اولیا کا وسیلہ دینا کیسا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ سسٹر سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں اور ہمیں حق کا متلاشی ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کی اصلاح حکمت سے کرنی چاہیے ااور بات بھی احسن انداز سے کرنی چاہیے جیسا کہ قرآن کا حکم ہے۔ اور ہمیں کسی پر کوئی فتویٰ نہیں لگانا چاہیے یہ ہمارے ذمہ نہیں ہے اللہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کرے اور وہ گمراہ نہیں کرتا مگر ظالموں کو
القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل
آیت نمبر 125-125
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ ۞
ترجمہ:
آپ دعوت دیجیے اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کیجیے بہت اچھے طر طریقے سے یقینا آپ کا رب خوب واقف ہے ان سے جو اس کے راستے س سے بھٹک گئے ہیں اور وہ خوب جانتا ہے ان کو بھی جو راہ ہدایت پر ہیں ۞
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ صرف اس کو ہدایت دیتا ہے جو ہدایت کا طلبگار ہوتا ہے اب جو ہدایت کا طلبگار ہوتا ہے وہ پہلے عقیدہ نہیں بنا کے رکھتا بلکہ وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ قرآن و حدیث میں آئے گا اسے دل سے قبول کرے گا/گی
القرآن – سورۃ نمبر 13 الرعد
آیت نمبر 27-27
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَيَقُوۡلُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡهِ اٰيَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡۤ اِلَيۡهِ مَنۡ اَنَابَ ۞
ترجمہ:
اور کہتے ہیں یہ کافر لوگ کہ کیوں نہیں اتاری گئی اس شخص پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف سے آپ کہہ ددیجیے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور اپنی طرف ہدایت اسی کو دیتا ہے جو خود (اس کی طرف) رجوع کرے ۞
قرآن وسیلہ کا بالکل انکار نہیں کرتا
لیکن یاد رکھئے جو چیزیں قرآن حدیث سے ثابت ہیں انکو ہی وسیلہ لیا جائیگا ۔
مثال کے طور پر آپ نے فرمایا آدم علیہ السلام کی توبہ حضور کے وسیلے سے قبول ہوئی آپ قرآن و حدیث سے ایک حدیث لائیے صحیح سند سے آپ نہیں لا سکیں گی کیونکہ یہ قرآنن کے ہی خلاف ہے ۔
قرآن کہتا ہے القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 37-37
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَتَلَقّٰٓى اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيۡهِؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ ۞
ترجمہ:
پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے چند کلمات تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی۔ یقیناً وہی تو ہے توبہ کا بہت قبول کرنے والا بہت رحم فرمانے والا۔ ۞
اور قرآن نے ہی وہ کلمات بھی بتا دئیے
القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف
آیت نمبر 23-23
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَـنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ ۞
ترجمہ:
(اس پر) وہ دونوں پکار اٹھے کہ اے ہمارے رب ہم نے ظلم کیا اپنی جانوں پر اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم تباہ ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے ۞
2. دوسرے نمبر پر آپ نے معجزہ بیان کیا ہے یار رہے معجزہ قانون نہیں ہوتا۔
جیسا کہ آج کوئی عورت بغیر شادی کے بچہ پیدا کرے اور کہے کہ بچہ حلالی ہے کیونکہ میں نے مریم علیہ السلام کی سنت پر عمل کیا ہے تو کوئی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا۔ کیونکہ معجزہ قانون نہیں ہوتا
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى ، عَنْ ثُمَامَةَ بْ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا ، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَانَا ، قَالَ : فَيُسْقَوْنَ .
جب کبھی عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپاپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاچچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے ک کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
Sahih Bukhari#1010