1. باب مَا جَاءَ فِي الإِصْلاَحِ بَيْنَ النَّاسِ
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {لاَ خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا} وَخُرُوجِ الإِمَامِ إِلَى الْمَوَاضِعِ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ بِأَصْحَابِهِ.
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ أُنَاسًا، مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَىْءٌ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ، فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ، وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، فَجَاءَ بِلاَلٌ، فَأَذَّنَ بِلاَلٌ بِالصَّلاَةِ، وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَجَاءَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم حُبِسَ، وَقَدْ حَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ فَقَالَ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ. فَأَقَامَ الصَّلاَةَ فَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ، حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ الأَوَّلِ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِالتَّصْفِيحِ حَتَّى أَكْثَرُوا، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لاَ يَكَادُ يَلْتَفِتُ فِي الصَّلاَةِ، فَالْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَرَاءَهُ فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ، فَأَمَرَهُ يُصَلِّي كَمَا هُوَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَهُ، فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى دَخَلَ فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ " يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا لَكُمْ إِذَا نَابَكُمْ شَىْءٌ فِي صَلاَتِكُمْ أَخَذْتُمْ بِالتَّصْفِيحِ، إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ، مَنْ نَابَهُ شَىْءٌ فِي صَلاَتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلاَّ الْتَفَتَ، يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ لَمْ تُصَلِّ بِالنَّاسِ ". فَقَالَ مَا كَانَ يَنْبَغِي لاِبْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَىِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.
Narrated By Sahl bin Sad : There was a dispute amongst the people of the tribe of Bani 'Amr bin 'Auf. The Prophet went to them along with some of his companions in order to make peace between them. The time for the prayer became due but the Prophet did not turn up; Bilal pronounced the Adhan (i.e. call) for the prayer but the Prophet did not turn up, so Bilal went to Abu Bakr and said, "The time for the prayer is due and the Prophet is detained, would you lead the people in the prayer?" Abu Bakr replied, "Yes, you wish." So, Bilal pronounced the Iqama of the prayer and Abu Bakr went ahead (to lead the prayer), but the Prophet came walking among the rows till he joined the first row. The people started clapping and they clapped too much, and Abu Bakr used not to look hither and thither in the prayer, but he turned round and saw the Prophet standing behind him. The Prophet beckoned him with his hand to keep on praying where he was. Abu Bakr raised his hand and praised Allah and then retreated till he came in the (first) row, and the Prophet went ahead and lead the people in the prayer. When the Prophet finished the prayer, he turned towards the people and said, "O people! When something happens to you during the prayer, you start clapping. Really clapping is (permissible) for women only. If something happens to one of you in his prayer, he should say: 'Subhan Allah', (Glorified be Allah), for whoever hears him (saying so) will direct his attention towards him. O Abu Bakr! What prevented you from leading the people in the prayer when I beckoned to you (to continue)?" Abu Bakr replied, "It did not befit the son of Abu Quhafa to lead the prayer in front of the Prophet.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (قباء کے ) بنو عمرو بن عوف میں آپس میں کچھ تکرار ہوگئی تھی تو رسو ل اللہﷺاپنے کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان کے یہاں ان میں صلح کرانے کےلیے گئے اور نماز کا وقت ہوگیا ، لیکن آپﷺتشریف نہ لاسکے۔ چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اذان دی ، ابھی تک چونکہ آپﷺتشریف نہیں لائے تھے ۔ اس لیے وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ آپ ﷺوہیں رک گئے ہیں اور نماز کا وقت ہوگیا ہے ، کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھادیں گے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو ۔ اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی تکبیر کہی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے ۔(نماز کے درمیان) نبی ﷺصفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آپہنچے ۔ لوگ بار بار ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے۔ مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے (مگر جب بار بار ایسا ہوا )آپ متوجہ ہوئے اور معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺآپ کے پیچھے ہیں۔آپﷺنے اپنے ہاتھ کے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ جس طرح وہ نماز پڑھا رہے ہیں اسے جاری رکھیں ۔ لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھاکر اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور الٹے پاؤں پیچھے آگئے اور صف میں مل گئے۔پھر نبی ﷺآگے بڑھے اور نماز پڑھائی ۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ لوگو! جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگتے ہو ۔ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کےلیے ہے۔(مردوں کو) جس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہے، کیونکہ یہ لفظ جو بھی سنے گا وہ متوجہ ہوجائے گا۔ اے ابو بکر رضی اللہ عنہ ! جب میں نے اشارہ بھی کردیا تھا تو پھر آپ لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے ؟ انہوں نے عرض کیا ، ابو قحافہ کے بیٹے کےلیے یہ بات مناسب نہ تھی وہ رسول اللہ ﷺکے ہوتے ہوئے نماز پڑھائے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي أَنَّ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قِيلَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لَوْ أَتَيْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَىٍّ. فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَرَكِبَ حِمَارًا، فَانْطَلَقَ الْمُسْلِمُونَ يَمْشُونَ مَعَهُ، وَهْىَ أَرْضٌ سَبِخَةٌ، فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِلَيْكَ عَنِّي، وَاللَّهِ لَقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِكَ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ مِنْهُمْ وَاللَّهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَطْيَبُ رِيحًا مِنْكَ. فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ فَشَتَمَا، فَغَضِبَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ، فَكَانَ بَيْنَهُمَا ضَرْبٌ بِالْجَرِيدِ وَالأَيْدِي وَالنِّعَالِ، فَبَلَغَنَا أَنَّهَا أُنْزِلَتْ {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا}.
Narrated By Anas : It was said to the Prophet "Would that you see Abdullah bin Ubai." So, the Prophet went to him, riding a donkey, and the Muslims accompanied him, walking on salty barren land. When the Prophet reached 'Abdullah bin Ubai, the latter said, "Keep away from me! By Allah, the bad smell of your donkey has harmed me." On that an Ansari man said (to 'Abdullah), "By Allah! The smell of the donkey of Allah's Apostle is better than your smell." On that a man from 'Abdullah's tribe got angry for 'Abdullah's sake, and the two men abused each other which caused the friends of the two men to get angry, and the two groups started fighting with sticks, shoes and hands. We were informed that the following Divine Verse was revealed (in this concern): "And if two groups of Believers fall to fighting then, make peace between them." (49.9)
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی ﷺسے عرض کیا گیا اگر آپ عبد اللہ بن ابی (منافق) کے یہاں تشریف لے چلتے تو بہتر تھا ۔ آپ ﷺاس کے یہاں ایک گدھے پر سوار ہوکر تشریف لے گئے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم پیدل آپﷺکے ہمراہ تھے ۔ جدھر سے آپﷺگزر رہے تھے وہ شور زمیں تھی۔ جب نبی ﷺاس کے یہاں پہنچے تو وہ کہنے لگا ذرا آپ دور ہی رہئے آپ کے گدھے کی بو نے میرا دماغ پریشان کردیا ہے ۔ اس پر ایک انصاری صحابی بولے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺکا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے ۔ عبد اللہ بن ابی (منافق) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص ان صحابی کی اس بات پر غصہ ہوگیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا ۔ پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہوگئے اور ہاتھا پائی ، چھڑی اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ " اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو" ۔
2. باب لَيْسَ الْكَاذِبُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّهُ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عُقْبَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا، سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ، فَيَنْمِي خَيْرًا، أَوْ يَقُولُ خَيْرًا ".
Narrated By Um Kulthum bint Uqba : That she heard Allah's Apostle saying, "He who makes peace between the people by inventing good information or saying good things, is not a liar."
حضرت حمید بن عبد الرحمن نے خبر دی کہ ان کی والدہ ام کلثوم بنت عقبہ نے انہیں خبر دی اور انہوں نے نبی ﷺکو یہ فرماتے سنا تھا کہ جھوٹا وہ نہیں ہے جو لوگوں میں باہم صلح کرانے کی کوشش کرے اور اس کےلیے کسی اچھی بات کی چغلی کھائے یا اسی سلسلہ کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے۔
3. باب قَوْلِ الإِمَامِ لأَصْحَابِهِ اذْهَبُوا بِنَا نُصْلِحُ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأُوَيْسِيُّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِيُّ، قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ أَهْلَ، قُبَاءٍ اقْتَتَلُوا حَتَّى تَرَامَوْا بِالْحِجَارَةِ، فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِذَلِكَ فَقَالَ " اذْهَبُوا بِنَا نُصْلِحُ بَيْنَهُمْ ".
Narrated By Sahl bin Sad : Once the people of Quba fought with each other till they threw stones on each other. When Allah's Apostle was informed about it, he said, "Let us go to bring about a reconciliation between them."
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قباء کے لوگوں نے آپس میں جھگڑا کیا ، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک نے دوسرے پر پتھر پھینکے ، آپﷺکو جب اس کی اطلاع دی گئی ، تو آپﷺنے فرمایا: چلو ہم ان میں صلح کرائیں گے۔
4. باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {أَنْ يَصَّالَحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ}
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها – {وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا} قَالَتْ هُوَ الرَّجُلُ يَرَى مِنِ امْرَأَتِهِ مَا لاَ يُعْجِبُهُ، كِبَرًا أَوْ غَيْرَهُ، فَيُرِيدُ فِرَاقَهَا فَتَقُولُ أَمْسِكْنِي، وَاقْسِمْ لِي مَا شِئْتَ. قَالَتْ فَلاَ بَأْسَ إِذَا تَرَاضَيَا.
Narrated By 'Aisha : The following Verse: If a woman fears cruelty or desertion on her husband's part (i.e. the husband notices something unpleasant about his wife, such as old age or the like, and wants to divorce her, but she asks him to keep her and provide for her as he wishes). (4.128) "There is no blame on them if they reconcile on such basis."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں فرمایا) "اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے بے توجہی دیکھے " تو اس سے مراد ایسا شوہر ہے جو اپنی بیوی میں ایسی چیزیں پائے جو اسے پسند نہ ہوں ، عمر کی زیادتی وغیرہ اور اس لیے اسے اپنے سے جدا کرنا چاہتا ہو، اور عورت کہے کہ مجھے جدا نہ کرو(نفقہ وغیرہ) جس طرح تم چاہو دیتے رہنا۔ تو انہوں نے فرمایا: اگر دونوں اس پر راضی ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
5. باب إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، رضى الله عنهما قَالاَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ. فَقَامَ خَصْمُهُ فَقَالَ صَدَقَ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ. فَقَالَ الأَعْرَابِيُّ إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَقَالُوا لِي عَلَى ابْنِكَ الرَّجْمُ. فَفَدَيْتُ ابْنِي مِنْهُ بِمِائَةٍ مِنَ الْغَنَمِ وَوَلِيدَةٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ، فَقَالُوا إِنَّمَا عَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ فَرَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا أُنَيْسُ ـ لِرَجُلٍ ـ فَاغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَارْجُمْهَا ". فَغَدَا عَلَيْهَا أُنَيْسٌ فَرَجَمَهَا.
Narrated By Abu Huraira and Zaid bin Khalid Al-Juhani : A bedouin came and said, "O Allah's Apostle! Judge between us according to Allah's Laws." His opponent got up and said, "He is right. Judge between us according to Allah's Laws." The bedouin said, "My son was a labourer working for this man, and he committed illegal sexual intercourse with his wife. The people told me that my son should be stoned to death; so, in lieu of that, I paid a ransom of one hundred sheep and a slave girl to save my son. Then I asked the learned scholars who said, "Your son has to be lashed one-hundred lashes and has to be exiled for one year." The Prophet said, "No doubt I will judge between you according to Allah's Laws. The slave-girl and the sheep are to go back to you, and your son will get a hundred lashes and one year exile." He then addressed somebody, "O Unais! go to the wife of this (man) and stone her to death" So, Unais went and stoned her to death.
حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ﷺ!ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کردیجئے گا۔ دوسرے فریق نے بھی یہی کہا کہ اس نے سچ کہا ہے ۔ آپ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کردیں۔دیہاتی نے کہا کہ میرا لڑکا اس کے یہاں مزدور تھا۔ پھر اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ۔ قوم نے کہا : تمہارے لڑکے کو رجم کیا جائے گا۔ لیکن میں نے اپنے لڑکے کے اس جرم کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دے دی۔پھر میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کےلیے ملک بدر کردیا جائے۔ نبیﷺنے فرمایا: میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں کو واپس لوٹا دی جاتی ہیں ۔ البتہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے۔اور ایک سال کےلیے ملک بدر کیا جائے گا۔ اور اے انیس (یہ قبیلہ اسلم کے ایک صحابی تھے) اس عورت کے گھر جاؤ اور اسے رجم کردو (اگر وہ زنا کا اقرار کرلے) چنانچہ انیس گئے ، اور (چونکہ اس نے بھی زنا کا اقرار کرلیا تھا اس لیے) اسے رجم کردیا۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، رضى الله عنهما قَالاَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ. فَقَامَ خَصْمُهُ فَقَالَ صَدَقَ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ. فَقَالَ الأَعْرَابِيُّ إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَقَالُوا لِي عَلَى ابْنِكَ الرَّجْمُ. فَفَدَيْتُ ابْنِي مِنْهُ بِمِائَةٍ مِنَ الْغَنَمِ وَوَلِيدَةٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ، فَقَالُوا إِنَّمَا عَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ فَرَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا أُنَيْسُ ـ لِرَجُلٍ ـ فَاغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَارْجُمْهَا ". فَغَدَا عَلَيْهَا أُنَيْسٌ فَرَجَمَهَا.
Narrated By Abu Huraira and Zaid bin Khalid Al-Juhani : A bedouin came and said, "O Allah's Apostle! Judge between us according to Allah's Laws." His opponent got up and said, "He is right. Judge between us according to Allah's Laws." The bedouin said, "My son was a labourer working for this man, and he committed illegal sexual intercourse with his wife. The people told me that my son should be stoned to death; so, in lieu of that, I paid a ransom of one hundred sheep and a slave girl to save my son. Then I asked the learned scholars who said, "Your son has to be lashed one-hundred lashes and has to be exiled for one year." The Prophet said, "No doubt I will judge between you according to Allah's Laws. The slave-girl and the sheep are to go back to you, and your son will get a hundred lashes and one year exile." He then addressed somebody, "O Unais! go to the wife of this (man) and stone her to death" So, Unais went and stoned her to death.
حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ﷺ!ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کردیجئے گا۔ دوسرے فریق نے بھی یہی کہا کہ اس نے سچ کہا ہے ۔ آپ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کردیں۔دیہاتی نے کہا کہ میرا لڑکا اس کے یہاں مزدور تھا۔ پھر اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ۔ قوم نے کہا : تمہارے لڑکے کو رجم کیا جائے گا۔ لیکن میں نے اپنے لڑکے کے اس جرم کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دے دی۔پھر میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کےلیے ملک بدر کردیا جائے۔ نبیﷺنے فرمایا: میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں کو واپس لوٹا دی جاتی ہیں ۔ البتہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے۔اور ایک سال کےلیے ملک بدر کیا جائے گا۔ اور اے انیس (یہ قبیلہ اسلم کے ایک صحابی تھے) اس عورت کے گھر جاؤ اور اسے رجم کردو (اگر وہ زنا کا اقرار کرلے) چنانچہ انیس گئے ، اور (چونکہ اس نے بھی زنا کا اقرار کرلیا تھا اس لیے) اسے رجم کردیا۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ ". رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ وَعَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَبِي عَوْنٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ.
Narrated By 'Aisha : Allah's Apostle said, "If somebody innovates something which is not in harmony with the principles of our religion, that thing is rejected."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جس نے ہمارے دین میں نئی کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے ۔
6. باب كَيْفَ يُكْتَبُ هَذَا مَا صَالَحَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ وَفُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ وَإِنْ لَمْ يَنْسُبْهُ إِلَى قَبِيلَتِهِ، أَوْ نَسَبِهِ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا صَالَحَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَهْلَ الْحُدَيْبِيَةِ كَتَبَ عَلِيٌّ بَيْنَهُمْ كِتَابًا فَكَتَبَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ لاَ تَكْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، لَوْ كُنْتَ رَسُولاً لَمْ نُقَاتِلْكَ. فَقَالَ لِعَلِيٍّ " امْحُهُ ". فَقَالَ عَلِيٌّ مَا أَنَا بِالَّذِي أَمْحَاهُ. فَمَحَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِيَدِهِ، وَصَالَحَهُمْ عَلَى أَنْ يَدْخُلَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، وَلاَ يَدْخُلُوهَا إِلاَّ بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ، فَسَأَلُوهُ مَا جُلُبَّانُ السِّلاَحِ فَقَالَ الْقِرَابُ بِمَا فِيهِ.
Narrated By Al-Bara bin 'Azib : When Allah's Apostle concluded a peace treaty with the people of Hudaibiya, Ali bin Abu Talib wrote the document and he mentioned in it, "Muhammad, Allah's Apostle." The pagans said, "Don't write: 'Muhammad, Allah's Apostle', for if you were an apostle we would not fight with you." Allah's Apostle asked Ali to rub it out, but Ali said, "I will not be the person to rub it out." Allah's Apostle rubbed it out and made peace with them on the condition that the Prophet and his companions would enter Mecca and stay there for three days, and that they would enter with their weapons in cases.
ابو اسحاق نے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ، آپ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہﷺنے حدیبیہ کی صلح کی تو اس کی دستاویز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لکھی تھی۔ انہوں نے اس میں لکھا محمد اللہ کے رسو لﷺکی طرف سے۔ مشرکین نے اس پر اعتراض کیا کہ لفظ محمد کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھو، اگر آپ رسول اللہﷺہوتے تو ہم آپ سے لڑتے ہی کیوں؟آپ ﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کہ رسول اللہ کا لفظ مٹادو، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : کہ میں نے کہا: کہ میں تو اسے نہیں مٹا سکتا، توآپﷺنے خود اپنے ہاتھ سے وہ مٹادیا اور مشرکین کے ساتھ اس شرط پر صلح کی کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ (آئندہ سال) تین دن کےلیے مکہ آئیں ، اور ہتھیار میان میں رکھ کر داخل ہوں ، شاگردوں نے پوچھا کہ "جلبان السلاح" جس کا یہاں ذکر ہے ، کیا چیز ہوتی ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ میان(غلاف) اور جو چیز اس کے اندر ہوتی ہے (اس کا نام جلبان ہے)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي ذِي الْقَعْدَةِ، فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ، حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَتَبُوا الْكِتَابَ كَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَقَالُوا لاَ نُقِرُّ بِهَا، فَلَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاكَ، لَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ " أَنَا رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ". ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ " امْحُ رَسُولُ اللَّهِ ". قَالَ لاَ، وَاللَّهِ لاَ أَمْحُوكَ أَبَدًا، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْكِتَابَ، فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، لاَ يَدْخُلُ مَكَّةَ سِلاَحٌ إِلاَّ فِي الْقِرَابِ، وَأَنْ لاَ يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ، إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتَّبِعَهُ، وَأَنْ لاَ يَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا. فَلَمَّا دَخَلَهَا، وَمَضَى الأَجَلُ أَتَوْا عَلِيًّا، فَقَالُوا قُلْ لِصَاحِبِكَ اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَى الأَجَلُ. فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَتَبِعَتْهُمُ ابْنَةُ حَمْزَةَ يَا عَمِّ يَا عَمِّ. فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ، احْمِلِيهَا. فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ وَزَيْدٌ وَجَعْفَرٌ، فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا أَحَقُّ بِهَا وَهْىَ ابْنَةُ عَمِّي. وَقَالَ جَعْفَرٌ ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي. وَقَالَ زَيْدٌ ابْنَةُ أَخِي. فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِخَالَتِهَا. وَقَالَ " الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ ". وَقَالَ لِعَلِيٍّ " أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ ". وَقَالَ لِجَعْفَرٍ " أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي ". وَقَالَ لِزَيْدٍ " أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا ".
Narrated By Al-Bara : When the Prophet intended to perform 'Umra in the month of Dhul-Qada, the people of Mecca did not let him enter Mecca till he settled the matter with them by promising to stay in it for three days only. When the document of treaty was written, the following was mentioned: 'These are the terms on which Muhammad, Allah's Apostle agreed (to make peace).' They said, "We will not agree to this, for if we believed that you are Allah's Apostle we would not prevent you, but you are Muhammad bin 'Abdullah." The Prophet said, "I am Allah's Apostle and also Muhammad bin 'Abdullah." Then he said to 'Ali, "Rub off (the words) 'Allah's Apostle' ", but 'Ali said, "No, by Allah, I will never rub off your name." So, Allah's Apostle took the document and wrote, 'This is what Muhammad bin 'Abdullah has agreed upon: No arms will be brought into Mecca except in their cases, and nobody from the people of Mecca will be allowed to go with him (i.e. the Prophet) even if he wished to follow him and he (the Prophet) will not prevent any of his companions from staying in Mecca if the latter wants to stay.' When the Prophet entered Mecca and the time limit passed, the Meccans went to 'Ali and said, "Tell your Friend (i.e. the Prophet) to go out, as the period (agreed to) has passed." So, the Prophet went out of Mecca. The daughter of Hamza ran after them (i.e. the Prophet and his companions), calling, "O Uncle! O Uncle!" 'Ali received her and led her by the hand and said to Fatima, "Take your uncle's daughter." Zaid and Ja'far quarrel ed about her. 'Ali said, "I have more right to her as she is my uncle's daughter." Ja'far said, "She is my uncle's daughter, and her aunt is my wife." Zaid said, "She is my brother's daughter." The Prophet judged that she should be given to her aunt, and said that the aunt was like the mother. He then said to 'All, "You are from me and I am from you", and said to Ja'far, "You resemble me both in character and appearance", and said to Zaid, "You are our brother (in faith) and our freed slave."
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے ذی القعدہ کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھا ۔ لیکن مکہ والوں نے آپ کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ آخر صلح اس پر ہوئی کہ (آئندہ سال) آپ مکہ میں تین روز قیام کریں گے۔ جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا گیا کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہﷺنے کیا ہے۔ لیکن مشرکین نے کہا کہ ہم تو اسے نہیں مانتے۔ اگر ہمیں علم ہوجائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہیں روکیں گے۔بس آپ صرف محمد بن عبد اللہ ہیں۔ آپﷺنے فرمایا: کہ میں رسول اللہﷺبھی ہوں اور محمد بن عبد اللہ بھی ہوں۔ اس کے بعد آپﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہﷺکا لفظ مٹادو، انہوں نے عرض کیا ، نہیں اللہ کی قسم !میں تو یہ لفظ کبھی نہیں مٹاؤں گا۔ آخر آپﷺنے خود دستاویز لی اور لکھا کہ یہ اس کی دستاویز ہے کہ محمد بن عبد اللہ نے اس شرط پر صلح کی ہے کہ مکہ میں وہ ہتھیار میان میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں گے ۔ اگر مکہ کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہیے گا ، تو وہ اسے ساتھ نہ لے جائیں گے ۔ لیکن اگر ان کے اصحاب میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو اسے وہ نہ روکیں گے ۔ جب آپ مکہ تشریف لے گئے اور مدت پوری ہوگئی تو قریش حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے صاحب سے کہئے کہ مدت پوری ہوگئی ہے اور اب وہ ہمارے یہاں سے چلے جائیں ۔ چنانچہ نبیﷺمکہ سے روانہ ہونے لگے ۔اس وقت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ایک بچی چچا چچا کرتی آئیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے ساتھ لے لیا ، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہاتھ پکڑ کر لائے اور فرمایا: اپنی چچا زاد بہن کو بھی ساتھ لے لو، انہوں نے اس کو اپنے ساتھ سوار کرلیا ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا جھگڑا ہوا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کا میں زیادہ مستحق ہوں ، یہ میرے چچا کی بچی ہے ۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ میرے بھی چچا کی بچی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں بھی ہیں ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے بھائی کی بچی ہے ۔ نبی ﷺنے بچہ کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا: کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ اور حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔
7. باب الصُّلْحِ مَعَ الْمُشْرِكِينَ
فِيهِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، وَقَالَ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم " ثُمَّ تَكُونُ هُدْنَةٌ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الأَصْفَرِ ". وَفِيهِ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ وَأَسْمَاءُ وَالْمِسْوَرُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.
وَقَالَ مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ صَالَحَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَلاَثَةِ أَشْيَاءَ عَلَى أَنَّ مَنْ أَتَاهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ رَدَّهُ إِلَيْهِمْ، وَمَنْ أَتَاهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ لَمْ يَرُدُّوهُ، وَعَلَى أَنْ يَدْخُلَهَا مِنْ قَابِلٍ وَيُقِيمَ بِهَا ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، وَلاَ يَدْخُلَهَا إِلاَّ بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ السَّيْفِ وَالْقَوْسِ وَنَحْوِهِ. فَجَاءَ أَبُو جَنْدَلٍ يَحْجُلُ فِي قُيُودِهِ فَرَدَّهُ إِلَيْهِمْ. قَالَ لَمْ يَذْكُرْ مُؤَمَّلٌ عَنْ سُفْيَانَ أَبَا جَنْدَلٍ وَقَالَ إِلاَّ بِجُلُبِّ السِّلاَحِ.
Narrated By Al-Bara bin Azib(R.A.) : On the day of Hudaibiah the Prophet (s.a.w.) made a peace Treaty with the pagans on three conditions: Prophet (s.a.w.) would return to them any person from the pagans to him; The pagans would not return any of the Muslims going to them; The Prophet (s.a.w.) and His Companions would come to Makkah the following year and would stay there for three days and would enter Makkah with their weapons in cases e.g. swords, arrows, bows etc.
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ نبیﷺنے صلح حدیبیہ مشرکین کے ساتھ تین شرائط پر کی تھی ۔(1) یہ کہ مشرکین میں سے اگر کوئی آدمی آپ ﷺکے پاس آجائے تو آپﷺاسے واپس کردیں گے ۔ لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی مشرکین کے یہاں پناہ لے گا تو یہ لوگ ایسے شخص کو واپس نہیں کریں گے ۔ (2) یہ کہ آپﷺآئندہ سال مکہ آسکیں گے اور صرف تین دن ٹھہریں گے ۔ (3) یہ کہ ہتھیار ، تلوار ، تیر وغیرہ نیام اور ترکش میں ڈال کر ہی مکہ میں داخل ہوں گے ۔ چنانچہ ابو جندل رضی اللہ عنہ (جو مسلمان ہوگئے تھے اور قریش نے ان کو قید کررکھا تھا) بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آئے ، توآپﷺانہیں (شرائط معاہدہ کے مطابق) مشرکوں کو واپس کردیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مؤمل نے سفیان سے ابو جندل کا ذکر نہیں کیا ہے اور "الا بجلبان السلاح کے بجائے " الا بجلب السلاح کے الفاظ نقل کئے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رضى الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ مُعْتَمِرًا، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَنَحَرَ هَدْيَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ بِالْحُدَيْبِيَةِ، وَقَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يَعْتَمِرَ الْعَامَ الْمُقْبِلَ، وَلاَ يَحْمِلَ سِلاَحًا عَلَيْهِمْ إِلاَّ سُيُوفًا، وَلاَ يُقِيمَ بِهَا إِلاَّ مَا أَحَبُّوا، فَاعْتَمَرَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَدَخَلَهَا كَمَا كَانَ صَالَحَهُمْ، فَلَمَّا أَقَامَ بِهَا ثَلاَثًا أَمَرُوهُ أَنْ يَخْرُجَ فَخَرَجَ.
Narrated By Ibn 'Umar : Allah's Apostle set out for the 'Umra but the pagans of Quraish prevented him from reaching the Ka'ba. So, he slaughtered his sacrifice and got his head shaved at Al-Hudaibiya, and agreed with them that he would perform 'Umra the following year and would not carry weapons except swords and would not stay in Mecca except for the period they al lowed. So, the Prophet performed the 'Umra in the following year and entered Mecca according to the treaty, and when he stayed for three days, the pagans ordered him to depart, and he departed.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺعمرہ کا احرام باندھ کر نکلے ، تو کفار قریش نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا۔ اس لیے آپ نے قربانی کا جانور حدیبیہ میں ہی ذبح کردیا اور سر بھی وہیں منڈوالیا اور کفار مکہ سے آپﷺنے اس شرط پر صلح کی تھی کہ آپﷺآئندہ سال عمرہ کرسکیں گے ۔ تلواروں کے سوا اور کوئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں گے ۔ (اور وہ بھی نیام میں ہوں گی) اور قریش جتنے دن چاہیں گے اس سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہر سکیں گے ۔ (یعنی تین دن ) چنانچہ آپﷺنے آئندہ سال عمرہ کیا اور شرائط کے مطابق آپﷺمکہ میں داخل ہوئے ، پھر جب تین دن گزر چکے تو قریش نے مکہ سے چلے جانے کے لیے کہا اور آپﷺوہاں سے واپس چلے آئے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ انْطَلَقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ إِلَى خَيْبَرَ، وَهْىَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ.
Narrated By Sahl bin Abu Hathma : Abdullah bin Sahl and Muhaiyisa bin Mas'ud bin Zaid went to Khaibar when it had a peace treaty (with the Muslims).
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عبد اللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہ خیبر گئے ، اور خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی ان دنوں صلح تھی۔
8. باب الصُّلْحِ فِي الدِّيَةِ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، أَنَّ أَنَسًا، حَدَّثَهُمْ أَنَّ الرُّبَيِّعَ ـ وَهْىَ ابْنَةُ النَّضْرِ ـ كَسَرَتْ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ، فَطَلَبُوا الأَرْشَ وَطَلَبُوا الْعَفْوَ، فَأَبَوْا فَأَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَمَرَهُمْ بِالْقِصَاصِ. فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ أَتُكْسَرُ ثَنِيَّةُ الرُّبَيِّعِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا فَقَالَ " يَا أَنَسُ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ ". فَرَضِيَ الْقَوْمُ وَعَفَوْا فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لأَبَرَّهُ ". زَادَ الْفَزَارِيُّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ فَرَضِيَ الْقَوْمُ وَقَبِلُوا الأَرْشَ.
Narrated By Anas : Ar-Rabi, the daughter of An-Nadr broke the tooth of a girl, and the relatives of Ar-Rabi' requested the girl's relatives to accept the Irsh (compensation for wounds etc.) and forgive (the offender), but they refused. So, they went to the Prophet who ordered them to bring about retaliation. Anas bin An-Nadr asked, "O Allah"; Apostle! Will the tooth of Ar-Rabi' be broken? No, by Him Who has sent you with the Truth, her tooth will not be broken." The Prophet said, "O Anas! Allah"; law ordains retaliation." Later the relatives of the girl agreed and forgave her. The Prophet said, "There are some of Allah's slaves who, if they take an oath by Allah, are responded to by Allah i.e. their oath is fulfilled). Anas added, "The people agreed and accepted the Irsh."
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نضر کی بیٹی ربیع رضی اللہ عنہا نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے ۔ اس پر لڑکی والوں نے تاوان مانگا اور ان لوگوں نے معافی چاہی ، لیکن معاف کرنے سے انہوں نے انکار کیا ۔ چنانچہ نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺنے بدلہ لینے کا حکم دیا (یعنی ان کا بھی دانٹ توڑ دیا جائے) انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ﷺ! ربیع کا دانت کس طرح توڑا جاسکے گا ، نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپﷺکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا ۔ آپﷺنے فرمایا: اے انس !کتاب اللہ کا فیصلہ تو بدلہ لینے ہی کا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ راضی ہوگئے اور معاف کردیا۔ پھر آپﷺنے فرمایا: کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ خود ان کی قسم پوری کرتا ہے ۔ فزاری نے (اپنی روایت میں) حمید سے ، اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ وہ لوگ راضی ہوگئے اور تاوان لے لیا۔
9. باب قَوْلُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رضى الله عنهما " ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ "
وَقَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ {فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا}.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ اسْتَقْبَلَ وَاللَّهِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ مُعَاوِيَةَ بِكَتَائِبَ أَمْثَالِ الْجِبَالِ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِنِّي لأَرَى كَتَائِبَ لاَ تُوَلِّي حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا. فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ ـ وَكَانَ وَاللَّهِ خَيْرَ الرَّجُلَيْنِ ـ أَىْ عَمْرُو إِنْ قَتَلَ هَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ وَهَؤُلاَءِ هَؤُلاَءِ مَنْ لِي بِأُمُورِ النَّاسِ مَنْ لِي بِنِسَائِهِمْ، مَنْ لِي بِضَيْعَتِهِمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ، فَقَالَ اذْهَبَا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فَاعْرِضَا عَلَيْهِ، وَقُولاَ لَهُ، وَاطْلُبَا إِلَيْهِ. فَأَتَيَاهُ، فَدَخَلاَ عَلَيْهِ فَتَكَلَّمَا، وَقَالاَ لَهُ، فَطَلَبَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِنَّا بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَدْ أَصَبْنَا مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَإِنَّ هَذِهِ الأُمَّةَ قَدْ عَاثَتْ فِي دِمَائِهَا. قَالاَ فَإِنَّهُ يَعْرِضُ عَلَيْكَ كَذَا وَكَذَا وَيَطْلُبُ إِلَيْكَ وَيَسْأَلُكَ. قَالَ فَمَنْ لِي بِهَذَا قَالاَ نَحْنُ لَكَ بِهِ. فَمَا سَأَلَهُمَا شَيْئًا إِلاَّ قَالاَ نَحْنُ لَكَ بِهِ. فَصَالَحَهُ، فَقَالَ الْحَسَنُ وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ يَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهْوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ " إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ". قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِنَّمَا ثَبَتَ لَنَا سَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ أَبِي بَكْرَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
Narrated By Al-Hasan Al-Basri : By Allah, Al-Hasan bin Ali led large battalions like mountains against Muawiya. Amr bin Al-As said (to Muawiya), "I surely see battalions which will not turn back before killing their opponents." Muawiya who was really the best of the two men said to him, "O 'Amr! If these killed those and those killed these, who would be left with me for the jobs of the public, who would be left with me for their women, who would be left with me for their children?" Then Muawiya sent two Quraishi men from the tribe of 'Abd-i-Shams called 'Abdur Rahman bin Sumura and Abdullah bin 'Amir bin Kuraiz to Al-Hasan saying to them, "Go to this man (i.e. Al-Hasan) and negotiate peace with him and talk and appeal to him." So, they went to Al-Hasan and talked and appealed to him to accept peace. Al-Hasan said, "We, the offspring of 'Abdul Muttalib, have got wealth and people have indulged in killing and corruption (and money only will appease them)." They said to Al-Hasan, "Muawiya offers you so and so, and appeals to you and entreats you to accept peace." Al-Hasan said to them, "But who will be responsible for what you have said?" They said, "We will be responsible for it." So, what-ever Al-Hasan asked they said, "We will be responsible for it for you." So, Al-Hasan concluded a peace treaty with Muawiya. Al-Hasan (Al-Basri) said: I heard Abu Bakr saying, "I saw Allah's Apostle on the pulpit and Al-Hasan bin 'Ali was by his side. The Prophet was looking once at the people and once at Al-Hasan bin 'Ali saying, 'This son of mine is a Saiyid (i.e. a noble) and may Allah make peace between two big groups of Muslims through him."
حضرت ابو موسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ سے وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی ! جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں) پہاڑوں جیسا لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا (جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کئے بغیر واپس نہ جائے گا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا- اور قسم اللہ کی ، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے - اے عمرو! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کردیا ، یا اس نے اس کو کردیا ، تو (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ) لوگوں کے امور (کی جواب دہی کےلیے) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا ، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبر گیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا ۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا۔ آخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے ۔ حضرت عبد الرحمن بن سمرہ اور حضرت عبد اللہ بن عامر بن کریز ، آپﷺنے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم بنو عبد المطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو مال خرچ کرنے کی عادت ہوگئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں ، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں ،بغیر مال دئیے ماننے والے نہیں ہیں ۔ وہ کہنے لگے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا مال دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں ۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے ۔ اور آپ سے پوچھا ہے ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کی ذمہ دار ہیں ۔ حضرت حسن نے جس چیز کے بارے میں پوچھا ، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ آخر آپ نے صلح کرلی، پھر فرمایا کہ میں نے حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا ، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺکو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ آپﷺکے پہلو میں تھے ، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا : مجھ سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے۔
10. باب هَلْ يُشِيرُ الإِمَامُ بِالصُّلْحِ
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ، مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أُمَّهُ، عَمْرَةَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَتْ سَمِعْتُ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ تَقُولُ سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَوْتَ خُصُومٍ بِالْبَابِ عَالِيَةٍ أَصْوَاتُهُمَا، وَإِذَا أَحَدُهُمَا يَسْتَوْضِعُ الآخَرَ، وَيَسْتَرْفِقُهُ فِي شَىْءٍ وَهْوَ يَقُولُ وَاللَّهِ لاَ أَفْعَلُ. فَخَرَجَ عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " أَيْنَ الْمُتَأَلِّي عَلَى اللَّهِ لاَ يَفْعَلُ الْمَعْرُوفَ ". فَقَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَهُ أَىُّ ذَلِكَ أَحَبَّ.
Narrated By 'Aisha : Once Allah's Apostle heard the loud voices of some opponents quarrelling at the door. One of them was appealing to the other to deduct his debt and asking him to be lenient but the other was saying, "By Allah I will not do so." Allah's Apostle went out to them and said, "Who is the one who was swearing by Allah that he would not do a favour?" That man said, "I am that person, O Allah's Apostle! I will give my opponent whatever he wishes."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے دروازے پر دو جھگڑا کرنےوالوں کی آواز سنی جو بلند ہوگئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے قرض میں کچھ کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کےلیے کہہ رہا تھا او ردوسرا کہتا تھا کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا ۔ آخر رسول اللہﷺان کے پاس گئے اور فرمایا : اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والے صاحب کہاں ہیں ؟ کہ وہ ایک اچھا کام نہیں کریں گے ۔ ان صحابی نے عرض کیا ، میں ہی ہوں اے اللہ کے رسو لﷺ! اب میرا بھائی جو چاہتا ہے وہی مجھ کو بھی پسند ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الأَعْرَجِ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ كَانَ لَهُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَدْرَدٍ الأَسْلَمِيِّ مَالٌ، فَلَقِيَهُ فَلَزِمَهُ حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَمَرَّ بِهِمَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " يَا كَعْبُ ". فَأَشَارَ بِيَدِهِ كَأَنَّهُ يَقُولُ النِّصْفَ. فَأَخَذَ نِصْفَ مَا عَلَيْهِ وَتَرَكَ نِصْفًا.
Narrated By Abdullah bin Kab bin Malik : From Kab bin Malik, Abdullah bin Abu Hadrad Al-Aslami owed Kab bin Malik some money. One day the latter met the former and demanded his right, and their voices grew very loud. The Prophet passed by them and said, "O Ka'b," beckoning with his hand as if intending to say, "Deduct half the debts." So, Kab took half what the other owed him and remitted the other half.
0