- احادیثِ نبوی ﷺ

 

1. باب الْكَفَالَةِ فِي الْقَرْضِ وَالدُّيُونِ بِالأَبْدَانِ وَغَيْرِهَا

وَقَالَ أَبُو الزِّنَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ بَعَثَهُ مُصَدِّقًا، فَوَقَعَ رَجُلٌ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، فَأَخَذَ حَمْزَةُ مِنَ الرَّجُلِ كَفِيلاً حَتَّى قَدِمَ عَلَى عُمَرَ، وَكَانَ عُمَرُ قَدْ جَلَدَهُ مِائَةَ جَلْدَةٍ، فَصَدَّقَهُمْ، وَعَذَرَهُ بِالْجَهَالَةِ‏.‏ وَقَالَ جَرِيرٌ وَالأَشْعَثُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فِي الْمُرْتَدِّينَ اسْتَتِبْهُمْ، وَكَفِّلْهُمْ‏.‏ فَتَابُوا وَكَفَلَهُمْ عَشَائِرُهُمْ‏.‏ وَقَالَ حَمَّادٌ إِذَا تَكَفَّلَ بِنَفْسٍ فَمَاتَ فَلاَ شَىْءَ عَلَيْهِ‏.‏ وَقَالَ الْحَكَمُ يَضْمَنُ‏.‏

Narrated by Muhammad bin Amr Al-Aslami that his father Hamza said:'Umar R.A. sent him (i.e.Hamza) as a sadaqah collector.A man had committed illegal sexual intercourse with the slave-girl of his wife.Hamza took(personal)surities for the adulterer till they came to Umar.Umar had lashed the adulterer one hundered lashes.Umar confirmed their claim(that the adulterer had already been punished)and excused him because of being ignorent.

حمزہ بن عمرو اسلمی سےروایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں زکاۃ وصول کرنے کےلیے بھیجا وہاں ایک آدمی نے اپنی بیوی کی باندی سے ہم بستری کرلی۔ حمزہ نے اس کی ایک شخص سے پہلے ضمانت لی، یہاں تک کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو سو کوڑوں کی سزا دی تھی۔ اس آدمی نے جو جرم اس پر لگا تھا، اس کو قبول کیا تھا لیکن جہالت کا عذر کیا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ نے اس کو معذور رکھا تھا۔ اور جریر اور اشعث نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرتدوں کے بارے میں کہا کہ ان سے توبہ کرائیے او ران کی ضمانت طلب کیجئے ۔ چنانچہ انہوں نے توبہ کرلی اور ضمانت خود انہیں کے قبیلہ والوں نے دے دی۔ حماد نے کہا: جس کا حاضر ضامن ہوا گر وہ مرجائے تو ضامن پر کچھ تاوان نہ ہوگا لیکن حکم نے کہا: کہ ذمہ کا مال دینا پڑے گا۔


قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلاً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ، فَقَالَ ائْتِنِي بِالشُّهَدَاءِ أُشْهِدُهُمْ‏.‏ فَقَالَ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا‏.‏ قَالَ فَأْتِنِي بِالْكَفِيلِ‏.‏ قَالَ كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلاً‏.‏ قَالَ صَدَقْتَ‏.‏ فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَخَرَجَ فِي الْبَحْرِ، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ الْتَمَسَ مَرْكَبًا يَرْكَبُهَا، يَقْدَمُ عَلَيْهِ لِلأَجَلِ الَّذِي أَجَّلَهُ، فَلَمْ يَجِدْ مَرْكَبًا، فَأَخَذَ خَشَبَةً، فَنَقَرَهَا فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ، وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ، ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا، ثُمَّ أَتَى بِهَا إِلَى الْبَحْرِ، فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلاَنًا أَلْفَ دِينَارٍ، فَسَأَلَنِي كَفِيلاً، فَقُلْتُ كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلاً، فَرَضِيَ بِكَ، وَسَأَلَنِي شَهِيدًا، فَقُلْتُ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، فَرَضِيَ بِكَ، وَأَنِّي جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا، أَبْعَثُ إِلَيْهِ الَّذِي لَهُ فَلَمْ أَقْدِرْ، وَإِنِّي أَسْتَوْدِعُكَهَا‏.‏ فَرَمَى بِهَا فِي الْبَحْرِ حَتَّى وَلَجَتْ فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، وَهْوَ فِي ذَلِكَ يَلْتَمِسُ مَرْكَبًا، يَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ، يَنْظُرُ لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، فَإِذَا بِالْخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا الْمَالُ، فَأَخَذَهَا لأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ وَالصَّحِيفَةَ، ثُمَّ قَدِمَ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ، فَأَتَى بِالأَلْفِ دِينَارٍ، فَقَالَ وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِي طَلَبِ مَرْكَبٍ لآتِيَكَ بِمَالِكَ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي أَتَيْتُ فِيهِ‏.‏ قَالَ هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَىَّ بِشَىْءٍ قَالَ أُخْبِرُكَ أَنِّي لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي جِئْتُ فِيهِ‏.‏ قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ فِي الْخَشَبَةِ فَانْصَرِفْ بِالأَلْفِ الدِّينَارِ رَاشِدًا ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "An Israeli man asked another Israeli to lend him one thousand Dinars. The second man required witnesses. The former replied, 'Allah is sufficient as a witness.' The second said, 'I want a surety.' The former replied, 'Allah is sufficient as a surety.' The second said, 'You are right,' and lent him the money for a certain period. The debtor went across the sea. When he finished his job, he searched for a conveyance so that he might reach in time for the repayment of the debt, but he could not find any. So, he took a piece of wood and made a hole in it, inserted in it one thousand Dinars and a letter to the lender and then closed (i.e. sealed) the hole tightly. He took the piece of wood to the sea and said. 'O Allah! You know well that I took a loan of one thousand Dinars from so-and-so. He demanded a surety from me but I told him that Allah's Guarantee was sufficient and he accepted Your guarantee. He then asked for a witness and I told him that Allah was sufficient as a Witness, and he accepted You as a Witness. No doubt, I tried hard to find a conveyance so that I could pay his money but could not find, so I hand over this money to You.' Saying that, he threw the piece of wood into the sea till it went out far into it, and then he went away. Meanwhile he started searching for a conveyance in order to reach the creditor's country. One day the lender came out of his house to see whether a ship had arrived bringing his money, and all of a sudden he saw the piece of wood in which his money had been deposited. He took it home to use for fire. When he sawed it, he found his money and the letter inside it. Shortly after that, the debtor came bringing one thousand Dinars to him and said, 'By Allah, I had been trying hard to get a boat so that I could bring you your money, but failed to get one before the one I have come by.' The lender asked, 'Have you sent something to me?' The debtor replied, 'I have told you I could not get a boat other than the one I have come by.' The lender said, 'Allah has delivered on your behalf the money you sent in the piece of wood. So, you may keep your one thousand Dinars and depart guided on the right path.'"

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے بنی اسرائیل کے ایک آدمی کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا ؤجن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو ۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا: اچھا کوئی ضامن لا ؤ ، قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا: تو نے سچی بات کہی۔چنانچہ اس نے ایک مقررہ مدت کےلیے اس کو قرض دے دیا ۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے ،اور پھر اپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کرکے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔(اور اس کا قرض ادا کردے ) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر اس نے ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا ۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف (یہ دینار بھیجے جارہے ہیں)اور اس کا منہ بند کردیا ، اور اسے دریا پر لے آئے ۔ پھر کہا: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تھے ۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا ، تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے ، اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا ۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہے ۔ تو وہ مجھ پر راضی ہوگیا ، اور (تو جانتا ہے کہ ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک پہنچا سکوں ۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں ۔ چنانچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہادی ۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب (قرض دار ) واپس ہوچکے تھے ۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کسی طرح کوئی جہاز ملے جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جا سکیں ۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں(بندر گاہ ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کامال لے کر آیا ہو۔لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی ، وہی جس میں مال تھا ۔ انہوں نے وہ لکڑی اپنے گھر کے ایندھن کےلیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینار نکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ (کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے) تو قرض خواہ کے گھر آئے ۔ اور (یہ خیال کر کے کہ شاید وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ ) ایک ہزار دینار ان کی خدمت میں پیش کردئیے اور کہا کہ قسم اللہ کی !میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارے پاس تمہارا مال لے کر پہنچوں ۔ لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کےلیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی ؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں کہ آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں ۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرض ادا کردیا ۔جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔

2. باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ‏}‏

حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِدْرِيسَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما – ‏{‏وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ‏}‏ قَالَ وَرَثَةً ‏{‏وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ‏}‏ قَالَ كَانَ الْمُهَاجِرُونَ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَرِثُ الْمُهَاجِرُ الأَنْصَارِيَّ دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ لِلأُخُوَّةِ الَّتِي آخَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ‏}‏ نَسَخَتْ، ثُمَّ قَالَ ‏{‏وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ ‏}‏ إِلاَّ النَّصْرَ وَالرِّفَادَةَ وَالنَّصِيحَةَ، وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ وَيُوصِي لَهُ‏.‏

Narrated By Said bin Jubair : Ibn Abbas said, "In the verse: To every one We have appointed ' (Muwaliya Mawaliya means one's) heirs (4.33).' (And regarding the verse) 'And those with whom your right hands have made a pledge.' Ibn 'Abbas said, "When the emigrants came to the Prophet in Medina, the emigrant would inherit the Ansari while the latter's relatives would not inherit him because of the bond of brotherhood which the Prophet established between them (i.e. the emigrants and the Ansar). When the verse: 'And to everyone We have appointed heirs' (4.33) was revealed, it cancelled (the bond (the pledge) of brotherhood regarding inheritance)." Then he said, "The verse: To those also to whom your right hands have pledged, remained valid regarding co-operation and mutual advice, while the matter of inheritance was excluded and it became permissible to assign something in one's testament to the person who had the right of inheriting before.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (قرآن مجید کی آیت ) "لکل جعلنا موالی" کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ (موالی کے معنیٰ) ورثہ کے ہیں ۔ اور "والذین عقدت ایمانکم " کا قصہ یہ ہے کہ مہاجرین جب مدینہ آئے تو مہاجر انصار کا ترکہ پاتے تھے ، اور انصاری کے ناتہ داروں کو کچھ نہ ملتا ۔ اس بھائی چارہ کی وجہ سے جو نبیﷺنے قائم کی ہوئی تھی۔پھر جب آیت" ولکل جعلنا موالی" نازل ہوئی تو پہلی آیت " والذین عقت ایمانکم" منسوخ ہوگئی ۔ سوائے امداد، تعاون اور خیرخواہی کے ۔ البتہ میراث کا حکم (جو انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخاۃ کی وجہ سے تھا) وہ منسوخ ہوگیا ۔اور وصیت جتنی چاہے کی جاسکتی ہے۔ (جیسی اور شخصوں کےلیے بھی ہوسکتی ہے ۔ تہائی ترکہ میں سے وصیت کی جاسکتی ہے جس کا نفاذ کیا جائے گا)


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ‏.‏

Narrated By Anas : Abdur-Rahman bin 'Auf came to us and Allah's Apostle established a bond of brotherhood between him and Sad bin Rabi'a.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (مکہ سے ہجرت کرکے) آئے تو رسول اللہﷺ نےان میں اور سعد بن ربیع میں بھائی چارہ کرا دیا ۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ قُلْتُ لأَنَسٍ رضى الله عنه أَبَلَغَكَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ لاَ حِلْفَ فِي الإِسْلاَمِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ قَدْ حَالَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ قُرَيْشٍ وَالأَنْصَارِ فِي دَارِي‏.‏

Narrated By Asim : I heard Anas bin Malik, "Have you ever heard that the Prophet said, 'There is no alliance in Islam?' " He replied, "The Prophet made alliance between Quarish and the Ansar in my house."

عاصم بن سلیمان نے بیان کیا کہ میں میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ نبیﷺنے ارشار فرمایا تھا: اسلام میں جاہلیت والے عہد و پیمان نہیں ہیں ۔ تو انہوں نے کہا کہ نبی ﷺنے تو خود انصار اور قریش کے درمیان میرے گھر میں عہد و پیمان کرایا تھا۔

3. باب مَنْ تَكَفَّلَ عَنْ مَيِّتٍ، دَيْنًا فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ،‏

وَبِهِ قَالَ الْحَسَنُ

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أُتِيَ بِجَنَازَةٍ، لِيُصَلِّيَ عَلَيْهَا، فَقَالَ ‏"‏ هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ ‏"‏‏.‏ قَالُوا لاَ‏.‏ فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالَ ‏"‏ هَلْ عَلَيْهِ مَنْ دَيْنٍ ‏"‏‏.‏ قَالُوا نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ ‏"‏‏.‏ قَالَ أَبُو قَتَادَةَ عَلَىَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَصَلَّى عَلَيْهِ‏.‏

Narrated By Salama bin Al-Akwa : A dead person was brought to the Prophet so that he might lead the funeral prayer for him. He asked, "Is he in debt?" When the people replied in the negative, he led the funeral prayer. Another dead person was brought and he asked, "Is he in debt?" They said, "Yes." He (refused to lead the prayer and) said, "Lead the prayer of your friend." Abu Qatada said, "O Allah's Apostle! I undertake to pay his debt." Allah's Apostle then led his funeral prayer.

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺکے یہاں نماز پڑھنے کےلیے کسی کا جنازہ آیا ۔ آپﷺنے دریافت فرمایا کیا اس میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا: نہیں، آپﷺنے ان کی نماز جنازہ پڑھادی ۔ پھر ایک جنازہ آیا آپﷺنے دریافت فرمایا میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا: ہاں تھا یہ سن کر آپﷺنے فرمایا: کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی نماز پڑھ لو،حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ!ان کا قرض میں ادا کردوں گا تب آپﷺنے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهم ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ، قَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا ‏"‏‏.‏ فَلَمْ يَجِئْ مَالُ الْبَحْرَيْنِ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَلَمَّا جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ أَمَرَ أَبُو بَكْرٍ فَنَادَى مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عِدَةٌ أَوْ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا‏.‏ فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لِي كَذَا وَكَذَا، فَحَثَى لِي حَثْيَةً فَعَدَدْتُهَا فَإِذَا هِيَ خَمْسُمِائَةٍ، وَقَالَ خُذْ مِثْلَيْهَا‏.‏

Narrated By Jabir bin 'Abdullah : Once the Prophet said (to me), "If the money of Bahrain comes, I will give you a certain amount of it." The Prophet had breathed his last before the money of Bahrain arrived. When the money of Bahrain reached, Abu Bakr announced, "Whoever was promised by the Prophet should come to us." I went to Abu Bakr and said, "The Prophet promised me so and so." Abu Bakr gave me a handful of coins and when I counted them, they were five-hundred in number. Abu Bakr then said, "Take twice the amount you have taken (besides)."

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے فرمایا: اگر بحرین سے (جزیہ کا ) مال آیا تو میں تمہیں اس طرح دونوں لپ بھر بھر کر د وں گا لیکن بحرین سے مال نبیﷺکی وفات تک نہیں آیا پھر جب اس کے بعد وہاں سے مال آیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اعلان کرادیا کہ جس سے بھی نبیﷺ کا کوئی وعدہ ہو یا آپ ﷺپر کسی کا قرض ہو وہ ہمارے یہاں آجائے ۔ چنانچہ میں حاضر ہوا ، اور میں نے عرض کیا کہ نبیﷺنے مجھ سے یہ وہ باتیں فرمائی تھیں جسے سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا ۔ میں نے اسے شمار کیا تو وہ پانچ سو کی رقم تھی۔ پھر فرمایا : اس کے دو گنا اور لے لو۔

4. باب جِوَارِ أَبِي بَكْرٍ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَعَقْدِهِ

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَىَّ إِلاَّ وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ‏.‏ وَقَالَ أَبُو صَالِحٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَىَّ قَطُّ، إِلاَّ وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلاَّ يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَرَفَىِ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، فَلَمَّا ابْتُلِيَ الْمُسْلِمُونَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا قِبَلَ الْحَبَشَةِ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَرْكَ الْغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ ـ وَهْوَ سَيِّدُ الْقَارَةِ ـ فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَخْرَجَنِي قَوْمِي فَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسِيحَ فِي الأَرْضِ فَأَعْبُدَ رَبِّي‏.‏ قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ إِنَّ مِثْلَكَ لاَ يَخْرُجُ وَلاَ يُخْرَجُ، فَإِنَّكَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ، وَأَنَا لَكَ جَارٌ فَارْجِعْ فَاعْبُدْ رَبَّكَ بِبِلاَدِكَ‏.‏ فَارْتَحَلَ ابْنُ الدَّغِنَةِ، فَرَجَعَ مَعَ أَبِي بَكْرٍ، فَطَافَ فِي أَشْرَافِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، فَقَالَ لَهُمْ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لاَ يَخْرُجُ مِثْلُهُ، وَلاَ يُخْرَجُ، أَتُخْرِجُونَ رَجُلاً يُكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَيَصِلُ الرَّحِمَ، وَيَحْمِلُ الْكَلَّ، وَيَقْرِي الضَّيْفَ، وَيُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ‏.‏ فَأَنْفَذَتْ قُرَيْشٌ جِوَارَ ابْنِ الدَّغِنَةِ وَآمَنُوا أَبَا بَكْرٍ وَقَالُوا لاِبْنِ الدَّغِنَةِ مُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيَعْبُدْ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، فَلْيُصَلِّ وَلْيَقْرَأْ مَا شَاءَ، وَلاَ يُؤْذِينَا بِذَلِكَ، وَلاَ يَسْتَعْلِنْ بِهِ، فَإِنَّا قَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا‏.‏ قَالَ ذَلِكَ ابْنُ الدَّغِنَةِ لأَبِي بَكْرٍ، فَطَفِقَ أَبُو بَكْرٍ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، وَلاَ يَسْتَعْلِنُ بِالصَّلاَةِ وَلاَ الْقِرَاءَةِ فِي غَيْرِ دَارِهِ، ثُمَّ بَدَا لأَبِي بَكْرٍ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ، وَبَرَزَ فَكَانَ يُصَلِّي فِيهِ، وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَيَتَقَصَّفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ الْمُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ، يَعْجَبُونَ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلاً بَكَّاءً لاَ يَمْلِكُ دَمْعَهُ حِينَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَأَفْزَعَ ذَلِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَأَرْسَلُوا إِلَى ابْنِ الدَّغِنَةِ فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا لَهُ إِنَّا كُنَّا أَجَرْنَا أَبَا بَكْرٍ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، وَإِنَّهُ جَاوَزَ ذَلِكَ، فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ، وَأَعْلَنَ الصَّلاَةَ وَالْقِرَاءَةَ، وَقَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا، فَأْتِهِ فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَعَلَ، وَإِنْ أَبَى إِلاَّ أَنْ يُعْلِنَ ذَلِكَ فَسَلْهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْكَ ذِمَّتَكَ، فَإِنَّا كَرِهْنَا أَنْ نُخْفِرَكَ، وَلَسْنَا مُقِرِّينَ لأَبِي بَكْرٍ الاِسْتِعْلاَنَ‏.‏ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَتَى ابْنُ الدَّغِنَةِ أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ قَدْ عَلِمْتَ الَّذِي عَقَدْتُ لَكَ عَلَيْهِ، فَإِمَّا أَنْ تَقْتَصِرَ عَلَى ذَلِكَ وَإِمَّا أَنْ تَرُدَّ إِلَىَّ ذِمَّتِي، فَإِنِّي لاَ أُحِبُّ أَنْ تَسْمَعَ الْعَرَبُ أَنِّي أُخْفِرْتُ فِي رَجُلٍ عَقَدْتُ لَهُ‏.‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنِّي أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ، وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ‏.‏ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قَدْ أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، رَأَيْتُ سَبْخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لاَبَتَيْنِ ‏"‏‏.‏ وَهُمَا الْحَرَّتَانِ، فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِينَةِ حِينَ ذَكَرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَرَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ بَعْضُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ، وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ عَلَى رِسْلِكَ فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي ‏"‏‏.‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ هَلْ تَرْجُو ذَلِكَ بِأَبِي أَنْتَ قَالَ ‏"‏ نَعَمْ ‏"‏‏.‏ فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِيَصْحَبَهُ وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ‏.‏

Narrated By 'Aisha : (Wife of the Prophet) Since I reached the age when I could remember things, I have seen my parents worshipping according to the right faith of Islam. Not a single day passed but Allah's Apostle visited us both in the morning and in the evening. When the Muslims were persecuted, Abu Bakr set out for Ethiopia as an emigrant. When he reached a place called Bark-al-Ghimad, he met Ibn Ad-Daghna, the chief of the Qara tribe, who asked Abu Bakr, "Where are you going?" Abu Bakr said, "My people have turned me out of the country and I would like to tour the world and worship my Lord." Ibn Ad-Daghna said, "A man like you will not go out, nor will he be turned out as you help the poor earn their living, keep good relation with your Kith and kin, help the disabled (or the dependents), provide guests with food and shelter, and help people during their troubles. I am your protector. So, go back and worship your Lord at your home." Ibn Ad-Daghna went along with Abu Bakr and took him to the chiefs of Quraish saying to them, "A man like Abu Bakr will not go out, nor will he be turned out. Do you turn out a man who helps the poor earn their living, keeps good relations with Kith and kin, helps the disabled, provides guests with food and shelter, and helps the people during their troubles?" So, Quraish allowed Ibn Ad-Daghna's guarantee of protection and told Abu- Bakr that he was secure, and said to Ibn Ad-Daghna, "Advise Abu Bakr to worship his Lord in his house and to pray and read what he liked and not to hurt us and not to do these things publicly, for we fear that our sons and women may follow him." Ibn Ad-Daghna told Abu Bakr of all that, so Abu- Bakr continued worshipping his Lord in his house and did not pray or recite Qur'an aloud except in his house. Later on Abu Bakr had an idea of building a mosque in the court yard of his house. He fulfilled that idea and started praying and reciting Qur'an there publicly. The women and the offspring of the pagans started gathering around him and looking at him astonishingly. Abu Bakr was a soft-hearted person and could not help weeping while reciting Qur'an. This horrified the pagan chiefs of Quraish. They sent for Ibn Ad-Daghna and when he came, they said, "We have given Abu Bakr protection on condition that he will worship his Lord in his house, but he has transgressed that condition and has built a mosque in the court yard of his house and offered his prayer and recited Qur'an in public. We are afraid lest he mislead our women and offspring. So, go to him and tell him that if he wishes he can worship his Lord in his house only, and if not, then tell him to return your pledge of protection as we do not like to betray you by revoking your pledge, nor can we tolerate Abu Bakr's public declaration of Islam (his worshipping)." 'Aisha added: Ibn Ad-Daghna came to Abu Bakr and said, "You know the conditions on which I gave you protection, so you should either abide by those conditions or revoke my protection, as I do not like to hear the 'Arabs saying that Ibn Ad-Daghna gave the pledge of protection to a person and his people did not respect it." Abu Bakr said, "I revoke your pledge of protection and am satisfied with Allah's protection." At that time Allah's Apostle was still in Mecca and he said to his companions, "Your place of emigration has been shown to me. I have seen salty land, planted with date-palms and situated between two mountains which are the two, Harras." So, when the Prophet told it, some of the companions migrated to Medina, and some of those who had migrated to Ethiopia returned to Medina. When Abu Bakr prepared for emigration, Allah's Apostle said to him, "Wait, for I expect to be permitted to emigrate." Abu Bakr asked, "May my father be sacrificed for your sake, do you really expect that?" Allah's Apostle replied in the affirmative. So, Abu Bakr postponed his departure in order to accompany Allah's Apostle and fed two camels which he had, with the leaves of Samor trees for four months.

نبیﷺکی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام کا پیروکار پایا۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا جب رسول اللہﷺہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت جبشہ کا ارادہ کیا ۔ جب آب برک الغماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا : ابو بکر ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے ، اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں ۔ اس پر مالک ابن الدغنہ نے کہا: آپ جیسا انسان (اپنے وطن سے) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جاسکتا ہے ۔ آپ تو محتاجوں کےلیے کماتے ہیں ، صلہ رحمی کرتے ہیں ۔مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں ۔ مہمان نوازی کرتے ہیں ، اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں ۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں ۔ آپ چلیے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے ۔ چنانچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لے آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جیسا نیک آدمی نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جاسکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دوگے جو محتاجوں کےلیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سرپر لیتا ہے اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے ۔ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا ۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امان دے دی۔پھر ابن الدغنہ سے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس کی تاکید کردینا کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کرلیا کریں ۔ وہاں جس طرح چاہیں نماز پڑھیں ، اور قرآن کی تلاوت کریں۔ لیکن ہمیں ان چیزوں کی وجہ سے کوئی ایذا نہ دیں۔ اور نہ اس کا اظہار کریں۔ کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتین فتنہ میں نہ پڑجائیں۔ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سنائیں ۔ تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کرنے لگے ، نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کےلیے ایک جگہ بنالی۔اب آپ ظاہر ہوکر وہاں نماز پڑھنے لگے اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے ۔ پس پھر کیا تھا ، مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی رونے والے تھے ۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا ۔ اس صورت حال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے ، اورسب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا ۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے ۔ لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنالی ہے ۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں ۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑجائیں ۔ اس لیے اب تم ان کے پاس جاؤ اگر وہ اس پر تیار ہوجائیں کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کریں ، پھر تو کوئی بات نہیں ۔ لیکن اگر انہیں اس سے انکار ہو تو تم ان سے کہوکہ وہ تمہاری امان تمہیں واپس کردیں۔کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کو ہم توڑیں ۔ لیکن اس طرح انہیں اظہار اور اعلان بھی کرنے نہیں دیں گے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا : کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا ۔ اب یا آپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کردیں۔کیونکہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی لیکن وہ امان تو ڑ دی گئی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں ۔ میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں ، رسول اللہﷺان دنوں مکہ ہی میں موجود تھے ۔ آپﷺنے فرمایا: کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھلایا گیا ہے ۔ میں نے ایک کھاری نمکین زمین دیکھی ہے ، جہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ دو پتھریلے میدانوں کے درمیان میں ہے ۔جب رسول اللہﷺنے اس کا اظہار فرما دیا تو جن مسلمانوں نے ہجرت کرنی چاہی وہ پہلے ہی مدینہ ہجرت کرکے چلے گئے ۔ بلکہ بعض وہ صحابہ بھی جو حبشہ ہجرت کرکے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آگئے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا: جلدی نہ کرو۔امید ہے کہ مجھے بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! کیا آپ کو اس کی امید ہے ؟ آپﷺنے فرمایا: ہاں ضرور ! چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکا انتظار کرنے لگے ، تاکہ آپﷺکے ساتھ ہجرت کریں ۔ ان کے پاس دو اونٹ تھے ، انہیں چار مہینے تک وہ ببول کے پتے کھلاتے رہے۔

5. باب الدَّيْنِ

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّى عَلَيْهِ الدَّيْنُ فَيَسْأَلُ ‏"‏ هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ فَضْلاً ‏"‏‏.‏ فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ لِدَيْنِهِ وَفَاءً صَلَّى، وَإِلاَّ قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ ‏"‏ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ ‏"‏‏.‏ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ قَالَ ‏"‏ أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا فَعَلَىَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالاً فَلِوَرَثَتِهِ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Huraira : Whenever a dead man in debt was brought to Allah's Apostle he would ask, "Has he left anything to repay his debt?" If he was informed that he had left something to repay his debts, he would offer his funeral prayer, otherwise he would tell the Muslims to offer their friend's funeral prayer. When Allah made the Prophet wealthy through conquests, he said, "I am more rightful than other believers to be the guardian of the believers, so if a Muslim dies while in debt, I am responsible for the repayment of his debt, and whoever leaves wealth (after his death) it will belong to his heirs."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺکے پاس جب کسی ایسی میت کو لایا جاتا جس پر کسی کا قرض ہوتا تو آپﷺفرماتے کہ کیا اس نے اپنے قرض کے ادا کرنے کےلیے بھی کچھ چھوڑا ہے ؟ پھر اگر کوئی آپ کو بتادیتا کہ ہاں اتنا مال ہے جس سے قرض ادا ہوسکتا ہے توآپ اس کی نماز پڑھانے ، ورنہ آپﷺمسلمانوں ہی سے فرمادیتے کہ اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپﷺپر فتح کے دروازے کھول دئیے تو آپﷺنے فرمایا: میں مسلمانوں کا خود ان کی ذات سے بھی زیادہ مستحق ہوں ۔ اس لیے اب جو بھی مسلمان وفات پاجائے اور وہ مقروض رہا ہو تو اس کا قرض ادا کرنا میرے ذمے ہے۔ اور جو مسلمان مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔