حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ مَا صَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم صَلاَةً بَعْدَ أَنْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} إِلاَّ يَقُولُ فِيهَا " سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ".
Narrated By 'Aisha : "When the "Surat-An-Nasr", 'When comes the Help of Allah and the conquest,' had been revealed to the Prophet he did not offer any prayer except that he said therein, "Subhanka Rabbana wa bihamdika; Allahumma ighfirli (I testify the Uniqueness of our Lord, and all the praises are for Him: O Allah, forgive me!")
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو الاحوص نے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے ابو الضحی سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے عائشہؓ سے، انہوں نے کہا جب سے سورت اِذَا جَاءَ نَصرُ اللہِ وَ الفَتحُ اتری تو رسول اللہﷺ ہر نماز میں یوں کہا کرتے سُبحَانَکَ رَبَّنَا وَ بِحَمدِکَ اَللّٰھُمَّ اغفرلی۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ " سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ". يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ.
Narrated By 'Aisha : Allah's Apostle used to say very often in bowing and prostration (during his prayers), Subhanka Allahumma Rabbana wa bihamdika; Allahumma ighfirli," according to the order of the Qur'an.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے، انہوں نے منصور بن معتمر سے، انہوں نے ابو الضحٰی سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے عائشہؓ سے، انہوں نے کہا رسول اللہﷺ نے رکوع اور سجدے میں کہا کرتے سُبحَانَکَ اللّٰھُم رَبَّنَا وَ بِحَمدِکَ اَللّٰھُمَّ اغفرلی۔قرآن شریف میں جو حکم دیا گیا تھا فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّکَ وَ استَغفِرہ اس کی تکمیل کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ سَأَلَهُمْ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} قَالُوا فَتْحُ الْمَدَائِنِ وَالْقُصُورِ قَالَ مَا تَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ أَجَلٌ أَوْ مَثَلٌ ضُرِبَ لِمُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم نُعِيَتْ لَهُ نَفْسُهُ.
Narrated By Ibn Abbas : 'Umar asked the people regarding Allah's Statement:
'When comes the Help of Allah (to you O Muhammad against your enemies) and the conquest of Mecca.' (110.1) They replied, "It indicates the future conquest of towns and palaces (by Muslims)." 'Umar said, "What do you say about it, O Ibn 'Abbas?" I replied, "(This Surat) indicates the termination of the life of Muhammad. Through it he was informed of the nearness of his death."
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن ،مھدی نے، انہوں نے سفیان ثوری سے، انہوں نے حبیب ابن ابی ثابت، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباسؓ سے، انہوں نے کہا عمرؓ نے لوگوں سے پوچھا یہ جو اللہ تعالٰی نے فرمایا اِذَا جَاءَ نَصرُ اللہِ وَ الفَتحُ تو فتح سے کیا مراد ہے۔ انہوں نے کہا شہروں اور مکانوں کا فتح ہونا۔ پھر عمرؓ نے مجھ سے کہا ابن عباسؓ تو کیا کہتا ہے۔ میں نے کہا اس سے تو رسول اللہﷺ کی وفات مراد ہے۔ یا ایک مثال ہے گویا آپؐ کی موت کی خبر دی گئی۔
تَوَّابٌ عَلَى الْعِبَادِ، وَالتَّوَّابُ مِنَ النَّاسِ التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ.
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ، فَكَأَنَّ بَعْضَهُمْ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ فَقَالَ لِمَ تُدْخِلُ هَذَا مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ فَقَالَ عُمَرُ إِنَّهُ مِنْ حَيْثُ عَلِمْتُمْ. فَدَعَا ذَاتَ يَوْمٍ ـ فَأَدْخَلَهُ مَعَهُمْ ـ فَمَا رُئِيتُ أَنَّهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلاَّ لِيُرِيَهُمْ. قَالَ مَا تَقُولُونَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} فَقَالَ بَعْضُهُمْ أُمِرْنَا نَحْمَدُ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرُهُ، إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا. وَسَكَتَ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا فَقَالَ لِي أَكَذَاكَ تَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لاَ. قَالَ فَمَا تَقُولُ قُلْتُ هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَعْلَمَهُ لَهُ، قَالَ {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} وَذَلِكَ عَلاَمَةُ أَجَلِكَ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا}. فَقَالَ عُمَرُ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلاَّ مَا تَقُولُ.
Narrated By Ibn Abbas : 'Umar used to make me sit with the elderly men who had fought in the Battle of Badr. Some of them felt it (did not like that) and said to 'Umar "Why do you bring in this boy to sit with us while we have sons like him?" Umar replied, "Because of what you know of his position (i.e. his religious knowledge.)" One day 'Umar called me and made me sit in the gathering of those people; and I think that he called me just to show them. (my religious knowledge). 'Umar then asked them (in my presence). "What do you say about the interpretation of the Statement of Allah:
'When comes Help of Allah (to you O, Muhammad against your enemies) and the conquest (of Mecca).' (110.1) Some of them said, "We are ordered to praise Allah and ask for His forgiveness when Allah's Help and the conquest (of Mecca) comes to us." Some others kept quiet and did not say anything. On that, 'Umar asked me, "Do you say the same, O Ibn 'Abbas?" I replied, "No." He said, 'What do you say then?" I replied, "That is the sign of the death of Allah's Apostle which Allah informed him of. Allah said:
'(O Muhammad) When comes the Help of Allah (to you against your enemies) and the conquest (of Mecca) (which is the sign of your death). You should celebrate the praises of your Lord and ask for His Forgiveness, and He is the One Who accepts the repentance and forgives.' (110.3) On that 'Umar said, "I do not know anything about it other than what you have said."
ہم سے موسٰی بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عوانہ نے، انہوں نے ابو البشر سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباسؓ سے وہ کہتے تھے کہ عمرؓ مجھ کو بدر میں جو صحابہ بوڑھے بوڑھے شریک تھے ان کے ساتھ بلا لیتے تھے۔ بعضوں کو یہ ناگوار گزرا۔ کہنے لگے آپؐ ان کو ہمارے ساتھ کیوں بلا لیتے ہیں (اللہ رکھے) ہمارے تو بیٹے ان کے برابر موجود ہیں۔ عمرؓ نے کہا تم اس کی وجہ جانتے ہو۔ ایک ایسا روز ہوا۔ عمرؓ نے بوڑھے صحابہ کو بلایا۔ مجھ کو بھی ان کے ساتھ بلا لیا۔ اس روز اسی لئے بلایا کہ میرا علم جو عمرؓ دیکھ چکے ہیں وہ ان لوگوں کو بھی دکھلائیں۔ خیر جب ہم لوگ عمرؓ کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کیا تم سمجھتے ہو اللہ تعالٰی کے اس قول سے کیا مراد ہے۔ اِذَا جَاءَ نَصرُ اللہِ وَ الفَتحُ۔ بعضوں نے کہا اللہ نے ہم کو یہ حکم دیا کہ فتح حاصل ہو تو اس کی تعریف کریں۔ اس کی بخشش چاہیں۔ اور بعضے خاموش رہے کچھ جواب نہ دیا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا ابن عباسؓ کیا تم بھی یہی کہتے ہو۔ میں نے کہانہیں اس میں تو رسول اللہﷺ کی وفات کا اشارہ ہے۔ اللہ تعالٰی نے رسول اللہﷺ کو آگاہ کر دیا کہ اب تمھاری وفات کا وقت آ پہنچا ہے یعنی اللہ کی مدد آ گئی ہے۔ مکہ فتح ہو گیا۔ یہی تمھاری وفات کی نشانی ہے۔ اب تم اللہ کی تعریف کرو۔ اس سے بخشش مانگو۔ وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ عمرؓ نے کہا میں بھی یہی سمجھتا ہوں جو تم سمجھے ہو۔