آثارِ صحابہ اور مقلدین
سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے فرمایا: ‘‘ أما العالم فإن اھتدی فلا تقلدوۃ دینکم’’ اگر عالم ہدایت پر بھی ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔(حلیۃ الاولیاء ۵؍۹۷ و سندہ حسن وقال ابو نعیم الاصبہانی: وھو الصحیح’’)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: ‘‘ لا تقلدو دینکم الرجال’’
تم اپنے دین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۲؍۱۰ و سندہ صحیح)
ان آثار کے مقابلے میں آلِ تقلید کہتے ہیں کہ ‘‘ مسلمانوں پر (ائمہ اربعہ میں سے ایک امام کی ) تقلیدِ شخصی واجب ہے’’
سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: ‘‘ فی کل صلوٰۃٍ یقرأ’’
ہر نماز میں قراءت کی جاتی ہے۔ (صحیح بخاری: ۷۷۲ و صحیح مسلم: ۴۳؍۳۹۶ و دارالسلام : ۸۸۳)
سیدنا ابن عمر ؓ چاروں رکعتوں میں قراءت کرتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۳۷۱ ح ۳۷۳۰ و سندہ صحیح)
اس کے مقابلے میں آلِ تقلید کہتے ہیں کہ ‘‘ چار رکعتوں والی نماز میں آخری دو رکعتوں میں قراءت نہ کی جائے تو نماز ہو جاتی ہے۔’’ مثلاً دیکھئے القدوری (باب النوافل ص ۲۳، ۲۴)
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ‘‘ عن ابن عمر کان إذا کان مع الإمام یقرأ بأم القرآن فأمن الناس أمن ابن عمر ورأی تلک السنۃ’’
ابن عمر ؓ جب امام کے ساتھ ہوتے سورۃ فاتحہ پڑھتے۔ پھر لوگ آمین کہتے (تو ) ابن عمر ؓ آمین کہتے اور اسے سنت سمجھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمہ ۱؍۲۸۷ ح ۵۷۲و سندہ حسن)
صحیح بخاری میں تعلیقاً روایت ہے کہ عطاء (بن ابی رباح رحمہ اللہ) نے فرمایا: ‘‘ آمین دعا ہے، ابن الزبیر ؓ اور ان کے مقتدیوں نے آمین کہی حتیٰ کہ مسجد گونج اُٹھی۔(کتاب الاذان باب جہر الامام بالتامین قبل ح ۷۸۰)
مشہور تابعی نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ‘‘ کان یرفع یدیہ فی کل تکبیرۃ علی الجنازۃ ’’ وہ (ابن عمر ؓ) جنازے کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۳؍۲۹۶ ح ۱۱۳۸۰ و سندہ صحیح)
خلیفہ راشد امیر المومنین سیدنا عمر ؓ نے سیدنا اُبی بن کعب ؓ اور سیدنا تمیم الداری ؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔ (موطا امام مالک۱؍۱۱۴ ح ۲۴۹ وسندہ صحیح و صححہ النیموی فی آثار السنن : ۷۷۶ ، واحتج بہ الطحاوی فی معافی الآثار ۱؍۲۹۳)
سیدنا سائب بن یزید ؓ (صحابی ) سے روایت ہے کہ ‘‘ کنا نقوم فی زمان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ بإحدیٰ عشرۃ رکعۃ ’’ ہم عمر بن الخطاب ؓ کے زمانے میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔(سنن سعید بن منصورت بحوالہ الحاوی للفتاوی۱؍۳۴۹ وسندہ صحیح وقال السیوطی: ‘‘ بسند فی غایۃ الصحۃ’’ یہ بہت زیادہ صحیح سند سے ہے)
طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ (تابعی) سے روایت ہے:‘‘ صلیت خلف ابن عباس علیٰ جنازہ فقرأ بفاتحۃ الکتاب’’میں نے ابن عباس ؓ کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھی تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی۔ابن عباس ؓ نے فرمایا: تاکہ تمھیں معلوم ہو جائے کہ یہ سنت ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۳۳۵)
اسلم رحمہ اللہ (تابعی) سے روایت ہے: ‘‘ کتب عمر بن الخطاب أن وقت الظھر إذا کان الظل ذراعاً إلیٰ أن یستوی أحدکم بظلہ’’ عمر بن الخطاب ؓ نے لکھا کہ ظہر کا وقت ایک زراع سایہ ہونے سے لے کر آدمی کے برابر سایہ ہونے تک ہے۔ (الاوسط لابن المنذر ۲؍۳۲۸و سندہ صحیح) اس کے برعکس آلِ تقلید دو مثل کے بعد عصر کی اذان دیتے ہیں۔
سیدنا عمر ؓ نے سیدنا ابو موسیٰ الاشعری ؓ کو حکم دیا:‘‘صل الصبح و النجوم بادیۃ مشتبکۃ’’ صبح کی نماز پڑھو اور ستارے صاف گہنے ہوئے ہوں۔ (موطاأ امام مالک ۱؍۶ح۶ وسندہ صحیح)
سیدنا حذیفہ ؓ نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع و سجود صحیح طریقے سے نہیں کر رہا تھا تو فرمایا: ‘‘ما صلیتَ و لو مُتَّ مُتَّ علیٰ غیر الفطرۃ التی فطر اللہ محمدًا ﷺ’’ تو نے نماز نہیں پڑھی اور اگر تو مر جاتا تو اس فطرت پر نہ مرتا جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو مامور کیا تھا۔ (صحیح بخاری : ۷۹۱)
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک آدمی کو سلام کیا اور وہ نماز پڑھ رہا تھا اس آدمی نے زبان سے جواب دے دیا تو ابن عمر ؓ نے فرمایا:‘‘ إذا سلم علیٰ أحد کم وھو یصلی فلا یتکلم ولکن یشیر بیدہ’’ جب کسی آدمی کو سلام کیا جائے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو زبان سے جواب نہ دے بلکہ ہاتھ سے اشارہ کرے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۲؍۲۵۹ وسندہ صحیح ، مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۷۴ ح ۴۸۱۶ مختصراً)
اس فاروقی حکم سے معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس آلِ تقلید کہتے ہیں کہ سجدہ تلاوت واجب ہے۔
سیدنا ابو ایوب الانصاری ؓ نے فرمایا:
‘‘ الوتر حق فمن أحب أن یوتر بخمس رکعات فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل ومن أحب أن یوتر بواحدۃ فلیفعل’’
وترحق ہے، جو شخص پانچ رکعات وتر پڑھنا چاہے تو پڑھ لے، جو تین رکعات وتر پڑھنا چاہے تو پڑھ لے اور جو ایک رکعت ووتر پڑھنا چاہے تو پڑھ لے۔(السنن الصغریٰ للنسائی ۳؍۲۳۸، ۲۳۹ح ۱۷۱۳وسندہ صحیح، السنن الکبریٰ للنسائی : ۴۴۳)
سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ کو ایک صحابی نے ایک رکعت وتر پڑھتے ہوئے دیکھا۔(صحیح بخاری: ۲۳۵۶)
سیدنا معاویہ ؓ نے عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا۔ (صحیح بخاری: ۳۷۶۴) سیدنا عثمان بن عفان ؓ نے ایک رکعت پڑھ کر فرمایا کہ یہ میرا وتر ہے۔(السنن الکبریٰ للبیہقی ۳؍۲۵وسندہ حسن)
سیدنا علی ؓ نے فرمایا: ‘‘لیس الوتر بحتم کا لصلٰوۃ ولکنہ سنۃ فلاتدعوہ’’
نماز کی طرح وتر حتمی (واجب و فرض ) نہیں ہے لیکن وہ سنت ہے پس اسے نہ چھوڑو۔(مسند احمد ۱؍۱۰۷ ح ۸۴۲ و سندہ حسن)
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ وتر کی ایک رکعت اور دو رکعتوں میں سلام پھیرتے تھے۔(صحیح بخاری:۹۹۱)
عبدالرحمن بن ابزی ٰ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عمر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ نے بسم اللہ بالجہر (اونچی آواز سے ) پڑھی۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۴۱۲ ح ۴۷۵۷، شرح معانی الآثار ۱؍۱۳۷ و سندہ صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی ۲؍۴۸)
سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا عبداللہ بن الزبیر ؓ سے بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً پڑھنا ثابت ہے۔ (دیکھئے جزء الخطیب و صححہ الذہبی فی مختصر الجہر بالبسملۃ للخطیب ص ۱۸۰ ح ۴۱)
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے(سیدنا)ابو ہریرہ ؓ کے پیچھے عید الاضحیٰ اور عید الفطر کی نماز پڑھی، آپ نے پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہیں اور دوسری میں پانچ۔ (موطأ امام مالک ۱؍۱۸۰ ح ۴۳۵وسندہ صحیح)
سیدنا ابن عمرؓ بارش میں دو نمازیں جمع کر کے پڑھ لیتے تھے۔(دیکھئے موطأ امام مالک ۱؍۱۴۵ ح ۳۲۹ و سندہ صحیح)
سیدنا انس بن مالک ؓ عمامے پر مسح کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۲۲ ح ۲۲۴و سندہ صحیح)
سیدنا ابو امامہ ؓ نے عمامے پر مسح کیا۔ (ابن ابی شیبہ ۱؍۲۲؍۲۲۲ و سندہ حسن)
سیدنا ابو موسیٰ الاشعری ؓ سفر میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاٗ کی نمازیں جمع کر کے پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۴۵۷ ح ۸۲۳۵و سندہ صحیح)
سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ بھی جمع بین الصلاتین فی السفر کے قائل تھے۔(ابن ابی شیبہ ۲؍۴۵۷ح ۸۲۳۴وسندہ حسن)
سیدنا جابر بن سمرہ ؓ فرماتے ہیں : ‘‘ کنا نتوضأ من لحوم الإبل’’ ہم اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۴۶ ح ۵۱۳ و سندہ صحیح)
سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری ؓ کے نزدیک نماز میں بآواز بلند ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (دیکھئے سنن الدار قطنی ۱؍۱۷۴ ح ۲۵۰ و سندہ صحیح)اس کے مقابلے میں آلِ تقلید کہتے ہیں کہ نماز میں بآوازِ بلند ہنسنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
سیدنا ابن عمر ؓ نے فرمایا: ‘‘ فی القبلۃ وضوء’’
بوسہ لینے میں وضو ہے۔ (سنن الدار قطنی ۱؍۱۴۵ح ۵۱۳ وقال: ‘‘ صحیح’’ و سندہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ‘‘ من مس ذکرۃ توضأ’’
جس نے اپنا آلہ تناسل چھوا وہ وضو کرے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۱۶۴ ح ۱۷۳۶ و سندہ صحیح)
سیدنا ابن عمر ؓ جب اپنی شرمگاہ کو چھوتے تو وضو کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ ۱؍۱۶۴ ح ۱۷۳۳ و سندہ صحیح)
دیکھئے اخبار اہل الرسوخ فی الفقہ و التحدیث بمقدار المنسوخ من الحدیث لابن الجوزی ص ۳ (ح۵) اور الاعتبار فی الناسخ و المنسوخ الآثار للحازمی( ص۷۷)
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: ‘‘ مفتاح الصلوٰۃ الطھور و اِحرامھا التکبیر و انقضاؤ ھا التسلیم’’ نماز کی چابی طہارت، اس کا احرام (آغاز) تکبیر اور اختتام سلام سے ہے ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی۲؍۱۶ وسندہ صحیح)
اس کے برعکس آلِ تقلید کہتے ہیں کہ نماز سے خروج سلام کے علاوہ کسی اور منافیِ صلٰوۃ عمل سے بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً دیکھئے المختصر للقدوری (ص۲۲باب الجماعۃ)
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ (سیدنا ) ابن عمر ؓ جب نمازِ جنازہ پڑھتے تو رفع یدین کرتے پھر تکبیر کہتے، پھر جب فارغ ہوتے تو دائیں طرف ایک سلام پھیرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۳؍۳۰۷ح ۱۱۴۹۱و سندہ صحیح)
عمیر بن سعید رحمہ اللہ سے روایت ہے: ‘‘ میں نے ابو موسیٰ(الاشعریؓ) کے ساتھ جمعہ کے دن نماز پڑھی تو انہوں نے (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ) کی قراءت کے بعد نمازہی میں ‘‘ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ ’’ پڑھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۵۰۸ ح ۸۶۴۰و سندہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن الزبیر ؓ نے (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ) کی قراءت کے( سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ ) بعد پڑھا۔ (ابن ابی شیبہ ۲؍۵۰۹ ح ۸۶۴۲وسندہ صحیح)اس کے برعکس آلِ تقلید کا اس پر عمل نہیں ہے بلکہ اُن کے عام امام نمازِ جمعہ میں سورۃ الاعلیٰ کی قراءت ہی نہیں کرتے۔
سیدنا عمر و بن سلمہ صحابی ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے مجھے امام بنایا اور میں چھ یا سات سال کا (بچہ ) تھا ۔ (صحیح بخاری: ۴۳۰۲)اس کے خلاف آلِ تقلید کہتے ہیں کہ نابالغ بچے کی امامت مکروہ یا ناجائز ہے۔
سیدنا انس بن مالک ؓ صف بندی کے بارے میں فرماتے ہیں:‘‘ وکان أحدنا یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ و قدمہ بقدمہ’’ اور ہم میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملاتا تھا۔ (صحیح بخاری: ۷۲۵) اس کے مقابلے میں آلِ تقلید اس عمل کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے ہٹ کر کھڑے ہوتے ہیں۔
حمید الطویل رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ‘‘ صلیت خلف أنس الظھر فقرأبِ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ) وجعل یسمعنا الآیۃ’’
میں نے انسؓ کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھی، آپ نے سورۃ الاعلیٰ پڑھی اور ہمیں ایک آیت سنانے لگے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۳۶۲ح ۳۶۴۳وسندہ صحیح)آلِ تقلید اس کے قائل نہیں ہیں۔
ابو قلابہ رحمہ اللہ نے سیدنا عمر و بن سلمہ ؓ اور سیدنا مالک بن الحویرث ؓ کے بارے میں فرمایا: جب وہ دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے ، بیٹھ جاتے اور زمین پر (ہاتھوں سے ) اعتماد کرتے پھر کھڑے ہو جاتے ۔ (صحیح بخاری: ۸۲۴)
ازرق بن قیس رحمہ اللہ نے فرمایا: ‘‘رأیت ابن عمر نھض فی الصلوٰۃ ویعتمد علیٰ یدیہ ’’ میں نے ابن عمر ؓ کو دیکھا، آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر کھڑے ہوتے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۳۹۵ ح ۳۹۹۶و سندہ صحیح)اس کے برعکس آلِ تقلید بغیر ہاتھ ٹیکنے کے اور بغیر بیٹھنے کے نماز میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سیدنا عمر ؓ نے سورۃ الحج کی تلاوت فرمائی تو اس میں دو سجدے کئے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۱۱ ح ۴۲۸۸، السنن الکبریٰ للبیہقی ۲؍۳۱۷ و سندہ صحیح)
سیدنا ابن عمر ؓ بھی سورۃ حج میں دو سجدوں کے قائل تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۲؍۳۱۷ و سندہ صحیح)
سیدنا ابو الدردا ء ؓ بھی سورۃ حج میں دو سجدے کرتے تھے۔(السنن الکبریٰ للبیہقی ۲؍۳۱۸ و سندہ صحیح)
ان آثار کے مقابلے میں آلِ تقلید صرف ایک سجدے کے قائل ہیں اور دوسرے سجدے کے بارے میں کہتے ہیں: ‘‘ السجدۃ عند الشافعی ’’
سیدہ عائشہ ؓ کا غلام رمضان میں قرآن دیکھ کر انہیں نماز پڑھاتا تھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۳۳۸ ح ۷۲۱۶ و سندہ صحیح، کتاب المصاحف لابن ابی داود ص ۲۲۱)
سیدنا انس ؓ نماز پڑھتے تو ان کا غلام قران پکڑے ہوئے لقمہ دیتا تھا۔(ابن ابی شیبہ ۲؍۳۳۸ ح ۷۲۲۲ و سندہ حسن)
سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: ‘‘ إذا أقیمت الصلٰوۃ فلا صلوٰۃ إلا المکتوبۃ’’ جب نماز کی اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ دوسری نماز نہیں ہوتی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۷۶ ح ۴۸۴۱و سندہ صحیح)
سیدنا اُبی بن کعب ؓ اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (دیکھئے مشکل الآثار للطحاوی، تحفۃ الاخیار ۲؍۲۷۴ح ۹۱۳ وسندہ حسن)
سیدنا انس بن مالک ؓ نے فرمایا: کہ نبی ﷺ کے صحابہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری: ۶۲۵)
سیدہ عائشہ ؓ سفر میں پوری نماز پڑھتی تھیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۴۵۲ح ۸۱۸۹ و سندہ صحیح)
طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ (سیدنا) ابن عباس ؓ نے ایک جنازے پر سورۃ فاتحہ اور ایک سورت جہراً پڑھی پھر فرمایا: ‘‘ سنۃ و حق’’ یہ سنت اور حق ہے۔ ملخصاً (سنن النسائی ۴؍۷۴ح ۹۸۹ و سندہ صحیح)
عاصم بن عمر ؓ کی وفات کے تقریباً تین دن بعد سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے ان کی قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھی۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ۳؍۳۶۱ح ۱۱۹۳۹ وسندہ صحیح)
سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی کو تیر لگا، وہ نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے تیر نکالا اور نماز پڑھتے رہے۔۔۔ الخ(سنن ابی داود: ۱۹۸ و سندہ حسن و صححہ ابن خزیمہ :۳۶ و ابن حبان، الموارد: ۱۰۹۳ و الحاکم ۱؍۱۵۶و وافقہ الذہبی و علقہ البخاری فی صحیحہ ۱؍۲۸۰ قبل ح ۱۷۶)
سیدنا عبداللہ بن الزبیر ؓ نے عید والے دن عید کی نماز پڑھائی اور اس دن نمازِ جمعہ نہیں پڑھائی۔ یہ بات جب سیدنا ابن عباس ؓ کے سامنے ذکر کی گئی تو انہوں ے فرمایا: ‘‘ أصاب السنۃ’’ انہوں نے سنت پر عمل کیا ہے۔(سنن النسائی ۳؍۱۹۴ح ۱۵۹۳ و سندہ صحیح و صححہ ابن خزیمہ : ۱۴۶۵و الحاکم ۱؍۲۹۶ علیٰ شرط الشیخین و وافقہ الذہبی)