1. بَابُ فَضلِ الهِبَةِ
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، {عَنْ أَبِيهِ،} عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " يَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ لاَ تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا، وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ ".
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "O Muslim women! None of you should look down upon the gift sent by her she-neighbour even if it were the trotters of the sheep (fleshless part of legs)."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: اے مسلمان عورتو! ہرگز کوئی پڑوسن اپنی دوسری پڑوسن کےلیے (معمولی ہدیہ کوبھی) حقیر نہ سمجھے خواہ بکری کے کھر کا ہی کیوں نہ ہو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا قَالَتْ لِعُرْوَةَ ابْنَ أُخْتِي، إِنْ كُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى الْهِلاَلِ ثُمَّ الْهِلاَلِ، ثَلاَثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ، وَمَا أُوقِدَتْ فِي أَبْيَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَارٌ. فَقُلْتُ يَا خَالَةُ مَا كَانَ يُعِيشُكُمْ قَالَتِ الأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ، إِلاَّ أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جِيرَانٌ مِنَ الأَنْصَارِ كَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ، وَكَانُوا يَمْنَحُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَلْبَانِهِمْ، فَيَسْقِينَا.
Narrated By Urwa : 'Aisha said to me, "O my nephew! We used to see the crescent, and then the crescent and then the crescent in this way we saw three crescents in two months and no fire (for cooking) used to be made in the houses of Allah's Apostle. I said, "O my aunt! Then what use to sustain you?" 'Aisha said, "The two black things: dates and water, our neighbours from Ansar had some Manarh and they used to present Allah's Apostle some of their milk and he used to make us drink."
حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: اے میرے بھانجے! آپﷺکے زمانہ مبارک میں ہم ایک چاند دیکھتے ، پھر دوسرا چاند دیکھتے ، پھر تیسرا چاند دیکھتے ، اسی طرح دو دو مہینے گزر جاتے اور رسول اللہﷺکے گھروں میں آگ نہ جلتی تھی۔میں نے پوچھا ، خالہ اماں ! پھر آپ لوگ زندہ کس طرح رہتی تھیں ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:صرف دو کالی چیزوں کھجور اور پانی پر ۔البتہ رسول اللہﷺکے چند انصاری پڑوسی تھے ۔ جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہﷺکے یہاں بھی ان کا دودھ تحفہ کے طور پر بھیجا کرتے تھے ۔ آپﷺاسے ہمیں بھی پلا دیا کرتے تھے۔
2. باب الْقَلِيلِ مِنَ الْهِبَةِ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لَوْ دُعِيتُ إِلَى ذِرَاعٍ أَوْ كُرَاعٍ لأَجَبْتُ، وَلَوْ أُهْدِيَ إِلَىَّ ذِرَاعٌ أَوْ كُرَاعٌ لَقَبِلْتُ ".
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "I shall accept the invitation even if I were invited to a meal of a sheep's trotter, and I shall accept the gift even if it were an arm or a trotter of a sheep."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اگر مجھے بازو اور پائے پر بھی دعوت دی جائے تو میں قبول کرلوں گا ، اور مجھے بازو یا پائے کا تحفہ بھیجا جائے تو اسے بھی قبول کرلوں گا۔
3. باب مَنِ اسْتَوْهَبَ مِنْ أَصْحَابِهِ شَيْئًا
وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " اضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا "
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَرْسَلَ إِلَى امْرَأَةٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَكَانَ لَهَا غُلاَمٌ نَجَّارٌ قَالَ لَهَا " مُرِي عَبْدَكِ فَلْيَعْمَلْ لَنَا أَعْوَادَ الْمِنْبَرِ ". فَأَمَرَتْ عَبْدَهَا، فَذَهَبَ فَقَطَعَ مِنَ الطَّرْفَاءِ، فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا، فَلَمَّا قَضَاهُ أَرْسَلَتْ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَدْ قَضَاهُ، قَالَ صلى الله عليه وسلم " أَرْسِلِي بِهِ إِلَىَّ ". فَجَاءُوا بِهِ فَاحْتَمَلَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَوَضَعَهُ حَيْثُ تَرَوْنَ.
Narrated By Sahl : The Prophet sent for a woman from the emigrants and she had a slave who was a carpenter. The Prophet said to her "Order your slave to prepare the wood (pieces) for the pulpit." So, she ordered her slave who went and cut the wood from the tamarisk and prepared the pulpit, for the Prophet. When he finished the pulpit, the woman informed the Prophet that it had been finished. The Prophet asked her to send that pulpit to him, so they brought it. The Prophet lifted it and placed it at the place in which you see now."
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺنے ایک مہاجرہ عورت کے پاس (ایک آدمی ) بھیجا ۔ ان کا ایک غلام بڑھئی تھا۔ ان سے آپﷺنے فرمایا: اپنے غلام سے ہمارے لیے لکڑیوں کا ایک منبر بنانے کےلیے کہیں ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے غلام سے کہا ۔ وہ جنگل سے جاکر جھاؤ کاٹ لایا اور اسی کا ایک منبر بنا دیا۔جب وہ منبر بنا چکے تو اس عورت نے رسو ل اللہﷺکی خدمت میں پیغام بھیجا کہ منبر بن کر تیار ہے۔ آپﷺنے پیغام بھیجا کہ اسے میرے پاس بھجوادیں۔جب لوگ اسے لائے تو آپﷺنے خود اسے اٹھایا اور جہاں تم اب دیکھ رہے ہو، وہیں آپﷺنے اسے رکھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنْتُ يَوْمًا جَالِسًا مَعَ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي مَنْزِلٍ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَازِلٌ أَمَامَنَا وَالْقَوْمُ مُحْرِمُونَ، وَأَنَا غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَأَبْصَرُوا حِمَارًا وَحْشِيًّا، وَأَنَا مَشْغُولٌ أَخْصِفُ نَعْلِي، فَلَمْ يُؤْذِنُونِي بِهِ، وَأَحَبُّوا لَوْ أَنِّي أَبْصَرْتُهُ، وَالْتَفَتُّ فَأَبْصَرْتُهُ، فَقُمْتُ إِلَى الْفَرَسِ فَأَسْرَجْتُهُ ثُمَّ رَكِبْتُ وَنَسِيتُ السَّوْطَ وَالرُّمْحَ فَقُلْتُ لَهُمْ نَاوِلُونِي السَّوْطَ وَالرُّمْحَ. فَقَالُوا لاَ وَاللَّهِ، لاَ نُعِينُكَ عَلَيْهِ بِشَىْءٍ. فَغَضِبْتُ فَنَزَلْتُ فَأَخَذْتُهُمَا، ثُمَّ رَكِبْتُ، فَشَدَدْتُ عَلَى الْحِمَارِ فَعَقَرْتُهُ، ثُمَّ جِئْتُ بِهِ وَقَدْ مَاتَ، فَوَقَعُوا فِيهِ يَأْكُلُونَهُ، ثُمَّ إِنَّهُمْ شَكُّوا فِي أَكْلِهِمْ إِيَّاهُ، وَهُمْ حُرُمٌ، فَرُحْنَا وَخَبَأْتُ الْعَضُدَ مَعِي، فَأَدْرَكْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ " مَعَكُمْ مِنْهُ شَىْءٌ ". فَقُلْتُ نَعَمْ. فَنَاوَلْتُهُ الْعَضُدَ فَأَكَلَهَا، حَتَّى نَفَّدَهَا وَهْوَ مُحْرِمٌ. فَحَدَّثَنِي بِهِ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ.
Narrated By 'Abdullah bin Abu Qatada Al-Aslami : That his father said, "One day I was sitting with some of the Prophet's companions on the way to Mecca. Allah's Apostle was ahead of us. All of my companions were in the state of Ihram while I was a non-Muhrim. They saw an onager while I was busy repairing my shoes, so they did not tell me about it but they wished I had seen it. By chance I looked up and saw it. So, I turned to the horse, saddled it and rode on it, forgetting to take the spear and the whip. I asked them if they could hand over to me the whip and the spear but they said, 'No, by Allah, we shall not help you in that in any way.' I became angry and got down from the horse, picked up both the things and rode the horse again. I attacked the onager and slaughtered it, and brought it (after it had been dead). They took it (cooked some of it) and started eating it, but they doubted whether it was allowed for them to eat it or not, as they were in the state of Ihram. So, we proceeded and I hid with me one of its fore-legs. When we met Allah's Apostle and asked him about the case, he asked, 'Do you have a portion of it with you?' I replied in the affirmative and gave him that fleshy fore-leg which he ate completely while he was in the state of Ihram.
حضرت ابو قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مکہ کے راستے میں ایک مقام پر رسول اللہﷺکے چند ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ رسول اللہﷺہم سے آگے قیام فرماتھے۔(حجۃ الوداع کے موقع پر) اور لوگ تو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میرا احرام نہیں تھا۔ میرے ساتھیوں نے ایک زیبرا دیکھا ،میں اس وقت اپنی جوتی باندھنے میں مشغول تھا ۔ ان لوگوں نے مجھ کو کچھ خبر نہیں دی لیکن ان کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح میں زیبرا کو دیکھ لوں ۔ چنانچہ میں نے جو نظر اٹھائی تو زیبرا دکھائی دیا ۔ میں فورا گھوڑے کے پاس گیا اور اس پر زین کس کر سوار ہوگیا ، مگر اتفاق سے کوڑا اور نیزہ دونوں بھول گیا اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھادیں۔ اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا وہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھادیں ۔ انہوں نے کہا: ہرگز نہیں قسم اللہ کی !ہم تمہاری کسی قسم کی مدد نہیں کرسکتے ۔مجھے اس پر غصہ آیا اور میں نے خود ہی اتر کر دونوں چیزیں لے لیں۔ پھر سوار ہوکر زیبرا پر حملہ کیا اور شکار کر لایا ۔ وہ مر بھی چکا تھا ، اب لوگوں نے کہا: اسے کھانا چاہیے۔ لیکن پھر احرام کی حالت میں اسے کھانے پر شبہ ہوا۔پھر ہم آگے بڑھے اور میں نے اس زیبرا کا ایک بازو چھپا رکھا تھا جب ہم رسول اللہﷺکے پاس پہنچے تو اس کے متعلق آپ ﷺسے سوال کیا ، تو آپﷺ نے دریافت فرمایا: کیا اس میں سے کچھ بچا ہوا گوشت تمہارے پاس موجود بھی ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں ! اور وہی بازو آپ ﷺکی خدمت میں پیش کیا۔ آپﷺنے اسے تناول فرمایا یہاں تک کہ وہ ختم ہوگیا حالانکہ آپﷺ اس وقت احرام کی حالت میں تھے ۔
4. باب مَنِ اسْتَسْقَى
وَقَالَ سَهْلٌ قَالَ لِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " اسْقِنِي "
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو طَوَالَةَ ـ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ـ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي دَارِنَا هَذِهِ، فَاسْتَسْقَى، فَحَلَبْنَا لَهُ شَاةً لَنَا، ثُمَّ شُبْتُهُ مِنْ مَاءِ بِئْرِنَا هَذِهِ، فَأَعْطَيْتُهُ وَأَبُو بَكْرٍ عَنْ يَسَارِهِ، وَعُمَرُ تُجَاهَهُ وَأَعْرَابِيٌّ عَنْ يَمِينِهِ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ عُمَرُ هَذَا أَبُو بَكْرٍ. فَأَعْطَى الأَعْرَابِيَّ، ثُمَّ قَالَ " الأَيْمَنُونَ، الأَيْمَنُونَ، أَلاَ فَيَمِّنُوا ". قَالَ أَنَسٌ فَهْىَ سُنَّةٌ فَهْىَ سُنَّةٌ. ثَلاَثَ مَرَّاتٍ.
Narrated By Anas : Once Allah's Apostle visited us in this house of ours and asked for something to drink. We milked one of our sheep and mixed it with water from this well of ours and gave it to him. Abu Bakr was sitting on his left side and 'Umar in front of him and a bedouin on his right side. When Allah's Apostle finished, 'Umar said to Allah's Apostle "Here is Abu Bakr." But Allah's Apostle gave the remaining milk to the bedouin and said twice, "The (persons on the) right side! So, start from the right side." Anas added, "It is a Sunna (the Prophet's traditions)" and repeated it thrice.
ابو طوالہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺہمارے اسی گھر میں تشریف لائے اور پانی طلب کیا ۔ ہمارے پاس ایک بکری تھی ، اسے ہم نے دوہا ، پھر میں نے اس میں اسی کنویں کا پانی ملاکر آپ کی خدمت میں (لسی بناکر ) پیش کیا ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپﷺکے بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سامنے تھے ، اور ایک دیہاتی آپﷺکے دائیں طرف تھا ۔ جب آپﷺپی کر فارغ ہوئے تو (پیالے میں کچھ دودھ بچ گیا تھا اس لیے ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔لیکن آپﷺنے اسے دیہاتی کو عطا فرمایا (کیونکہ وہ دائیں طرف تھا) پھر آپﷺنے فرمایا: دائیں طرف بیٹھنے والے ، دائیں طرف بیٹھنے والے ہی حق رکھتے ہیں ۔ سنو! دائیں طرف ہی سے شروع کیا کرو۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی سنت ہے ، یہی سنت ہے ۔ تین مرتبہ (آپ رضی اللہ عنہ نے اس بات کو دہرایا)
5. باب قَبُولِ هَدِيَّةِ الصَّيْدِ
وَقَبِلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَبِي قَتَادَةَ عَضُدَ الصَّيْدِ
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، فَسَعَى الْقَوْمُ فَلَغَبُوا، فَأَدْرَكْتُهَا فَأَخَذْتُهَا، فَأَتَيْتُ بِهَا أَبَا طَلْحَةَ فَذَبَحَهَا، وَبَعَثَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِوَرِكِهَا ـ أَوْ فَخِذَيْهَا قَالَ فَخِذَيْهَا لاَ شَكَّ فِيهِ ـ فَقَبِلَهُ. قُلْتُ وَأَكَلَ مِنْهُ قَالَ وَأَكَلَ مِنْهُ. ثُمَّ قَالَ بَعْدُ قَبِلَهُ.
Narrated By Anas : We chased a rabbit at Mar-al-Zahran and the people ran after it but were exhausted. I overpowered and caught it, and gave it to Abu Talha who slaughtered it and sent its hip or two thighs to Allah's Apostle. (The narrator confirms that he sent two thighs). The Prophet accepted that. (The sub-narrator asked Anas, "Did the Prophet; eat from it?" Anas replied, "He ate from it.")
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مر الظہران نامی جگہ میں ہم نے ایک خرگوش کا پیچھا کیا ۔لوگ (اس کے پیچھے )دوڑے اور ان کو تھکا دیا اور میں نے قریب پہنچ کر اسے پکڑلیا ۔ پھر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے یہاں لایا۔انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کے پیچھے کا یا دونوں رانوں کا گوشت نبیﷺکی خدمت میں بھیجا۔(راوی شعبہ نے بعد میں یقین کے ساتھ کہا) کہ دونوں رانیں انہوں نے بھیجی تھیں ، اس میں کوئی شک نہیں۔ آپﷺنے اسے قبول فرمایا تھا میں نے پوچھا اور اس میں سےآپﷺکچھ تناول بھی فرمایا تھا ؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں! کچھ تناول فرمایا تھا ۔ اس کے بعد پھر انہوں نے کہا: آپﷺنے وہ ہدیہ قبول فرمالیا تھا ۔
6. باب قَبُولِ الْهَدِيَّةِ
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ ـ رضى الله عنهم ـ أَنَّهُ أَهْدَى لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِمَارًا وَحْشِيًّا وَهْوَ بِالأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَى مَا فِي وَجْهِهِ قَالَ " أَمَا إِنَّا لَمْ نَرُدَّهُ عَلَيْكَ إِلاَّ أَنَّا حُرُمٌ ".
Narrated By As-Sa'b bin Jaththama : An onager was presented to Allah's Apostle at the place called Al-Abwa' or Waddan, but Allah's Apostle rejected it. When the Prophet noticed the signs of sorrow on the giver's face he said, "We have not rejected your gift, but we are in the state of Ihram."
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺکی خدمت میں زیبرا کا تحفہ پیش کیا ، آپﷺاس وقت مقام ابواء یا مقام ودان میں تھے ۔ آپﷺنے ان کا تحفہ واپس کردیا ۔پھر ان کے چہرے پر (رنج کے آثار) دیکھ کر فرمایا: میں نے یہ تحفہ صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔
7. باب قَبُولِ الْهَدِيَّةِ
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ النَّاسَ، كَانُوا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، يَبْتَغُونَ بِهَا ـ أَوْ يَبْتَغُونَ بِذَلِكَ ـ مَرْضَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.
Narrated By 'Aisha : The people used to look forward for the days of my ('Aisha's) turn to send gifts to Allah's Apostle in order to please him.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ (رسول اللہﷺکی خدمت میں) تحائف بھیجنے کےلیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے ۔ اپنے ہدایا سے یا اس خاص دن کے انتظار سے (راوی کو شک ہے) لوگ آپﷺکی خوشی حاصل کرنا چاہتےتھے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَهْدَتْ أُمُّ حُفَيْدٍ خَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَقِطًا وَسَمْنًا وَأَضُبًّا، فَأَكَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنَ الأَقِطِ وَالسَّمْنِ، وَتَرَكَ الضَّبَّ تَقَذُّرًا. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَلَوْ كَانَ حَرَامًا مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.
Narrated By Said bin Jubair : Ibn Abbas said: Um Hufaid, Ibn 'Abbas's aunt sent some dried yogurt (butter free), ghee (butter) and a mastigar to the Prophet as a gift. The Prophet ate the dried yogurt and butter but left the mastigar because he disliked it. Ibn 'Abbas said, "The mastigar was eaten at the table of Allah's Apostle and if it had been illegal to eat, it could not have been eaten at the table of Allah's Apostle."
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی خالہ ام حفید نے نبیﷺکی خدمت میں پنیر، گھی ، اور گوہ کے تحائف بھیجے۔آپﷺنے پنیر اور گھی میں سے تو تناول فرمایا، لیکن گوہ پسند نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑدی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺکے (اسی ) دستر خوان پر گوہ کھائی گئی ، اور اگر وہ حرام ہوتی تو آپﷺکے دسترخوان پر کیوں کھائی جاتی۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "إِذَا أُتِيَ بِطَعَامٍ سَأَلَ عَنْهُ أَهَدِيَّةٌ أَمْ صَدَقَةٌ فَإِنْ قِيلَ صَدَقَةٌ. قَالَ لأَصْحَابِهِ كُلُوا. وَلَمْ يَأْكُلْ، وَإِنْ قِيلَ هَدِيَّةٌ. ضَرَبَ بِيَدِهِ صلى الله عليه وسلم فَأَكَلَ مَعَهُمْ ".
Narrated By Abu Huraira : Whenever a meal was brought to Allah's Apostle, he would ask whether it was a gift or Sadaqa (something given in charity). If he was told that it was Sadaqa, he would tell his companions to eat it, but if it was a gift, he would hurry to share it with them.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺکی خدمت میں جب کوئی کھانے کی چیز لائی جاتی تو آپﷺدریافت فرماتے یہ تحفہ ہے یا صدقہ؟ اگر کہا جائے کہ صدقہ ہے تو آپﷺاپنے اصحاب سے فرماتے کہ کھاؤ، آپ ﷺخود نہ کھاتے اور اگر کہاجاتا کہ تحفہ ہے تو آپﷺخود بھی ہاتھ بڑھاتے اور صحابہ کے ساتھ اسے کھاتے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِلَحْمٍ فَقِيلَ تُصُدِّقَ عَلَى بَرِيرَةَ قَالَ " هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ، وَلَنَا هَدِيَّةٌ ".
Narrated By Anas bin Malik : Some meat was brought to the Prophet and it was said that the meat had been given in charity to Buraira. He said, "It was Sadaqa for Buraira but a gift for us."
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: نبیﷺ کے پاس گوشت لایا گیا، لوگوں نے کہا: یہ وہ گوشت ہے جو حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو بطور صدقہ ملا ہے ، آپﷺنے فرمایا: ان کےلیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ سَمِعْتُهُ مِنْهُ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، وَأَنَّهُمُ اشْتَرَطُوا وَلاَءَهَا، فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " اشْتَرِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ". وَأُهْدِيَ لَهَا لَحْمٌ، فَقِيلَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم هَذَا تُصُدِّقَ عَلَى بَرِيرَةَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ ". وَخُيِّرَتْ. قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ زَوْجُهَا حُرٌّ أَوْ عَبْدٌ قَالَ شُعْبَةُ سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ عَنْ زَوْجِهَا. قَالَ لاَ أَدْرِي أَحُرٌّ أَمْ عَبْدٌ
Narrated By 'Aisha : I intended to buy Buraira but her masters stipulated that her Wala should be for them. When the Prophet was told about it, he said to me, "Buy and manumit her, as the Wala' is for the liberator." Once Buraira was given some meat, and the Prophet asked, "What is this?" I said, "It has been given to Buraira in charity." He said, "It is sadaqa for her but a gift for us." Buraira was given the option (to stay with her husband or to part with him). AbdurRahman (a sub-narrator) wondered, "Was her husband a slave or a free man?" Shu'ba (another sub-narrator) said, "I asked 'Abdur-Rahman whether her husband was a slave or a free man. He replied that he did not know whether he was a slave or a free man."
قاسم ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنا چاہا۔ لیکن ان کے مالکوں نے ولاء کی شرط اپنے لیے لگائی ۔ جب اس کا ذکر رسول اللہ ﷺسے ہوا، تو آپﷺنے فرمایا: تم انہیں خرید کر آزاد کردو،ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے۔حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے یہاں (صدقہ کا ) گوشت آیا تھا تو نبیﷺنے فرمایا: اچھا یہ وہی ہے جو حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو بطور صدقہ میں ملا ہے ۔ یہ ان کےلیے تو صدقہ ہے لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے اور (آزادی کے بعد حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو) اختیار دیا گیا تھا (کہ اگر چاہیں تو اپنے نکاح کو فسخ کرسکتی ہیں ) عبد الرحمن نے پوچھا : حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے خاوند (حضرت مغیث رضی اللہ عنہ ) غلام تھے یا آزاد؟ راوی شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے عبد الرحمن سے ان کے خاوند کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں وہ غلام تھے یا آزاد۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ دَخَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ فَقَالَ " عِنْدَكُمْ شَىْءٌ ". قَالَتْ لاَ، إِلاَّ شَىْءٌ بَعَثَتْ بِهِ أُمُّ عَطِيَّةَ مِنَ الشَّاةِ الَّتِي بُعِثَ إِلَيْهَا مِنَ الصَّدَقَةِ. قَالَ " إِنَّهَا قَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّهَا ".
Narrated By Um 'Atiyya : Once the Prophet went to 'Aisha and asked her whether she had something (to eat). She said that she had nothing except the mutton which Um 'Atiyya had sent to (Buraira) in charity. The Prophet said that it had reached its destination (i.e. it is no longer an object of charity.)
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے گئے اور دریافت فرمایا: کیا کوئی چیز تمہارے پاس ہے ؟ انہوں نے کہا: ام عطیہ کے یہاں جو آپ ﷺنے صدقہ کی بکری بھیجی تھی ، اس کا گوشت انہوں نے بھیجا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ آپﷺنے فرمایا: کہ وہ اپنی جگہ پہنچ چکی ۔
8. باب مَنْ أَهْدَى إِلَى صَاحِبِهِ وَتَحَرَّى بَعْضَ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمُ يَوْمِي. وَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ إِنَّ صَوَاحِبِي اجْتَمَعْنَ. فَذَكَرَتْ لَهُ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا.
Narrated By 'Aisha : The people used to send gifts to the Prophet on the day of my turn. Um Salama said: "My companions (the wives of the Prophet Other than 'Aisha) gathered and they complained about it. So I informed the Prophet about it on their behalf, but he remained silent.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ لوگ تحائف بھیجنے کےلیے میری باری کا انتظار کیا کرتے تھے ، اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میری سوکنیں (امہات المؤمنین رضی اللہ علیہن) جمع تھیں اس وقت انہوں نے آپﷺسے( بطور شکایت لوگوں کی اس روش کا) ذکر کیا ۔ تو آپﷺنے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ نِسَاءَ، رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كُنَّ حِزْبَيْنِ فَحِزْبٌ فِيهِ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ وَصَفِيَّةُ وَسَوْدَةُ، وَالْحِزْبُ الآخَرُ أُمُّ سَلَمَةَ وَسَائِرُ نِسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ قَدْ عَلِمُوا حُبَّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَائِشَةَ، فَإِذَا كَانَتْ عِنْدَ أَحَدِهِمْ هَدِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُهْدِيَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَخَّرَهَا، حَتَّى إِذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَيْتِ عَائِشَةَ بَعَثَ صَاحِبُ الْهَدِيَّةِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَكَلَّمَ حِزْبُ أُمِّ سَلَمَةَ، فَقُلْنَ لَهَا كَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُكَلِّمُ النَّاسَ، فَيَقُولُ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هَدِيَّةً فَلْيُهْدِهِ إِلَيْهِ حَيْثُ كَانَ مِنْ بُيُوتِ نِسَائِهِ، فَكَلَّمَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ بِمَا قُلْنَ، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا. فَقَالَتْ مَا قَالَ لِي شَيْئًا. فَقُلْنَ لَهَا فَكَلِّمِيهِ. قَالَتْ فَكَلَّمَتْهُ حِينَ دَارَ إِلَيْهَا أَيْضًا، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا. فَقَالَتْ مَا قَالَ لِي شَيْئًا. فَقُلْنَ لَهَا كَلِّمِيهِ حَتَّى يُكَلِّمَكِ. فَدَارَ إِلَيْهَا فَكَلَّمَتْهُ. فَقَالَ لَهَا " لاَ تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ، فَإِنَّ الْوَحْىَ لَمْ يَأْتِنِي، وَأَنَا فِي ثَوْبِ امْرَأَةٍ إِلاَّ عَائِشَةَ ". قَالَتْ فَقَالَتْ أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. ثُمَّ إِنَّهُنَّ دَعَوْنَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَرْسَلْنَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَقُولُ إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدْنَكَ اللَّهَ الْعَدْلَ فِي بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ. فَكَلَّمَتْهُ. فَقَالَ " يَا بُنَيَّةُ، أَلاَ تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ ". قَالَتْ بَلَى. فَرَجَعَتْ إِلَيْهِنَّ، فَأَخْبَرَتْهُنَّ. فَقُلْنَ ارْجِعِي إِلَيْهِ. فَأَبَتْ أَنْ تَرْجِعَ، فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ، فَأَتَتْهُ فَأَغْلَظَتْ، وَقَالَتْ إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدْنَكَ اللَّهَ الْعَدْلَ فِي بِنْتِ ابْنِ أَبِي قُحَافَةَ. فَرَفَعَتْ صَوْتَهَا، حَتَّى تَنَاوَلَتْ عَائِشَةَ. وَهْىَ قَاعِدَةٌ، فَسَبَّتْهَا حَتَّى إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيَنْظُرُ إِلَى عَائِشَةَ هَلْ تَكَلَّمُ قَالَ فَتَكَلَّمَتْ عَائِشَةُ تَرُدُّ عَلَى زَيْنَبَ، حَتَّى أَسْكَتَتْهَا. قَالَتْ فَنَظَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى عَائِشَةَ، وَقَالَ " إِنَّهَا بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ ". قَالَ الْبُخَارِيُّ الْكَلاَمُ الأَخِيرُ قِصَّةُ فَاطِمَةَ يُذْكَرُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ رَجُلٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ. وَقَالَ أَبُو مَرْوَانَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ. وَعَنْ هِشَامٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، وَرَجُلٍ مِنَ الْمَوَالِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ قَالَتْ عَائِشَةُ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَاسْتَأْذَنَتْ فَاطِمَةُ.
Narrated By 'Urwa from 'Aisha : The wives of Allah's Apostle were in two groups. One group consisted of 'Aisha, Hafsa, Safiyya and Sauda; and the other group consisted of Um Salama and the other wives of Allah's Apostle. The Muslims knew that Allah's Apostle loved 'Aisha, so if any of them had a gift and wished to give to Allah's Apostle, he would delay it, till Allah's Apostle had come to 'Aisha's home and then he would send his gift to Allah's Apostle in her home. The group of Um Salama discussed the matter together and decided that Um Salama should request Allah's Apostle to tell the people to send their gifts to him in whatever wife's house he was. Um Salama told Allah's Apostle of what they had said, but he did not reply. Then they (those wives) asked Um Salama about it. She said, "He did not say anything to me." They asked her to talk to him again. She talked to him again when she met him on her day, but he gave no reply. When they asked her, she replied that he had given no reply. They said to her, "Talk to him till he gives you a reply." When it was her turn, she talked to him again. He then said to her, "Do not hurt me regarding 'Aisha, as the Divine Inspirations do not come to me on any of the beds except that of 'Aisha." On that Um Salama said, "I repent to Allah for hurting you." Then the group of Um Salama called Fatima, the daughter of Allah's Apostle and sent her to Allah's Apostle to say to him, "Your wives request to treat them and the daughter of Abu Bakr on equal terms." Then Fatima conveyed the message to him. The Prophet said, "O my daughter! Don't you love whom I love?" She replied in the affirmative and returned and told them of the situation. They requested her to go to him again but she refused. They then sent Zainab bint Jahsh who went to him and used harsh words saying, "Your wives request you to treat them and the daughter of Ibn Abu Quhafa on equal terms." On that she raised her voice and abused 'Aisha to her face so much so that Allah's Apostle looked at 'Aisha to see whether she would retort. 'Aisha started replying to Zainab till she silenced her. The Prophet then looked at 'Aisha and said, "She is really the daughter of Abu Bakr."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺکی ازواج کی دو ٹکڑیاں تھیں ۔ ایک میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ،اور دوسری میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور بقیہ تمام ازاوج مطہرات تھیں ۔ مسلمانوں کو رسول اللہﷺکی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ محبت کا علم تھا ، اس لیے جب کسی کے پاس کوئی تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہﷺکی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تو انتظار کرتا۔جب رسول اللہﷺکی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی باری ہوتی تو تحفہ دینے والے صاحب اپنا تحفہ آپ ﷺکی خدمت میں بھیجتے ۔ اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی جماعت کی ازواج مطہرات نے آپس میں مشورہ کیا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ رسول اللہﷺسے بات کریں تاکہ آپ لوگوں سے فرمادیں کہ جس نے آپﷺکے یہاں تحفہ بھیجنا ہو وہ جہاں بھی آپﷺ ہوں وہیں بھیجا کرے۔چنانچہ ان ازواج کے مشورہ کے مطابق ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہﷺسے کہا لیکن آپﷺنے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ان خواتین نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے بتادیا کہ مجھے آپﷺنے کوئی جواب نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے کہا: پھر ایک مرتبہ کہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر جب آپ کی باری آئی تو دوبارہ انہوں نے آپﷺسے عرض کیا ۔ اس مرتبہ بھی آپﷺنے جواب نہیں دیا۔جب ازواج نے ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے پھر وہی بتایا کہ آپﷺنے مجھے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ ازاوج نے اس مرتبہ ان سے کہا کہ آپﷺکو اس مسئلہ پر بلواؤ تو سہی ۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے پھر کہا۔ آپﷺنے اس مرتبہ فرمایا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مجھے تکلیف مت دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے سوا اپنی بیویوں میں سے کسی کے کپڑے میں بھی مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپﷺکے اس ارشاد پر انہوں نے عرض کیا ، آپﷺکو ایذاء پہنچانے کی وجہ سے میں اللہ کے حضور میں توبہ کرتی ہوں ۔ پھر ان ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺکی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کے ذریعہ آپﷺکی خدمت میں یہ کہلوایا کہ آپﷺکی ازواج ابوبکررضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں اللہ کےلیے آپ سے انصاف چاہتی ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے بھی آپﷺسے بات چیت کی ۔ آپﷺنے فرمایا: میری بیٹی ! کیا تم وہ پسند نہیں کرتی جو میں پسند کروں؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ، اس کے بعد وہ واپس آگئیں اور ازواج کو اطلاع دی ۔ انہوں نے ان سے پھر دوبارہ خدمت نبوی میں جانے کےلیے کہا ۔ لیکن آپ رضی اللہ عنہا نے دوبارہ جانے سے انکار کیا۔ تو انہوں نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو بھیجا ۔ وہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے سخت گفتگو کی اور کہا کہ آپ کی ازواج ابو قحافہ کی بیٹی (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے بارے میں آپ سے اللہ کےلیے انصاف مانگتی ہیں اور ان کی آواز اونچی ہوگئی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔انہوں نے (ان کے منہ پر ) انہیں بھی برا بھلا کہا۔ رسول اللہﷺحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ کچھ بولتی ہیں یا نہیں ۔ راوی نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بول پڑیں اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی باتوں کا جواب دینے لگیں اور آخر انہیں خاموش کردیا۔ پھر رسول اللہ ﷺنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا: کہ یہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: کہ آخر کلام فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے متعلق ہشام بن عروہ نے ایک اور شخص سے بھی بیان کیا ہے ۔ انہوں نے زہری سے روایت کی اور انہوں نے محمد بن عبد الرحمن سے اور ابو مروان نے بیان کیا ہشام سے اور انہوں نے عروہ سے کہ لوگ تحائف بھیجنے کےلیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے اور ہشام کی ایک روایت قریش کے ایک صاحب اور ایک دوسرے صاحب سے جو غلاموں میں سے تھے ، بھی ہے ۔ وہ زہری سے نقل کرتے ہیں اور وہ محمد بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (اندر آنے کی ) اجازت چاہی تو میں اس وقت آپﷺہی کی خدمت میں موجو تھی۔
9. باب مَا لاَ يُرَدُّ مِنَ الْهَدِيَّةِ
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَنَاوَلَنِي طِيبًا، قَالَ كَانَ أَنَسٌ ـ رضى الله عنه ـ لاَ يَرُدُّ الطِّيبَ. قَالَ وَزَعَمَ أَنَسٌ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ لاَ يَرُدُّ الطِّيبَ.
Narrated By 'Azra bin Thabit Al-Ansari : When I went to Thumama bin 'Abdullah, he gave me some perfume and said that Anas would not reject the gifts of perfume. Anas said: The Prophet used not to reject the gifts of perfume.
عزرہ نے کہا کہ میں ثمامہ بن عبد اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے خوشبو عنایت فرمائی اور بیان کیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ خوشبو کو واپس نہیں کرتے تھے ۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ نے کہا : کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا گمان تھا کہ نبی ﷺخوشبو کو واپس نہیں فرمایا کرتے تھے۔
10. باب مَنْ رَأَى الْهِبَةَ الْغَائِبَةَ جَائِزَةً
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ ذَكَرَ عُرْوَةُ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، رضى الله عنهما وَمَرْوَانَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ قَامَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ " أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا ". فَقَالَ النَّاسُ طَيَّبْنَا لَكَ.
Narrated By Al-Miswar bin Makhrama and Marwan : When the delegates of the tribe of Hawazin came to the Prophet he stood up amongst the people, Glorified and Praised Allah as He deserved, and said, "Then after: Your brethren have come to you with repentance and I see it logical to return to them their captives; so whoever amongst you likes to do that as a favour, then he can do it, and whoever of you like to stick to his share till we give him his right from the very first Fai (war booty) (1) which Allah will bestow on us, then (he can do so)." The people replied, "We do that (to return the captives) willingly as a favor for your sake."
عروہ نے بیان کیا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوا ، تو آپﷺنے لوگوں کو خطاب فرمایا اور اللہ کی شان کے مطابق ثناء کے بعد آپﷺنے فرمایا: اما بعد !یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے ہمارے پاس آئے ہیں اور میں یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کردئیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے (قیدیوں کو) واپس کرنا چاہے وہ واپس کردے اور جو یہ چاہے کہ انہیں ان کا حصہ ملے (تو وہ بھی واپس کردے) اور ہمیں اللہ تعالیٰ سب سے پہلی جو غنیمت دے گا ، اس میں سے ہم اسے معاوضہ دے دیں گے ۔ لوگوں نے کہا : ہم اپنی خوشی سے (ان کے قیدی واپس کرکے ) آپﷺکا ارشار تسلیم کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ ذَكَرَ عُرْوَةُ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، رضى الله عنهما وَمَرْوَانَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ قَامَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ " أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا ". فَقَالَ النَّاسُ طَيَّبْنَا لَكَ.
Narrated By Al-Miswar bin Makhrama and Marwan : When the delegates of the tribe of Hawazin came to the Prophet he stood up amongst the people, Glorified and Praised Allah as He deserved, and said, "Then after: Your brethren have come to you with repentance and I see it logical to return to them their captives; so whoever amongst you likes to do that as a favour, then he can do it, and whoever of you like to stick to his share till we give him his right from the very first Fai (war booty) (1) which Allah will bestow on us, then (he can do so)." The people replied, "We do that (to return the captives) willingly as a favor for your sake."
عروہ نے بیان کیا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوا ، تو آپﷺنے لوگوں کو خطاب فرمایا اور اللہ کی شان کے مطابق ثناء کے بعد آپﷺنے فرمایا: اما بعد !یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے ہمارے پاس آئے ہیں اور میں یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کردئیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے (قیدیوں کو) واپس کرنا چاہے وہ واپس کردے اور جو یہ چاہے کہ انہیں ان کا حصہ ملے (تو وہ بھی واپس کردے) اور ہمیں اللہ تعالیٰ سب سے پہلی جو غنیمت دے گا ، اس میں سے ہم اسے معاوضہ دے دیں گے ۔ لوگوں نے کہا : ہم اپنی خوشی سے (ان کے قیدی واپس کرکے ) آپﷺکا ارشار تسلیم کرتے ہیں۔