- احادیثِ نبوی ﷺ

 

12

1. باب الشَّرِكَةِ فِي الطَّعَامِ وَالنَّهْدِ وَالْعُرُوضِ ، وَكَيْفَ قِسْمَةُ مَا يُكَالُ وَيُوزَنُ مُجَازَفَةً أَوْ قَبْضَةً قَبْضَةً، لَمَّا لَمْ يَرَ الْمُسْلِمُونَ فِي النَّهْدِ بَأْسًا أَنْ يَأْكُ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْثًا قِبَلَ السَّاحِلِ، فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ وَهُمْ ثَلاَثُمِائَةٍ وَأَنَا فِيهِمْ، فَخَرَجْنَا حَتَّى إِذَا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ فَنِيَ الزَّادُ، فَأَمَرَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِأَزْوَادِ ذَلِكَ الْجَيْشِ فَجُمِعَ ذَلِكَ كُلُّهُ فَكَانَ مِزْوَدَىْ تَمْرٍ، فَكَانَ يُقَوِّتُنَا كُلَّ يَوْمٍ قَلِيلاً قَلِيلاً، حَتَّى فَنِيَ فَلَمْ يَكُنْ يُصِيبُنَا إِلاَّ تَمْرَةٌ تَمْرَةٌ‏.‏ فَقُلْتُ وَمَا تُغْنِي تَمْرَةٌ فَقَالَ لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَنِيَتْ‏.‏ قَالَ ثُمَّ انْتَهَيْنَا إِلَى الْبَحْرِ فَإِذَا حُوتٌ مِثْلُ الظَّرِبِ، فَأَكَلَ مِنْهُ ذَلِكَ الْجَيْشُ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، ثُمَّ أَمَرَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِضِلَعَيْنِ مِنْ أَضْلاَعِهِ فَنُصِبَا، ثُمَّ أَمَرَ بِرَاحِلَةٍ فَرُحِلَتْ ثُمَّ مَرَّتْ تَحْتَهُمَا فَلَمْ تُصِبْهُمَا‏

Narrated By Jabir bin 'Abdullah : "Allah's Apostle sent an army towards the east coast and appointed Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah as their chief, and the army consisted of three-hundred men including myself. We marched on till we reached a place where our food was about to finish. Abu- 'Ubaida ordered us to collect all the journey food and it was collected. My (our) journey food was dates. Abu 'Ubaida kept on giving us our daily ration in small amounts from it, till it was exhausted. The share of everyone of us used to be one date only." I said, "How could one date benefit you?" Jabir replied, "We came to know its value when even that too finished." Jabir added, "When we reached the sea-shore, we saw a huge fish which was like a small mountain. The army ate from it for eighteen days. Then Abu 'Ubaida ordered that two of its ribs be fixed and they were fixed in the ground. Then he ordered that a she-camel be ridden and it passed under the two ribs (forming an arch) without touching them."

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ساحل سمندر کی طرف ایک لشکر بھیجا ، اور اس کا امیر ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بنایا ۔ فوجیوں کی تعداد تین سو تھی اور میں بھی ان میں شریک تھا۔ ہم نکلے اور ابھی راستے ہی میں تھے کہ توشہ ختم ہوگیا ۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ تمام فوجی اپنے توشے (جو کچھ بھی باقی رہ گئے ہوں ) ایک جگہ جمع کردیں ۔ سب کچھ جمع کرنے کے بعد کھجوروں کے کل دو تھیلے ہوسکے اور روزانہ ہمیں اسی میں سے تھوڑی تھوڑی کھجور کھانے کےلیے ملنے لگی۔جب اس کا بھی اکثر حصہ ختم ہوگیا تو ہمیں صرف ایک ایک کھجور ملتی رہی۔ میں (وہب بن کیسان)نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بھلا ایک کھجور سے کیا ہوتا ہوگا ؟ انہوں نے بتلایا کہ اس کی قدر ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب وہ بھی ختم ہوگئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آخر ہم سمندر تک پہنچ گئے ۔ اتفاق سے سمندر میں ہمیں ایک ایسی مچھلی مل گئی جو (اپنے جسم میں ) پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ سارا لشکر اس مچھلی کو اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا۔پھر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی دونوں پسلیوں کو کھڑا کرنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد اونٹوں کو ان کے نیچے سے چلنے کا حکم دیا ۔وہ ان پسلیوں کے نیچے سے ہوکر گذرے لیکن اونٹ نے ان کو چھوا تک نہیں۔


حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مَرْحُومٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ خَفَّتْ أَزْوَادُ الْقَوْمِ وَأَمْلَقُوا، فَأَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي نَحْرِ إِبِلِهِمْ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَلَقِيَهُمْ عُمَرُ فَأَخْبَرُوهُ فَقَالَ مَا بَقَاؤُكُمْ بَعْدَ إِبِلِكُمْ، فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَقَاؤُهُمْ بَعْدَ إِبِلِهِمْ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ نَادِ فِي النَّاسِ فَيَأْتُونَ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ ‏"‏‏.‏ فَبُسِطَ لِذَلِكَ نِطَعٌ، وَجَعَلُوهُ عَلَى النِّطَعِ‏.‏ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَدَعَا وَبَرَّكَ عَلَيْهِ ثُمَّ دَعَاهُمْ بِأَوْعِيَتِهِمْ فَاحْتَثَى النَّاسُ حَتَّى فَرَغُوا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ‏"

Narrated By Salama : Once the journey food diminished and the people were reduced to poverty. They went to the Prophet and asked his permission to slaughter their camels, and he agreed. 'Umar met them and they told him about it, and he said, "How would you survive after slaughtering your camels?" Then he went to the Prophet and said, "O Allah's Apostle! How would they survive after slaughtering their camels?" Allah's Apostle ordered 'Umar, "Call upon the people to bring what has remained of their food." A leather sheet was spread and al I the journey food was collected and heaped over it. Allah's Apostle stood up and invoked Allah to bless it, and then directed all the people to come with their utensils, and they started taking from it till all of them got what was sufficient for them. Allah's Apostle then said, "I testify that None has the right to be worshipped but Allah, and I am His Apostle."

حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: (غزوۂ ہوازن میں) لوگوں کے توشے ختم ہوگئے اور فقرو محتاجی آگئی ، تو لوگ نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔اپنے اونٹوں کو ذبح کرنے کی اجازت لینے (تاکہ انہیں کے گوشت سے پیٹ بھر سکیں)آپﷺنے انہیں اجازت دے دی۔راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ملاقات ان سے ہوگئی تو انہیں بھی ان لوگوں نے اطلاع دی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اونٹوں کو کاٹ ڈالوگے تو پھر تم کیسے زندہ رہوگے ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اگر انہوں نے اونٹ بھی ذبح کرلیے تو پھر یہ لوگ کیسے زندہ رہیں گے ۔رسول اللہﷺنے فرمایا: اچھا تمام لوگوں میں اعلان کردو کہ ان کے پاس جو کچھ توشے بچ رہے ہیں وہ لے کر یہاں آجائیں۔ اس کےلیے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھادیا گیا ۔ لوگوں نے توشے اسی دستر خوان پر لاکر رکھ دئیے۔اس کے بعد رسول اللہﷺاٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی ، اب آپﷺنے پھر سب لوگوں کو اپنے اپنے برتنوں کے ساتھ بلایا ، اور سب نے دونوں ہاتھوں سے توشے اپنے برتنوں میں بھر لیے۔ جب سب لوگ بھر چکے تو رسول اللہﷺنے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِيِّ، قَالَ سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم الْعَصْرَ فَنَنْحَرُ جَزُورًا، فَتُقْسَمُ عَشْرَ قِسَمٍ، فَنَأْكُلُ لَحْمًا نَضِيجًا قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ‏

Narrated By Rafi bin Khadij : We used to offer the 'Asr prayer with the Prophet and slaughter a camel, the meat of which would be divided in ten parts. We would eat the cooked meat before sunset.

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبیﷺکے ساتھ عصر کی نماز پڑھ کر اونٹ ذبح کرتے ، انہیں دس حصوں میں تقسیم کرتے اور پھر سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہم اس کا پکا ہوا گوشت بھی کھالیتے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّ الأَشْعَرِيِّينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِي الْغَزْوِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوهُ بَيْنَهُمْ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ ‏"‏‏

Narrated By Abu Musa : The Prophet said, "When the people of Ash'ari tribe ran short of food during the holy battles, or the food of their families in Medina ran short, they would collect all their remaining food in one sheet and then distribute it among themselves equally by measuring it with a bowl. So, these people are from me, and I am from them."

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر توشہ کم ہوجاتا یا مدینہ میں ان کے بال بچوں کےلیے کھانے کی کمی ہوجاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس توشہ ہوتا ہے وہ ایک کپڑے میں جمع کرلیتے ہیں ۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر برابر تقسیم کرلیتے ہیں ۔ پس وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں ۔

2. باب مَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ فِي الصَّدَقَةِ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ، حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، أَنَّ أَنَسًا، حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ ـ رضى الله عنه ـ كَتَبَ لَهُ فَرِيضَةَ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ ‏"

Narrated By Anas : That Abu Bakr As-Siddiq wrote to him the law of Zakat which was made obligatory by Allah's Apostle. He wrote: 'Partners possessing joint property (sheep) have to pay its Zakat equally.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کےلیے فرض زکاۃ کا بیان تحریر کیا تھا جو رسول اللہ ﷺنے مقرر کی تھی ۔ آپﷺنے فرمایا: جب کسی مال میں دو آدمی شریک ہوں تو وہ زکاۃ میں ایک دوسرے سے برابری کی بنیاد پر حساب کتاب کرلیں۔

3. باب قِسْمَةِ الْغَنَمِ

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَأَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ فَأَصَابُوا إِبِلاً وَغَنَمًا‏.‏ قَالَ وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي أُخْرَيَاتِ الْقَوْمِ فَعَجِلُوا وَذَبَحُوا وَنَصَبُوا الْقُدُورَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالْقُدُورِ فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَسَمَ فَعَدَلَ عَشْرَةً مِنَ الْغَنَمِ بِبَعِيرٍ فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ، فَطَلَبُوهُ فَأَعْيَاهُمْ، وَكَانَ فِي الْقَوْمِ خَيْلٌ يَسِيرَةٌ فَأَهْوَى رَجُلٌ مِنْهُمْ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا ‏"‏‏.‏ فَقَالَ جَدِّي إِنَّا نَرْجُو ـ أَوْ نَخَافُ ـ الْعَدُوَّ غَدًا، وَلَيْسَتْ مَعَنَا مُدًى أَفَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ‏.‏ قَالَ ‏"‏ مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَكُلُوهُ، لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ ‏"

Narrated By 'Abaya bin Rafa'a bin Rafi' bin Khadij : My grandfather said, "We were in the company of the Prophet at Dhul-Hulaifa. The people felt hungry and captured some camels and sheep (as booty). The Prophet was behind the people. They hurried and slaughtered the animals and put their meat in pots and started cooking it. (When the Prophet came) he ordered the pots to be upset and then he distributed the animals (of the booty), regarding ten sheep as equal to one camel. One of the camels fled and the people ran after it till they were exhausted. At that time there were few horses. A man threw an arrow at the camel, and Allah stopped the camel with it. The Prophet said, "Some of these animals are like wild animals, so if you lose control over one of these animals, treat it in this way (i.e. shoot it with an arrow)." Before distributing them among the soldiers my grandfather said, "We may meet the enemies in the future and have no knives; can we slaughter the animals with reeds?" The Prophet said, "Use whatever causes blood to flow, and eat the animals if the name of Allah has been mentioned on slaughtering them. Do not slaughter with teeth or fingernails and I will tell you why: It is because teeth are bones (i.e. cannot cut properly) and fingernails are the tools used by the Ethiopians (whom we should not imitate for they are infidels)."

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہﷺکے ساتھ مقام ذو الحلیفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ لوگوں کو بھوک لگی ،ادھر (غنیمت میں) اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺلشکر کے پیچھے کے لوگوں میں تھے ۔ لوگوں نے جلدی کی اور (تقسیم سے قبل ہی ) ذبح کرکے ہانڈیاں چڑھادیں۔ لیکن بعد میں نبیﷺنے حکم دیا اور وہ ہانڈیاں الٹا دی گئیں ۔ پھر آپﷺنے ان کو تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا ۔ ایک اونٹ اس میں سے بھاگ گیا تو لوگ اسے پکڑنے کی کوشش کرنے لگی ۔ لیکن اس نے سب کو تھکادیا ۔ قوم کے پاس گھوڑے کم تھے ۔ ایک صحابی تیر لے کر اونٹ کی طرف جھپٹے تو اللہ نے اس کو ٹھہرادیا ۔ پھر آپﷺنے فرمایا: ان جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح سرکشی ہوتی ہے ۔اس لیے ان جانوروں میں سے بھی اگر کوئی تمہیں عاجز کردے تو اس کے ساتھ تم ایسا ہی معاملہ کیا کرو۔ پھر میرے دادا نے عرض کیا کہ کل دشمن کے حملہ کا خوف ہے ، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں (تلواروں سے ذبح کریں تو ان کے خراب ہونے کا ڈر ہے جب کہ جنگ سامنے ہے) کیا ہم بانس کے کھپچی سے ذبح کرسکتے ہیں ؟ آپﷺنے فرمایا: جو چیز بھی خون بہادے اور ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کا نام بھی لیا گیا ہو تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔سوائے دانت اور ناخن کے ، اس کی وجہ میں تمہیں بتاتا ہوں ۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔

4. باب الْقِرَانِ فِي التَّمْرِ بَيْنَ الشُّرَكَاءِ حَتَّى يَسْتَأْذِنَ أَصْحَابَهُ

حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ نَهَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَقْرُنَ الرَّجُلُ بَيْنَ التَّمْرَتَيْنِ جَمِيعًا، حَتَّى يَسْتَأْذِنَ أَصْحَابَهُ‏

Narrated By Ibn 'Umar : The Prophet decreed that one should not eat two dates together at a time unless he gets the permission from his companions (sharing the meal with him).

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: نبیﷺنے اس سے منع فرمایا تھا کہ کوئی شخص اپنے ساتھیوں کے اجازت کے بغیر (دسترخوان پر ) دو دو کھجور ایک ساتھ ملاکر کھائے۔


حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَبَلَةَ، قَالَ كُنَّا بِالْمَدِينَةِ فَأَصَابَتْنَا سَنَةٌ، فَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَرْزُقُنَا التَّمْرَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَمُرُّ بِنَا فَيَقُولُ لاَ تَقْرُنُوا فَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنِ الإِقْرَانِ، إِلاَّ أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ مِنْكُمْ أَخَاهُ‏

Narrated By Jabala : "While at Medina we were struck with famine. Ibn Az-Zubair used to provide us with dates as our food. Ibn 'Umar used to pass by us and say, "Don't eat two dates together at a time as the Prophet has forbidden eating two dates together at a time (in a gathering) unless one takes the permission of one's companion brother."

حضرت جبلہ نے بیان کیا کہ ہمارا قیام مدینہ میں تھا اور ہم پر قحط کا دور دورہ ہوا ۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہمیں کھجور کھانےکےلیے دیتے تھے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ گذرتے ہوئے یہ کہہ جایا کرتے تھے کہ دو دو کھجور ایک ساتھ ملاکر نہ کھانا کیونکہ نبیﷺنے اپنے دوسرے ساتھی کی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔

5. باب تَقْوِيمِ الأَشْيَاءِ بَيْنَ الشُّرَكَاءِ بِقِيمَةِ عَدْلٍ

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ أَعْتَقَ شِقْصًا لَهُ مِنْ عَبْدٍ ـ أَوْ شِرْكًا أَوْ قَالَ نَصِيبًا ـ وَكَانَ لَهُ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَهُ بِقِيمَةِ الْعَدْلِ، فَهْوَ عَتِيقٌ، وَإِلاَّ فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ ‏"‏‏.‏ قَالَ لاَ أَدْرِي قَوْلُهُ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ‏.‏ قَوْلٌ مِنْ نَافِعٍ أَوْ فِي الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏

Narrated By Nafi : Ibn 'Umar said, "Allah's Apostle said, 'If one manumits his share of a jointly possessed slave, and can afford the price of the other shares according to the adequate price of the slave, the slave will be completely manumitted; otherwise he will be partially manumitted.' " (Aiyub, a sub-narrator is not sure whether the saying"... otherwise he will be partially manumitted" was said by Nafi' or the Prophet.)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا: جو شخص مشترک غلام میں اپنا حصہ آزاد کردے اور اس کے پاس سارے غلام کی قیمت کے موافق مال ہو تو وہ پورا آزاد ہوجائے گا۔ اگر اتنا مال نہ ہو تو بس جتنا حصہ اس کا تھا اتنا ہی آزاد ہوا۔ راوی ایوب نے کہا: یہ مجھے معلوم نہیں کہ روایت کا یہ آخری حصہ "غلام کا وہی حصہ آزاد ہوگا جو اس نے آزاد کیا ہے"یہ نافع کا اپنا قول ہے یا نبی ﷺکی حدیث میں داخل ہے۔


حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ أَعْتَقَ شَقِيصًا مِنْ مَمْلُوكِهِ فَعَلَيْهِ خَلاَصُهُ فِي مَالِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ قُوِّمَ الْمَمْلُوكُ، قِيمَةَ عَدْلٍ ثُمَّ اسْتُسْعِيَ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ ‏"

Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "Whoever manumits his share of a jointly possessed slave, it is imperative for him to get that slave manumitted completely by paying the remaining price, and if he does not have sufficient money to manumit him, then the price of the slave should be estimated justly, and he is to be allowed to work and earn the amount that will manumit him (without overburdening him)".

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: جو آدمی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردے تو اس کےلیے ضروری ہے کہ اپنے مال سے غلام کو پوری آزادی دلادے۔ لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو انصاف کے ساتھ غلام کی قیمت لگائی جائے۔پھر غلام سے کہا جائے کہ (اپنی آزادی کی) کوشش میں وہ باقی حصہ کی قیمت خود کما کر ادا کرلے۔ لیکن غلام پر اس کےلیے کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے۔

6. باب هَلْ يُقْرَعُ فِي الْقِسْمَةِ وَالاِسْتِهَامِ فِيهِ

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلاَهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ فَقَالُوا لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا، وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا‏.‏ فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِيعًا ‏"‏‏

Narrated By An-Nu'man bin Bashir : The Prophet said, "The example of the person abiding by Allah's order and restrictions in comparison to those who violate them is like the example of those persons who drew lots for their seats in a boat. Some of them got seats in the upper part, and the others in the lower. When the latter needed water, they had to go up to bring water (and that troubled the others), so they said, 'Let us make a hole in our share of the ship (and get water) saving those who are above us from troubling them. So, if the people in the upper part left the others do what they had suggested, all the people of the ship would be destroyed, but if they prevented them, both parties would be safe."

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے (یعنی خلاف کرنے والے) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ ملا ، اور بعض کو نیچے کا ، پس جو لوگ نیچے والے تھے ، انہیں پانی لینے کےلیے اوپر والوں کے اوپر سے گزرنا پرتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کرلیں۔ تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہوجائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کاہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی۔

7. باب شَرِكَةِ الْيَتِيمِ وَأَهْلِ الْمِيرَاثِ

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَامِرِيُّ الأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏وَإِنْ خِفْتُمْ‏}‏ إِلَى ‏{‏وَرُبَاعَ‏}‏‏.‏ فَقَالَتْ يَا ابْنَ أُخْتِي هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا تُشَارِكُهُ فِي مَالِهِ، فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا، فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، فَيُعْطِيهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ إِلاَّ أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ‏.‏ قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ هَذِهِ الآيَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ‏}‏ وَالَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ أَنَّهُ يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ الآيَةُ الأُولَى الَّتِي قَالَ فِيهَا ‏{‏وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ‏}‏ قَالَتْ عَائِشَةُ وَقَوْلُ اللَّهِ فِي الآيَةِ الأُخْرَى ‏{‏وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ‏}‏ يَعْنِي هِيَ رَغْبَةُ أَحَدِكُمْ لِيَتِيمَتِهِ الَّتِي تَكُونُ فِي حَجْرِهِ، حِينَ تَكُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا وَجَمَالِهَا مِنْ يَتَامَى النِّسَاءِ إِلاَّ بِالْقِسْطِ مِنْ، أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ‏

Narrated By 'Urwa bin Az-Zubair : That he had asked 'Aisha about the meaning of the Statement of Allah: "If you fear that you shall not Be able to deal justly With the orphan girls, then Marry (Other) women of your choice Two or three or four." (4.3) She said, "O my nephew! This is about the orphan girl who lives with her guardian and shares his property. Her wealth and beauty may tempt him to marry her without giving her an adequate Mahr (bridal-money) which might have been given by another suitor. So, such guardians were forbidden to marry such orphan girls unless they treated them justly and gave them the most suitable Mahr; otherwise they were ordered to marry any other woman." 'Aisha further said, "After that verse the people again asked the Prophet (about the marriage with orphan 'girls), so Allah revealed the following verses: 'They ask your instruction Concerning the women. Say: Allah Instructs you about them And about what is Recited unto you In the Book, concerning The orphan girls to whom You give not the prescribed portions and yet whom you Desire to marry..." (4.127) What is meant by Allah's Saying: 'And about what is Recited unto you is the former verse which goes: 'If you fear that you shall not Be able to deal justly With the orphan girls, then Marry (other) women of your choice.' (4.3) 'Aisha said, "Allah's saying in the other verse: 'Yet whom you desire to marry' (4.127) means the desire of the guardian to marry an orphan girl under his supervision when she has not much property or beauty (in which case he should treat her justly). The guardians were forbidden to marry their orphan girls possessing property and beauty without being just to them, as they generally refrain from marrying them (when they are neither beautiful nor wealthy)."

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے (سورۂ نساء میں) اس آیت کے بارے میں پوچھا: "اگر تم کو یتیموں میں انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو جو عورتیں پسند آئیں دو دو تین تین چار چار نکاح میں لاؤ" انہوں نے کہا: میرے بھانجے یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی کی پرورش میں ہو ، اور ترکے کے مال میں اس کے شریک ہو اور وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی پر فریفتہ ہوکر اس سے نکاح کرلینا چاہے لیکن پورا مہر انصاف سےجتنا اس کو اور جگہ ملتا وہ نہ دے، تو اسے اس سے منع کردیا گیا کہ ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ان کے ولی انصاف کرسکیں اور ان کی حسب حیثیت بہتر سے بہتر طرز عمل مہر کے بارے میں اختیار کریں (تو اس صورت میں نکاح کرنے کی اجازت ہے) اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے سوا جو بھی عورت انہیں پسند ہو ان سے وہ نکاح کرسکتے ہیں ۔ حضرت عروہ بن زبیر نے کہا: حضرت عائشہ ر ضی اللہ عنہا نے بتلایا۔پھر لوگوں نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد (ایسی لڑکیوں سے نکاح کی اجازت کے بارے میں) مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی "اور آپ سے عورتوں کے بارے میں یہ لوگ سوال کرتے ہیں " آگے فرمایا: اور تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو۔ یہ جو اس آیت میں ہے اور جو قرآن میں تم پر پڑھا جاتا ہے اس سے مراد پہلی آیت ہے۔ یعنی " اگر تم کو یتیموں میں انصار نہ ہوسکنے کا ڈر ہو تو دوسری عورتیں جو بھلی لگیں ان سے نکاح کرلو۔ "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یہ جو اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا: اور تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو اس سے یہ غرض ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری پرورش میں ہو اور مال اور جمال کم رکھتی ہو اس سے تو تم نفرت کرتے ہو، اس لیے جس یتیم لڑکی کے مال اور جمال میں تم کو رغبت ہو اس سے بھی نکاح نہ کرو مگر اس صورت میں جب انصاف کے ساتھ ان کا پورا مہر دو۔

8. باب الشَّرِكَةِ فِي الأَرَضِينَ وَغَيْرِهَا

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلاَ شُفْعَةَ‏

Narrated By Jabir bin 'Abdullah : The Prophet established the right of Shu'fa (i.e. Pre-emption) in joint properties; but when the land is divided and the ways are demarcated, then there is no pre-emption.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے شفعہ کا حق ایسے اموال میں دیا تھا جن کی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب اس کی حد بندی ہوجائے اور راستے بھی بدل دئیے جائیں تو پھر شفعہ کا کوئی حق باقی نہیں رہے گا۔

9. باب إِذَا اقْتَسَمَ الشُّرَكَاءُ الدُّورَ أَوْ غَيْرَهَا فَلَيْسَ لَهُمْ رُجُوعٌ وَلاَ شُفْعَةٌ

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَضَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلاَ شُفْعَةَ‏

Narrated By Jabir bin 'Abdullah : The Prophet said, "The right of pre-emption is valid in every joint property, but when the land is divided and the way is demarcated, then there is no right of pre-emption."

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: نبی ﷺنےہر اس جائداد میں شفعہ کا حق دیا تھا جس کی شرکاء میں ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔لیکن اگر حد بندی ہوجائے اور راستے الگ ہوجائیں تو پھر شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا۔

10. باب الاِشْتِرَاكِ فِي الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَمَا يَكُونُ فِيهِ الصَّرْفُ

حَدَّثَنى عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ الأَسْوَدِ، قَالَ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْمِنْهَالِ عَنِ الصَّرْفِ، يَدًا بِيَدٍ فَقَالَ اشْتَرَيْتُ أَنَا وَشَرِيكٌ، لِي شَيْئًا يَدًا بِيَدٍ وَنَسِيئَةً، فَجَاءَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ فَسَأَلْنَاهُ، فَقَالَ فَعَلْتُ أَنَا وَشَرِيكِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، وَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ ‏"‏ مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَخُذُوهُ، وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَذَرُوهُ ‏"‏‏

Narrated By Sulaiman bin Abu Muslim : I asked Abu Minhal about money exchange from hand to hand. He said, "I and a partner of mine bought something partly in cash and partly on credit." Al-Bara' bin 'Azib passed by us and we asked about it. He replied, "I and my partner Zaid bin Al-Arqam did the same and then went to the Prophet and asked him about it. He said, 'Take what was from hand to hand and leave what was on credit.'"

سلیمان بن ابی مسلم نے خبر دی کہ انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو المنہال سے بیع صرف نقد کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے ایک شریک نے کوئی چیز نقد پر اور ادھار پر بھی خریدی ۔پھر ہمارے ہاں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو ہم نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے اور میرے شریک زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بھی یہ بیع کی تھی اور ہم نے اس کے متعلق رسول اللہﷺسے پوچھا تھاتو آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ جو نقد ہو وہ لے لو اور جو ادھار ہو اسے چھوڑ دو۔


حَدَّثَنى عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ الأَسْوَدِ، قَالَ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْمِنْهَالِ عَنِ الصَّرْفِ، يَدًا بِيَدٍ فَقَالَ اشْتَرَيْتُ أَنَا وَشَرِيكٌ، لِي شَيْئًا يَدًا بِيَدٍ وَنَسِيئَةً، فَجَاءَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ فَسَأَلْنَاهُ، فَقَالَ فَعَلْتُ أَنَا وَشَرِيكِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، وَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ ‏"‏ مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَخُذُوهُ، وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَذَرُوهُ ‏"‏‏

Narrated By Sulaiman bin Abu Muslim : I asked Abu Minhal about money exchange from hand to hand. He said, "I and a partner of mine bought something partly in cash and partly on credit." Al-Bara' bin 'Azib passed by us and we asked about it. He replied, "I and my partner Zaid bin Al-Arqam did the same and then went to the Prophet and asked him about it. He said, 'Take what was from hand to hand and leave what was on credit.'"

سلیمان بن ابی مسلم نے خبر دی کہ انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو المنہال سے بیع صرف نقد کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے ایک شریک نے کوئی چیز نقد پر اور ادھار پر بھی خریدی ۔پھر ہمارے ہاں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو ہم نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے اور میرے شریک زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بھی یہ بیع کی تھی اور ہم نے اس کے متعلق رسول اللہﷺسے پوچھا تھاتو آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ جو نقد ہو وہ لے لو اور جو ادھار ہو اسے چھوڑ دو۔

12