں پڑھتیں تھیں اِذ تَلِقُونَہُ بِاَلسِنَتِکُم ۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ، وَهْىَ مَغْلُوبَةٌ قَالَتْ أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَىَّ‏.‏ فَقِيلَ ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمِنْ وُجُوهِ الْمُسْلِمِينَ‏.‏ قَالَتِ ائْذَنُوا لَهُ‏.‏ فَقَالَ كَيْفَ تَجِدِينَكِ قَالَتْ بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ‏.‏ قَالَ فَأَنْتِ بِخَيْرٍ ـ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ـ زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ‏.‏ وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ فَقَالَتْ دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَىَّ وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا‏.‏

Narrated By Ibn Abu Mulaika : Ibn 'Abbas asked permission to visit 'Aisha before her death, and at that time she was in a state of agony. She then said. "I am afraid that he will praise me too much." And then it was said to her, "He is the cousin of Allah's Apostle and one of the prominent Muslims." Then she said, "Allow him to enter." (When he entered) he said, "How are you?" She replied, "I am Alright if I fear (Allah)." Ibn Abbas said, "Allah willing, you are Alright as you are the wife of Allah's Apostle and he did not marry any virgin except you and proof of your innocence was revealed from the Heaven." Later on Ibn Az-Zubair entered after him and 'Aisha said to him, "Ibn 'Abbas came to me and praised me greatly, but I wish that I was a thing forgotten and out of sight."

ہم سے محمد بن مثنٰی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے، انہوں نے عمر بن سعید بن ابی حسین سے، انہوں نے کہا مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عائشہؓ مر رہی تھیں (مرنے کے قریب تھیں) اس وقت عبداللہ بن عباسؓ نے ان کے پاس آنے کی اجازت مانگی۔ عائشہؓ نے (تامل کیا) کہنے لگیں ایسا نہ ہو کہ عبداللہ بن عباسؓ (اس وقت) میری تعریف کرنے لگیں۔ لوگوں نے کہا ام المؤمنین وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی اور عزت دار آدمی ہیں۔ عائشہؓ نے کہا اچھا ان کو اجازت دو۔ جب وہ آئے تو کہنے لگے ام المؤمنین کہو کیا کیفیت ہے۔ انہوں نے کہا اگر میں خدا کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ ابن عباسؓ نے کہا اللہ چاہے تو تم اچھی ہی رہو گی (تمھارا خاتمہ عمدہ ہو گا) تم رسول اللہ ﷺ کی بی بی (اور بی بی بھی کیسی چہیتی) رسول اللہ ﷺ نے تمھارے سوا کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔ اور جب تم پر طوفان لگایا گیا تو اللہ تعالٰی نے آسمان سے تمھاری پاکدامنی اتاری۔ ابن عباسؓ کے پیچھے ہی عبداللہ بن زبیرؓ پہنچے۔ تو عائشہؓ ان سے کہنے لگیں ابھی ابھی ابن عباسؓ آئے تھے۔ انہوں نے میری تعریف کی۔ مجھ کو یہ آرزو ہے کہ کاش میں (گمنام) بھولی بسری ہوتی۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنه ـ اسْتَأْذَنَ عَلَى عَائِشَةَ نَحْوَهُ‏.‏ وَلَمْ يَذْكُرْ نِسْيًا مَنْسِيًّا‏.‏

Narrated By Al-Qasim : Ibn 'Abbas asked 'Aisha's permission to enter. Al-Qasim then narrated the whole Hadith (as in 277) but did not mention: "Would that I had been forgotten and out of sight."

ہم سے محمد بن مثنٰی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوھاب بن عبد المجید ، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے، انہوں نے قاسم بن محمدبن ابی بکر سے، کہ عبداللہ بن عباسؓ نے عائشہؓ سے (اندر آنے کی) اجازت مانگی۔ پھر ایسی ہی حدیث نقل کی۔ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ میں بھولی بسری ہوتی۔

9. باب ‏{‏يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا‏}‏الآية

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ جَاءَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا قُلْتُ أَتَأْذَنِينَ لِهَذَا قَالَتْ أَوَلَيْسَ قَدْ أَصَابَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ تَعْنِي ذَهَابَ بَصَرِهِ‏.‏ فَقَالَ حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ قَالَتْ لَكِنْ أَنْتَ‏.‏ ‏.‏‏.‏

Narrated By Masruq : 'Aisha said that Hassan bin Thabit came and asked permission to visit her. I said, "How do you permit such a person?" She said, "Hasn't he received a severely penalty?" (Sufyan, the sub-narrator, said: She meant the loss of his sight.) Thereupon Hassan said the following poetic verse: "A chaste pious woman who arouses no suspicion. She never talks about chaste heedless women behind their backs.' On that she said, "But you are not so."

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے ابو الضحٰی سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے عائشہؓ سے ، انہوں نے کہا حسّان بن ثابتؓ (مشہور شاعر) عائشہؓ کے پاس آئے۔ اندر آنے کی اجازت مانگی۔ مسروق کہتے ہیں میں نے عائشہؓ سے کہا تم اس شخص کو کیوں آنے دیتی ہو۔ انہوں نے کہا بڑا عذاب اس کو آنے لگا۔ سفیان ثوری نے کہا یعنی آنکھوں سے اندھا ہو گیا۔ پھر حسانؓ نے (عائشہؓ کی تعریف میں یہ شعر) پڑھا عاقلہ ہے، پاکدامن ہے، پاک ہے ہر عیب سے، وہ نیک بخت صبح کرتی ہے وہ بھوکی بے گناہ کا گوشت وہ کھاتی نہیں عائشہؓ نے کہا ہاں مگر حسانؓ تو تو ایسا نہیں ہے

12