Engineer Muhammad Ali Mirza ko Ilmi Jawab  انجئنیرمحمد علی مرزا کا علمی رد

(مرزا جہلمی کی مکاری)

                                                                    قسط نمبر/پانچ۔                                                              

تحریر خادم العلم/ عبدالرزاق دل رحمانی۔

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ يُصْلِحُهُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَاحْتَبَى، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى أَتَى ذِكْرُ بِنَاءِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارٌ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: يَقُولُ عَمَّارٌ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الفِتَنِ 

ترجمہ:

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو۔ ہم گئے۔ دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کر رہے تھے۔ ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے۔ پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے۔ جب مسجد نبوی کے بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو ( مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت ) ایک ایک اینٹ اٹھاتے۔ لیکن عمار دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا، افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ 

صحیح بخاری حدیث نمبر: 447   ورواه مسلم.

معزز قائين کرام!

عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد  مسلمانوں  میں اختلاف و انتشار پیدا ہوگیا،اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین  حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھے لہذا حضرت عائشہ،طلحہ،زبیر،معاویہ،مغیرہ بن شعبہ،عمر بن عاص وغیرہ رضی اللہ عنھم اجمعین سب کا مطالبہ تھا کہ مظلوم، شہید مدینہ، امیرالمومنین سیدنا  عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے فورا قصاص لیا جائے جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی   حالت اس وقت  کمزور تھی قاتلین عثمان بہت زیادہ تھے آپ فورا قصاص لینے سے عاجز تھے۔

 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے حوالہ سے حکومت پر دباؤ ڈالنے کےلیے بصرہ کا ارادہ کیا اور  جنگ کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور بات چیت کےبعد فریقین میں مصالحت ہو گئی لیکن بعض سرکشوں اور بالخصوص قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا اب مصالحت ہو گئی ہے اور مسلمان سارے علی رضی اللہ عنہ پر متفق ہو جائینگے  تو ہماری خیر نہیں  تو انہوں نے  شرارت کرتے  ہوئےاچانک چھوٹی افواہیں پھیلادیں کہ فریق ثانی نے عہد شکنی کردی ہے اور فریق ثانی پر تیر اندازی شروع کر دی اور اسی  وجہ سے  معاملہ جنگ تک پہنچ گیا اور نتیجے میں جنگ جمل  اور پھر جنگ صفین برپا ہوئی۔

جب  نوبت جنگ تک پہنچی تو ان جنگوں کے حوالے سے صحابہ کے تین موقف بن گئے کیونکہ معاویہ مشتبہ تھا۔

پہلا موقف:

اکثر صحابہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔

ان صحابہ میں سے سعْد بْن أبِي وقّاصٍ,  ومُحمّد بْن مسلمة; وأُسامة بْن زيْدٍ, وعبْد اللّهِ بْن عُمر  وغیرہ کبار صحابہ شامل ہیں رضی اللہ عنھم اجمعین۔

قال محمد بن سيرين، قال:” هاجت الفتنة وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة آلاف ، فما حضر فيها مائة ، بل لم يبلغوا ثلاثين ” . ” السنة لأبي بكر الخلال ” ( 2/466 ) رقم المسلسل728۔ وسندہ صحیح۔

ترجمہ:

محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جب جنگوں کا فتنہ عروج پر پہنچا اس وقت دس ہزار صحابہ زندہ تھے تھے تو ان میں سے جنگوں کے اندر ایک سو کے قریب بھی شریک  نہیں ہوئے بلکہ تیس کے قریب شریک ہوئے۔

دوسرا موقف:

علی رضی اللہ خلیفہ برحق ہیں ان کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

تیسوا موقف:

عثمان رضی اللہ عنہ مظلومانہ انداز میں شہید کئے گئے  ان کا قصاص لینا ہم پر فرض ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے (کتب علیکم القصاص)۔

معزز قارئین کرام!

ہم یہ کہتے ہیں کہ ان جنگوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ حق بجانب تھے، لیکن  دوسرے لڑائی کرنے والے صحابہ صرف اجتہادی خطا پر تھے۔

نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا کہ:

قَالَ الْعُلَمَاءُ هَذَا الْحَدِيثُ حُجَّةٌ ظَاهِرَةٌ فِي أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ مُحِقًّا مُصِيبًا وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى بُغَاةٌ لَكِنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِمْ لِذَلِكِ۔

ترجمہ: علماء فرماتے ہیں یہ حدیث(عمار) حجت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور درستگی پر ہیں اور دوسری جماعت باغی ہے مگر وہ مجتھد ہیں اس لئے ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

انہیں لغت عربی کے اعتبار  سے باغی کہا گیا ہے اور اس خطاء کو اللہ نے انہیں پہلے ہی معاف فرما دیا تھا یہی وجہ ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ اس جنگ میں شہید ہونے والے افراد کو جنتی تصور کرتے تھے۔

حدثنا عمر بن أيوب الموصلي عن جعفر بن برقان عن يزيد بن الأصم قال : سئل علي عن قتلى يوم صفين ، فقال : قتلانا وقتلاهم في الجنة ، ويصير الأمر إلي وإلى معاویۃ. (رواہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ فی مصنفہ رقم المسلسل: 37869 ج7 ص552) وسندہ صحیح۔ ترجمہ:: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے مقتولین کے بارے  میں پوچھا گیا کہ انکا کیا حکم ہے؟؟  تو آپ نے فرمایا  ہمارے اور ان کے مقتولین جنت میں جائیں گے  باقی یہ معاملہ میرا یا معاویہ کا ہے ۔ 

اس اثر کے رواۃ کی تعدیل پیش خدمت ہے۔

(1) عمر بن ایوب الموصلی۔ قال : یحییٰ بن معین ” ثقۃ”.

قال  احمد بن حنبل : لیس بہ باس۔ قال ابوداؤد : ثقۃ۔ اور  یہ مسلم کے رواۃ میں سے ہے۔( تھذیب الکمال ج7 ص453) 

(2) جعفر بن برقان۔ قال عنہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ: ثقۃ ضابط لحدیث میمون وحدیث یزید بن الاصم۔ جب یہ میمون یا یزید بن الاصم سے روایت بیان کریں تو اس وقت ثقۃ وضابط ہے ۔( تھذیب الکمال ج2 ص253) اور یہاں وہ یزید سے ہی بیان کر رہا ہے۔

(3) یزید بن الاصم ۔قال عنہ الحافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ:: ثقۃ۔( التھذیب ت 7686 ص 671).

نوٹ:: مذکورہ فرمان علی رضی اللہ عنہ بار بار پڑھیں اور غور فکر کریں کہ صفین میں قتل ہونے دوں جماعتوں کے افراد کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنتی قرار دیا  ہے جوکہ  واضح ثبوت  ہے کہ حضرت علی انہیں مومن و مسلمان سمجھتے  تھے صرف اورصرف اجتہادی خطا  پر انہیں تصور کرتے تھے۔

اسی طرح آپ سے جب جنگ جمل میں شرکت کرنے فریق ثانی کے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا  کہ وہ منافق ہیں یا مشرک؟؟؟  تو آپ نے فرمایا( اخواننا بغو علینا) یہ ہمارے بھائی ہیں انہوں نے( غلط فہمی کی وجہ سے ) ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ ج7ص535 رقم المسلسل:37752)

نوٹ:: جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین اور جمل میں شریک ہونے والے سارے لوگوں کو مسلمان  ؛ مومن اور اپنا بھائی قرار دے دیا ہے ؛  اور علی رضی اللہ عنہ حق بجانب ہیں تو یہاں ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ؛  ایک  عام  مسلمان ؛ جب اس سے  جان بوجھ کر  ہی غلطی ہوجائے ؛ تو کیا  توبہ کے بعد اللہ تعالی اسے معاف نہیں کرسکتا!!؟؟ کیا اللہ نے اس کے لئے توبہ کے دروازے نہیں کھولے ہوئے؟؟؟ کون ہے جو اللہ کی رحمت اور بخشش سے  مسلمانوں کو محروم کر دے ؟؟؟؟ کوئی نہیں کرسکتا یقینا کوئی نہیں ؛ کیونکہ یہ اختیار مخلوق کے پاس نہیں ہے اس  رب کا تو اعلان ہے۔ان ربك واسع المغفرة ۔۔۔۔ بے شک تیرے رب کی بخشش بہت ہی کشادہ ہے. 

اسی طرح ارشاد فرمایا:: و من يغفر الذنوب الا الله .

کون ہے ؟؟اللہ کے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا۔ 

یہاں تک کہ مشرک ؛ قاتل؛ زانی اور اس جیسے بھیانک گناہوں کا مرتکب عام انسان بھی جب توبہ کرتا ہے  تو رب العالمین کی طرف سے جواب ملتا ہے( یبدل اللہ سیئاتہم حسنات ) اللہ اس گنہگار کے گناہوں کو مٹا کر نیکیاں لکھ دیتاہے۔ 

جب یہ بخشش کے اعلان  عام مسلمان افراد کے لیے ہیں  تو  کیا یہ معاویہ، عائشہ  اور بنو اُمیہ کے دیگر صحابہ رضی اللہ عنھم کے لیے نہیں ہو سکتے ؟؟؟ جن سے  بسا اوقات بشری تقاضوں کے مطابق اجتہادی خطائیں صادر ہو گئیں !!!!

جن کی فضیلت و عظمت  اور بخشش کا اعلان پہلے ہی قرآن نے فرما دیا ہے،تو آج کے نیم رافضی یا رافضی کون ہو سکتے ہیں؟؟؟جو  معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ سے  یہ بخشش اور جنت کی فضیلت چھین لیں !!! یقینا جو بھی  ان کے خلاف زبان درازی کرے  گا وہ اپنے ایمان کو تو خراب کر سکتا ہے معاویہ رضی اللہ عنہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔امام اھل سنت ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا !!! جب ایک شخص ان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے میں معاویہ سے نفرت اور بغض رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا  : لِمَ ؟ قال : لأنه قاتَل عليا . فقال أبو زرعة : إن ربَّ معاوية ربّ رحيم وخصم معاوية خصمٌ كريم فما دخولك أنت بينهما رضي الله عنهم أجمعين

رواه ابن عساكر 59/141وانظر فتح الباري 13/86 عمدة القاري 24/215.

 ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ نے اس دشمن معاویہ رضی اللہ سے پوچھا تم اس کیوں نفرت کرتےہو؟؟ اس نے کہااس لیے کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیا تھا۔ ابو زرعہ الرازی نے کہا بے شک معاویہ رضی اللہ عنہ کا رب بڑا ہی مہربان ہے اور معاویہ سے اختلاف کرنے والے یعنی علی رضی اللہ عنہ بھی بڑے کرم کرنے والے ہیں تمہارا ان کے بیچ میں کیا جاتا ہے۔۔۔۔؟؟؟

( اس اثر کی سند پر کچھ کلام ہے لیکن معنی بالکل درست ہے)۔

معزز قارئین کرام جب سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے ہی ان افراد کو جنتی قرار دے دیا ہے تو حدیث کا معنی واضح ہو گیا،یہاں باغی سے مراد لغوی باغی ہیں نہ کہ اصطلاحی باغی، جن کےلیے سخت ترین احکامات ہیں۔ 

مرزا جہلمی اور انکے معتقدین سے اہم ترین سوال اور التماسِ: مندرجہ ذیل اتفاقی صحیح روایت پر غور کریں۔

حدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام لَيْلَةً فَقَالَ أَلَا تُصَلِّيَانِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ وَهُوَ يَقُولُ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا۔

ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے حضرت زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی، اور انہیں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، آپ نے فر مایا کہ کیا تم لوگ ( تہجد کی ) نماز نہیں پڑھو گے؟ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھادے گا۔ ہماری اس عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ران پر ہاتھ مار کر ( سورہ کہف کی یہ آیت پڑھ رہے تھے ) آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے ﴿ وکان الانسان اکثر شئی جدلا ﴾

بخاری:1127.

اس حدیث کے معنی پر غور کریں،اب اگر  کوئی ناصبی  اٹھ کر اس حدیث کو بیان کرے  اور کہے کہ قرآن کے اندر جو آیت ہے  (وكان الانسان اكثر شيء جدلا) سے مراد  معاذاللہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ خاتون جنت فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنھا ہیں۔ معاذ اللہ

پوری آیت اس طرح ہے

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا.

ترجمہ:

ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طریقے سے تمام کی تمام مثالیں لوگوں کے لئے بیان کردی ہیں لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔  الکھف/ 54.

مرزا صاحب! ناصبی کے اس اعتراض کا آپ کے پاس کیا جواب ہوگا؟؟

اور آپ کو پتہ ہونا چاہیئے کہ اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن پر اعتراض کریں اور قرآنی احکامات کے ساتھ ٹکراؤ کریں اور جگھڑا کریں اس طرح کے افراد کا حکم تو ہر ایک کو معلوم ہی ہے۔

 مرزا صاحب  حقیقت یہ ہے کہ ہم تو اس حدیث پیش کرنے والے ناصبی کو منہ توڑ جواب دیگے اور ناصبی کے اس استدلال  پر اسے ملامت کرتے ہوئے گستاخ علی رضی اللہ عنہ کا حکم لگائینگے اور کہینگے کہ یہاں لغت عربی کے اعتبار سے جدل کہا گیا ہے۔ ورنہ آیت کے اصل معنی اور سیاق کلام کے ساتھ معنوی اعتبار سے، سیدہ خاتون جنت فاطمہ ، اور شیر خدا علی  رضی اللہ عنھما کا ذرہ برابر بھی تعلق نہیں ہے۔ 

کیونکہ ہم اہلسنت اہل بیت کی گستاخی کبھی نہیں برداشت کر سکتے۔

مرزا صاحب آپ کا کیا جواب ہوگا؟؟

اس طرح کی نصوص جب دیگر صحابہ کے بارے میں ملتی ہیں  تو  آپ تاویل نہیں کرتے ؟

یہاں آپ تاویل کیے بغیر کیا جواب دیں گے؟

معزز احباب!

اگر یہاں بات سمجھانا مقصود نہیں ہوتی تو میں اس روایت کو کبھی  بھی اس سیاق میں ذکر  نہ کرتا کیوں کہ لوگ اس کا مفہوم  اورمقصد سمجھ نہیں سکتے اور اہل جنت، مغفور افراد کے بارے  میں بدگمان ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ہیں۔ معاذ اللہ۔

لیکن اپنے آپ کو عدل پرست اور حق پرست  سمجھنے والا مرزا اور اس کے حواریوں کو اگر اس طرح کی حدیث  معاویہ رضی اللہ عنہ یا کسی اور اموی صحابی کے خلاف مل جاتی تو چیخ چیخ، زبان درازی کرتے ہوئے  غلط مفہوم نکالتے ہوئے عوام کے سامنے بیان کرتے اور نعرہ لگاتے  ہم بڑے حق پرست ہیں باقی علماء حق کو چھپاتے ہیں۔

امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم کے اندر اس پر کلام فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

” واعلم أن الدماء التي جرت بين الصحابة رضي الله عنهم ليست بداخلة في هذا الوعيد – يعني قول النبي صلى الله عليه وسلم : إذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار.ومذهب أهل السنة والحق إحسان الظن بهم ، والإمساك عما شجر بينهم ، وتأويل قتالهم ، وأنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية ، ولا محض الدنيا ، بل اعتقد كل فريق أنه المحق ، ومخالفه باغ ، فوجب عليه قتاله ليرجع إلى أمر الله ، وكان بعضهم مصيبا وبعضهم مخطئا معذورا في الخطأ ، لأنه لاجتهادٍ ، والمجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه ” انتهى من ” المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج ” ( 18/11

مفہوم: جان لیں کو وہ خون جو صحابہ کے بیچ  میں اختلافات کی وجہ سے بہے تھے نبی علیہ الصلاۃ والسلام  کے فرمان کی اس وعید کے اندر داخل نہیں۔

دو مسلمان جب آپس میں تلواروں کے ساتھ لڑتے ہیں ہیں تو قاتل مقتول دونوں جہنمی ہیں۔

اھل  سنت اور اھل حق کا مذہب  یہی ہے کہ ان کے بارے میں اچھا گمان رکھا جائے۔اور جو ان کے بیچ میں اختلافات ہوئے اس حوالے سے خاموش رہا جائے ،ان کے بیچ میں جو لڑائیاں ہوئیں تھیں اس حوالے سے( صحیح) توجیہ بیان کی جائے ،بےشک وہ سارے کے سارے  مجتہد  اور  توجیی کرنے والے تھے ان کا نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی دنیا کی لالچ تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر جماعت کا یہی خیال  تھا کہ وہ حق پر ہیں  اور اس کا مخالف باغی  ہے اسی لیے ان سے قتال کرنا واجب  ہے تاکہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں جبکہ کہ حقیقت میں  تو کچھ ان میں درستگی پر تھے سے اور کچھ اجتہادی خطا پر تھے اور اللہ کے   ہاں وہ اس اجتھادی خطا میں معذور ہیں کیونکہ یہ غلطیاں اجتہاد کی وجہ سے صادر ہوئی اور مجتہد جب اجتہاد کرتا ہے  اس سے خطا صادر ہو جائے  تو(پھر بھی اسے ثواب ملتا ہے )اور اسکی  غلطی  پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔

معزز قارئین کرام!

نووی رحمہ اللہ کے اس فرمان کو بار بار غور سے پڑھیں تو حق عیاں  ہو جاتا ہے کہ دونوں جماعتیں  آپ کو حق پر سمجھتی تھی جی ہاں نووی رحمہ اللہ نے حق فرمایا یہ بات محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےپہلی ہی بیان فرمادی تھی۔

عن أبي سعيد الخدري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تَمْرُقُ مارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنَ المُسْلِمِينَ، يَقْتُلُها أوْلى الطّائِفَتَيْنِ بالحَقّ

صحيح مسلم ح:2458

مفہوم حدیث: ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہو جائے گا تو ان ( مسلمانوں کی دونوں اختلاف کرنے والی جماعتوں ) کے بیچ میں سے ایک گروہ نکلے گا اور اس گروہ کے ساتھ جو مسلمانوں کی جماعت لڑائی کرے گی وہ حق کے زیادہ قریب ہوگی۔

اس حدیث کا مزید واضح مفہوم صحیح ابن حبان وغیرہ کے اندر موجود ہے ؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يكونُ في أمَّتي فِرقتانِ تمرُقُ بيْنَهما مارقةٌ تقتُلُها أَوْلى الطّائفتَيْنِ بالحقِّ.

مفہوم حدیث: میری امت میں دو گروہ ہو جائینگے پھر ان دونوں گروہوں کے درمیان میں سے ایک الگ گروہ نکلے گا پھر اس ( مسلمانوں کی دو جماعتوں کے بیچ سے) نکلنے والے( گروہ ) سے جو مسلمان ( جماعت ) لڑائی کرے گی وہ حق کے زیادہ قریب ہوگی۔ 

 (صحيح ابن حبان بترتیب بلبان الفارسی ح:6744 • )

اسی طرح ابن حبان میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں

 عن أبي سعيد الخدري أن نبي الله  صلی اللہ علیہ وسلم ذكر ناسا یكونون في  فرقة من الناس سيماهم التحليق هم من شرار الناس أو ھم من شر الخلق تقتلهم أدنى الطائفتين إلى الحق۔ 

رواہ ابن حبان ح:6749.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچھ لوگوں کا تذکرہ  کیا جو اس وقت پیدا ہوں  گے جب لوگوں میں اختلاف ہو جائے  گا آپ نے فرمایا ان کی نشانی ٹنڈ ہوگی وہ سب سے برے انسان  ہیں یا وہ  سب سے بری مخلوق ہیں ( مسلمانوں کی ) دو جماعتوں میں سے انہیں جو قتل کرے گا وہ حق کے زیادہ قریب ہوگا۔ 

مذکورہ اتفاقی صحیح احادیث سے پتہ چلا کہ ایک وقت آئے گا جس میں مسلمانوں کی دو جماعتیں ہو جائینگی؛ ان  دو جماعتوں سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعتیں ہیں۔ جیساکہ مذکورہ  روایت کی وضاحت کرتے علامہ نووی رحمہ اللہ نے فرمایا:

افتراق يقع بين المسلمين ، وهو الافتراق الذي كان بين علي ومعاوية رضي الله عنهما. 

یعنی : مسلمانوں کے بیچ میں ہونے والے اختلاف سے مراد حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنھما کے بیچ میں ہونے والا اختلاف ہے۔

 جو گروہ ان کے بیچ سے نکلا وہ خوارج کا گروہ ہے

اسی طرح آپ نے فرمایا مسلمانوں کی دو جماعتوں میں سے جو جماعت اس الگ ہونے والے گروہ یعنی خوارج سے لڑائی کرے گی وہ حق کے زیادہ قریب ہوگی بنسبت دوسری جماعت کے اور خوارج سے لڑائی کرنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ جیساکہ  بخاری شریف میں وضاحت موجود ہے۔

یخرجون على حين فرقة من الناس “. قال أبو سعيد : فأشهد أني سمعت هذا الحديث من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأشهد أن علي بن أبي طالب قاتلهم وأنا معه، رواہ البخاری : ح:3610.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس ( مسلمانوں کے بیچ سے نکلنے والے تیسرے گروہ سے ) لڑائی کی میں ان انکے ساتھ تھا۔

اھم ترین نوٹ::

 اس حدیث سے پتہ چلا کہ اختلاف کرنے والی مسلمانوں کی دونوں جماعتیں حق پر ہونگیں بس فرق صرف اتنا ہوگا کہ ان میں سے ایک جماعت حق کے زیادہ قریب ہوگی اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت ہے ؛ جیسے ایک کمرے میں دو بندے کسی ٹیوب لائٹ کے سامنے بیٹھیں ایک قریب ہو اور دسرا کچھ دور ہو لیکن ہیں دونوں روشنی میں کوئی اندھیرے میں نہیں، نیز اس حدیث سے پتہ چلا کہ دونوں جماعتیں مسلمان  اور مؤمن ہیں۔  

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی وضاحت میں فرمایا :

فهذا الحديث الصحيح دليل على ان كلا الطائفتين المقتتلتين على و اصحابه ومعاويه واصحابه علي حق وان عليا واصحابه كانوا اقرب الى الحق من معاوية و اصحابه.( فتاوی ابن تیمیہ رحمہ اللہ ج 4 ص 235)

یہ صحیح حدیث دلالت کرتی ہے کہ دونوں لڑنے والی جماعتیں یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ؛ معاویہ رضی اللہ عنہ  اور ان کے ساتھی دونوں حق پر ہیں۔جبکہ علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی  حق کے زیادہ قریب  ہیں بمقابلہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ؛ لیکن ہیں دونوں حق پر۔ 

اسی طرح شیخ الاسلام نے فرمایا:

 [الفتاوى/3/444]:

قَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّهُ قَالَ: «تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ تَقْتُلُهُمْ أَوْلَى الطَّائِفَتَيْن ِ بِالْحَقِّ» وَهَذَا الْحَدِيثُ يَتَضَمَّنُ ذِكْرَ الطَّوَائِفِ الثَّلَاثَةِ، وَيُبَيِّنُ أَنَّ الْمَارِقِينَ نَوْعٌ ثَالِثٌ لَيْسُوا مِنْ جِنْسِ أُولَئِكَ؛ فَإِنَّ طَائِفَةَ عَلِيٍّ أَوْلَى بِالْحَقِّ مِنْ طَائِفَةِ مُعَاوِيَةَ.

اس حدیث میں تین قسم کی جماعتوں کا تذکرہ ہے اور اس  حدیث میں وضاحت ہے کہ مسلمانوں کی دو جماعتوں سے نکلنے والا تیسرا گروہ ان کی جنس سے نہیں  ہے ( یعنی حق پر نہیں جبکہ وہ دونوں مسلمانوں کی جماعتیں حق پر ہیں ) جبکہ یقینی طور پر علی رضی اللہ عنہ کی جماعت حق کے زیادہ تر قریب ہے ؛ بنسبت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت کے۔

معزز قارئین کرام ! یہ حدیث روافض اور نیم روافض افراد کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دل میں کینہ ؛  دشمنی اور نفرت رکھتے ہیں اور انہیں دشمن حق تصور کرتے ہیں۔ نعوذ باللہ۔

اھم ترین نوٹ: مذکورہ روایت اتفاقی صحیح ہے اور یہ روایت کتب شیعہ کے اندر بھی موجود ہے  چنانچہ شیعہ معتبر ترین عالم باقر مجلسی  بحار الانوار  میں لکھتے ہیں: 

وقد رواه الحميدي في الحديث الرابع من المتفق عليه من مسند  ابی سعيد الخدري في حديث ذي الثدية وأصحابه الذين قتلهم علي بن أبي طالب بالنهروان قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  : تمرق مارقة عند فرقة من المسلمين يقتلها أولى الطائفتين بالحق .

چوتھی متفق علیہ ( اتفاقی صحیح ) حدیث جس کو حمیدی نے روایت کیا ہے مسند  ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے اس حدیث میں میں پستان والے ( خارجی) شخص اور ان کے ساتھیوں کا تذکرہ ہے جن کو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نھروان جگہ پر قتل کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کے اختلاف کے  وقت ایک گروہ مسلمانوں سے الگ ہوجائے گا اور جو جماعت  اس گروہ سے لڑے گی  وہ دونوں جماعتوں میں سے حق سے زیادہ قریب ہوگی۔   (بحار الانوار طبع جدید ج 32 ص 349 طبع قدیم ج 32 ص310 المجلد السادس عشر )۔

علامہ  ابن حزم رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی عظیم کتاب ( الملل والنحل) (3/77) پر فرماتے ہیں:

المجتهد المخطئ إذا قاتل على ما يرى أنه الحق قاصداً إلى الله  تعالى بنيته غير عالم بأنه مخطئ فهو فئة باغية وإن كان مأجوراً ولا حد عليه إذا ترك القتال۔

مخطئ مجتھد جب کسی سے لڑائی کرے  اس بنیاد پر کہ وہ  اپنے کو حق پر  تصور کرتاہے اور اسکی نیت اللہ کی طرف ( قربت) کا ارادہ ہو اور اسے پتا نہیں کہ وہ خطا پر ہے وہ باغی جماعت  ہے  اگرچہ وہ اس ( بغاوت) والے عمل بھی ماجور ہیں اور جب وہ لڑائی کو چھوڑ دیں ان پر کوئی حد نہیں۔

مرزائی شبہ :  اس روایت میں یہ بھی ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ  انکو جنت کی طرف بلا رہا ہوگا وہ اسے آگ کی طرف۔

جواب شبہ :

اس جملے کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ انہیں جنت کی طرف بلا رہا ہے کیوں کہ عمار رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ واضح تھا کہ علی رضی اللہ عنہ حق  پر ہیں ۔ وہ انہیں آگ کی طرف بلا رہے تھے، مقصد یہ  ہے کہ عمار کے سامنے  حق واضح تھا  اور جب انسان کے سامنے حق واضح ہو جائے پھر بھی حق کو چھوڑ کر جائے تو وہ اپنے آپ کو آگ کی  طرف ہی لے جا رہا  ہے۔ جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  ان کے لشکر کے سامنے یہ حق واضح نہیں تھا بلکہ وہ اپنے آپ کو ہی حق پر سمجھتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ  کے قاتلین سے فی الفور قصاص نہ لینے کی وجہ سے خطا پر تصور کرتے تھے۔

حدیث عمار رضی اللہ عنہ  پر بحث کرتے ہوئے علامہ ابن حجر فرماتے ہیں:

فإن قيل : كان قتله بصفين وهو مع علي والذين قتلوه مع معاوية وكان معه جماعة من الصحابة فكيف يجوز عليهم الدعاء إلى النار ؟ فالجواب أنهم كانوا ظانين أنهم يدعون إلى الجنة، وهم مجتهدون لا لوم عليهم في اتباع ظنونهم، فالمراد بالدعاء إلى الجنة الدعاء إلى سببها وهو طاعة الإمام، وكذلك كان عمار يدعوهم إلى طاعة علي وهو الإمام الواجب الطاعة إذ ذاك، وكانوا هم يدعون إلى خلاف ذلك لكنهم معذورون للتأويل الذي ظهر لهم.

ترجمہ: اگر کہا جائے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت صفین کی جنگ میں ہوئی اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے ساتھ تھے اور جن لوگوں نے اسے قتل کیا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور لشکر معاویہ میں صحابہ کی ایک جماعت بھی تھی۔پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ  آگ کی طرف بلا رہے تھے؟؟

تو اس شبہے کا جواب یہی ہے کہ (معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ موجود دیگر صحابہ)  کا گمان یہ تھا تھا کہ وہ جنت کی طرف بلا رہے ہیں اور وہ مجتہد تھے تھے ان پر اس مسئلے میں  اپنے افہام ( اجتھادی سوچ) کی پیروی کرنے کی وجہ سے  کوئی بھی ملامت نہیں۔

یہاں جنت کی طرف بلانے سے مراد جنت کے اسباب کی طرف بلانا ہے  وہ یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت کریں کیونکہ اس وقت  وہی واجب الاطاعت امام تھے،جبکہ باقی صحابہ اس  کے خلاف کی طرف بلا رہے تھے لیکن وہ سارے  اس مسئلے میں معذور ہیں ( یعنی اللہ کے ہاں انکا عذر مقبول ہے) ( اجتہادی ) توجیہ کی وجہ سے۔

معزز قارئین کرام!

ہم نے جو توجیہ بیان کی  ہے وہی حق ہے کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں وہ صحابہ بھی تھے جن کے لیے باقاعدہ خصوصی طور پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ 

جیسے وہ صحابہ جو  صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے جیسے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ یہ تو اس موقعہ پر پر رسول اللہ سلم کے خواص میں سے تھا۔جیسا  کہ (بخاری شریف: 2732 ) کے اندر الفاظ ہیں

(وَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُلَّمَا تَكَلَّمَ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ ، فَكُلَّمَا أَهْوَى عُرْوَةُ بِيَدِهِ إِلَى لِحْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ وَقَالَ لَهُ : أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

(روایت میں ہے کہ عروہ بن مسعود التقفی کفار مکہ کا نمائندہ)  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر گفتگوکرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے ۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کٹھرے تھے‘ تلوارلٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے ۔ عروہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف اپنا ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی کو تہی کو ان کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ ۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ ۔

صلح حدیبیہ کے شرکاء کیےلیے رب کا   قرآن  میں فیصلہ ہے۔

 لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا

یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے ( اللہ ) نے معلوم کرلیا  اور ان پر اطمینان نازل فرمایا  اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی.

الفتح:18۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔

 عن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ مُبَشِّرٍ، أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عِنْدَ حَفْصَةَ: «لَا يَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللهُ، مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ، الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَهَا»

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں کہ۔مجھےام مبشر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں یہ فرما تے ہو ئے سنا،”ان شاء اللہ اصحاب شجرہ(درخت والوں) میں سے کو ئی ایک بھی جس نے اس کے نیچے بیعت کی تھی جہنم میں داخل نہ ہو گا ۔

مسلم:6404.

اس حدیث اور قرآن سے پتہ چلا کہ اھل بیعت رضوان سے اللہ ہمیشہ کےلیے راضی ہوگیا ، انکے دلوں میں موجود سچا ایمان  اللہ تعالی نے جان لیا،اور وہ کبھی  جہنم میں داخل نہیں ہوں گے۔

اور حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے۔

اور دیگر  کئی بزرگ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس لشکر میں موجود تھے جن کےلیے جنت کا وعدہ رب العالمین نے قرآن مقدس کے اندر کیا ہے۔

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

تمہیں کیا ہوگیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں  بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے،  ہاں بھلائی ( جنت) کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہےجو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔

الحدید:10

اس آیت کے اندر الفاظ ہیں ( و کلا وعد اللہ الحسنی) اللہ نے سب کے  ساتھ حسنی کا وعدہ کیا  ہے علماء فرماتے ہیں حسنی سے مراد جنت ہے. 

کل کا لفظ تمام صحابہ کو شامل ہے۔

آخری التماس:

اللہ تعالی کی رحمت اتنی کشادہ  ہے کہ ایک انسان غلط فہمی  اور ان جانے میں کفریہ جملہ بھی ادا کر جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کو بھی معاف کر سکتا ہےجیسا کہ بنی اسرائیل کا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو جلوایا اور کہا تھا تھا (لئن قدر اللہ علی) اگر اللہ نے مجھ پہ قدرت رکھی تو بڑا سخت عذاب کرے گا۔

اس کا ذہن  تھا کہ اگر میں نے اپنے آپ کو جلوا دیا تو اللہ تعالی مجھے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے۔

اللہ کی قدرت کا انکار کفر ہے لیکن اس شخص  نے غلط فہمی کی بنیاد پر یہ کام کیا تھا کیونکہ شاید اس کو اللہ تعالی کی قدیر صفت کا علم نہیں تھا،لیکن پھر بھی اللہ تعالی اسے معاف فرمادیا۔

دیکھیں بخاری:7506.

معزز قارئین!

آپ کا کیا خیال ہے ؟؟اس امت محمدیہ کے افضل طبقہ ،صحابہ کے بارے  میں جن کے جنتی ہونے کا اللہ نے پہلے ہی تذکرہ فرما دیا ہے  اللہ انہیں اجتھادی خطاء درگزر نہیں کرے گا؟؟

خدارا صحابہ پر تعین کرکے اپنے آپ کو قیامت کے دن رسوا نہ بنائیں۔

نوٹ:

اس حوالے ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور اسکا سلب لینے والا جھنمی ہے وہ روایت ضعیف ہے۔

جس کو ہم آئندہ قسط میں پیش کرینگے۔ ان شاءاللہ۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ۔

محبکم/ عبدالرزاق دل رحمانی۔

سعید آباد سندھ۔