0 0
Read Time:12 Minute, 3 Second

رفع الیدین کی ایک روایت کی تحقیق

تحریر: حافظ معاذ بن زبیر علی زئی حفظہ اللہ

نظر ثانی وتصحیح: الشیخ ابو الحسن تنویر الحق الترمذی حفظہ اللہ

امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی رحمہ اللہ (متوفی 360ھ) فرماتے ہیں:

حدثنا حصين بن وهب الأرسوفي حدثنا زكريا بن نافع الأرسوفي حدثنا عباد بن عباد الخواص حدثنا أبو زرعة يحیی بن أبي عمرو السيباني عن أبي عبد الجبار واسمہ عبد الله بن معج عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ قال: لَأُصَلِّيَنَّ بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِنِ اسْتَطَعْتُ لَمْ أَزِدْ وَلَمْ أَنْقُصْ، فَكَبَّرَ، ‌فَشَهَرَ ‌بِيَدَيْہِ، فَرَكَعَ، فَلَمْ يُطِلْ وَلَمْ يُقْصِرْ، ثُمَّ ‌رَفَعَ ‌رَأْسَہُ ‌فَشَهَرَ ‌بِيَدَيْہِ، ثُمَّ كَبَّرَ، فَسَجَدَ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں ضرور بالضرور تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھاؤں گا۔ اس میں زیادتی کروں گا اور نہ کمی۔ سو انھوں نے اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے۔ پھر رکوع کیا۔ انھوں نے نہ طویل رکوع کیا اور نہ مختصر رکوع کیا۔ پھر انھوں نے سر اُٹھایا اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور اللہ اکبر کہا۔ پھر انھوں نے سجدہ کیا۔

(مسند الشامیین: 2/ 35 ح 868، وسندہ حسن)

تنبیہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ’’رکوع جاتے وقت‘ ‘ رفع یدین کرنا بھی ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے جزء رفع الیدین للبخاری (22، وسندہ حسن) اور المخلصیات (2/ 139 ح 1229، وسندہ حسن)

مسند الشامیین والی روایت کی سند کے رواۃ کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:

1۔ ابو عبد الجبار عبد اللہ بن معج الفلسطینی:

انھیں عمرو بن عبداللہ السیبانی الحضرمی کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے، جیسا کہ امام الجرح والتعدیل ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، چناں چہ امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ ’’عمرو بن عبداللہ الحضرمی‘‘ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں: ’’عمرو ‌بن ‌عبد ‌الله ‌الحضرمي أبو عبد الجبار ويقال أبو عبد الجبار عبد الله بن عج روى عن أبي هريرة روى عنہ يحيی بن أبي عمرو السيباني الشامي سمعت أبي يقول ذلك‘‘ (الجرح والتعدیل: 6/ 244)

امام ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری نیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أبو عبد الجبار عبد الله ‌بن ‌معج ويقال عمر بن الحضرمي عن أبي هريرة روى عنہ يحیی بن أبي عمرو الشيباني‘‘ (الکنی والاسماء، ت: 2685)

امام ابو احمد الحاکم الکبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أبو عبد الجبار عبد الله ‌بن ‌معج، الأزدي، ويقال: عمرو بن الحضرمي‘‘ (الاسامی والکنیٰ: 5/ 237 ت: 4115)

حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أبو عبد الجبار الفلسطيني عبد اللہ ‌بن ‌معج ۔ ويقال: عمرو بن الحضرمي روى عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ ۔ روى عنہ يحیی بن أبي عمرو السّيباني أبو زرعة‘‘ (الاستغناء فی معرفۃ المشہورین: 2/ 866 ت: 1021)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أبو عبد الجبار: عبد الله ‌بن ‌مُعِجّ، ويقال: عمرو بن الحضرمي، عن أبي هريرة، وعنہ يحیی السَّيْبَانِي‘‘ (المقتنی فی سرد الکنی: 1/ 362 ت: 3743)

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے عبداللہ بن معج کو کتاب الثقات (5/ 30) میں ذکر کیا ہے اور ان کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب التاریخ الکبیر (5/ 209) اور امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی کتاب الجرح والتعدیل (5/ 176) میں بھی موجود ہے۔

اب ’’ابو عبد الجبار عمرو بن عبداللہ السیبانی الحضرمی‘‘ کی توثیق پیش خدمت ہے:

امام یعقوب بن سفیان الفارسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شامي ثقۃ‘‘ (المعرفۃ والتاریخ: 2/ 437)

امام ابو الحسن عجلی المعتدل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شامي، تابعي، ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 1271)

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انھیں کتاب الثقات (5/ 179) میں ذکر کیا ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا: ’‌أبو ‌عبد ‌الجبار صاحب أبي هريرة اسمہ عمرو بن عبد الله الحضرمي كان متقنا‘‘ (مشاہیر علماء الامصار: 906)

امام ابو عوانہ رحمہ اللہ نے المستخرج علی صحیح مسلم (22/ 226 ح 12811) میں ان سے روایت لی ہے، امام ابو عبداللہ الحاکم رحمہ اللہ نے ان کی بیان کردہ روایت کو ’’صحیح الإسناد‘‘ کہا ہے (مستدرک: 4/ 474 ح 8317) اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ نیز دیکھئے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی کتاب التکمیل فی الجرح والتعدیل (3/ 343 ت: 2261)

2۔ ابو زرعۃ یحییٰ بن ابی عمرو السیبانی (الشیبانی) الحضرمی :

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شیخ ثقة ثقة‘‘ (کتاب الجرح والتعدیل: 9/ 177 وسندہ صحیح، تاریخ دمشق لابن عساکر: 64 / 165، کتاب العلل ومعرفۃ الرجال: 2615)

امام یعقوب بن سفیان الفارسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شامی ثقۃ‘‘ (المعرفۃ والتاریخ: 2/ 437)

اور انھیں ’’ثقات التابعین میں أھل مصر‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے۔ (المعرفۃ والتاریخ: 2/ 510)

امام ابو الحسن عجلی المعتدل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ثقۃ شامي‘‘ (تاریخ الثقات: 1991)

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وكان متيقظا‘‘ (مشاہیر علماء الامصار: 1429)

اور انھیں کتاب الثقات (7/ 609) میں ذکر کیا ہے۔

امام ابو احمد الحاکم الکبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أحد الثقات من أھل الشام یجمع حدیثہ‘‘ (تاریخ دمشق: 64/ 166 وسندہ حسن)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ثقۃ‘‘ (تقریب التہذیب:7616)

ابو الفرج مسعود بن الحسن الثقفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’من ثقات المسلمين‘‘ (فوائد ابی الفرج الثقفی: تحت ح 126)

امام ترمذی رحمہ اللہ نے ان کی بیان کردہ حدیث کے بارے میں فرمایا: ’’ھذا حدیث حسن‘‘ (سنن الترمذی2642) امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے ان سے روایت لی ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ1334) امام ابو عوانہ رحمہ اللہ نے المستخرج علی صحیح مسلم (22/ 226 ح 12811) میں ان سے روایت لی ہے۔ امام ابو عبداللہ الحاکم رحمہ اللہ نے المستدرک (4/ 474 ح 8417) میں ان کی بیان کردہ روایت کو ’’صحیح الإسناد‘‘ کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ نیز دیکھئے میزان الاعتدال (4/ 558 ت:10470) اور التکمیل فی الجرح والتعدیل لابن کثیر (2/ 258 ت: 1299) اور تاریخ دمشق لابن عساکر (64/ 159 ت: 8133)

3۔ عباد بن عباد، ابو عتبہ الخواص الشامی الارسوفی:

امام ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ثقة‘‘ (تاریخ عثمان بن سعید الدارمی: 495)

امام یعقوب بن سفیان الفارسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وكان من الزهاد والعباد ثقة‘‘ (المعرفۃ والتاریخ: 2/ 437)

امام ابو الحسن عجلی المعتدل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ثقۃ‘‘ (تاریخ الثقات: 763، وفی تاریخ الاسلام للذہبی: ’’ثقۃ، رجل صالح‘‘ 12 / 200)

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وكان من العبّاد … وكان ثقة‘‘ (الاستغناء فی معرفۃ المشہورین من حملۃ العلم بالکنی: 2/ 861)

امام ابو نعیم الاصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ومنهم الباكي الوباص، الزاكي القناص‘‘ (حلیۃ الاولیاء: 8/ 281)

ابو الفرج مسعود بن الحسن الثقفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أحد العباد من الثقات الذين أثنی عليهم يحيی بن معين أبو زكريا السرخسي، رحمہ الله، فقال: عباد بن عباد ‌ثقة ‌ثقة‘‘ (فوائد ابی الفرج الثقفی: تحت ح 126)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الزاھد العابد‘‘ (تاریخ الاسلام: 12 / 200)

تنبیہ: جمہور کی توثیق کے مقابلے میں ان پر امام ابن حبان رحمہ اللہ کی جرح ’’كان ممن غلب عليہ التقشف والعبادة حتی غفل عن الحفظ والإتقان فكان يأتي بالشيء علی حسب التوهم حتی كثر المناكير في روايتہ علی قلتها فاستحق الترك‘‘ (کتاب المجروحین: 2/ 170) مردود ہے۔ نیز امام ابن حبان رحمہ اللہ نے عباد بن عباد کو کتاب الثقات (8/ 435) میں بھی ذکر کیا ہے۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ اگر کسی راوی کو کتاب الثقات میں بھی ذکر کریں اور کتاب المجروحین میں بھی ذکر کریں تو عدم تطبیق وتوفیق کی صورت میں اُن کے دونوں اقوال ساقط ہو جائیں گے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال میں ’’عبدالرحمٰن بن ثابت بن الصامت‘‘ کے ترجمے میں فرماتے ہیں: ’’وقال ابن حبان: فحش خلافہ للأثبات فاستحق الترك …… وذكره أيضا ابن حبان في الثقات ‌فتساقط قولاه‘‘ (میزان الاعتدال: 2 / 552 ت: 4829)

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے عبد الرحمٰن بن ثابت کو کتاب الثقات میں بھی ذکر کیا اور کتاب المجروحین میں بھی ذکر کیا، لہٰذا امام ابن حبان رحمہ اللہ کے دونوں قول ساقط ہو گئے ہیں۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’قلت: بل العبرۃ بمن وثقوہ‘‘ (تاریخ الاسلام: 12 / 200)

4۔ زکریا بن نافع الارسوفی:

امام یعقوب بن سفیان الفارسی رحمہ اللہ نے ان سے اپنی کتاب المعرفۃ والتاریخ (2/ 298) میں روایت لی ہے اور وہ اپنے نزدیک عام طور پر صرف ثقہ سے ہی روایت لیتے ہیں۔ (دیکھئے تہذیب التہذیب: 11/ 339 ترجمہ: ’’یعقوب بن سفیان الفارسي‘‘، طلیعۃ التنکیل: ص 24 ملخصًا، امام یعقوب بن سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کتبت عن ألف شیخ وکسرٍ کلھم، ثقات‘‘ نیز دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر: 71/ 183، 74/ 163، تہذیب التہذیب: 1/ 27 ترجمہ: أحمد بن صالح المصري، نیز دیکھئے سیر اعلام النبلاء، ومغاني الاخیار وغیرہ)

امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انھیں کتاب الثقات (8/ 252) میں ذکر کیا اور کہا: ’’یغرب‘‘۔

امام ابو سعد السمعانی رحمہ اللہ ’’الارسوفی‘‘ نسبت کے تحت فرماتے ہیں: ’’كان جماعة من العلماء والمرابطين، منهم ابو يحيى ‌زكريا ‌بن ‌نافع الأرسوفي‘‘۔

علامہ ابو الحسن نور الدین الہیثمی ’’زکریا بن نافع‘‘ اور ’’سری بن یحییٰ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وكلاهما ثقة‘‘ (مجمع الزوائد: 10/ 196 ح 17496، نیز دیکھئے 10/ 197 ح 17502)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’إسناده جيد، وزكريا الأرسوفي صدوق إن شاء الله‘‘ (تاریخ الاسلام: 3/ 512، 513)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ’’ذكره هكذا ابن أبي حاتم ۔ ولم يضعفہ لا هو ولا أحد‘‘ (تاریخ الاسلام: 16/ 168)

5۔ حصین بن وہب الارسوفی:

امام ضیاء المقدسی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الاحادیث المختارۃ (11/ 262 ح 266) میں ان سے روایت لی ہے۔

امام طبرانی رحمہ اللہ اپنی کتاب المعجم الصغیر (1/ 259 ح 423) میں فرماتے ہیں: ’’حدثنا ‌حصين ‌بن ‌وهب الأرسوفي، بمدينة أرسوف ، حدثنا أيوب بن أبي حجر الأيلي، حدثنا بكر بن صدقة، عن هشام بن سعد، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ إلخ‘‘۔ علامہ ابو الحسن نور الدین الہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’رواه الطبراني في الصغير وفيہ أيوب بن أبي حجر قال أبو حاتم: أحاديثہ صحاح وضعفہ الأزدي، وبقية رجالہ ثقات‘‘ (مجمع الزوائد: 5/ 332 ح 9703)

یعنی حصین بن وہب الارسوفی علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی ثقہ تھے۔

امام ضیاء المقدسی رحمہ اللہ اگر کسی راوی سے المختارۃ میں روایت لیں اور جرح نہ کریں تو؟

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وقد أخرجہ أبو عبداللہ المقدسی في کتابہ (المختارۃ) الذي ہو أصح من (صحیح الحاکم)‘‘ (مجموع الفتاوی 33/13، الفتاوی الکبری3/276، نیز دیکھئے مجموع الفتاوی 1/170، 238، 239، 22/426، الفتاوی الکبری2/166، مجموع الفتاوی1/255، 256، 23/108، الفتاوی الکبری 2/245)

احمد رضاخان بریلوی نے فتاویٰ رضویہ میں متعدد مقامات پر امام ضیاء المقدسی کی کتاب ’’الاحادیث المختارۃ‘‘ کو ’’صحیح المختارۃ‘‘ اور ’’مستدرک حاکم‘‘ کو ’’صحیح مستدرک‘‘ کہا ہے۔ (مثلاً دیکھئے فتاویٰ رضویہ: 5/ 469)

بلکہ ایک مقام پر فرمایا: ’’رمزت للبخاري خ ولمسلم م ولابن حبان حب وللحاکم فی المستدرک ک وللضیاء فی المختارۃ ض وجمیع مافی ھذہ الکتب الخمسۃ صحیح سوی مافی المستدرک من المتعقب فائبہ علیہ‘‘ (فتاویٰ رضویہ: 5/ 540)

آلِ دیوبند کے ’’علامہ اور محقق‘‘ ظفر احمد عثمانی تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے: ’’وأحادیث المختارۃ کلھا صحاح عندہ کما صرح بہ السیوطي في مقدمۃ کنز العمال‘‘ اور المختارہ کی تمام حدیثیں صحیح ہیں جیسا کہ (جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر) سیوطی (متوفی 911 ھ) نے کنز العمال کے مقدمے میں صراحت کی ہے۔ (اعلاء السنن: 7/ 287)

علامہ نور الدین الہیثمی رحمہ اللہ کی توثیق اور علمائے دیوبند!

سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے: ’’اور اپنے وقت میں اگر علامہ ہیثمی ؒ کو صحت اور سقم کی پرکھ نہیں تو اور کس کو تھی؟‘‘ (احسن الکلام، حاشیہ: 1/ 233، دوسرا نسخہ: 1/ 290)

آلِ دیوبند کے ’’علامہ اور محقق‘‘ ظفر احمد عثمانی تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے: ’’سکوت الھیثمي عن رواتہ یدل علی أنھم ثقات عندہ، فلا أقل من أن یکون حسنًا‘‘ (یعنی ظفر احمد عثمانی دیوبندی کے نزدیک) اس کے راویوں سے علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا سکوت دلیل ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقہ ہیں، لہٰذا یہ حسن درج سے کم نہیں۔ (اعلاء السنن: 4/ 80)

صوفی مناوی اور علامہ عزیزی نے بھی توثیق کی!!

یہاں بطور تائید عرض ہے کہ آلِ تقلید میں سے آلِ دیوبند اور آلِ بریلی کے ہاں صوفی عبدالروؤف المناوی (م 1031ھ) اور علامہ عزیزی کا بڑا مقام ہے، اور ان کی تصحیح اور تضعیف ان دونوں گروہوں کے ہاں معتبر اور معتمد ہے، چناں چہ صوفی عبد الروؤف المناوی (م 1031ھ) نے حصین بن وہب کی روایت کے بارے میں فرمایا: ’’إسنادہ حسن‘‘ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر: 2/ 433)

اس سے معلوم ہوا کہ صوفی مناوی کے نزدیک بھی حصین بن وہب حسن الحدیث راوی ہے۔

اور علامہ عزیزی نے بھی اس کی روایت کو ’’اسنادہ حسن‘‘ قرار دیا۔ (دیکھئے السراج المنیر شرح جامع الصغیر: 4/ 313)

آل دیوبند کے ہاں امام اہلِ سنت سرفراز خان صفدر کڑمنگی نے علامہ عزیزی اور علامہ مناوی کے احادیث کے بارے میں احکام کو بطورِ دلیل ذکر کیا ہے۔ دیکھئے تسکین الصدور (ص 221، 295، 319، 324)

احمد رضا خان بریلوی نے بھی متعدد مقامات میں علامہ مناوی کی تحقیقات پر اعتماد کیا ہے۔ ایک مقام پر نقل کیا ہے کہ ’’قال المناوي: اسنادہ جید‘‘ ( فتاویٰ رضویہ 5/ 620)

ایک اور مقام پر لکھا کہ ’’علّامہ مناوی وعلّامہ عزیزی نے تیسیر وسراج المنیر میں زیر طریق اول لکھا: ضعیف لکن یقویہ ما بعدہ (ضعیف ہے مگر پچھلی حدیث اسے قوت دیتی ہے) زیرِ طریق دوم فرمایا: ضعیف لضعف الضحاک بن حجرۃ لکن یضعدہ ما قبلہ (ضحاک بن حجرۃ کے ضعف سے یہ بھی ضعیف ہے مگر پہلی اسے طاقت بخشتی ہے۔ت) متبع کلماتِ علماء اس کی بہت مثالیں پائے گا۔ ( فتاویٰ رضویہ 5/ 475)

تنبیہ: ہمارے نزدیک علامہ مناوی کی کسی حدیث کے بارے میں تحقیق ہو یا کسی اور کی تحقیق ہو، اس کی اصل سند چیک کرنے کے بعد ہی ائمہ محدثین کے منہج کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

About Post Author

salahudin khan gorchani

I am Software Engineer ,Wordpress Web Developer and Freelancer
Happy
Happy
0 %
Sad
Sad
0 %
Excited
Excited
0 %
Sleepy
Sleepy
0 %
Angry
Angry
0 %
Surprise
Surprise
0 %

About Author