بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {بَادِئَ الرَّأْىِ} مَا ظَهَرَ لَنَا. وَقَالَ مُجَاهِدٌ الْجُودِيُّ جَبَلٌ بِالْجَزِيرَةِ. وَقَالَ الْحَسَنُ {إِنَّكَ لأَنْتَ الْحَلِيمُ} يَسْتَهْزِئُونَ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {أَقْلِعِي} أَمْسِكِي. {عَصِيبٌ} شَدِيدٌ. {لاَ جَرَمَ} بَلَى. {وَفَارَ التَّنُّورُ} نَبَعَ الْمَاءُ. وَقَالَ عِكْرِمَةُ وَجْهُ الأَرْضِ.
1. باب {أَلاَ إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلاَ حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور}
وَقَالَ غَيْرُهُ {وَحَاقَ} نَزَلَ، يَحِيقُ يَنْزِلُ. يَئُوسٌ فَعُولٌ مِنْ يَئِسْتُ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ {تَبْتَئِسْ} تَحْزَنْ. {يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ} شَكٌّ وَامْتِرَاءٌ فِي الْحَقِّ. {لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ} مِنَ اللَّهِ إِنِ اسْتَطَاعُوا.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقْرَأُ {أَلاَ إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ} قَالَ سَأَلْتُهُ عَنْهَا فَقَالَ أُنَاسٌ كَانُوا يَسْتَحْيُونَ أَنْ يَتَخَلَّوْا فَيُفْضُوا إِلَى السَّمَاءِ، وَأَنْ يُجَامِعُوا نِسَاءَهُمْ فَيُفْضُوا إِلَى السَّمَاءِ، فَنَزَلَ ذَلِكَ فِيهِمْ
Narrated By Muhammad bin 'Abbad bin Ja'far : That he heard Ibn 'Abbas reciting: "No doubt! They fold up their breasts." (11.5) and asked him about its explanation. He said, "Some people used to hide themselves while answering the call of nature in an open space lest they be exposed to the sky, and also when they had sexual relation with their wives in an open space lest they be exposed to the sky, so the above revelation was sent down regarding them."
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد بن اعور نے، کہا ابن جریج نے، مجھ کو محمد بن عباد بن جعفر نے انہوں نے ابن عباسؓ سے سنا وہ یہ آیت پڑھتے تھے اَ لَا اِنَّھُم یَثنُونَ صُدُورَھُم ۔ میں نے پوچھا یہ آیت کس باب میں نازل ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ننگے ہو کر پاخانہ پھرنے میں آسمان کی طرف ستر کھولنے میں (پروردگار سے) شرماتے تھے۔ اسی طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف ستر کھولنے سے شرماتے تھے (شرم کے مارے جھکے جاتے تھے) تو یہ آیت نازل ہوئی۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَرَأَ {أَلاَ إِنَّهُمْ تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ} قُلْتُ يَا أَبَا الْعَبَّاسِ مَا تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ قَالَ كَانَ الرَّجُلُ يُجَامِعُ امْرَأَتَهُ فَيَسْتَحِي أَوْ يَتَخَلَّى فَيَسْتَحِي فَنَزَلَتْ {أَلاَ إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ}
Narrated By Muhammad bin Abbad bin Ja'far : Ibn Abbas recited. "No doubt! They fold up their breasts." I said, "O Abu Abbas! What is meant by "They fold up their breasts?" He said, "A man used to feel shy on having sexual relation with his wife or on answering the call of nature (in an open space) so this Verse was revealed: "No doubt! They fold up their breasts."
مجھ سے ابراہیم بن موسٰی نے بیان کیا، کہا مجھ کو ہشام نے خبر دی، انہوں نے ابن جریج سے کہا (مجھ کو اوروں نے بھی) اور محمد بن عباد بن جعفر نے بھی خبر دی کہ عبداللہ بن عباس نے یہ آیت پڑھی اَ لَا اِنَّھُم یَثنُونَ صُدُورَھُم ۔ محمد بن عباد نے کہا ابو العباس (یہ ابن عباسؓ کی کنیت ہے) یَثنُونَ صُدُورَھُم کا کیا مطلب ہے۔ انہوں نے کہا ہوا یہ کہ بعض لوگ اپنی عورتوں سے صحبت کرنے میں یا بیت الخلاء میں ننگے ہونے سے شرماتے تھے (یہ خیال کر کے کہ پروردگار دیکھ رہا ہے) اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اَ لَا اِنَّھُم یَثنُونَ صُدُورَھُم ۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ {أَلاَ إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلاَ حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ} وَقَالَ غَيْرُهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {يَسْتَغْشُونَ} يُغَطُّونَ رُءُوسَهُمْ {سِيءَ بِهِمْ} سَاءَ ظَنُّهُ بِقَوْمِهِ. {وَضَاقَ بِهِمْ} بِأَضْيَافِهِ {بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ} بِسَوَادٍ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ {أُنِيبُ} أَرْجِعُ.
Narrated By 'Amr : Ibn 'Abbas recited: "No doubt! They fold up their breasts in order to hide from Him. Surely! Even when they cover themselves with their garments..." (11.5)
ہم سے (عبداللہ بن زبیر) حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے کہا ابن عباسؓ نے یہ آیت پڑھی اَ لَا اِنَّھُم یَثنُونَ صُدُورَھُم لِیَستَخفُوا مِنہُ اَلَا حِینَ یَستَغشُونَ ثِیَٓابَھُم ۔ عمرو بن دینار کے سوا اوروں نے ابن عباسؓ سے یوں نقل کیا ہے یَستَغشُونَ یعنی اپنے سر ڈھانپ لیتے ہیں۔ سِیَٔ بِھِم اپنی قوم سے بدگمان ہوا۔ وَضَاقَ بِھِم یعنی اپنے مہمانوں کو دیکھ کر رنجیدہ ہوا۔ بِقِطعٍ مِّنَ الَّیلِ یعنی رات کی سیاہی میں اور مجاہد نے کہا اُنِیبُ کا معنی رجوع کرتا ہوں متوجہ ہوتا ہوں۔
2. باب قَوْلِهِ {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ}
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ ـ وَقَالَ ـ يَدُ اللَّهِ مَلأَى لاَ تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ، سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ـ وَقَالَ ـ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالأَرْضَ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ ". {اعْتَرَاكَ} افْتَعَلْتَ مِنْ عَرَوْتُهُ أَىْ أَصَبْتُهُ، وَمِنْهُ يَعْرُوهُ وَاعْتَرَانِي {آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا} أَىْ فِي مِلْكِهِ وَسُلْطَانِهِ. عَنِيدٌ وَعَنُودٌ وَعَانِدٌ وَاحِدٌ، هُوَ تَأْكِيدُ التَّجَبُّرِ، {اسْتَعْمَرَكُمْ} جَعَلَكُمْ عُمَّارًا، أَعْمَرْتُهُ الدَّارَ فَهْىَ عُمْرَى جَعَلْتُهَا لَهُ. {نَكِرَهُمْ} وَأَنْكَرَهُمْ وَاسْتَنْكَرَهُمْ وَاحِدٌ {حَمِيدٌ مَجِيدٌ} كَأَنَّهُ فَعِيلٌ مِنْ مَاجِدٍ. مَحْمُودٌ مِنْ حَمِدَ. سِجِّيلٌ الشَّدِيدُ الْكَبِيرُ. سِجِّيلٌ وَسِجِّينٌ وَاللاَّمُ وَالنُّونُ أُخْتَانِ، وَقَالَ تَمِيمُ بْنُ مُقْبِلٍ وَرَجْلَةٍ يَضْرِبُونَ الْبَيْضَ ضَاحِيَةً ضَرْبًا تَوَاصَى بِهِ الأَبْطَالُ سِجِّينَا
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "Allah said, 'Spend (O man), and I shall spend on you." He also said, "Allah's Hand is full, and (its fullness) is not affected by the continuous spending night and day." He also said, "Do you see what He has spent since He created the Heavens and the Earth? Nevertheless, what is in His Hand is not decreased, and His Throne was over the water; and in His Hand there is the balance (of justice) whereby He raises and lowers (people)."
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم کو ابو الزناد نے، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے ابو ہریرہؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ (اے بندے) تو خرچ کر میں بھی تجھ پر خرچ کروں گا(تجھ کو دونگا)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے (اس کا خزانہ بے انتہا ہے) کتنا ہی خرچ ہو وہ کم نہیں ہوتا۔ رات اور دن اس کا فیض جاری ہے اور یہ بھی فرمایا دیکھو ! جب سے زمین اور آسمان بنے ہیں اس وقت سے جو اس نے خرچ کیا ہے تو اس کے ہاتھ میں جو (خزانہ) تھا وہ کچھ کم نہیں ہوا۔ (آسمان اور زمین بننے سے پہلے) اس کا تخت پانی پر تھا۔ اس کے ہاتھ میں (رزق کا) ترازو ہے جس کے لئے چاہتا ہے یہ ترازو جھکا دیتا ہے۔ جس کے لئے چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے۔ اِعتَرَاکَ باب افعال سے ہے۔ عروتہ سے یعنی میں نے اس کو پکڑ پایا۔ اسی سے ہے یَعرُوہُ (مضارع کا صیغہ) اور وَ اعتَرانِی اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِھِا یعنی اس کی حکومت اور قبضہ قدرت میں ہے۔ عَنِید ، عنود اور عاند سب کے ایک ہی معنی ہیں (سرکش، مخالف) اور یہ جبار کی کاکید ہے۔ اشھاد شاہد کی جمع ہے جیسے اصحاب صاحب کی استعمرکم تم کو بسایا آباد کیا۔ عرب کہتے ہیں اعمرتہ الدار فہی عمری یعنی یہ گھر میں نے اس کو عمر بھر کے لئے دے ڈالا۔ نکرھم، انکرھم اور استنکرھم سب کے ایک ہی معنی ہیں (یعنی ان کو پرائے ملک والا پردیسی سمجھا) حمید فعیل کے وزن پر ہے بمعنی محمود سراہا گیا۔ اور مجید ماجد کے معنی میں ہے یعنی کرم کرنے والا۔ سجّین سجّیل دونوں کے معنی سخت اور بڑا۔ لام اور نون بہنیں ہیں ایک دوسرے سے بدل جاتی ہیں تمیم بن مقبل شاعر کہتا ہے :
بعضے پیدل دن دہاڑے خود پر سجین ماریں کرتے ہیں
پہلوان جن کی وصیت کرتے ہیں، ایسی لگانا چاہیے
وَ اِلٰی مَدیَنَ یعنی مدین والوں کی طرف کیونکہ مدین ایک شہر کا نام ہے۔ جیسے دوسری جگہ فرمایا وَ اسئَالِ القَریَہ یعنی گاؤں والوں سے پوچھ وَ اسئَالِ العِیر یعنی قالفے والوں سے پوچھ۔ وَرَاءَکُم ظِہرِیَّا یعنی پس پشت ڈال دیا۔ اس کی طرف التفات نہ کیا، جب کوئی کسی کا مقصد پورا نہ کرے تو عرب لوگ کہتے ہیں ظہرت لحاجتی و جعلتنی ظہریا اس جگہ ظہری کا مطلب وہ جانور یا برتن ہےجس کو تو اپنے کام کے لئے ساتھ رکھے۔ اَرَاذِلُنَا ہمارے میں کے رذالے (کمینے) اجرام، اجرمت کا مصدر ہے یا جُرمت (ثلاثی مجرد) کا فُلک اور فلک( یا فلک اور فلک یا فلک اور فلک یا فلک اور فلک) جمع اور مفرد دونوں ہیں۔ ایک کشتی اور کئے کشتیوں کو بھی کہتے ہیں۔مَجرھَا کشتی کا چلنا ۔ یہ مصدر ہے اجریت کا۔ اسی طرح مُرسٰھَا مصدر ہے ارسیت کا یعنی میں نے کشتی تھمائی (لنگر کر دیا)۔ بعضوں نے مجراھا (بفتحہ میم) پڑھا ہے جرت سے۔ اور مرساھا رست سے ہے۔ بعضوں نے مجریھا و مرسیھا پڑھا ہےیعنی اللہ اس کو چلانے والا ہے اور وہی اس کا تھمانے ولا ہے( یہ معنوں میں مفعول کے ہے) الرّاسیات یعنی جمی ہوئیں۔
3. باب {وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا}
إِلَى أَهْلِ مَدْيَنَ لأَنَّ مَدْيَنَ بَلَدٌ، وَمِثْلُهُ {وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ} وَاسْأَلِ {الْعِيرَ} يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ {وَأَصْحَابَ} الْعِيرِ {وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا} يَقُولُ لَمْ تَلْتَفِتُوا إِلَيْهِ، وَيُقَالُ إِذَا لَمْ يَقْضِ الرَّجُلُ حَاجَتَهُ ظَهَرْتَ بِحَاجَتِي وَجَعَلْتَنِي ظِهْرِيًّا، وَالظِّهْرِيُّ هَا هُنَا أَنْ تَأْخُذَ مَعَكَ دَابَّةً أَوْ وِعَاءً تَسْتَظْهِرُ بِهِ. {أَرَاذِلُنَا} سُقَاطُنَا. {إِجْرَامِي} هُوَ مَصْدَرٌ مِنْ أَجْرَمْتُ وَبَعْضُهُمْ يَقُولُ جَرَمْتُ. الْفُلْكُ وَالْفَلَكُ وَاحِدٌ وَهْىَ السَّفِينَةُ وَالسُّفُنُ. {مُجْرَاهَا} مَدْفَعُهَا وَهْوَ مَصْدَرُ أَجْرَيْتُ، وَأَرْسَيْتُ حَبَسْتُ وَيُقْرَأُ {مَرْسَاهَا} مِنْ رَسَتْ هِيَ، وَ{مَجْرَاهَا} مِنْ جَرَتْ هِيَ وَ{مُجْرِيهَا وَمُرْسِيهَا} مِنْ فُعِلَ بِهَا، الرَّاسِيَاتُ ثَابِتَاتٌ
4. باب قَوْلِهِ {وَيَقُولُ الأَشْهَادُ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ كَذَبُوا}الآية
وَاحِدُ الأَشْهَادِ شَاهِدٌ مِثْلُ صَاحِبٍ وَأَصْحَابٍ
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، وَهِشَامٌ، قَالاَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، قَالَ بَيْنَا ابْنُ عُمَرَ يَطُوفُ إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ـ أَوْ قَالَ يَا ابْنَ عُمَرَ ـ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي النَّجْوَى فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " يُدْنَى الْمُؤْمِنُ مِنْ رَبِّهِ ـ وَقَالَ هِشَامٌ يَدْنُو الْمُؤْمِنُ ـ حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، فَيُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ تَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا يَقُولُ أَعْرِفُ، يَقُولُ رَبِّ أَعْرِفُ مَرَّتَيْنِ، فَيَقُولُ سَتَرْتُهَا فِي الدُّنْيَا وَأَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ ثُمَّ تُطْوَى صَحِيفَةُ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الآخَرُونَ أَوِ الْكُفَّارُ فَيُنَادَى عَلَى رُءُوسِ الأَشْهَادِ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ ". وَقَالَ شَيْبَانُ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ.
Narrated By Safwan bin Muhriz : While Ibn Umar was performing the Tawaf (around the Ka'ba), a man came up to him and said, "O Abu 'AbdurRahman!" or said, "O Ibn Umar! Did you hear anything from the Prophet about An-Najwa?" Ibn 'Umar said, "I heard the Prophet saying, 'The Believer will be brought near his Lord." (Hisham, a sub-narrator said, reporting the Prophet's words), "The believer will come near (his Lord) till his Lord covers him with His screen and makes him confess his sins. (Allah will ask him), 'Do you know (that you did) 'such-and-such sin?" He will say twice, 'Yes, I do.' Then Allah will say, 'I concealed it in the world and I forgive it for you today.' Then the record of his good deeds will be folded up. As for the others, or the disbelievers, it will be announced publicly before the witnesses: 'These are ones who lied against their Lord."
ہم سے مسدد نے بیان کیا،کہا ہم سے یزید بن زریع نے، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ اور ہشام بن ابی عبداللہ دستوائی نے، کہا ہم سے قتادہ نے، انہوں نے صفوان بن محرز سے، انہوں نے کہا ایسا ہوا ایک بار عبداللہ بن عمرؓ طواف کر رہے تھے اتنے میں ایک شخص (نام نا معلوم) سامنے آیا اور کہنے لگاابو عبدالرحمٰن یا ابن عمرؓ! کیا تم نے نبی ﷺ سے سرگوشی کے باب میں کچھ سنا ہے (جو اللہ تعالٰی قیامت کے دن مومنوں سے کرے گا) انہوں نے کہا میں نے نبیﷺ سے سنا آپؐ فرماتے تھے مومن اپنے پروردگار کے قریب لایا جائے گا۔ ہشام نے یوں کہا کہ مومن اپنے پروردگار کے قریب ہو جائے گا یہاں تک کہ خدا اس پر ایک جانب رکھ دے گا اور اس کے سب گناہ اس کو جتلائے گا۔ فرمائے گا فلاں گناہ تجھ کو معلوم ہے مومن کہے گا بیشک پوردگا مجھ کو معلوم ہے کیوں نہیں۔ اس وقت اللہ تعالٰی فرمائے گا میں نے تیرا یہ گناہ دنیا میں چھپائے رکھا
(لوگوں پر کھلنے نہ دیا) آج میں تجھ کو یہ گناہ معاف کیئے دیتا ہوں ۔ پھر اس کی نیکیوں کا دفتر لپیٹ دیا جائے گا۔ دوسرے لوگوں یا کافروں کا یہ حال ہو گا کہ تمام محشر والوں کے سامنے جو گواہ ہونگے ان کے لئے یوں منادی ہو گی۔ یہی لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔ شیبان نے اس حدیث کو قرادہ سے یوں نقل کیا ہم سے صفوان نے بیان کیا۔
5. باب قَوْلِهِ {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ}
{الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ} الْعَوْنُ الْمُعِينُ. رَفَدْتُهُ أَعَنْتُهُ {تَرْكَنُوا} تَمِيلُوا {فَلَوْلاَ كَانَ} فَهَلاَّ كَانَ {أُتْرِفُوا} أُهْلِكُوا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ} شَدِيدٌ وَصَوْتٌ ضَعِيفٌ
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ ". قَالَ ثُمَّ قَرَأَ {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهْىَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ}
Narrated By Abu Musa : Allah's Apostle said, "Allah gives respite to the oppressor, but when He takes him over, He never releases him." Then he recited:
"Such is the seizure of your Lord when He seizes (population of) towns in the midst of their wrong: Painful indeed, and severe is His seizure.' (11.102)
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابو معاویہ نے خبر دی، کہا ہم سے برید بن ابی بردہ نے، انہوں نے ابو بردہ سے انہوں نے ابو موسیٰ سے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالٰی ظالم کو (چند روز دنیا میں) مہلت دیتا ہے۔ پھر جب اس کو پکڑ لیتا ہے تو اس کو چھوڑتا نہیں۔ ابو موسٰی کہتے ہیں پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی"اور ایسی ہے پکڑ تیرے رب کی جب پکڑتا ہے بستیوں کو اور وہ ظلم کر رہے ہیں۔ بیشک اس کی پکڑ دکھ دیتی ہے۔"
6. باب قَوْلِهِ {وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ} الآية
{وَزُلَفًا} سَاعَاتٍ بَعْدَ سَاعَاتٍ وَمِنْهُ سُمِّيَتِ الْمُزْدَلِفَةُ الزُّلَفُ مَنْزِلَةٌ بَعْدَ مَنْزِلَةٍ وَأَمَّا زُلْفَى فَمَصْدَرٌ مِنَ الْقُرْبَى، ازْدَلَفُوا اجْتَمَعُوا {أَزْلَفْنَا} جَمَعْنَا
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ ـ هُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ ـ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَجُلاً، أَصَابَ مِنَ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ {وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ}. قَالَ الرَّجُلُ أَلِيَ هَذِهِ قَالَ " لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي ".
Narrated By Ibn Masud : A man kissed a woman and then came to Allah's Apostle and told him of that, so this Divine Inspiration was revealed to the Prophet 'And offer Prayers perfectly at the two ends of the day, and in some hours of the night; (i.e. (five) compulsory prayers). Verily, the good deeds remove the evil deeds (small sins) That is a reminder for the mindful.' (11.114) The man said, Is this instruction for me only?' The Prophet said, "It is for all those of my followers who encounter a similar situation."
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے ، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے، انہوں نے ابو عثمان سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعودؓ سے، انہوں نے کہا (رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں) ایک شخص (ابو الیسر یا بنہاں یا عمرو بن غزیہ )نے کیا کیا کہ ایک (انصاری) عورت کا بوسہ لے لیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اپنا گناہ بیان کرنے لگا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی "اور کھڑی کر نماز دونوں سرے دن کے اور کچھ ٹکڑوں رات کے۔ البتہ نیکیاں دور کرتیں ہیں برائیوں کو۔ یہ یاد گار ہے یاد رکھنے والوں کو" ۔ اس شخص نے عرض کیا کہ یہ امر (نماز سے صغیرہ گناہ معاف ہو جانا ) خاص میرے لئے ہےآپؐ نے فرمایا نہیں جو کوئی میری امت میں ایسا کرے۔