نبی اکرمؐ کا خطبہ حجۃ الوداع

حجۃ الوداع کی اصطلاح

جناب سرور کائنات، فخر موجودات، شفیع المذنبین، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ وسلم کا ہر ایک ارشاد، ہر جملہ اور ہر لفظ اہمیت کا حامل ہے اور ان میں ہمارے لیے ہدایت اور راہنمائی کے بہت سے پہلو ہیں۔ لیکن جناب نبی کریمؐ کے ہزاروں ارشادات عالیہ میں جن چند ارشادات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ان میں حجۃ الوداع کا خطبہ بھی شامل ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے جو آخری حج کیا، اسے دو حوالوں سے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ ایک اس حوالہ سے کہ آپؐ نے آخری حج وہی کیا، اور اس حوالے سے بھی کہ نبی کریمؐ نے خود اس خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ

ایھا الناس انی واللہ لا ادری لعلی لا القاکم بعد یومی ھذا۔ (دارمی، ۲۲۹۔ مسند ابی یعلیٰ، ۷۴۱۳۔ مستدرک حاکم، ۲۹۴)

’’اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں‘‘۔

یعنی حضورؐ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں اپنے صحابہؓ سے آخری اجتماعی ملاقات کر رہا ہوں۔ آپؐ نے بطور خاص فرمایا کہ مجھ سے باتیں پوچھ لو، سیکھ لو، جو سوال کرنا ہے وہ سوال کر لو، شاید اس سال کے بعد میں تم لوگوں سے اس طرح کی ملاقات نہ کر سکوں، گویا حضورؐ خود بھی الوداع کہہ رہے تھے۔ اس مناسبت سے اس حج کو حجۃ الوداع کہتے ہیں۔

نبی کریمؐ نے ہجرت کے بعد ایک ہی حج کیا اور وہ حج یہی تھا۔ جب حضورؐ کا ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام تھا، ۵۳ سال کی عمر تک آپؐ حج کرتے رہے۔ آپؐ نے کتنے حج ادا کیے ان کی تعداد ذکر نہیں ہے۔ محدثین یہ فرماتے ہیں کہ جب سے حضورؐ نے ہوش سنبھالا اور مکہ میں رہے تو ظاہر ہے کہ ہر سال حج میں شریک ہوتے رہے ہوں گے۔ روایات میں یہ ذکر آتا ہے کہ حج کے موقع پر جو اجتماع ہوتا تھا، منٰی میں، عرفات میں، لوگ دنیا کے مختلف حصوں سے حج کے لیے آتے تھے، تو نبی کریمؐ اس اجتماع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ آپؐ مختلف خیموں میں جاتے تھے، لوگوں سے ملتے تھے اور دعوت دیتے تھے۔ چنانچہ انصارِ مدینہ کے دونوں گروہوں اوس اور خزرج کے ساتھ رسول اللہؐ کا جو رابطہ ہوا، وہ حج ہی کے موقع پر ہوا ۔ ان دونوں قبائل کے لوگ حج کے لیے آئے ہوئے تھے، حضورؐ مختلف خیموں میں جا کر دعوت دے رہے تھے تو انہوں نے آپؐ کی بات توجہ سے سنی اور قبولیت کا اظہار کیا۔

حجۃ الوداع کی پیشگی تیاری

رمضان المبارک ۸ھ میں مکہ فتح ہوا۔ ۹ھ میں مسلمانوں نے اجتماعی طور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امارت میں پہلا حج ادا کیا۔ حضورؐ اس حج میں خود تشریف نہیں لے گئے بلکہ حضرت ابوبکر صدیق کو مدینہ سے امیرِ حج بنا کر بھیجا اور ان کے ذریعے حج کے موقع پر کچھ اعلانات کروائے۔ ان کے بعد حضرت علیؓ کو بھیجا، کچھ اعلانات ان کے ذریعے کروائے اور آئندہ سال اپنے حج کے لیے تیاری کی (بخاری، رقم ۳۵۶)۔ اس تیاری میں دو تین باتیں اہم تھیں۔ پہلی یہ کہ مختلف عرب قبائل کے ساتھ جو معاہدات تھے، ان میں سے کچھ کو باقی رکھنے کا فیصلہ کرنا تھا اور کچھ کو ختم کرنے کا۔ اور دوسری بات یہ تھی کہ آئندہ سال اپنے حج سے پہلے حضورؐ مکہ کے ماحول میں کچھ صفائی چاہتے تھے۔ مثلاً پہلے ہر قسم کے لوگ حج کے لیے آجاتے تھے، آپؐ نے اعلان کروا دیا کہ آج کے بعد کوئی غیر مسلم یہاں نہیں آئے گا، یہ بیت اللہ صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے، یہ بیت اللہ ابراہیمی ہے اور ابراہیم علیہ السلام کی ملت کے لیے مخصوص ہے۔ اسی طرح پہلے بہت سے لوگ حج کے لیے آتے تو ننگے طواف کرتے، مرد بھی اور عورتیں بھی۔ عورتوں نے معمولی سا لنگوٹی طرز کا کوئی کپڑا پہن رکھا ہوتا تھا۔ اور کہتے تھے کہ یہ نیچر ہے کہ ہم دنیا میں بھی ننگے آئے تھے اس لیے ہم اللہ کے دربار میں ننگے ہی پیش ہوں گے۔ بعض روایات (مسلم، رقم ۵۳۵۳) میں ذکر ہے کہ مرد تو تلبیہ پڑھتے تھے لیکن عورتیں کچھ اشعار پڑھتی تھیں، مثلاً

الیوم یبدو بعضہ أو کلہ     فما بدا منہ فلا أحلہ

جن کا مطلب یہ تھا کہ ہم اللہ کے دربار میں اس کیفیت(ننگی حالت) میں پیش ہیں۔ ہمارا سارا ستر یا اس کا کچھ حصہ دکھائی دے گا لیکن ہم اپنے آپ کو کسی پر حلال نہیں کرتیں کہ وہ ہماری طرف دیکھے۔ عورتیں اس طرح کے اشعار پڑھتی ہوئی طواف کیا کرتی تھیں۔ نبی کریمؐ نے یہ اعلان بھی کروا دیا کہ آج کے بعد کوئی شخص ننگا طواف نہیں کرے گا۔ عورتیں تو مکمل لباس میں ہوں گی اور با حیا و با وقار طریقہ سے آ کر طواف کریں گی۔ اور مرد بھی اپنا جسم مکمل طور پرڈھانپیں گے لیکن دو چادروں سے۔

یہ دو اعلان حضورؐ نے اگلے سال کے لیے کروا دیے کہ اگلے سال کوئی غیر مسلم حج کے لیے نہیں آئے گا اور کوئی ننگا طواف نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ اور بھی متفرق اعلانات کروائے کہ آج کے بعد حج میں فلاں عمل ہوگا اور فلاں نہیں ہوگا۔ پھر اس اہتمام کے ساتھ نبی کریمؐ نے پورا سال مختلف قبائل میں پیغامات بھیجے کہ آئندہ سال رسول اللہؐ حج کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں اس لیے جو مسلمان بھی اس موقع پر پہنچ سکتا ہے، پہنچے۔ چنانچہ پورا سال یہ اعلانات ہوتے رہے، لوگوں تک یہ پیغام پہنچتا رہا کہ جس مسلمان نے حضورؐ کی رفاقت حاصل کرنی ہے، معیت حاصل کرنی ہے، جس نے آپؐ سے کوئی بات پوچھنی ہے تو وہ حج پر پہنچے۔ اس طرح ۱۰ھ کے حج کے لیے پورے اہتمام کے ساتھ جزیرۃ العرب کے مختلف علاقوں سے لوگ آئے۔ ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چالیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حجۃ الوداع کے موقع پر جمع ہوئے۔ یہ جناب نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ میں صحابہؓ کا سب سے بڑا اجتماع تھا، حضورؐ کی حیات میں اس سے بڑا صحابہؓ کا اجتماع نہیں ہوا۔ صحابہ کرامؓ مختلف علاقوں سے آئے اور انہوں نے نبی کریمؐ کے ساتھ حج ادا کیا۔

حجۃ الوداع کے خطبات

اس حج کے موقع پر حضورؐ نے بہت سی ہدایات فرمائیں۔ خطبۂ حجۃ الوداع جسے کہتے ہیں، یہ حضورؐ کی مختلف ہدایات کا مجموعہ ہے۔ ان میں دو تو بڑے خطبے ہیں۔ ایک خطبہ حضورؐ نے عرفات میں ارشاد فرمایا، یہی خطبہ سنتِ رسولؐ کے طور پر اب بھی ۹ ذی الحجہ کی دوپہر کو عرفات کے میدان میں پڑھا جاتا ہے۔ دوسرا خطبہ وہ ہے جو حضورؐ نے منٰی میں ارشاد فرمایا۔ یہ دو تو باقاعدہ خطبے ہیں۔ جبکہ امام قسطلانیؒ نے ’’المواہب اللدنیۃ‘‘ میں حضرت امام شافعیؒ کے حوالہ سے چار خطبات کا ذکر کیا ہے۔ اس موقع پر صحابہ کرامؓ کثیر تعداد میں تھے، انہوں نے نبی کریمؐ سے خطبات سنے، جس کو جو بات یاد رہی اس نے وہ آگے نقل کر دی۔ اس کے علاوہ آنحضرتؐ سے بہت سے سوالات پوچھے گئے جن کے آپؐ نے جوابات دیے۔ حضورؐ نے حج کے مختلف مسائل کے بارے میں بھی ہدایات دیں۔ صحابہ کرامؓ سے عرفات اور منٰی میں نبی کریمؐ نے جو کچھ فرمایا، صحابہ کرامؓ نے جو جو بات یاد رکھ کر آگے منتقل کی، اس کو محدثین نے محفوظ کیا۔ ان سب کا مجموعہ محدثین کی اصطلاح میں ’’حجۃ الوداع کا خطبہ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں عرفات و منٰی کے دو خطبے بھی شامل ہیں اور مختلف مواقع پر نبی اکرمؐ کے دیگر عمومی خطابات بھی شامل ہیں۔ وہ زمانہ لکھنے پڑھنے کا زمانہ نہیں تھا بلکہ یادداشت کا زمانہ تھا اور یادداشت پر لوگ اعتماد کرتے تھے۔ یہ حجۃ الوداع کا خطبہ بیسیوں بلکہ اس سے بھی زیادہ سینکڑوں روایات میں نقل ہوا ہے۔

اس حجۃ الوداع کے خطبہ پر محدثین نے مختلف ادوار میں کام کیا ہے۔ حجۃ الوداع کی اہمیت کی ایک بات تو یہ ہے کہ یہ حضورؐ کی حیات مبارکہ میں صحابہؓ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ دوسرا یہ کہ حضورؐ نے خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ شاید یہ میری تمہاری آخری اجتماعی ملاقات ہو۔ اور پھر ایک بہت اہمیت والی بات یہ ہے کہ اس موقع پر ہی آیت تکمیل دین نازل ہوئی۔

دورِ جاہلیت کا خاتمہ

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر بہت اہم اعلانات فرمائے۔ مثلاً آپؐ نے ایک بڑی اہم اور تاریخی بات یہ فرمائی کہ یاد رکھو! جاہلیت کا دور ختم ہوگیا ہے اور اسلام کا دور شروع ہو گیا ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ

الا کل شئ من امر الجاہلیۃ تحت قدمی موضوع۔ (مسلم، ۲۱۳۷)

’’آگاہ رہو! جاہلیت کا ہر کام میں اپنے ان دونوں قدموں کے نیچے دفن کر رہا ہوں۔‘‘

آج کل دنیا میں ایک مسئلہ چلتا ہے روشن خیالی اور تاریک خیالی کا۔ دورِ علم کا اور دورِ جاہلیت کا۔ ہمیں تلقین ہوتی ہے کہ دورِ علم اختیار کریں اور دورِ جاہلیت چھوڑیں۔ جاہلیت کی بات چھوڑیں اور علم کا راستہ اختیار کریں۔ اب روشن خیالی سے کون انکار کرے گا؟ کوئی عقل منداور دانش ور آدمی روشن خیالی اور علم کی بات سے انکار نہیں کر سکتا اور جاہلیت کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ لیکن اصطلاحات کا فرق ہے۔ روشن خیالی کسے کہتے ہیں اور تاریک خیالی کسے کہتے ہیں؟ جاہلیت کا دور کون سا ہے اور علم کا دور کون ساہے؟ اپنی اپنی اصطلاحات اور تعریفات ہیں۔ چنانچہ چند بنیادی فرق ہیں جن کو اس کشمکش میں سمجھنا ضروری ہے اور اس میں بنیادی کردار رسول اللہؐ کا یہ ارشاد ادا کرتا ہے کہ آج جاہلیت کی ساری قدریں میرے ان پاؤں کے نیچے ہیں۔

مغرب کی روشن خیالی اور اسلام

مغرب کی روشن خیالی میں اور ہماری روشن خیالی میں تین بنیادی فرق ہیں۔

دور علم اور دور جاہلیت: پہلا بنیادی فرق یہ ہے کہ مغرب کی روشن خیالی کی عمر تقریباً سوا دو سو سال ہے، جبکہ ہماری روشن خیالی کی عمر تقریباً چودہ سو سال ہے۔ مغرب کی روشن خیالی کا آغاز انقلابِ فرانس سے ہوتا ہے۔ جب بھی مغرب میں روشن اور تاریک دور کی بات ہوتی ہے تو حد فاصل انقلابِ فرانس قرار پاتی ہے۔ مغرب کے ہاں اس سے پہلے کا دور جاہلیت اور جبر کا دور کہلاتا ہے جبکہ اس کے بعد کا دور ترقی اور روشن خیالی کا دور کہلاتا ہے۔ ان سے آپ پوچھ لیں کہ یہ قرون وسطیٰ، قرون مظلمہ، تاریک دور (Dark ages) کسے کہتے ہیں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ یہ انقلاب فرانس سے پہلے کی دو چار صدیاں ہیں۔ جبکہ انقلاب فرانس اٹھارہویں صدی کے آخر میں ہوا۔ جس طرح مغرب کے حلقوں میں یہ بات معروف ہے کہ فلاں بات تاریک دور کی بات ہے اور فلاں بات روشن دور کی بات ہے، اسی طرح ہمارے ہاں بھی ایک اصطلاح معروف ہے۔ رسول اللہؐ کی بعثت سے پہلے کا کوئی واقعہ ذکر کرنا مقصود ہو تو کہا جاتا ہے کہ یہ دورِ جاہلیت کی بات ہے۔ یعنی یہ ٹرمینالوجی ہمارے ہاں بھی ہے کہ حضورؐ سے پہلے کا دور جاہلیت کا دور تھا اور حضورؐ کے آنے سے علم کا، روشنی کا دور شروع ہوا۔

وحی الٰہی اور انسانی سوسائٹی: دوسرا بنیادی فرق مغرب کی اور ہماری روشن خیالی میں یہ ہے کہ مغرب نے روشن خیالی کے نام پر بادشاہت سے نجات حاصل کی، جاگیرداری سے نجات حاصل کی، اور ساتھ ہی ساتھ بائبل اور چرچ سے بھی نجات حاصل کر لی۔ یعنی وہ وحی کی بالادستی سے بھی دستبردار ہوگئے اور کہا کہ ہم کسی کی ڈکٹیشن نہیں مانتے، ہم آزاد ذہن سے فیصلے کرتے ہیں۔ مغرب نے اپنے تمام تر فلسفے، عقائد اور فیصلوں کی بنیاد انسانی سوسائٹی کی خواہشات پر رکھی ہے۔ ہر چیز کی بنیاد اس پر ہے کہ سوسائٹی کیا چاہتی ہے۔ جمہوریت تو سوسائٹی کی خواہش معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اصل بنیاد سوسائٹی کی خواہشات پر ہے کہ سوسائٹی کیا سوچتی ہے اور سوسائٹی کیا چاہتی ہے۔ یہی حلال و حرام کی بنیاد ہے، یہی جائز ناجائز کی بنیاد ہے اور یہی قانون اور لا قانونیت کی بنیاد ہے۔ چنانچہ مغرب نے آسمانی تعلیمات سے دستبرداری اختیار کی اور انسانی سوسائٹی کی خواہشات کو اپنے تمام تر معاملات کی بنیاد بنایا اور کہا کہ یہ روشن خیالی ہے۔

قرآن کریم نے روشن خیالی کا اور معنٰی بیان کیا ہے۔ قرآن کریم نے بیسیوں مقامات پر اس کے متعلق بیان فرمایا، مثلاً‌

وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَـهُـمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ وَلَا تَتَّبِــعْ اَهْوَآءَهُـمْ وَاحْذَرْهُـمْ اَنْ يَّفْتِنُـوْكَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ اِلَيْكَ۔ (المائدہ ۵ ۔ آیت ۴۹)

’’اور یہ کہ تو ان لوگوں میں اس کے موافق حکم کر جو اللہ نے اتارا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر اور ان سے بچتا رہ کہ تجھے کسی ایسے حکم سے بہکا نہ دیں جو اللہ نے تجھ پر اتارا ہے‘‘۔

جناب نبی کریمؐ کو قرآن کریم نے حکم دیا کہ لوگوں کے معاملات کو وحی کے مطابق طے کیجیے اور وحی کے مقابلے میں ان کی خواہشات کی طرف مت دیکھیے۔ مطلق خواہشات کی نفی نہیں ہے بلکہ ایسی خواہشات کی نفی ہے جو وحی یعنی اللہ کے نازل کردہ احکامات و ہدایات کے مقابلے پر آئیں۔ اگر سوسائٹی کوئی جائز بات چاہتی ہے تو کوئی حرج کی بات نہیں لیکن بالادستی وحی کی ہے۔ فرمایا کہ جہاں اللہ کی ہدایات کا مسئلہ آئے وہاں ان کی خواہشات کی طرف مت دیکھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اس بات سے ڈرتے رہیں کہ سوسائٹی کی خواہشات کے پیچھے اگر آپ چلیں گے تو یہ اللہ کے احکام کے بارے میں آپ کو فتنے میں ڈال دیں گے۔

تو ہمارے نزدیک روشن خیالی نام ہے سوسائٹی کی خواہشات سے نکل کر وحی کی پیروی کا، جبکہ مغرب کے نزدیک روشن خیالی نام ہے وحی کے دائرہ سے نکل کر انسانی خواہشات کی پیروی کا۔ چنانچہ جو چیز ہمارے نزدیک علم ہے وہ مغرب کے نزدیک جہالت ہے، اور جو چیز ہمارے نزدیک تاریکی اور جہالت ہے وہ مغرب کے نزدیک روشن خیالی ہے۔ یہ ایک جوہری فرق ہے مغرب کی اور ہماری اصطلاح میں۔ اور اس بات کا ہم نے بیسیوں بار تجربہ کیا ہے کہ کسی بھی مسلم ملک میں قرآن کریم کے کسی حکم یا نبی کریمؐ کے کسی ارشاد کے بطور قانون نفاذ کا مطالبہ کیا جائے تو مغرب اور مغرب زدہ حلقوں سے ہمیں ایک بات مشترکہ طور پر جواب میں ملتی ہے کہ یہ لوگ تاریکی کے دور کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں، یہ قرون مظلمہ کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں۔

جاہلی قدروں کی طرف واپسی: تیسرا فرق مغرب اور ہماری روشن خیالی میں یہ ہے کہ جب جناب نبی اکرمؐ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ گویا آپؐ ارشاد فرما رہے ہیں کہ جاہلیت کا دور ختم ہوا اور میں جاہلیت کی ساری قدریں اپنے پاؤں کے نیچے روند کر نسل انسانی کو علم کے دور کی طرف لے کر آگے بڑھ رہا ہوں۔ اس سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہؐ کے مبارک قدموں کے نیچے کون کون سی قدریں پامال ہوئیں؟ ہمیں اس کا ذرا تجزیہ کر لینا چاہیے کہ وہ کون سی قدریں تھیں جو حضورؐ کے اعلانِ نبوت سے پہلے عرب معاشرہ میں موجود تھیں لیکن اعلانِ تکمیلِ دین تک مٹ چکی تھیں۔

ان قدروں میں ایک قدر تھی شرک۔ یہ بیس سال پہلے پورے عروج پر تھا لیکن اب جزیرۃ العرب میں کوئی بت خانہ باقی نہیں تھا۔ اور حضورؐ نے مکہ مکرمہ میں لوگوں کو اپنی دعوت کا بنیادی پیغام یہ بتایا تھا کہ

یا ایھا النّاس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا۔ (مسند احمد، رقم ۱۵۴۴۸)

’’اے لوگو کہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تاکہ تم فلاح پا جاؤ‘‘۔

ایک قدر نسل پرستی کی تھی کہ عرب معاشرے میں عرب اور عجم، کالے اور گورے کا فرق تھا، حضورؐ نے اسے ختم کیا۔ اس کے علاوہ شراب تھی، لاٹری اور جوا تھا، سود تھا، بے حیائی اور زنا تھا، ہم جنس پرستی تھی، یہ ساری قدریں بیس سال پہلے اپنے پورے عروج پر تھیں۔ لیکن جب حضورؐ نے فرمایا کہ یہ ساری قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں تو ان قدروں کا عرب معاشرے میں کوئی وجود باقی نہیں رہا تھا۔اور جو سوسائٹی حضورؐ نے متعارف کروائی وہ حقیقی انسانی قدروں سے مالا مال تھی۔ چنانچہ حضورؐ نے صرف ان جاہلی قدروں کو ختم کرنے کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ دنیا کو ایک ایسی سوسائٹی بنا کر دکھا دی جس میں شرک، زنا، شراب، سود، ناچ گانا، فحاشی، جوا، نجوم پرستی اور نسل پرستی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اور جب اپنے اعلان نبوت کے بائیس تئیس سال بعد منٰی کے مقام پر کھڑے ہو کر حضورؐ نے کل امر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی کہہ کر اپنی دعوت کے نتیجے کا اعلان کیا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے جو کام آپؐ کو دے کر بھیجا تھا آپؐ اس میں کامیاب ہو چکے تھے۔

تاریخ میں اور کوئی شخصیت آپ کو ایسی نہیں ملے گی جو یہ دعویٰ کر سکے کہ میں اپنا کام، اپنا مشن مکمل کر کے جا رہا ہوں۔ تاریخ انسانی میں حضورؐ وہ واحد شخصیت ہیں جن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنا مشن پورا کیا۔ اور نہ صرف پورا کیا بلکہ تکمیل پر اپنے صحابہؓ کو اس پر گواہ بنایا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضورؐ نے صحابہؓ سے فرمایا وأنتم تسئلون عنی کہ قیامت کے روز تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا۔ جب قیامت کا دن ہوگا، اللہ کی عدالت ہوگی تو اللہ تم لوگوں سے پوچھے گا کہ تمہاری طرف ایک پیغمبر کو مشن دے کر، پیغام دے کر بھیجا تھا، اس نے اپنا فرض ادا کیا یا نہیں، تو تم لوگ کیا جواب دو گے؟ اس پر صحابہؓ نے اجتماعی آواز سے کہا بلغت وادیت ووفیت آپ نے پیغام پہنچا دیا اور پہنچانے کا حق پوری طرح ادا کر دیا۔ حضورؐ نے اس پر آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا اللّٰھم اشھد یا اللہ تو گواہ رہنا۔

آج جب ہم روشن خیالی اور تاریک خیالی کی بحث میں پڑتے ہیں تو میں ایک سوال کیا کرتا ہوں کہ مغرب نے روشن خیالی کے نام پر ان قدروں میں کون سی قدر کا اضافہ کیا ہے؟ یہ تو وہی پامال قدریں ہیں جنہیں آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہؐ نے اپنے پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔ میں تو کہتا ہوں کہ مغرب ایک بہت اچھا بیوٹی پارلر ہے جس نے پرانی اور گھسی پٹی قدروں کو بیوٹی پارلر سے گزار کر نئے میک اپ کے ساتھ دنیا کے سامنے نئی تہذیب بنا کر پیش کر دیا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ وہی جاہلیتِ قدیمہ ہے جو ابو جہل کے حوالے سے منسوب ہو تو وہ جاہلی قدر کہلاتی ہے اور آج مغرب کے حوالے سے منسوب ہو تو اسے آرٹ اور کلچر کا نام دیا جاتا ہے۔

آسمانی تعلیمات یا انسانی خواہشات؟

چنانچہ نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ ایک تاریخی اعلان فرمایا کہ جاہلیت کا دور ختم ہوگیا ہے اور علم کا دور شروع ہو رہا ہے۔ حضورؐ نے علم کس چیز کو قرار دیا؟ آنحضرتؐ نے وحی کو، آسمانی تعلیمات کو، انبیاء کو ، کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کو علم قرار دیا۔ آج بھی دنیا میں اسی بات کا جھگڑا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ یہ کلچرل وار ہے، سولائزیشن کی جنگ ہے اور تہذیب و ثقافت کی جنگ ہے، اصل میں بنیادی اختلاف اسی پر ہے کہ ہم نے اپنی خواہشات پر چلنا ہے یا آسمانی تعلیمات کی بالادستی قبول کرنی ہے۔ اس کو آپ کچھ بھی عنوان دے دیں، جھگڑا در اصل یہی ہے۔ یہ پچھلے سال کارٹونوں کا مسئلہ چلا تھا۔ ڈنمارک کے صحافی فلیمنگ روز نے جناب نبی اکرمؐ کی توہین پر مبنی کے کارٹون چھاپے تھے، اس پر بڑی بحث چلی تھی اور خود فلیمنگ روز کا ایک طویل مضمون چھپا تھا۔ اس مضمون میں چند ایک باتیں اس گفتگو سے متعلق ہیں، میں وہ عرض کرتا ہوں۔ فلیمنگ نے کہا کہ ہم میں اور مسلمانوں میں فکری،ثقافتی یا تہذیبی طور پر کیا فرق ہے۔ اور کہا کہ ہم نے تو خدا، رسول اور کتاب کا حوالہ اپنے ذہنوں سے اتار دیا ہے۔ ہم کوئی فیصلہ کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ بائبل میں کیا لکھا ہے، کوئی قانون طے کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ خدا کیا کہتا ہے، اور کوئی بات کہتے وقت عیسیٰ کا حوالہ نہیں دیتے کہ انہوں نے اس بارے میں کیا کہا تھا۔ ہم تو آزاد ذہن سے فیصلے کرتے ہیں۔ پھر کہا کہ مسلمانوں نے ابھی تک خدا، رسول اور کتاب کا حوالہ اپنے ذہنوں پر مسلط رکھا ہوا ہے۔ یہ فرق ہے جس کی وجہ سے ہم میں اور مسلمانوں میں ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو رہی۔

فلیمنگ روز کی یہ بات ٹھیک بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان کتنے ہی بے عمل اور بد عمل کیوں نہ ہوں لیکن آج کے زمینی حقائق میں یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ خدا اور رسول کے ساتھ ہماری کمٹمنٹ آج بھی قائم ہے۔ خدا اور رسول کا حوالہ ہمارے ذہنوں سے اترا نہیں ہے۔ یہ بات ہمارے لیے تو خوشی کا باعث ہے لیکن دنیا کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ اور یہ حوالہ اتنا مضبوط ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں بھی بد عمل سے بد عمل اور بے عمل سے بے عمل مسلمان کو بھی اگر آپ نے خطاب کرنا ہے تو آپ کو خدا اور رسول کے حوالے سے بات کرنا ہوگی ورنہ آپ کی بات نہیں سنی جائے گی۔ یہاں تک کہ مسلمانوں میں بھی وہ لوگ جو سراسر قرآن و سنت کے خلاف بات کرتے ہیں، وہ حوالہ خدا اور رسول کا ہی دیں گے اور وہیں سے کوئی بات تاویل کر کے نکالیں گے۔ اگر یہ حوالہ نہیں دیں گے تو اس معاملہ میں ان کی بات نہیں سنی جائے گی۔

مغربی صحافی نے یہ تشویش ظاہر کی کہ ہم نے تو یہ حوالہ چھوڑ دیا لیکن مسلمان یہ حوالہ کیوں نہیں چھوڑ رہے۔ میں بھی لکھنے پڑھنے کے شعبہ کا آدمی ہوں، کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں۔ اس پر میں نے فلیمنگ روز سے ایک مضمون میں سوال کیا کہ تم لوگوں کے پاس تھا کیا جو تم نے چھوڑا ہے؟ کس بات کا رعب جماتے ہو ہم پر؟ تمہاری انجیل دنیا میں اس وقت ہے کہیں؟ تورات کا وجود ہے کہیں دنیا میں؟ لیکن ہمارے پاس تو کتاب اللہ موجود ہے اور سنت رسولؐ موجود ہے۔ یہ بہت بڑا بنیادی فرق ہے۔ دنیا کا کوئی یہودی دنیا کے کسی حصے میں تورات کے کسی نسخے پر ہاتھ رکھ کر یہ بات کہے کہ یہ وہ تورات ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ اور دنیا کا کوئی عیسائی دنیا کے کسی حصے میں انجیل کے کسی نسخے پر ہاتھ رکھ کر یہ بات کہے کہ یہ وہ انجیل ہے جو عیسیٰ علیہ والسلام پر نازل ہوئی تھی۔ کوئی یہودی اور کوئی عیسائی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا۔ جبکہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں قرآن کریم کے کسی بھی نسخے پر ہاتھ رکھ کر پوری تسلی کے ساتھ یہ کہہ دے گا کہ یہ وہ قرآن ہے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔

آج کل ایک فلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بن رہی ہے۔ ایک فلم اس سے پہلے بھی بن چکی ہے۔ اس فلم کے حوالے سے دنیا میں ایک بحث چلی، ایک مغربی دانشور نے سوال کیا کہ بھئی عیسیٰ پر فلم تو تم نے بنا لی لیکن اس کا مواد کہاں سے لیا؟ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا نے لکھا ہے کہ ہمارے پاس عیسیٰ کی حیات پر چند واقعات سے زیادہ کوئی مستند مواد نہیں ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ایک مستند حوالہ تصور کیا جاتا ہے۔ تو اس مغربی دانشور نے یہ حوالہ دے کر سوال اٹھایا کہ تم نے فلم تو بنا لی لیکن مواد کہاں سے لائے ہو؟

الحمد للہ ہم مسلمانوں کے پاس حضرت عیسیٰؑ پر اس سے کہیں زیادہ مواد موجود ہے۔ ہم عیسیٰ علیہ السلام کا خاندانی پس منظر جانتے ہیں کہ ان کی والدہ کب اور کیسے پیدا ہوئیں اور ان کی پرورش کہاں ہوئی۔ ہم جانتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کہاں ہوئی، کیسے ہوئی، بچپن میں کیا کرتے تھے، جوانی میں کیا کرتے تھے بلکہ یہاں تک جانتے ہیں کہ اب کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں، اور جب دنیا میں ان کا دوبارہ نزول ہوگا تو تب وہ یہاں آکر کیا کریں گے۔ ہم تو یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ فلاں مسجد کے مینارہ پر نازل ہوں گے، فلاں شہر میں آئیں گے اور آ کر اس دنیا میں کتنا عرصہ رہیں گے۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی شادی کہاں ہوگی، کس قبیلے میں شادی ہوگی اور بچے کتنے ہوں گے۔ ان کے بچے پیدا نہیں ہوئے لیکن نام ہمیں معلوم ہیں، اور یہ کہ ان کی وفات کہاں ہوگی اور پھر وہ کہاں دفن ہوں گے۔ ان کی قبر مبارک کی جگہ ہم نے محفوظ رکھی ہوئی ہے اور اس کے اوپر اب بھی درج ہے کہ ھٰذا موضع قبر النبی عیسٰی ابن مریم علیھما الصلٰوۃ والسلام۔ چنانچہ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان سے کہیں زیادہ اور مستند مواد کے ساتھ جانتے ہیں۔

قرآن کریم بھی مکمل، کسی اشتباہ کے بغیر، کسی ابہام کے بغیر ہمارے پاس موجود ہے۔ اور جناب نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ، آپؐ کے ارشادات عالیہ، آپؐ کے فرمودات، آپؐ کی تعلیمات اصل حالت میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ ہم حضورؐ کی حیات مبارکہ کے کسی حصے کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہیں ، ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، بس تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے۔

میں ایک بات آپ کے علم کے لیے عرض کر دوں کہ جن دنوں یہ بات چل رہی تھی تو میرے ذہن میں ایک خیال آیا حضورؐ کی حیات مبارکہ کے بارے میں سال بہ سال تفصیلات ہمارے پاس ریکارڈ پر موجود ہیں کہ پہلے سال کیا ہوا تھا، دوسرے سال کیا ہوا تھا، اور تیسرے سال کیا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ کوئی اللہ کا بندہ ہمت کر کے کوشش کرے تو ماہ بہ ماہ تفصیلات بھی مرتب ہو سکتی ہیں کہ مواد تو ہمارے پاس ہے بس محنت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس بارے میں ایک اشتہار سامنے آ گیا۔ لاہور میں سید قاسم محمود ہیں شاہکار انسائیکلو پیڈیا والے، بڑا کام کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔ اشتہار یہ تھا کہ ہم نے جناب نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ پر ماہ بہ ماہ تفصیلات مرتب کر لی ہیں۔ یہ تین ہزار صفحہ کی کتاب ہے جو دو مہینوں میں مارکیٹ میں آجائے گی۔

جب میں نے فلیمنگ روز کے جواب میں لکھا کہ تمہارے پاس تھا کیا جو تم نے چھوڑا جبکہ ہمارے پاس تو یہ موجود ہے، تو اس پر میں نے ایک لطیفہ لکھا کہ دو دوست آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا کہ اللہ تمہیں اگر دو گاڑیاں دے دے تو تم کیا کرو گے؟ دوسرے نے کہا، ایک تمہیں دے دوں گا۔ پہلے نے پھر کہا، تمہیں اللہ دو مکان دے دے تو کیا کرو گے؟ دوسرے نے کہا، ایک تمہیں دے دوں گا۔ پہلے نے کہا، اگر اللہ تمہیں دو گائیں دے دے تو کیا کرو گے؟ دوسرے نے جواب دیا ، بھائی صاحب! وہ میرے پاس پہلے سے موجود ہیں، ان پر نظر مت رکھو۔

تو بھئی ہمارے پاس وحی بھی ہے، قرآن کریم بھی ہے، حضورؐ کی تعلیمات بھی ہیں، اور بالکل اصل حالت میں کسی شبہ کے بغیر ہیں۔ اگر دنیا کا کوئی آدمی ہم سے یہ توقع رکھتا ہے کہ ہم انہیں چھوڑ دیں گے تو اسے اپنی عقل کا علاج کروانا چاہیے۔ ذرا خود سوچیے کہ جو لوگ واشنگٹن میں، ماسکو میں، لندن میں بیٹھ کر سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں قرآن کریم پڑھتے ہیں اور رسول اللہؐ کی سیرت کے ایک ایک جزو کو بیان کرتے اور سنتے سناتے ہیں، حضورؐ کا ایک ایک ارشاد نقل کرتے ہیں، ان سے کوئی یہ توقع رکھے کہ وہ یہ سب کچھ چھوڑ دیں گے تو وہ کہاں کا عقلمند ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ حضورؐ کا یہ ارشاد کہ جاہلیت کی ہر قدر آج میرے پاؤں کے نیچے ہے، تہذیبی کشمکش میں، ثقافتوں کی جنگ میں، اور دور جاہلیت و دور علم کی نشان دہی میں بہت بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور ہمارے لیے راہ نما ہے۔

نسلی اور لسانی تفاخر کا خاتمہ

جاہلیت کے دور میں عرب معاشرہ نسل، زبان اور رنگ کے تفاخر کا معاشرہ تھا۔ قریشی غیر قریشیوں کو برابر نہیں سمجھتے تھے، عرب غیر عربوں کو برابر نہیں سمجھتے تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی ہے، بے شک اس پر جتنی چاہے لیپا پوتی کی جائے لیکن رنگ اور نسل کی بنیاد پر تفاخر اور برتری کا یہ جذبہ آج بھی دنیا میں صاف نظر آتا ہے۔ علاقائی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی۔ یہ بات اس زمانے میں عروج پر تھی۔ آپ اس سے اندازہ کیجیے کہ نبی کریمؐ نے مکہ فتح کرنے کے بعد جب کعبہ کا کنٹرول سنبھالا، چابیاں منگوائیں اور کعبہ کو بتوں سے پاک کیا تو حضورؐ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بیت اللہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دو۔ یہ اعلان ایک طوفان تھا اس معاشرہ میں کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ بلالؓ ایک تو آزاد کردہ غلام ہیں، پھر کالے رنگ کے ہیں، عربی بھی نہیں بلکہ حبشی ہیں۔ کیا یہ بیت اللہ کی چھت پر کھڑا ہو کر اذان دے گا، وہاں طوفان مچ گیا۔ لیکن اعلان چونکہ نبی اکرمؐ نے کیا تھا تو کس کی مجال تھی کہ کچھ کہے۔ لیکن ایک قریشی سردار نے یہ منظر دیکھ کر جو جملہ کہا اسے تاریخ والے یوں نقل کرتے ہیں کہ

’’اے میرے باپ! تو بڑا خوش قسمت ہے کہ یہ منظر دیکھنے کے لیے آج زندہ نہیں ہے‘‘۔

بعد میں یہ قریشی سردار صحابیؓ ہو گئے تھے۔ لیکن اس وقت جب یہ منظر دیکھا تو روایت ہے کہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا اور اپنے باپ کا نام لے کر کہا کہ میرے باپ تو بڑا خوش قسمت ہے جو اس منظر کو دیکھنے سے پہلے دنیا سے سے چلا گیا کہ ایک کالے رنگ کا غیر عرب آدمی بیت اللہ کی چھت پر کھڑا ہے اور اللہ کا نام بلند کر رہا ہے۔ عام رواج یہ تھا کہ قریش اور غیر قریش کا خون برابر نہیں سمجھا جاتا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ قریشی اگر کسی غیر قریشی کو قتل کر دیتا تو جواب میں قریشی قتل نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ غیر قریشی اگر کسی قریشی کو قتل کرتا تو بدلے میں دو آدمی قتل ہوتے۔ اور پھر عرب و غیر عرب کا بھی فرق تھا کہ عربوں کو اپنی زبان پر بڑا فخر تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی زبان واقعی فخر کی چیز ہے لیکن اتنا بھی فخر کیا کہ دوسروں کو گونگا ہی کہنا شروع کر دیں۔ اس لیے کہ ’’عجمی‘‘ کا معنٰی گونگا ہے۔ وہ ہمیں عجمی کہتے تھے کہ یہ گونگے ہیں ، ان کو زبان نہیں آتی۔ جبکہ ’’عرب‘‘ فصیح کو کہتے ہیں۔ عرب کا لفظی معنٰی فصیح، بلیغ ، عمدہ گفتگو کرنے والا۔ اور عجمی کا معنٰی گونگا کہ جس کے منہ میں زبان نہ ہو، جو بول نہ سکتا ہو۔ چنانچہ یہ لسانی تفاخر تھا۔ نبی کریمؐ نے فتح مکہ پر اس رسم کو توڑ کر سب کو برابر کھڑا کر دیا اور پھر حجۃ الوداع کے موقع پر اس کی تاکید فرمائی کہ

یا ایھا الناس ان ربکم واحد وان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا اسود علی احمر الا بالتقوی ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔ (بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹۔ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء ۳/۱۰۰۔ مسند احمد، ۲۲۳۹۱)

’’اے لوگو! بے شک تمھارا رب بھی ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک۔ آگاہ رہو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔ ‘‘

یعنی حضورؐ نے فرمایا کہ میں آج تمام قسم کے نسلی و لسانی تفاخرات کا خاتمہ کرنے کا اعلان کر رہا ہوں، تم میں سے کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے، اور کسی سرخ کو کالے پر فضیلت نہیں ہے۔ آپؐ نے صرف یہ اعلان نہیں فرمایا بلکہ ایک ایسی سوسائٹی قائم کی کہ واقعتا لوگوں نے دیکھا کہ یہ سارے امتیازات ختم ہوگئے تھے۔

تابعین میں ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں عطاء ابن ابی رباحؒ ۔ بڑے محدث، بڑے فقیہ اور بڑے امام ہیں۔ وہ غلاموں کے خاندان سے تھے اور آزاد کردہ غلام تھے۔ سیاہ رنگ کے تھے، کہتے ہیں کہ شکل زیادہ مناسب نہ تھی اور ناک ایسے تھی جیسے لوبیہ ہوتا ہے۔ لیکن وہ مکہ کے سب سے بڑے فقیہ تھے، بڑے بڑے علما کو بھی مسئلہ پوچھنا ہوتا تو ان سے پوچھتے تھے کہ حضرت، یہ مسئلہ کیا ہے۔ سلیمان ابن عبد الملک جو اس زمانہ میں آدھی دنیا پر مسلم حکومت کے خلیفہ تھے، وہ حج پر آئے۔ ایک موقع پر عطاء ابن ابی رباحؒ نماز پڑھ کر بیٹھے تھے اور امیر المومنین و خلیفۃ المسلمین سلیمان ابن عبد الملک کو حج کے متعلق دو تین مسئلے پوچھنے تھے۔ اپنے بیٹوں کو ساتھ لائے اور آکر بیٹھے۔ حضرتؒ نماز سے فارغ ہوئے اور ایسے ہی بیٹھے بیٹھے گردن موڑ کر پوچھا، جی فرمائیے۔ امیر المؤمنین صاحب نے مؤدب بیٹھے ایک مسئلہ پوچھا، پھر دوسرا پوچھا، جب مطلوبہ مسئلے پوچھ لیے اور اٹھ کر جانے لگے تو اپنے بیٹوں سے کہا، بیٹو ! علم حاصل کرو، یہ علم ہی ہے جس کی وجہ سے مجھے اس کالے کے سامنے نیچا ہونا پڑا۔ یہ علم ہی ہے جس نے اس کو یہ مقام بخشا کہ مجھے امیر المؤمنین ہو کر اس کے سامنے مؤدب ہو کر بیٹھنا پڑا۔ بیٹوں سے کہا کہ علم حاصل کرو، علم انسان کے عیوب پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جناب نبی کریمؐ نے عملاً ایسی سوسائٹی دنیا میں قائم کی کہ جہاں عطاء ابن ابی رباحؒ کے سامنے امیر المؤمنین سلیمان ابن عبد الملک کو بھی مؤدب ہو کر بیٹھنا پڑتا تھا۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے۔ امام مالکؒ بڑے لوگوں میں سے تھے، بہت بڑے امام تھے۔ ہارون الرشید کا زمانہ تھا، اس نے امام مالکؒ کو پیغام بھیجا کہ میں آپ سے شاگردی کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں تو کبھی آپ تشریف لائیں اور مجھے کچھ پڑھا دیں۔ امام صاحبؒ نے فرمایا ، نہیں بھائی! آپ امیر المؤمنین ہیں اور قابل احترام ہیں لیکن میں کسی کے ہاں پڑھانے نہیں جاتا۔ فرمایا کہ پڑھنا ہے تو یہاں آجائیے۔ یعنی پڑھنے کے لیے مسجد میں آنا پڑے گا اور کلاس میں بیٹھنا پڑے گا۔ ہارون الرشید نے دوسرا پیغام بھیجا کہ حضرت ٹھیک ہے میں حاضر ہوتا ہوں لیکن بہرحال کچھ پروٹوکول تو چاہیے کہ میں امیر المؤمنین ہوں۔ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ جب آؤ گے ، جہاں جگہ ہو گی وہیں بیٹھنا پڑے گا۔ روایات میں آتا ہے کہ ہارون الرشید اپنے بیٹے مامون اور امین کے ساتھ آیا تو مجلس میں پیچھے جگہ ملی، وہاں بیٹھا، حدیثیں سنیں اور پھر یہ کہا کہ میں خود کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتا کہ روایت حدیث میں اپنے آپ کو راوی شمار کروں لیکن اس عظیم المرتبت شخصیت کاشاگرد ہونے کے لیے میں نے ایسا کیا ہے۔ یہ صرف اس لیے کیا کہ مجھے شاگردی کا شرف حاصل ہو جائے کہ حدیث کی کسی سند میں ، کسی کونے میں میرا نام بھی لکھا جائے کہ یہ فلاں محدث کا شاگرد ہے اور فلاں حدیث روایت کرتا ہے۔

نبی اکرمؐ نے جاہلیت کے جتنے امتیازات تھے وہ ختم کیے اور حجۃ الوداع کے موقع پر خاص اس کا اعلان فرمایا۔ اور یہ قرآن کریم میں بھی ہے کہ

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ۔ (الحجرات ۴۹ ۔ آیت ۱۳)

’’اے لوگو ! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قبائل اور برادریوں میں تقسیم کیا ہے تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔‘‘

قرآن کریم نے بنیادی اصول بیان فرمایا کہ دیکھو ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، آدم اور حوا سے۔ ہاں قبائل اور برادریاں ہم نے بنائی ہیں تعارف کے لیے اور پہچان کے لیے۔ قبائل کا، ان کی شاخوں کا، خاندانوں کا اور قوموں کا وجود بھی ہے لیکن تفاخر کے لیے نہیں بلکہ تعارف کے لیے ہے۔ اگر یہ فطری تقسیم نہ ہو تو معاملہ مشکل ہو جائے۔ اگر یہ پتہ نہ ہو کہ یہ امریکی ہے، یہ افریقی ہے، یہ فلاں نسل کا ہے، یہ فلاں قوم کا ہے، تو پھر نمبرنگ کرنی پڑے گی جو کہ مشکل کام ہے۔ لیکن اللہ کے ہاں عزت تقویٰ کی ہے۔ تقویٰ کو یوں سمجھ لیجیے کہ اللہ کے ہاں عزت انسان کے کریکٹر کی ہے، کردار کی ہے، اس کے ایمان اور عمل صالح کی ہے۔

اسلام عزت کی بنیاد رنگ، نسل، علاقے اور زبان کو قرار نہیں دیتا ۔ آدمی ذرا توجہ سے پڑھے تو قرآن کریم کی ساری باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ آپ صرف ایک بات سے اندازہ کر لیجیے کہ حضرت لقمان علیہ السلام سوڈانی تھے اور جھونپڑی میں رہنے والے غریب آدمی تھے اور سیاہ رنگ کے تھے۔ وہ کوئی بڑے سردار نہیں تھے لیکن قرآن کریم میں ایک مکمل سورت ان کے نام پر اتاری گئی اور قرآن کریم نے بڑے مزے مزے سے ان کے واقعات ذکر کیے ہیں۔ لیکن دوسری طرف دیکھیں کہ ابو لہب جو خاندان اور رشتہ کے لحاظ سے حضورؐ کا چچا ہے۔ اس سے بڑا خاندان کیا ہو گا دنیا میں، کائنات میں اس سے زیادہ معزز خاندان کون سا ہوگا۔ اور آنحضرتؐ کے ساتھ رشتہ داری بھی ہے کہ آپؐ کا چچا ہے۔ اور حسن کا اندازہ کیجیے کہ ابولہب اس کی کنیت تھی۔ نام عبد الشمس تھا، ابو لہب نہیں تھا۔ لہب شعلے کو کہتے ہیں۔ اس کے رخسار شعلے کی طرح چمکتے تھے جس کی وجہ سے ابو لہب کا لقب ملا یعنی شعلے جیسے رخساروں والا۔ خوبصورت بھی ہے، مال بھی ہے، مکہ میں رہتا ہے، مکہ کے مجاوروں میں سے ہے اور خاندان بھی بڑا ہے ۔ لیکن قرآن کریم نے یوں ذکر کیا کہ

تَبَّتْ يَدَآ اَبِىْ لَـهَبٍ وَّتَبَّ۔ (اللہب ۱۱۱ ۔ آیت ۱)

’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا‘‘۔

روایات میں آتا ہے کہ اس کی بیوی ام جمیل جب زیورات پہن کر بیٹھتی تھی تو زیورات کے بوجھ سے اٹھ نہیں سکتی تھی، عورتیں سہارا دے کر اٹھایا کرتی تھیں۔ لیکن قرآن میں ہے کہ

مَآ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُـهٝ وَمَا كَسَبَ۔ (اللہب ۱۱۱ ۔ آیت ۲)

’’بڑا مال تھا اس کے پاس جو کسی کام نہیں آیا‘‘۔

چنانچہ قرآن کریم نے معیار بتا دیا کہ لقمان علیہ السلام اگر تقویٰ کے معیار پر پورا اترتے ہیں تو وہ حکمت والے ہیں۔ اور ابو لہب اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو لعنت کا مستحق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے غضب کا مستحق ہے۔ ایک اور جگہ پر قرآن کریم یہ ذکر کرتا ہے کہ

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۔ ثُـمَّ رَدَدْنَاهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ۔ (التین ۹۵ ۔ آیت ۴ و ۵)

’’بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے اسے سب سے نیچے پھینک دیا ہے‘‘۔

یعنی انسان احسن تقویم بھی ہے اور اسفل سافلین بھی ہے۔ سب سے اوپر کا نمبر بھی اسی کا ہے اور سب سے نیچے کا نمبر بھی اسی کا ہے لیکن کس بنیاد پر؟ ایمان، کردار اور عمل کی بنیاد پر۔

طبقاتی امتیاز کا خاتمہ

زمانۂ جاہلیت سے حج کے حوالے سے ایک طریقہ یہ چلا آرہا تھا کہ قریشی عرفات میں نہیں جاتے تھے۔ حج کی ترتیب تو یہ ہے کہ منٰی میں چند دن رہتے ہیں، اس دوران ۹ ذی الحج کو عرفات جاتے ہیں، شام کو مزدلفہ جاتے ہیں اور مغرب و عشا اکٹھی پڑھتے ہیں، پھر رات کو مزدلفہ میں ہی رہتے ہیں، اور صبح کو فجر پڑھ کر وہاں سے نکلتے ہیں۔ چنانچہ سب لوگ عرفات جاتے تھے لیکن قریشی نہیں جاتے تھے۔ کہتے تھے نحن حُمس اس کا ترجمہ میں یوں کرتا ہوں کہ ’’ہم وی آئی پی ہیں‘‘۔ مطلب یہ تھا کہ ہم بہادر لوگ ہیں اور ممتاز لوگ ہیں۔ چونکہ قریش کا ہی وہاں کنٹرول تھا اور واقعتا وہ بہت بڑا قبیلہ سمجھا جاتا تھا اور عرب میں ان کو بڑا احترام حاصل تھا۔ اس لیے قریشیوں نے اپنے کچھ امتیازات رکھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ وہ حرم کی حدود سے باہر نہیں جاتے تھے۔ منٰی اور مزدلفہ کا ایک کونہ حرم میں ہے جبکہ باقی عرفات جو ہے وہ حرم سے باہر ہے۔ قریشی حرم کی حدود سے باہرنہیں جاتے تھے کہ ہم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اور یہ کہ یہ حرم کی حدود سے باہر جانا عام لوگوں کے لیے ہے ، ہمارے لیے نہیں ہے۔

جناب نبی کریمؐ نے یہ رسم توڑ دی۔ اگر حج میں بھی یہ امتیازات ختم نہیں ہوں گے اور وی آئی پی سسٹم باقی رہے ہے تو پھر یہ ختم کب ہوگا۔ حج ہی تو وہ موقع ہے کہ جس پر اللہ سب کو دو چادریں پہنا دیتا ہے۔ تھری پیس والا بھی دو چادریں پہنے گا اور لنگوٹی والا بھی دو چادریں پہنے گا۔ یہی تو مقام ہے مساوات کا کہ اس موقع پر صحیح معنوں میں مساوات کا منظر نظر آتا ہے۔ کوئی غریب ہے، کوئی امیر ہے، کوئی گورا ہے، کوئی کالا ہے، کوئی حاکم ہے، کوئی فقیر ہے، کوئی عربی ہے، کوئی عجمی ہے، لیکن ہیں سب دو چادروں میں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ میں وقوف عرفات کے لیے جاؤں گا اور پھر آپ تشریف لے گئے۔

آنحضرتؐ جب ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں تھے تو وہاں بھی آپؐ قریش کی روایت کے برعکس وقوف عرفات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے، جیسا کہ جبیر ابن مطعمؓ کی ایک روایت میں بیان ہوا ہے۔ یہ جبیر رضی اللہ عنہ، مطعم ابن عدی کے بیٹے ہیں جو مشرک سرداروں میں سے تھے۔ جب طائف میں جناب آپؐ پر پتھر برسائے گئے تھے اور آپ زخمی ہوگئے تھے تو راستے میں مطعم ابن عدی کا ڈیرا تھا اور اس نے آپؐ کو پناہ دی تھی۔ جب حضورؐ زخمی ہو کر واپس آئے تو راستے میں اس کا باغ تھا، اس نے حضورؐ کو پناہ دی اور لوگوں کو ہٹایا کہ نہیں بھئی ، اب یہ میری پناہ میں ہیں، ان کے نزدیک کوئی نہ آئے۔ حضورؐ اس کا بڑا احسان مانتے تھے اور بدر کے موقع پر حضورؐ نے اس کے احسان کا ذکر کیا۔ مطعم بڑے سردار تھے، بڑے آدمی تھے لیکن کفر کی حالت میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ جبیرؓ ان کے بیٹے تھے جو مسلمان ہوئے اور صحابیٔ رسول تھے۔ بدر کے موقع پر جب قیدیوں کا مسئلہ پیش آیا تو حضورؐ نے ایک جملہ فرمایا کہ اگر مطعم زندہ ہوتا اور وہ ان قیدیوں کی سفارش کرتا تو میں اس کی سفارش کو قبول کر لیتا۔ یعنی میں ان سے فدیہ نہ لیتا اور ان کو ویسے ہی معاف کر دیتا۔ (بخاری، رقم ۲۹۰۶)

جبیرؓ ابن مطعم کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حج کے موقع پر میرے کچھ اونٹ گم ہو گئے تھے، میں ان کی تلاش کے لیے گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ محمد ؐ عرفات میں موجود ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ تو حُمس میں سے ہیں، یہ عرفات میں کیا کر رہے ہیں؟ (بخاری، ۱۵۵۳)۔ یہ تو قریشی و ہاشمی ہیں اور وہ تو ممتاز لوگ ہوتے ہیں اور حرم کی حدود سے باہر نہیں آتے۔ مسند احمد کی روایت (رقم ۱۶۱۷۵) میں تصریح ہے کہ یہ آپ کو نبوت ملنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے یہ رسم بھی توڑ دی۔ قرآن کریم میں بھی یہ حکم آیا ہے کہ

ثُـمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ۔ (بقرہ ۲ ۔ آیت ۱۹۹)

’’پھر تم لوٹ کر آؤ جہاں سے لوگ لوٹ کر آتے ہیں اور اللہ سے بخشش مانگو‘‘۔

انتقام در انتقام کی رسم کا خاتمہ

پھر جناب نبی کریمؐ نے جہاں جاہلیت کے دور کے خاتمے کا اعلان فرمایا کہ جاہلیت کی رسمیں میں نے ختم کر دی ہیں۔ ایک عمومی اعلان تھا کہ جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ لیکن دو کا آپؐ نے بطور خاص ذکر فرمایا:

الا وان کل دم کان فی الجاہلیۃ موضوع واول دم وضع من دماء الجاہلیۃ دم الحارث بن عبد المطلب کان مسترضعا فی بنی لیث فقتلتہ ہذیل۔ (ترمذی، ۳۰۱۲)

’’آگاہ رہو! جاہلیت کے زمانے کا ہر خون معاف کیا جاتا ہے، اور زمانہ جاہلیت کے خونوں میں سے پہلا خون جس کو معاف کیا جاتا ہے، وہ حارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔ (راوی بتاتے ہیں کہ) حارث کو دودھ پلانے کے لیے بنو لیث کے ہاں بھیجا گیا تھا جہاں اسے بنو ہذیل نے قتل کر دیا۔‘‘

آپؐ نے اعلان فرمایا کہ جاہلیت کے دور میں جو بدلے اور خون کا رواج تھا، وہ میں نے ختم کر دیا ہے۔ قبائل میں بدلہ در بدلہ کا رواج تھا۔ قبائل میں یوں ہوتا ہے کہ ایک قبیلہ کا آدمی قتل ہوا تو بدلے میں قاتل قبیلہ کا آدمی قتل ہوگا۔ اور ضروری نہیں کہ قاتل ہی قتل ہو، بس اس قبیلہ کا کوئی آدمی مارا جائے گا۔ جب وہ مرا ہے تو اب پھر اس پہلے قبیلہ کا آدمی مرے گا اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ ’’حرب بعاث‘‘ دو قبیلوں کی ایک مشہور جنگ تھی جو ایک سو بیس سال چلتی رہی۔ بات شروع کہاں سے ہوئی تھی؟ کہتے ہیں کہ بات یہاں سے شروع ہوئی کہ ایک آدمی کا درخت تھا جس پر کبوتری نے گھونسلا بنا رکھا تھا اور انڈے دے رکھے تھے۔ کسی نے اسے پتھر مار کر گھونسلہ اور انڈے توڑ دیے۔ پہلے آدمی نے کہا کہ اچھا! میری زمین پر اور میرے درخت پر اس نے یہ کر دیا، یہ تو میری توہین ہوئی ہے۔ کبوتری کا انڈا نہیں ٹوٹا یہ تو میری تو ناک کٹ گئی ہے۔ اس نے پتھر مارنے والے کو قتل کر دیا۔ بس پھر دونوں کے قبائل کے درمیان ایک سو بیس سال تک جنگ رہی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک بڑی عجیب بات فرماتی ہیں کہ اوس اور خزرج کے درمیان کئی نسلوں تک جنگ رہی ہے۔ یہ دونوں انصار کے قبیلے تھے، انہوں نے ایک دوسرے کے جوان قتل کر دیے، بہت بربادی ہوئی۔ پھر تنگ آ کر بڑے بوڑھے اکٹھے ہوئے کہ بھائی کوئی راستہ نکالو، آخر ہم کب تک لڑیں گے۔ جب اس طرح کی جنگ ہو تو پھر آپس میں ایک دوسرے پر اتفاق نہیں ہوتا۔ طے ہوا کہ کوئی تیسرا آدمی تلاش کیا جائے جس پر ہم دونوں اکٹھے ہو جائیں۔ جناب نبی کریمؐ جب اوس اور خزرج کے لوگوں کو حج کے موقع پر منٰی میں ان کے خیموں میں دعوت دینے آئے تو انہوں نے آپس میں کھسر پھسر کی اور کہا کہ بھئی، یہ آدمی ٹھیک ہے۔ ان کو جگہ کی ضرورت ہے اور ہمیں آدمی کی ضرورت ہے۔ تو یہ تھی شروعات۔ حضورؐ طائف کے واقعہ کے بعد اس تلاش میں تھے کہ مجھے کوئی ٹھکانہ ملے تو میں وہاں اپنا مرکز بناؤں، یعنی کوئی قبیلہ ہامی بھرے تو میں وہاں جاؤں۔ اس کے لیے آپؐ خیموں میں جا کر مختلف قبائل کو دعوت دے رہے تھے۔ ادھر اوس اور خزرج اس تلاش میں تھے کہ کوئی ایسا آدمی ملے جس پر ہم اکٹھے ہو جائیں۔ چنانچہ یہ دو باتیں اکٹھی ہوگئیں اور ان قبائل نے کہا کہ ہم تیار ہیں، آپ ہمارے ہاں تشریف لے آئیں۔ پھر اگلے سال بیعت عقبۂ اولیٰ ہوئی اور اس سے اگلے سال بیعت عقبۂ ثانیہ، سارے معاہدات ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ ہجرت کر جائیں۔

حضرت عائشہؓ ان واقعات کی حکمت اور اس کے فلسفہ پر ایک خوبصورت تبصرہ کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک مستقل موضوع ہے یعنی علمِ اسرارِ دین۔ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ جنگ بعاث میں اوس اور خزرج کے بڑے بڑے سردار قتل ہو گئے تھے اور انصار مدینہ انتشار وافتراق کا شکار تھے لیکن یہ جنگ اس بات کا باعث بن گئی کہ حضورؐ مدینہ منورہ تشریف لے آئے (بخاری، رقم ۳۴۹۳)۔ اگر یہ جنگ نہ ہوتی، یہ اسباب پیدا نہ ہوتے تو انصار حضورؐ کو دعوت نہ دیتے اور یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ تو حکمت کی بات یہ ہے کہ بظاہر ایک واقعہ بڑا ہی خوفناک ہوتا ہے، لیکن اللہ رب العزت اس کے اندر سے کوئی خیر نکال دیتے ہیں۔

میں اس پر بات کر رہا تھا کہ جاہلیت کے زمانہ میں بدلہ در بدلہ کا رواج تھا۔ یہاں تک کہ مائیں اپنے بچوں کو لوریاں دے دے کر سبق پڑھایا کرتی تھیں کہ تمہارے باپ کا قاتل فلاں ہے، تم نے بڑے ہو کر اس کا بدلہ لینا ہے۔ یعنی انہیں بچپن سے تیار کیا جاتا تھا کہ تمہارے باپ کو فلاں نے قتل کیا، تمہارے دادا کو فلاں نے قتل کیا، تمہارے چچا کو فلاں نے قتل کیا، اس لیے فلاں کا بدلہ بھی تمہارے ذمہ ہے اور فلاں کا بدلہ بھی تمہارے ذمہ ہے۔ اور ہمارے ہاں آج بھی دیہات اور قبائل میں انتقام اور بدلہ کا یہ رواج موجود ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا دماء الجاھلیۃ موضوعۃ کہ جاہلیت کے سارے خون ، بدلے آج میں ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ آج کے بعد کسی پرانے قتل پر کوئی کسی سے بدلہ نہیں لے گا۔ اس لیے کہ آخر کہیں تو بریک لگنی تھی، معاملہ تبھی صاف ہونا تھا۔ فرمایا کہ تمہارے آپس میں پچھلے جتنے بدلے تھے، سب ختم۔ اور فرمایا کہ میں یہ اپنے گھر سے شروع کر رہا ہوں۔ ربیعہ ابن حارث کا بیٹا بچپن میں کسی خاندان میں دودھ پینے کے لیے بھیجا گیا تھا تو وہاں کسی نے قتل کر دیا۔ قبائلی روایت کے مطابق اس کا بدلہ لینا ان کے ذمے تھا۔ فرمایا میرے گھر کا بچہ قتل ہوا تھا اور قبائلی روایات کے مطابق ہمارے ذمہ اس کا بدلہ بنتا ہے لیکن میں اس کو ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ چنانچہ میں پہلے اپنے گھر کا خون معاف کرتا ہوں اور پھر تمام خونوں کے ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ آج کے بعد پچھلے کسی قتل کے حوالے سے کوئی کسی سے بدلہ نہیں لے گا۔ فرمایا جاہلیت کی یہ قدر میں توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔

سود کا خاتمہ

ایک جاہلی قدر جس کا حضورؐ نے بطور خاص ذکر کیا وہ سود ہے۔ فرمایا کہ

الا وان کل ربا فی الجاہلیۃ موضوع لکم رؤوس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون غیر ربا العباس بن عبد المطلب فانہ موضوع کلہ۔ (ترمذی، ۳۰۱۲)

’’آگاہ رہو! زمانہ جاہلیت کا ہر سود کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ تم صرف اپنے اصل مال کے حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ ہاں عباس بن عبد المطلب کا لوگوں کے ذمے جو سودی قرض ہے، وہ سارے کا سارا معاف کیا جاتا ہے۔‘‘

آپؐ نے فرمایا کہ جاہلیت میں تم سود کا لین دین کرتے تھے، میں اس کے خاتمے کا اعلان کر رہا ہوں۔ جس کے ذمے کسی کی کوئی رقم ہے، اس کو اصل رقم ملے گی، سود نہیں ملے گا۔ قرآن نے بھی اس کی حرمت کا اعلان فرما دیا کہ

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّـٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبَآ اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔ (بقرہ ۲ ۔ آیت ۲۷۸)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ باقی سود رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو‘‘۔

آج بھی دنیا میں یہ ایک بڑی بحث ہے کہ سود تو کاروبار ہے۔ قرآن کریم نے جب اس کی حرمت کا اعلان کیا تو اس وقت بھی اس پر بڑا مباحثہ ہوا۔ کہا گیا کہ سود میں اور تجارت میں کیا فرق ہے؟ یہ بھی کاروبار کی ایک شکل ہے کہ چیزیں نہ بیچیں ، پیسہ بیچا۔

قَالُوٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَاَحَلَّ اللّـٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ (بقرہ ۲ ۔ آیت ۲۷۵)

’’انہوں نے کہا کہ تجارت بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سود لینا۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے‘‘۔

اس وقت بھی یہی دلیل پیش ہوئی تھی لیکن یہ دلیل ذکر کر کے قرآن کریم نے پھر دو ٹوک کہا کہ نہیں بھئی یہ بزنس نہیں ہے ، یہ بزنس سے الگ چیز ہے۔ اس بارے میں ایک اہم واقعہ ہے جو سیرت کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے کہ طائف والے جب نبی کریمؐ کی خدمت میں اسلام قبول کرنے کے لیے آئے تو اس پس منظر میں آئے کہ فتح مکہ کے بعد حنین کی لڑائی میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی اور پھر طائف کا معرکہ پیش آیا۔ طائف کا حضورؐ نے سترہ دن تک محاصرہ کیا لیکن کامیابی نہیں ہوئی تو محاصرہ اٹھا کر واپس آنا پڑا۔ طائف والے بہت خوش تھے کہ یہ ہمیں فتح نہیں کر سکے، اور یہ بات درست بھی تھی۔ طائف والوں کا اپنا وفد مدینہ منورہ گیا کہ جناب آپ تو ہمیں فتح نہیں کر سکے مگر ہم خود کلمہ پڑھنے آگئے ہیں، لیکن ہماری کچھ شرطیں ہیں۔ اس کے پیچھے گھمنڈ یہ تھا کہ ہم فتح نہیں ہو سکے اس لیے ہم برابر کی سطح پر اور برابر کی شرطوں پہ بات کریں گے۔

علامہ سید سلیمان ندویؒ نے اور دیگر سیرت نگاروں نے بھی یہ واقعہ لکھا ہے۔ طائف والوں نے کہا کہ ہم کلمہ تو پڑھیں گے لیکن ہماری کچھ شرطیں ہیں۔ ان شرطوں میں چار بڑی شرطیں تھیں۔ ایک شرط یہ تھی کہ جناب آپ شراب کو حرام کہتے ہیں ہم شراب نہیں چھوڑ سکتے اور دلیل دی کہ یہ ہماری معیشت کا مسئلہ ہے۔ آج بھی طائف کی بڑی پیداوار انگور ہے۔ کہا کہ ہمارے ہاں انگور پیدا ہوتا ہے، کچا انگور مارکیٹ میں پھینکیں تو کچھ خاص نفع نہیں ملتا۔ نچوڑ کر اور پکا کر دیتے ہیں تو چار پیسے نکل آتے ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ یہ ہمارا کاروبار ہے، اس کے بغیر ہمارا سال نہیں گزرتا۔ دوسری شرط یہ رکھی کہ آپؐ کہتے ہیں کہ سود حرام ہے۔ ہمارا تو سارا کاروبار سود پر چلتا ہے، سود نہیں چھوڑ سکیں گے۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں زنا حرام ہے، یہ بھی ہم سے نہیں چھوٹے گا۔ اس کی وجہ بتائی کی کہ یہ ہمارا کلچرل مسئلہ ہے کہ ہمارے ہاں شادیاں بہت دیر سے کرنے کا رواج ہے، گزارا نہیں ہوتا، اس لیے ہم زنا بھی نہیں چھوڑیں گے۔ پھر ایک بات اور کہ ہم نماز پڑھیں گے تو سہی لیکن اتنے ٹائٹ شیڈول کے ساتھ نہیں، اوقات اور تعداد ہم اپنی مرضی سے منتخب کریں گے۔ نماز سے انکار نہیں لیکن یہ پانچ وقت کی نماز کی پابندی ہم سے نہیں ہو سکتی۔ ہم خود اپنی سہولت سے اس کا انتخاب کر لیں گے کہ کب پڑھنی ہے اور کتنی پڑھنی ہے۔ اگر آپ ان شرطوں کو قبول کرتے ہیں تو ہم اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمیں کلمہ پڑھا دیجیے۔

جناب نبی کریمؐ نے انکار فرما دیا کہ یہ ممکن نہیں ہے (شبلی نعمانی، سیرت النبی، ۲/۳۳)۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مکہ میں اسلام مختلف ہو اور ستر میل کے فاصلے پر طائف میں اسلام بالکل مختلف ہو۔ مکہ میں تو سود حرام ہو اور طائف میں حلال ہو ۔ مکہ میں پانچ نمازیں ہوں اور طائف میں تین ہوں۔ مکہ میں شراب ممنوع ہو اور طائف میں جائز۔ فرمایا، نہیں بھئی کوئی شرط قبول نہیں ہے۔

میں عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ تو طائف والوں کی شرطیں تھیں، ذرا دیکھیے کہ ہماری آج کی شرطیں کیا ہیں۔ سوسائٹی میں اسلام کو بحیثیت سسٹم قبول کرنے میں ہماری آج کی شرطیں بھی یہی ہیں کہ نماز میں زبردستی نہ کرو اور باقی معاملات میں بھی دنیا کے ساتھ چلو تو باقی کا اسلام ہمیں قبول ہے۔ تو یہ معاملات جو آج کل ہمارے سامنے ہیں یہ حضورؐ کے زمانے میں بھی ایسے ہی چلتے رہے ہیں۔ شرطوں والے بھی اور دلیلوں والے بھی اور بزنس والے بھی۔

لیکن اس کے باوجود نبی کریمؐ نے یہ حجۃ الوداع کے خطبہ میں صاف اعلان فرمایا کہ جاہلیت کے تمام سود ختم۔ آج کے بعد جو بھی اس معاملہ میں ہے صرف اصل رقم کا حق دار ہے، سود کی رقم ختم۔ یہاں بھی فرمایا کہ میں اپنے گھر سے آغاز کر رہا ہوں۔ حضرت عباسؓ سود کا کاروبار کرتے تھے کہ سود پر لوگوں کو رقمیں دیتے تھے۔ بہت سے لوگوں کے ذمے ان کی رقمیں تھیں۔ فرمایا، میں عباسؓ کی سود کی ساری رقمیں ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ میرے چچا عباسؓ جو مکہ میں سود کا کاروبار کرتے تھے، ان کی رقمیں جن کے ذمے ہیں، ان کے ذمہ سود نہیں ہوگا،صرف اصل رقم واپس کرنا ہوگی۔

جان و مال کی حرمت

بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ منٰی میں کھڑے تھے، قربانی کا دن تھا، یوم النحر تھا۔ آپؐ نے پوچھا ایّ شھر ھذا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ جریر ابن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا اللّٰہ ورسولہ اعلم۔ معلوم تو ان کو تھا کہ مہینہ کون سا ہے۔ صحابہؓ کا معمول تھا کہ حضورؐ کوئی سوال کرتے تو پہلے مرحلے پر جواب یہی ہوتا تھا کہ اللہ بہتر جانتا ہے اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا کیا یہ حج کا مہینہ نہیں ہے؟ کہا یا رسول اللہ ! ہاں حج کا مہینہ ہے۔ آپؐ نے پوچھا ای یوم ھٰذا آج کا دن کون سا ہے؟ کہا اللّٰہ ورسولہ اعلم۔ پوچھا کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ کہا، یا رسول اللہ ! ہاں قربانی کا دن ہے۔ آپؐ نے پوچھا ای بلد ھذا یہ شہر کون سا ہے؟ کہا اللّٰہ ورسولہ اعلم۔ فرمایا کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے؟ کہا، یا رسول اللہ ! بلدۃ الحرام ہی ہے۔ تو آپؐ نے تین حرمتوں کا حوالہ دیا۔ بسا اوقات بات کی اہمیت بیان کرنے کے لیے آدمی پہلے ذہنی طور پر تیار کرتا ہے۔ آپؐ نے بات کی اہمیت بتانے کے لیے ذکر کیا کہ یہ شہر محترم ہے، مہینہ حرمت والا ہے اور دن حرمت والا ہے۔ پھر فرمایا کہ

فان دماء کم واموالکم قال محمد واحسبہ قال واعراضکم (وابشارکم) علیکم حرام کحرمۃ یومکم ہذا فی بلدکم ہذا فی شہرکم ہذا۔ (بخاری، ۴۰۵۴، ۶۵۵۱) ’’بے شک تمہاری جانیں، تمہارے مال، تمہاری آبروئیں (اور تمہارے چمڑے) تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس شہر اور اس مہینے میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔‘‘

یہ بخاری کی روایت میں ہے کہ جس طرح تم اس دن کی، اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کا لحاظ کرتے ہو اسی طرح ایک دوسرے کی جان کی حفاظت کرو۔ تمہارے اموال بھی ایک دوسرے پر محترم ہیں کہ تم کسی کے مال پر ہاتھ نہیں ڈالو گے۔ جس طرح جان کی ایک دوسرے پر حرمت ہے، اسی طرح مال کی حرمت بھی ہے۔ چوری، ڈکیتی، دھوکہ، یعنی کوئی بھی شکل مال کو ہڑپ کرنے کی اختیار نہیں کرو گے۔ اور تمہاری عزتیں بھی ایک دوسرے پر محترم ہیں۔ جس طرح کسی دوسرے کی جان و مال پر دست درازی حرام ہے، اسی طرح کسی دوسرے کی عزت پر ہاتھ ڈالنا بھی حرام ہے۔ اس کی لمبی تفصیل ہے کہ کسی کی عزت پر حملہ نہیں کرو گے، کسی کو بے عزت نہیں کرو گے، کسی کا مذاق نہیں اڑاؤ گے، کسی کو گالی نہیں دو گے، کسی کی توہین نہیں کرو گے، یہ ساری باتیں اس میں شامل ہیں۔ تو فرمایا جس طرح مکہ ، حج کے دن اور حج کے مہینہ کا احترام کرتے ہو، اسی طرح ایک دوسرے کی عزت کا احترام کرو۔ اور ایک دوسری روایت میں وابشارکم بھی ہے کہ تمہارے چمڑے بھی ایک دوسرے پر حرام ہیں۔ جس طرح کسی کی جان لینا جائز نہیں، اس طرح کسی کو تھپڑ مارنا بھی جائز نہیں، بلا جواز کسی کو چھڑی مارنا بھی جائز نہیں، بلا جواز کسی پر ہاتھ اٹھانا بھی جائز نہیں۔ فرمایا یہ چاروں چیزیں تم پر حرام ہیں۔

ایک حدیث میں ذکر ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے بیت اللہ سے خطاب کیا۔ فرمایا، اے اللہ کے گھر! تو اللہ کے ہاں بہت محترم ہے لیکن ایک مسلمان کے خون کی حرمت تجھ سے بھی زیادہ ہے (طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۰۹۶۶۔ المعجم الاوسط، ۵۷۱۹) ۔ یہ بات سمجھانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ جیسے ایک دفعہ حضرت عمرؓ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے حجر اسود کے پاس آئے، اسے بوسہ دیا اور سامنے کھڑے ہوکر کہا کہ تو محض ایک پتھر ہے، تیرے پاس نفع و نقصان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ خدا کی قسم ! اگر میں رسول اللہؐ کو تمہیں بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو میں تمہیں کبھی نہ چومتا (بخاری، رقم ۱۴۹۴)۔ پتھر کو کچھ کہنا مقصود نہیں تھا، در اصل یہ بات سمجھانے کا ایک انداز ہوتا ہے۔ مقصد اردگرد کے لوگوں کو بات سنانا تھا کہ لوگوں کا عقیدہ درست رہے۔

چنانچہ یہ بھی حجۃ الوداع کے موقع کا ایک بہت اہم اعلان ہے کہ ایک دوسرے کی جان کی، مال کی، عزت کی اور ایک دوسرے کے چمڑے کی حفاظت کرو۔ کسی کو قتل نہیں کرو، کسی کا مال نہ ہضم کرو، کسی کی عزت خراب نہیں کرو، کسی پر ہاتھ نہیں اٹھاؤ۔ فرمایا کہ یہ تمہارے آپس کے حقوق ہیں۔

منہ بولے رشتوں کا خاتمہ

جاہلی قدروں میں سے ایک جاہلی قدر جس کے خاتمے کا جناب نبی اکرمؐ نے اعلان ان الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ

الولد للفراش وللعاہر الحجر ومن ادعی الی غیر ابیہ او تولی غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ صرفا ولا عدلا۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۱۔ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۲/۱۸۳)

’’بچے کا نسب اسی سے ثابت ہوگا جس کے نکاح میں عورت ہوگی، جبکہ بدکاری کرنے والے کا بچے پر کوئی حق نہیں، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ جو شخص اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اور جو غلام اپنی نسبت اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی اور کی طرف کرے گا، اس پر اللہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے کوئی معاوضہ یا تاوان قبول نہیں کریں گے۔‘‘

جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ زبان سے معاہدہ کر کے رشتے طے ہو جاتے تھے کہ یہ میرا باپ ہے، یہ میرا بیٹا ہے۔ بھائی بھائی کہہ دیا تو بھائی ہو گئے۔ باپ بیٹا کہہ دیا تو بس یہ رشتہ بن گیا۔ کسی کو ماں کہہ دیا تو وہ ماں ہو گئی۔ کسی عورت نے کسی کو بیٹا بنا لیا تو بس یہ رشتہ قائم ہو گیا۔ یہ زبان سے اور معاہدے سے رشتہ دار بننا جاہلیت کے زمانے میں تھا اور اس کو معاشرہ میں تسلیم کیا جاتا تھا۔ آج بھی بہت سے معاشروں میں اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں امریکہ میں بھی میرا خیال ہے کہ کوئی ایسی صورت ہے کہ اگر کسی کو اپنا وارث قرار دے دیا جائے تو اسے وارث تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ یعنی کسی کو اگر بیٹا یا بھائی لکھ دیا جائے، وصیت کر دی جائے تو وہ بیٹا یا بھائی شمار ہو جاتا ہے۔

جاہلیت میں بھی ایسا تھا اور اتنا عام تھا کہ خود جناب نبی اکرمؐ نے ایک نوجوان زید ابن حارثہ کو بیٹا بنا لیا تھا۔ یہ واحد صحابیؓ ہیں جن کا نام قرآن کریم میں ہے۔ قرآن کریم میں صحابہؓ کا ذکر تو ہے، بعض صحابہؓ کی خصوصیات کی طرف اشارات بھی ہیں لیکن کسی کا نام نہیں ہے۔ اگر کسی صحابیؓ کا نام قرآن کریم میں ہے تو وہ زید ابن حارثہؓ کا ہے۔ فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْـهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا (الاحزاب ۳۳ ۔ آیت ۳۷)۔ یہ رسول اللہؐ کے آزاد کردہ غلام تھے اور غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے۔ زید ابن حارثہؓ سے حضورؐ کو بڑی محبت تھی۔ اور حضورؐ کو ان سے بھی محبت تھی اور ان کے بیٹے اسامہ بن زیدؓ سے بھی۔ رسول اللہؐ نے نہ صرف حضرت زیدؓ کو بیٹا بنایا بلکہ ان کا اپنی پھوپھی زاد سے نکاح بھی کر دیا۔ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اپنے خاندان میں رشتہ کروا کر ان کا یہ اسٹیٹس بھی قائم کر دیا کہ قریش کے داماد ہیں، ہاشمیوں کے داماد ہیں۔ اور وہ زید بن محمد کہلانا شروع ہوگئے جبکہ حضورؐ کی کنیت ابو زید ہوگئی کہ یہ زید کے باپ ہیں۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے جاہلیت کی یہ رسم توڑی اور حضورؐ سے تڑوائی۔ یہ اتنی بڑی رسم تھی کہ حضورؐ کے توڑنے سے ہی اس رسم نے ٹوٹنا تھا ورنہ باقی دنیا میں اب تک یہ رسم باقی ہے۔ قرآن کریم نے واضح طور پر فرما دیا کہ

اُدْعُوْهُـمْ لِاٰبَآئِهِـمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّـٰهِ ۚ (احزاب ۳۳ ۔ آیت ۵)

’’انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارو، اللہ کے ہاں یہی پورا انصاف ہے‘‘۔

چنانچہ حضورؐ کو بھی منع فرما دیا گیا۔ حضورؐ نے کنیت ترک کر دی اور زید بن محمد پھر زید بن حارثہ کہلانا شروع ہوگئے۔ بلکہ اس سے اگلی بات کہ جب زید ابن حارثہؓ نے زینب بنت جحش کو طلاق دے دی، نباہ نہیں ہوا، آپس میں مزاج نہیں ملے تو اللہ تعالیٰ نے زینب بنت جحشؓ کا نکاح حضورؐ سے کروا دیا۔ یہ اتنی بڑی بات تھی جاہلیت کے اس معاشرہ میں کہ ایک طوفان کھڑا ہو گیا کہ بہو سے نکاح کر لیا۔ بیٹے کی بیوی سے نکاح کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے نے اسی لیے فرمایا کہ میں نے یہ نکاح کروایا ہے، یہ نہیں کہا کہ میں نے آپ کو اجازت دی ہے کہ یہ نکاح کرلیں۔ ایک بہت پرانی رسم توڑنی تھی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اسی سطح پر یہ بات کی۔ قرآن کریم میں کہا کہ جب زیدؓ نے طلاق دے دی زینب کو تو زوجناکھا ہم نے اس کا نکاح آپؐ سے کرا دیا۔ زینب بنت جحشؓ بڑے فخر سے دوسری ازواج مطہرات سے یہ ذکر کیا کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح فرش پر ہوئے ہیں اور میرا نکاح عرش پر ہوا ہے۔ (بخاری، رقم ۶۸۷۰)

ازواج مطہرات میں آپس میں نوک جھوک چلتی رہتی تھی، جیسا کہ سوکنوں میں عام طور پر ہوتا ہے۔ انسان تھیں اور عورتیں تھیں۔ بخاری کی روایت ہے کہ ازواج مطہرات کے دو گروپ تھے۔ ایک گروپ میں حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت صفیہؓ اور حضرت سودہؓ تھیں جبکہ دوسرے گروپ میں حضرت ام سلمہؓ اور باقی ازواج مطہرات تھیں (بخاری، رقم ۲۳۹۳)۔ ان کی آپس میں نوک جھوک چلتی رہتی تھی جو کہ فطری بات ہے۔حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میری جب بھی زینبؓ سے کوئی بات ہوئی ہے تو میں جیتی ہوں لیکن ایک بات میں ان کی برتری تھی۔ دونوں اپنے اعزازوں کا ذکر کرتیں، ایک کہتی کہ میں یہ ہوں دوسری کہتی کہ میرا یہ اعزاز ہے۔ لیکن جب زینبؓ یہ کہتی تھی کہ تمہارے نکاح فرش پر ہوئے ہیں اور میرا نکاح عرش پر ہوا ہے تو میں لا جواب ہو جایا کرتی تھی، زینبؓ کی اس بات کا میرے پاس جواب نہیں ہوتا تھا۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ایک دفعہ یوں ہوا کہ میں حضورؐ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی تو زینبؓ آگئیں۔ انہوں نے کوئی شکایت کی جس سے بات شروع ہوگئی، وہ بولتی رہیں اور میرے بارے میں باتیں کرتی رہیں۔ میں حضورؐ کے چہرے کی طرف چپ کر کے دیکھتی رہی کہ حضورؐ کیا کہتے ہیں۔ پھر جب زینبؓ نے اپنا سارا غصہ نکال لیا تو حضورؐ نے میری طرف دیکھا تو پھر میں شروع ہوگئی اور ایسی شروع ہوئی کہ میں نے زینب کو چپ کرادیا۔ میں نے جب بالکل لا جواب کر دیا تو حضورؐ نے اور کچھ نہیں کہا بس آخر میں اتنا ہی تبصرہ کیا کہ آخر ابوبکرؓ کی بیٹی ہے (بخاری، رقم ۲۳۹۳) ۔ معاصرت آپس میں اس درجے کی تھی لیکن دیانت اور امانت کی یہ بات دیکھیں کہ جب حضرت عائشہؓ پر تہمت لگی، الزام لگا تو حضورؐ نے گھر کی بیویوں سے بھی پوچھا ہے کہ عائشہؓ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ حضرت زینبؓ سے بھی پوچھا۔ اس سے بہتر کوئی موقع کسی سوکن کو نیچا دکھانے کا نہیں ہو سکتا۔ پوچھا کہ عائشہؓ کے بارے میں لوگ یہ باتیں کرتے ہیں، تمہارا کیا خیال ہے؟ حضرت زینبؓ کہنے لگیں یا رسول اللہ ! اللہ کو جان دینی ہے، عائشہؓ میں کوئی خرابی نہیں، میں گواہی دیتی ہوں (بخاری، رقم ۲۴۶۷)۔ یہ امانت اور دیانت کی بات ہے۔ جھگڑے آپس میں ہوتے رہتے تھے وہ فطری بات ہے۔ حالانکہ زینب بنت جحشؓ کی اپنی بہن حمنہؓ بنت جحش اس پراپیگنڈے کا حصہ تھی لیکن حضورؐ نے جب حضرت زینب سے پوچھا تو کہا نہیں حضورؐ ! عائشہ بالکل پاک ہے اور اس بات کا عائشہؓ میں تصور بھی نہیں ہے۔

میں عرض کر رہا تھا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہم نے آپؐ کا زینبؓ سے نکاح کر دیا۔ اور سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے یہ ضابطے بیان فرمائے کہ آج کے بعد جو شخص بھی جس باپ کا حقیقی بیٹا ہے، اسی کے حوالے سے پہچانا جائے گا، نسب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

آج بھی یہ مسئلہ دنیا کی کچھ سوسائٹیوں میں ہے اور ہمارے ہاں بھی ایک دو جزوی باتوں کے حوالے سے یہ موجود ہے۔ ہمارے ہاں یہ مسئلہ چلتا ہے اور ہمارے پاس بھی ایسے بہت سے معاملے آتے ہیں۔ جب کوئی بے اولاد جوڑا کسی بچے کو لے کر پالتا ہے، وہ بچہ حقیقت میں ان کا نہیں ہے لیکن وہ اس کا تعارف اپنے حوالے سے لکھواتے ہیں کہ وہ ان کا بیٹا ہے۔ جب نکاح نامے میں اندراج کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ شناختی کارڈ میں تو ایسے ہی لکھا ہوا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ بھئی یہ اس کا باپ نہیں ہے۔ ایک کیس میں تواچھا خاصا مسئلہ بن گیا۔ میرے محلے کا خاندان تھا اور میں ان سے واقف تھا، کہنے لگے کہ اس کا باپ وہ ہے۔ میں نے کہا کہ اس کا باپ وہ نہیں ہے میرے سامنے انہوں نے بچہ گود لیا ہے۔ کہنے لگے کہ جی کاغذات میں تو یہی باپ لکھا ہے، میں نے کہا کہ میں اب کیا کر سکتا ہوں؟ تو ہمارے ہاں یہ مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے جبکہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ بچہ لے کر پالنا تو ٹھیک ہے لیکن وہ اپنے ماں باپ کے حوالے سے ہی پہچانا جائے گا۔ قرآن کریم میں بھی نسبت تبدیل کرنے سے روکا گیا ہے اور خود نبی کریمؐ نے بھی اس سے منع فرمایا ہے۔

حج یا عمرہ کے لیے خود ساختہ محرم

ہمارے ہاں پاکستان میں اس حوالے سے ایک اور مسئلہ پیش آتا ہے۔ حج پر جانے کے لیے شریعت کا بھی اور سعودیہ کا بھی قانون ہے کہ عورت محرم کے سوا نہیں جا سکتی۔ سعودی حکومت اس کی تصدیق مانگتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے کئی معاملے آتے ہیں کہ مولوی صاحب ! حج پر جانا ہے تو میں نے فلاں کو بھائی بنا لیا ہے، آپ تصدیق کر دیں۔ بھئی ہم کیسے تصدیق کر دیں، یہ تمہارا حقیقی بھائی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ محرم بنا کر حج پر جانے والا معاملہ ہوتا ہے۔ فلاں کو میں نے بیٹا بنا لیا ہے، تصدیق کر دیں۔ جہاں اس بات کا ہمیں علم ہو، ہم تصدیق نہیں کرتے۔ ایک بی بی تو یہاں تک کہنے لگی کہ مولوی صاحب ! میں نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنا بیٹا بنایا ہے۔ میں نے کہا بی بی ! یہ بیٹے بنانے سے نہیں بنتے، یہ تو اللہ کی طرف سے بنے بنائے آتے ہیں، یہ خودکار سسٹم ہے۔ چنانچہ شریعت تین حوالوں سے رشتے تسلیم کرتی ہے۔ درمیان میں بات آگئی ہے تو عرض کر دیتا ہوں۔

رشتوں کے شرعی اسباب

شریعت نسب کے حوالے سے، صہر کے حوالے سے اور رضاعت کے حوالے سے رشتہ تسلیم کرتی ہے۔ یہ تین اسباب ہیں شریعت میں رشتہ قائم ہونے کے۔

  1. پہلا سبب نسب کا ہے کہ جس کے ہاں کوئی پیدا ہو۔ اس حوالے سے باقی رشتے قائم ہوتے ہیں جیسے باپ، ماں، بھائی، چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ وغیرہ۔
  2. دوسرا سبب صہر کا ہے۔ صہر کہتے ہیں سسرال کو، یعنی سسرال کا رشتہ۔ اب جس عورت کے ساتھ اس کی شادی ہوئی ہے تو اس عورت کی ماں اس کی ماں بن گئی ہے، وہ اس پر حرام ہے۔ اب وہ اس عورت کی ماں سے شادی نہیں کر سکتا، اس کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتا۔ اسے صہر کا یعنی سسرالی رشتہ کہتے ہیں۔
  3. تیسرا سبب رضاعت کا رشتہ ہے جو ہمارے ہاں اکثر نظر انداز ہو رہا ہے۔ رضاعت کا رشتہ یہ ہے کہ ایک بچے نے دودھ کی عمر میں اپنی حقیقی ماں کے علاوہ کسی عورت کا دودھ پی لیا ہے تو بس اب وہ اس کی ماں بن گئی ہے۔

رضاعت کے رشتے کے بارے میں قرآن کریم نے اسے اس طرح ذکر کیا ہے کہ

وَاُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِـىٓ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوَاتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ (النساء ۴ ۔ آیت ۲۳)

’’اور (تم پر حرام ہیں) جن ماؤں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری دودھ شریک بہنیں‘‘۔

جہاں قرآن کریم نے محرمات کا ذکر کیاکہ فلاں فلاں عورت سے تمہاری شادی جائز نہیں ہے، وہاں یہ بھی ذکر کیا کہ وہ عورتیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایاہے، اب وہ تمہاری مائیں بن گئی ہیں اور ان کی بیٹیاں تمہاری بہنیں بن گئی ہیں۔ جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ

یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب۔ (بخاری، رقم ۲۴۵۱)

’’جو رشتے نسب میں حرام ہیں، رضاعت میں بھی حرام ہیں‘‘۔

جس عورت کا دودھ پیا ہے، اس کی بہن اب اس کی خالہ بن گئی ہے۔ یعنی نسب کی خالہ سے شادی حرام ہے تو رضاعت کی خالہ سے بھی حرام ہے۔ جس عورت کا دودھ پیا ہے، اس کا خاوند اس کا باپ ہے اور خاوند کا بھائی اس کا چچا ہے۔ چچا نسب میں بھی حرام ہے اور رضاعت میں بھی حرام ہے۔ اس باپ کی بہن اس کی پھوپھی لگی۔ پھوپھی نسب میں بھی حرام ہے، رضاعت میں بھی حرام ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب میں حرام ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس سے لا پرواہی برتی جاتی ہے اور اس کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ اس سلسلہ میں بے شمار روایات ہیں۔

پردے کے احکام آنے سے پہلے رشتہ دار وغیرہ گھر میں آتے جاتے تھے۔ جب شریعت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں تھی تو لوگ بھی ایسی کوئی پابندی نہیں کرتے تھے۔ لیکن جب پردے کا حکم آیا کہ کوئی غیر محرم سامنے نہیں آئے گا تو ایک صاحب آئے، حضرت عائشہؓ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ خاندان کے آدمی تھے۔ بتایا کہ میں افلح ہوں۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ نہیں بھئی! میں رسول اللہؐ سے پوچھوں گی کہ تمہیں اندر آنے کی اجازت دے سکتی ہوں کہ نہیں۔ چنانچہ بعد میں رسول اللہؐ سے پوچھا کہ وہ افلح آئے تھے تو میں نے اجازت نہیں دی۔ آپؐ نے فرمایا کہ آنے دیتی وہ تمہارا چچا لگتا ہے۔ یا رسول اللہ! وہ میرا چچا کدھر سے لگتا ہے؟ فرمایا اس کے بھائی کی بیوی کا تم نے دودھ نہیں پیا؟ یا رسول اللہ !پیا ہے۔ فرمایا کہ بس وہ تمہارا چچا لگا۔ حضرت عائشہؓ نے مذاق سے کہا، یا رسول اللہ ! دودھ تو میں نے عورت کا پیا ہے۔ فرمایا ، ہاں عورت کا ہی پیا ہے لیکن عورت کا خاوند تمہارا باپ ہے اور باپ کا بھائی تمہارا چچا ہے (بخاری، رقم ۴۸۳۸)۔ تو جیسے دوسرا چچا گھر آسکتا ہے یہ رضاعت کا چچا بھی آسکتا ہے۔

انصار اور مہاجرین میں مؤاخاۃ

میں عرض کر رہا تھا کہ جناب نبی اکرمؐ نے جاہلیت کی جن رسموں کے خاتمے کا اعلان فرمایا ، ان میں ایک رسم تبنّی اور تآخی کی بھی تھی۔ یہ حضورؐ کے زمانے میں بھی ابتدا میں رہی ہے۔ باپ بیٹا بننے کی رسم حضورؐ نے اپنائی ہے اور بھائی بھائی بننے کی رسم بھی۔ آپؐ نے اسی پرانی رسم کے مطابق مواخات کروائی اور انصارِ مدینہ کو مہاجرین کا بھائی بنایا۔ اس وقت تک وراثت اور دیگر اس طرح کے تفصیلی احکامات نہیں آئے تھے۔ جب مہاجر مدینہ منورہ آئے تو سینکڑوں کی تعداد میں تھے جنہیں سنبھالنا اجتماعی طور پر مشکل تھا۔ چنانچہ حضورؐ نے آسان حل نکالا اور ایک ایک مہاجر ایک ایک انصاری خاندان کے حوالے کر دیا اور کہا کہ تم بھائی بھائی ہو۔ اسے مواخات کہتے ہیں جو کہ سیرت کے واقعات میں یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ جب تک وراثت کے تفصیلی احکامات نہیں آئے، یہ ایک دوسرے کے وارث تھے۔ یعنی مہاجر فوت ہوتا تو اس کا انصاری بھائی وارث ہوتا۔ اسی طرح کوئی انصاری فوت ہوتا تو اس کا مہاجر بھائی اس کا وارث ہوتا۔ جناب نبی کریمؐ کا معمول مبارک یہ رہا ہے کہ کسی معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب تک کوئی حکم نہیں آیا اس وقت تک پرانی روایات پر عمل کرتے تھے۔ ہاں اگر حکم آگیا تو پہلی روایت ختم کر کے نئی بات نافذ کر دی جاتی۔ چنانچہ مواخات حضورؐ نے خود کروائی لیکن بعد میں پھر منع فرما دیا۔ ایک تھا تبنّی یعنی باپ بیٹا بننا، دوسرا تھا تآخی یعنی بھائی بھائی بننا۔ اور پھر ایک تیسری چیز تھی موالات۔

پہلی باتیں تو آج کے ماحول میں بھی سمجھ میں آتی ہیں لیکن موالات کی بات ذرا مشکل سے سمجھ میں آئے گی۔ موالات یہ ہے کہ کسی خاندان نے ایک غلام آزاد کر دیا تو وہ غلام آزاد ہو جانے کے باوجود اسی خاندان کا مولیٰ کہلاتا ہے۔ مولیٰ کا معنی ہے آزاد کردہ غلام۔ آزاد تو وہ ہوگیا لیکن پھر بھی اس کا کچھ تعلق اس خاندان سے باقی رہتا ہے۔ وہ اس طرح کہ وراثت کا جو آخری درجہ ہے کہ جب خاندان کا اور کوئی وارث نہ ہو تو وراثت میں پھر مولیٰ وارث ہوتا ہے۔ جیسے میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ حضرت بریرہؓ کو حضرت عائشہؓ نے جب آزاد کروانا چاہا تو آزاد کرنے والے خاندان نے وَلا کی شرط لگائی کہ وَلا ہماری ہوگی۔ تو حضور نے فرمایا کہ مولیٰ تبدیل نہیں ہو سکتا، وہ جس خاندان کا مولیٰ ہے اسی خاندان کا رہے گا۔ جاہلیت کے زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ کسی نے ناراض ہو کر مولیٰ تبدیل کر لیا کہ یہ اب میرا مولیٰ نہیں ہے۔ یا غلام ناراض ہو کر چلے جاتے تھے کہ میں اب اس خاندان کا مولیٰ نہیں ہوں۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ نہیں بھئی ایسا نہیں ہوگا۔ حضرت بریرہؓ کے شخصی واقعہ میں حضور ؐ نے اس کی اجازت نہیں دی۔

نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی یہ ہے جو آدمی اپنے باپ سے ہٹ کر کسی اور کی طرف منسوب ہوا اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ لیکن معلوم ہونا شرط ہے، اگر کوئی مغالطہ ہے یا کسی افراتفری میں نسب تبدیل ہوگیا ہے تو وہ بات الگ ہے۔ لیکن اگر معلوم ہے کہ یہ میرا باپ نہیں ہے اور پھر نسبت اس کی طرف کرتا ہے، یہ ملعونوں کا کام ہے اس کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ یہ جاہلیت کی رسم حضورؐ نے ختم کردی کہ آج کے بعد رشتہ وہی ہو گا جو نسب سے ہوگا، صہر سے ہوگا، یا رضاعت سے ہوگا۔ آسان لفظوں میں سمجھ لیجیے کہ منہ بولے رشتے حضورؐ نے ختم کر دیے۔

اسلام کا رشتہ

پھر نبی کریمؐ نے ایک اور بات کا اعلان فرمایا۔ اخوت کے جاہلی رشتوں کی نفی کی اور فرمایا کہ اخوت کا رشتہ تمہارے درمیان اسلام کا رشتہ ہے۔ اس پر آپؐ نے کچھ ہدایات دیں۔ قرآن کریم نے ذکر کیا کہ

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُـوْنَ اِخْوَةٌ (الحجرات ۴۹ ۔ آیت ۱۰)

’’بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘

آپؐ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ

ان المسلم اخوا المسلم لا یغشہ ولا یخونہ ولا یغتابہ۔

’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس کے ساتھ دھوکا نہیں کرتا اور اس کے ساتھ خیانت نہیں کرتا اور اس کی غیبت نہیں کرتا‘‘۔

’غش‘ کہتے ہیں ملاوٹ کرنے کو۔ اس کا مطلب چیزوں میں ملاوٹ بھی ہے اور معاملات و تعلقات میں ملاوٹ بھی ہے۔ یعنی ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو کسی معاملے میں دھوکہ نہیں دیتا۔ اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے مال میں خیانت نہیں کرتا۔ یہ خیانت کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے کہ خیانت صرف مال کی نہیں ہوتی۔ خیانت کا بڑا پہلو یہی ہے کہ مال میں، لین دین میں، یا امانت میں خیانت کی جائے۔ صرف ایک بات سے سمجھ لیں کہ خیانت کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔ مثال کے طور پر جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا المستشار مؤتمن (ترمذی، رقم ۲۷۴۷)۔ ایک آدمی آپ سے مشورہ طلب کرتا ہے اور آپ دیانت داری سے مشورہ نہیں دیتے تو یہ خیانت ہے۔ یا مثلاً اگر اس کو زیادہ وسیع دائرہ میں دیکھیں کہ آپ ایک آدمی کو منتخب کر رہے ہیں، کسی کو آپ نے ووٹ دینا ہے ، اور آپ جانتے ہیں کہ یہ آدمی اس کا اہل نہیں ہے، لیکن آپ اپنے کسی مفاد کی وجہ سے اس کے حق میں رائے دیتے ہیں تو یہ بالکل خیانت ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ

اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓى اَهْلِهَاۙ (النساء ۴ ۔ آیت ۵۸)

’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو‘‘۔

اس میں ہر طرح کی امانت آجاتی ہے، چاہے یہ علم کی امانت ہو، مال کی امانت ہو، ووٹ کی امانت ہو، مشورہ کی امانت ہو، کوئی بھی امانت ہو۔ اور پھر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی غیبت بھی نہیں کرتا۔ غیبت پر پہلے بھی بات ہو چکی ہے۔ قرآن کریم نے بھی جہاں مسلمانوں کو بھائی بھائی کہا وہیں یہ بھی کہا کہ

وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۚ (الحجرات ۴۹ ۔ آیت ۱۲)

’’اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے‘‘۔

ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ اس کے عیب کا کسی دوسری جگہ بلا ضرورت تذکرہ نہ کیا جائے۔ قرآن پاک نے غیبت کی وضاحت فرماتے ہوئے اس کی تشبیہ یوں دی کہ اگر بھائی کی لاش پڑی ہو تو کیا اس لاش سے گوشت نوچ کر کھاؤ گے؟ غیبت کرنا ایسا ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کی لاش سے گوشت نوچ کر کھانا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ غیبت کہتے ہی اس بات کو ہیں کہ ایک شخص میں کوئی عیب موجود ہو اور آپ بلا ضرورت اس بات کا کسی جگہ تذکرہ کریں۔ ہمارے ہاں عام طور پر غیبت اس بات کو سمجھا جاتا ہے کہ کسی کے خلاف کوئی جھوٹی بات کہہ دینا۔ حالانکہ ایسا کرنا غیبت نہیں ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے جب فرمایا کہ غیبت کبیرہ گناہ ہے تو ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کسی میں اگر وہ عیب ہو تب بھی غیبت ہے؟ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ اس شخص میں یہ عیب نہیں ہے اور ہم ذکر کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ اسی کا نام تو غیبت ہے۔ اگر اس میں وہ خرابی نہیں ہے اور آپ کسی جگہ اس کا تذکرہ کر رہے ہیں تو وہ بہتان ہے فقد بہتہ پھر تو تم نے بہتان باندھا ہے (مسلم، رقم ۴۶۹۰)۔ میں نے ایک جملہ ساتھ کہا ہے، بلا ضرورت۔ ضرورت کے مقام پر اس کا ذکر درست ہے۔ مثلاً آپ کو عدالت کے کسی کیس میں کسی شخص پر گواہی دینی ہے تو وہاں یہ غیبت شمار نہیں ہوگی۔ یعنی کسی کیس کا فیصلہ آپ کی گواہی پر موقوف ہے تو وہاں آپ کسی شخص کی کیس سے متعلقہ خرابی کا ذکر کر سکتے ہیں۔ البتہ غیر متعلقہ کا وہاں بھی ذکر نہیں کر سکتے۔ یا پھر مثال کے طور پر ایک شخص کی کسی بات سے کسی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے تو آپ اس کے خطرہ سے دوسرے شخص کو آگاہ کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنا غیبت نہیں ہے۔ لیکن یہ بالکل آپ کی دیانت پر ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔

غیبت تو ہمارے ہاں عام ہے۔ ہمارا تو کلچر ہی یہ ہے کہ جہاں دو آدمی بیٹھتے ہیں وہاں کوئی تیسرا زیر بحث ہوتا ہے اور اس کو پوری طرح بے نقاب کرنے میں ہم کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ مسلمانوں کے باہمی حقوق کے خلاف ہے۔ فرمایا ولا یغشہ ولا یخونہ ولا یغتابہ۔ ایک اور روایت میں یہ بات اس طرح فرمائی کہ

المسلم اخوا المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ۔ (بخاری، ۲۲۶۲)

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور اسے رسوا نہیں کرتا‘‘۔

ولا یسلمہ بڑا خطرناک جملہ ہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر کے حوالے بھی نہیں کرتا کہ وہ اس پر ظلم کرے اور یہ بیٹھ کر تماشا دیکھتا رہے۔ اس کو دشمن کے سپرد بھی نہیں کر دیتا کہ اس کے ساتھ جو مرضی کرے۔یہ حضورؐ نے مسلمانوں کے آپس کے حقوق بیان فرمائے۔

حدیث جبریل ؑ میں حضورؐ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! ما الایمان ایمان کیا ہے؟ فرمایا کہ

ان تؤمن باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر والقدر خیر وشرہ من اللّٰہ تعالٰی والبعث بعد الموت۔

’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر، اللہ کی طرف سے اچھی اور بری تقدیر پر اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے پر ایمان لاؤ‘‘۔

اور اسلام کے بارے میں فرمایا کہ

ان تشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا رسول اللہ وتقیم الصلٰوۃ وتؤتی الزکٰوۃ و تصوم رمضان وتحج البیت ان استطعت الیہ سبیلا۔ (مسلم، رقم ۹)

’’یہ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور اللہ کے گھر کا حج ادا کرو جو اس کی استطاعت رکھتا ہے‘‘۔

حدیث جبریل میں حضورؐ نے یہ مطلب بیان فرمایا کہ مسلم وہ ہے جو اسلام کے احکامات پر عمل کرتا ہے۔ مومن وہ ہے جس کا ایمانیات پر یقین پختہ ہو۔ اور مہاجر کسے کہتے ہیں؟ ہجرت کا معنی یہ ہے کہ ایک آدمی ایک جگہ رہتا ہے اور وہاں وہ اپنے دین پر آزادی سے عمل نہیں کر پاتا تو وہ اس جگہ سے ایسی جگہ پر ہجرت کر جائے جہاں وہ اپنے دین پر آزادی سے عمل کر سکے۔ ایک آدمی کو ایک جگہ نماز پڑھنے کی، قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی اور دیگر شعائر اسلام پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے تو اس کے لیے اسلام کی رو سے وہاں رہنا جائز نہیں ہے۔ وہ وہاں سے کسی دوسری جگہ پر چلا جائے گا جہاں وہ شعائر اسلام پر آزادی سے عمل کر سکے۔ تو اس طرح ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کے عمل کو ہجرت اور ایسے شخص کومہاجر کہتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے حضورؐ نے خود مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی اور بہت سے صحابہؓ نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔

مسلم، مومن اور مہاجر کا اصطلاحی معنٰی تو وہی ہے جو حضورؐ نے حدیث جبریل میں بیان فرمایا لیکن یہاں ایک اور معنٰی حضورؐ نے فرمایا کہ

الا اخبرکم بالمومن من امنہ الناس علی اموالھم و انفسھم والمسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ والمجاھد من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللہ والمھاجر من ھجر الخطایا والذنوب ۔ (مسند احمد، ۲۲۸۳۳۔ صحیح ابن حبان، ۴۸۶۲)

’’کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ مومن کون ہے؟ وہ جس سے لوگ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو محفوظ سمجھیں۔ اور مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے لوگ بچے رہیں۔ اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے۔ اور مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور غلطیوں کو ترک کر دے۔‘‘

مسلم وہ ہے کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔ کسی دوسرے کو ضرر دینے کی دو ہی چیزیں ہیں، یا آدمی زبان سے کسی کو نقصان پہنچائے گا یا ہاتھ سے نقصان پہنچائے گا۔ اگر مسلمان سلامتی والا ہے اور سوسائٹی کے باقی لوگ اس کے شر سے محفوظ ہیں تو وہ صحیح معنوں میں مسلمان ہے۔ پھر فرمایا مومن وہ ہے جس کو لوگ اپنے مالوں اور جانوں پر محافظ اور امین سمجھیں، یعنی لوگوں کا اس پر اعتماد ہو کہ یہ ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اور ہجرت کا لفظی معنی ترک کرنا ہے، گویا مہاجر وہ ہے جو گناہ اور نا فرمانی کو ترک کر دے۔

حضورؐ نے ایک اصطلاح کے دو معنی بیان فرمائے۔ ایک تو ظاہری معنٰی اور دوسرا اس کی روح۔ ظاہرًا مسلمان وہ ہے جو کلمہ پڑھتا ہے، نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے اور بیت اللہ کا حج کرتا ہے۔ لیکن اپنی روح کے اعتبار سے مسلمان وہ ہے کہ جس کے شر سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اسی طرح ظاہرًا مومن وہ ہے جو اللہ، رسولوں، فرشتوں، اللہ کی کتابوں، قیامت کے دن، اچھی بری تقدیر اور مرنے کے بعد آخرت کی زندگی پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن اپنی روح کے اعتبار سے مومن وہ ہے کہ جس کا ایمان اتنا پختہ ہواتنا مضبوط ہوکہ لوگ اسے اپنی جانوں اور اپنے مالوں پر امین سمجھیں، اور اس پر اعتماد کریں۔

حضرات صوفیائے کرام کا فلسفہ بھی یہی ہے۔ وہ ایک چیز کے ظاہری معنی کے ساتھ اس کی روح کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اور یہ جناب نبی کریمؐ کی سنت ہے۔ مثلاً ایک عمل ہے نماز پڑھنا۔ نماز کے ظاہری ارکان کیا ہیں؟ قیام ہے، رکوع ہے، سجدہ ہے اور قاعدہ ہے جن کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ لیکن جب آپ کسی اللہ والے سے پوچھیں گے تو وہ آپ کو یہ تلقین کرے گا کہ نماز میں توجہ پوری ہو، خشوع و خضوع ہو، فلاں بات نماز میں ہو اور فلاں نہ ہو۔ وہ نماز کے ایسے اوصاف بیان کرے گا کہ آپ کو نماز کی روح سے آشنا کرے گا۔ اسی طرح روزہ دیکھ لیجیے۔ روزہ کا عام معنٰی یہ ہے کہ آدمی سحری سے افطار تک کھانے پینے کی چیزوں سے اور ازدواجی تعلقات سے بچا رہے۔ لیکن اللہ والے آپ کو روزہ کی روح سے آگاہ کریں گے کہ خیالات کو پاک رکھو، ہاتھ کو بھی ٹھیک رکھو، نگاہ بھی صحیح رکھو، کانوں اور زبان کا بھی ٹھیک استعمال کرو۔ تو یہ جناب نبی کریمؐ کی سنت ہے کہ جس طرح ایمان اور اسلام کے ظاہری معانی بیان فرمائے، اسی طرح ان کی روح بھی بیان فرمائی۔

سوسائٹی کے کمزور طبقات

آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں دو کمزوروں ، دو ضعیفوں کے بارے میں بطور خاص وصیت کرتا ہوں کہ ان کے حقوق کا خیال کرنا کیونکہ وہ اپنا حق اپنے طور پر وصول کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ایک یتیم اور دوسرا عورت ۔فرمایا کہ یہ دو کمزور ہیں، میں ان کے حقوق کے بارے میں تمہیں بطور خاص وصیت کرتا ہوں۔ اور تیسرا طبقہ جس کے بارے میں فرمایا کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں غلاموں کے بارے میں، ماتحتوں کے بارے میں۔ اس زمانے میں غلام ہوتے تھے، آج بھی ہیں لیکن ذرا عنوان بدل گئے ہیں۔ فرمایا کہ میں غلاموں کے بارے میں بطور خاص وصیت کرتا ہوں کہ وہ بھی تمہاری طرح انسان ہیں۔ رسول اللہؐ کی بعثت کے وقت جو معاشرہ تھا، اس میں یہ تینوں طبقے فی الواقع مظلوم تھے۔ اور یہ آج بھی مظلوم ہیں، ذرا پہلو بدل گئے ہیں، رخ بدل گئے ہیں، حوالے بدل گئے ہیں، لیکن ہیں۔ قرآن کریم نے بھی یتیم اور عورت کا ذکر کیا ہے۔

یتیموں کے ساتھ سلوک

اس سوسائٹی کو سمجھنے کے لیے قرآن کے حوالے سے ایک بات میں ذرا تفصیل سے بیان کروں گا۔ حضرت عروہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت زبیرؓ کے بیٹے تھے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھانجے بھی تھے اور شاگرد بھی، بلکہ علمی جانشین تھے۔ میں نے پہلے بھی کسی جگہ ذکر کیا تھا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے علوم کو امت تک منتقل کرنے والے تین بڑے آدمی ہیں۔ ایک ان کے بھتیجے قاسم ابن محمدؓ۔ دوسرے ان کے بھانجے عروہ ابن زبیرؓ۔ اور تیسری خاتون ہیں عمرہ بنت عبد الرحمنؓ جن کو حضرت عائشہؓ کی اصل جانشین سمجھا جاتا ہے۔ وہ بڑی محدثہ اور فقیہ تھیں۔ تو عروہؓ شاگرد بھی تھے اور بھانجے بھی۔ حضرت عائشہؓ کی گود میں پلے ہیں بیٹوں کی طرح۔ عروہؓ بہت سے حوالوں سے اپنے سوالات کا ذکر کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی کسی آیت کو سمجھنے میں کوئی اشکال ہوتا تو حضرت عائشہؓ سے پوچھتے کہ امّاں جان ! یہ آیت سمجھ میں نہیں آرہی۔ ان میں سے ایک آیت کا میں اس وقت تذکرہ کروں گا۔

عروہؓ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی ایک آیت سمجھ میں نہیں آرہی تھی، میں نے امّاں جان سے پوچھا۔ یہ سورۃ النساء کی آیت ہے

وَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِى الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ (النساء ۴ ۔ آیت ۳)

’’اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو‘‘۔

عروہؓ کہتے ہیں کہ میں نے خالہ جان سے پوچھا کہ اس بات کا کیا مطلب ہے کہ یتیموں سے اگر انصاف نہ کر سکو تو شادیاں کرو؟ اس بات کا آپس میں کیا جوڑ ہے، یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرنے کا شادیوں کے ساتھ کیا تعلق؟ حضرت عائشہؓ نے کہا بیٹا بات یہ ہے کہ جب تک اس معاملے کا تمہیں پس منظر پتہ نہ چل جائے، یہ آیت تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔

گفتگو کا یہ اصول صرف قرآن کریم ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ دنیا کی کسی بھی زبان میں گفتگو ہو جب تک وہ اس کے بیک گراؤنڈ میں نہ دیکھی جائے اس وقت تک اس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ یعنی بات کہاں اور کس ماحول میں کہی گئی ہے۔ گفتگو کو اس کے اصل پس منظر میں دیکھا جائے تو اس کا مطلب سمجھ میں آتا ہے ورنہ آدمی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہم دنیا کی اصطلاحات میں اسے پس منظر، ماحول اور بیک گراؤنڈ کہتے ہیں جبکہ قرآن کریم کی تفسیر کی اصطلاح میں اسے شانِ نزول کہتے ہیں۔ مثلاً یہ آیت کب نازل ہوئی تھی، کیوں نازل ہوئی تھی اور وہ مسئلہ کیا تھا جو اس آیت کے نزول کا سبب بنا۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں، چونکہ اس آیت کا پس منظر تمہارے سامنے نہیں ہے اس لیے تمہیں یہ آیت سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہے۔ پھر انہوں نے اس کے پس منظر کی وضاحت فرمائی۔ یہ عرب کا قبائلی نظام تھا جس میں ایک قبیلہ کا سردار اپنے قبیلہ کے تمام معاملات کا مختار اور ذمہ دار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ کوئی شخص فوت ہوجاتا اور اس کی بچی یتیم ہو جاتی تو اس کا فیصلہ بھی خاندان کا سردار ہی کرتا۔ بچی کا باپ اگر جائیداد وغیرہ چھوڑ جاتا یا یہ کہ بچی خوبصورت ہوتی تو سردار کی نیت خراب ہو جاتی اور وہ اس بچی کو اپنے حرم میں ڈال لیتا۔ یہ کہہ کر کہ میں اسے اپنے نکاح میں لیتا ہوں لیکن در حقیقت وہ اپنے سرپرست ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے مہر اور دیگر حقوق میں اس کی حق تلفی کرتا۔ سورۃ النساء کی اس آیت میں قرآن کریم نے در اصل اس بات پر پابندی لگائی کہ یتیم بچیوں کے ساتھ اگر تم انصاف کر سکتے ہو تو نکاح کرنا منع نہیں ہے لیکن اگر انصاف نہیں کر سکتے تو ان بچیوں کو خواہ مخواہ اپنے حرم میں ڈال کر انہیں ان کے حقوق سے محروم نہ کرو۔ (بخاری، ۲۳۱۴)

اس کے علاوہ بیویوں کی تعداد پر بھی کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی۔ کئی سرداروں نے تو سو سو بھی رکھی ہوئی تھیں۔ دس، بیس، پچاس بیویاں تو سرداروں کے پاس ہوتی تھیں۔ اب جہاں بیس پچیس بیویاں ہوں گی آپ خود اندازہ کر لیں کہ ان کے حقوق کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ نہ تو انہیں حقوق مل رہے ہیں اور نہ آزادی! وہ بس ایسے ہی اس کے حرم میں پڑی ہیں۔ اس لیے پابندی لگا دی گئی کہ چار سے زیادہ عورتوں سے شادی نہیں کر سکتے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ چار کی حد اجازت کے لیے نہیں ہے بلکہ چار سے زیادہ کی ممانعت کے لیے ہے۔ چنانچہ جب یہ حکم نازل ہوا تو نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دے دیا کہ جس کے پاس چار سے زیادہ ہیں وہ انہیں فارغ کر دے۔ ایک صحابیؓ کے پاس پانچ تھیں، اس نے ایک فارغ کر دی۔ ایک کے پاس دس تھیں، چھ فارغ کر دیں۔

اب خود نبی کریمؐ کے حوالے سے یہ مسئلہ پیش آگیا کہ حضورؐ کے پا س نو تھیں۔ یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے کہ باقیوں سے تو حضورؐ نے چار سے زیادہ چھڑوادیں لیکن خود کیوں نہیں چھوڑیں۔ نو کی نو رکھیں اور کسی کو طلاق نہیں دی۔ جناب نبی کریمؐ کے لیے حکم مختلف تھا۔

لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ (احزاب ۳۳ ۔ آیت ۵۲)

’’اس کے بعد آپ کے لیے عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان سے اور عورتیں تبدیل کریں اگرچہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے‘‘۔

حکم یہ تھا کہ جناب اس کے بعد آپ نیا نکاح نہیں کر سکتے لیکن ان کو نہیں چھوڑیں گے۔ اور گنتی برقرار رکھنے کے لیے کسی کو چھوڑیں گے بھی نہیں کہ ایک کو چھوڑ کر کسی اور سے نکاح کر لیا۔ یہ دو پابندیاں اللہ تعالیٰ نے حضورؐ پر لگا دیں اور اس بات کی وجہ قرآن کریم ہی سے اشارتاً سمجھ میں آتی ہے۔ باقی لوگوں نے جو چار سے زائد چھوڑیں، ان کا بعد میں کہیں نہ کہیں نکاح ہوگیا۔ لیکن جناب نبی کریمؐ کی ازواج مطہرات کا ٹائٹل ’’امہات المؤمنین‘‘ ہے یعنی یہ مومنوں کی مائیں ہیں۔ اس لیے ان کے لیے حکم یہ ہے کہ

وَلَآ اَنْ تَنْكِحُوٓا اَزْوَاجَهٝ مِنْ بَعْدِهٓ ٖ اَبَدًا ۚ (احزاب ۳۳ ۔ آیت ۵۳)

’’اور نہ آپؐ کی بیویوں سے آپؐ کے بعد کبھی بھی نکاح کرو‘‘۔

باقیوں کے لیے تو چھوڑ دینا عزت افزائی تھی اور ان کا نکاح کہیں اور ہوگیا۔ حضورؐ اگر پانچ کو چھوڑ دیتے تو وہ کدھر جاتیں؟ کوئی ان سے نکاح تو کر نہیں سکتا تھا کہ مائیں ہیں۔ تو حضورؐ کے لیے حکم تھا کہ ان ازواج مطہرات کو نہ چھوڑیں تا کہ ان کا اعزاز و احترام برقرار رہے۔

خیر، میں یتیم کے حوالے سے بات کر رہا تھا کہ یتیم اس زمانے میں بھی ایک مظلوم طبقہ تھا اور آج بھی ہے۔ یتیم اس حوالے سے بھی یتیم طبقہ ہے کہ وہ بڑوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اگر اس کا ولی دیانت دار ہے، ایمان دار ہے تو یتیم کی تعلیم و تربیت بھی ہوگی، اس کی جائیداد کی حفاظت بھی ہوگی، اور اس کو وراثت کا حصہ بھی پورا ملے گا۔ لیکن اگر ولی کی نیت میں کھوٹ ہے تو سارے معاملات گڑبڑ ہو جائیں گے اور عام طور پر ایسا ہوتا ہے۔

وراثت کے احکام

جاہلیت کے زمانے میں وراثت کے حصے متعین نہیں ہوتے تھے۔ مرنے والے کی مرضی ہوتی تھی کہ اپنی وصیت میں جس کو جتنا مرضی دے جاتا۔ اگر کسی کو نہ دے کر جاتا تو قبائل کا عام رواج یہ تھا کہ اس کا سارا مال بڑے بیٹے کے قبضہ میں آجاتا۔ حتیٰ کہ یہ بھی ہوتا تھا کہ باپ کی منکوحہ بھی بڑے بیٹے کے قبضہ میں آجاتی تھی۔ یعنی باپ نے کہیں نکاح کیا ، بعد میں فوت ہوگیا تو اس کی منکوحہ بڑے بیٹے کے نکاح میں خود بخود آجاتی تھی کہ یہ وراثت میں ہے۔ اس لیے ایک تو قرآن کریم نے یہ کیا کہ وراثت کے حصے متعین کر دیے۔ بیوی کا بھی، بچوں کا بھی، ماں باپ کا بھی۔ قرآن کریم کا پہلا حکم یہ تھا کہ مرنے والا مرنے سے پہلے وصیت کر جائے کہ کس کو کتنا حصہ دینا ہے۔ یعنی وراثت کی تقسیم میں اس کا اختیار تھا کہ کس کو کتنا حصہ دیتا ہے۔ لیکن بعد میں قرآن کریم نے حصے متعین کر دیے اور فرما دیا کہ یہ طے شدہ بات ہے، اب اس میں کسی کو رد و بدل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

وراثت کا مسئلہ اس زمانے میں بھی نازک تھا اور آج بھی ہے۔ ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کوئی مرد یا عورت ساٹھ سال تک عبادت کرتے ہیں، اللہ کی بندگی میں گزارتے ہیں اور آخر وقت میں اپنی وصیت میں گڑبڑ کر کے اپنے رشتہ داروں میں سے کچھ کو محروم کر دیتے ہیں تو ساٹھ سال کی عبادت کے باوجود جہنم ان کے لیے واجب ہو جاتی ہے (ترمذی، رقم ۲۰۴۳)۔ کیونکہ اگر قرآن کریم کے مقرر کردہ حصوں سے ہٹ کر وصیت کریں گے تو کسی نہ کسی کا حق تو مارا ہی جائے گا۔ قرآن کریم نے یتیموں کو یہ تحفظ دیا اور ساتھ ہی یہ تلقین و تنبیہ بھی فرمائی کہ

اِنَّ الَّـذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتَامٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِىْ بُطُوْنِـهِـمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْـرًا۔ (النساء ۴ ۔ آیت ۱۰)

’’بے شک جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں، اور عنقریب آگ میں داخل ہوں گے‘‘۔

اس مسئلے کی حساسیت کا آپ اس واقعہ سے اندازہ کیجئے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ ایک دفعہ اپنے ایک بیمار دوست کی بیمار پرسی کے لیے گئے۔ مریض بہت زیادہ بیمار تھا، ابھی حال احوال پوچھ رہے تھے کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ وہاں ایک دیا جل رہا تھا امام صاحبؒ نے پھونک مار کر اسے بجھا دیا۔ اپنی جیب سے ایک آدمی کو پیسے دیے کہ جاؤ بازار سے دیا لے کر آؤ اور یہاں جلاؤ۔ کسی نے پوچھا کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ کہنے لگے کہ بھئی بات یہ ہے کہ جب تک یہ زندہ تھا ، ہم اس کے مہمان تھے اور یہ دیا اس کی ملکیت تھی۔ اس کے مرنے کے بعد یہ اس کی ملکیت نہیں رہا بلکہ ورثا میں مشترک ہوگیا ہے۔ اور میں مشترک مال بغیر اجازت کے استعمال نہیں کرتا۔ مشترک مال کے لیے شرط ہے کہ سب کی اجازت ہو تو استعمال ہو سکتا ہے، اس لیے میں اس دیے کی روشنی میں نہیں بیٹھنا چاہتا اور میں نے اپنا دیا الگ منگوایا ہے۔ امام صاحبؒ کا یہ عمل فتویٰ کی بات نہیں ہے بلکہ احتیاط کی بات ہے کہ جو لوگ اس معاملہ کی حساسیت سمجھتے تھے، وہ کس قدر احتیاط سے کام لیتے تھے۔ لیکن ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ کوئی بیچارہ فوت ہو جائے تو ہم کتنا کتنا عرصہ وہاں سے اٹھتے ہی نہیں اور مشترک مال کو استعمال میں لاتے ہیں جو کہ مرنے والے کی ملکیت میں نہیں رہا۔

میں عرض کر رہا تھا کہ جناب نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ بات خاص طور پر ارشاد فرمائی کہ میں تمہیں دو کمزوروں کے بارے میں بطور خاص وصیت کرتا ہوں، ایک یتیم کے بارے میں اور دوسرا عورت کے بارے میں۔

عورت کی مظلومیت

جناب نبی کریمؐ نے فرمایا فاتقوا اللّٰہ فی النساء کہ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ عورت کا مسئلہ بھی یہی ہے، اس زمانے میں بھی تھا اور آج بھی مختلف حوالوں سے ہے۔ میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور اس مسئلہ کو اپنی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ آج دو طرفہ ظلم ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں شاید دس فیصد عورتوں کو وراثت ملتی ہے جبکہ نوے فیصد کو سرے سے وراثت ملتی ہی نہیں۔ میں اپنے پاکستان کے معاشرے کی بات کر رہا ہوں۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ مجھے ایک خاتون کا فون آیا، شاید اخبارات میں میرے مضامین پڑھتی رہتی ہوگی، اس حوالہ سے جانتی ہوگی۔ کسی کالج کی لیکچرار تھی۔ کہنے لگی کہ میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد میں سے میرا وراثت کا حصہ بنتا ہے اور ایک بازار میں کوئی سات آٹھ دکانیں میرے حصے میں آتی ہیں۔ میں نے اپنے بھائیوں سے اپنا حصہ مانگا ہے کہ یہ میرا حق ہے، مجھے ملنا چاہیے۔ تو بھائی کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے، ہم دکانیں تو دے دیتے ہیں لیکن پھر زندگی بھر کے لیے تمہارے ساتھ ہمارا تعلق ختم، جینا مرنا ختم۔ یا دکانیں لے لو یا تعلق باقی رکھو۔ اب آپ بھی اس معاشرے کو جانتے ہیں کہ جہاں عورت جائیداد کی قربانی تو دے سکتی ہے لیکن بھائیوں کی قربانی نہیں دے سکتی۔ پتہ نہیں کہ زندگی میں کیا مراحل پیش آئیں گے۔ وہ خاتون مجھ سے مشورہ لے رہی تھی کہ میں دکانیں لوں یا بھائیوں کو رکھوں؟ میں نے کہا کہ بی بی یہ دونوں مسئلے نازک ہیں اور میں آپ کے علاقے کے ماحول سے میں واقف نہیں ہوں، اس لیے وہاں کے مقامی علما سے مشورہ لیں، وہ زیادہ بہتر آپ کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں پچھلے سال اسمبلی میں عورتوں کے حقوق کے نام سے ایک معاملہ چل رہا تھا۔ حقوق نسواں بل پر بحث ہوتی رہی۔ حکومت اور اپوزیشن نے علما کی ایک کمیٹی بنائی، میں بھی اس میں تھا۔ ہم اس دوران اسلام آباد میں بیٹھے رہے اور مذاکرات کرتے رہے۔ حدود آرڈیننس میں کچھ ترمیمات پر بھی بات چل رہی تھی، کافی لمبا مسئلہ تھا۔ ہم نے حکومت اور اپوزیشن والوں سے کہا کہ بھئی بات یہ ہے کہ بل کا عنوان رکھا گیا ہے ’’تحفظِ حقوقِ نسواں،، یعنی عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل۔ لیکن ہماری پاکستان کی سوسائٹی میں عورتوں کے جو حقوق عملاً متاثر ہو رہے ہیں، ان میں سے کسی کا بھی اس بِل میں ذکر نہیں ہے۔ ہم نے حکومت اور اپوزیشن والوں کو بتایا کہ ہمارے معاشرے میں عورت کی مظلومیت کے حوالے سے عملی مسائل کیا ہیں۔

  • ہم نے کہا کہ عورت کو یہاں وراثت نہیں ملتی، بل میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ نوے فیصد عورتوں کو وراثت نہیں ملتی اور تقریباً پچھتر فیصد عورتوں کو مہر نہیں ملتا۔
  • عورت کو طے کردہ مہر نہیں ملتا، اس کا ذکر نہیں ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے ہم ہڑپ کر جاتے ہیں۔ میرے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ، اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھیں، ان کے پاس ایک صاحب آئے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران ذکر کیا کہ میرا مہر تو بیوی نے مجھے معاف کر دیا۔ والد صاحب نے پوچھا ، بھائی معاف کیسے کیا؟ تم نے اسے مہر دیا تھا اور پھر اس نے واپس کر دیا یا ویسے ہی زبانی معاف کر دیا؟
  • ہمارے معاشرے میں عورت کی جبری شادی کر دی جاتی ہے، جوان بچی کی اس کا باپ اس کی مرضی کے بغیر شادی کر رہا ہے اور وہ بیچاری بے بس ہے۔ اس بات کی شریعت قطعاً اجازت نہیں دیتی۔ ہم نے پوچھا کہ بھئی، جبری شادی کے بارے میں آپ لوگوں نے کیا کیا؟
  • ہم نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں عورت باقاعدہ بکتی ہے، بعض علاقوں میں باپ اپنی بیٹی کی قیمت وصول کرتا ہے لیکن آپ کے بِل میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
  • ہمارے بعض جاگیردار علاقوں میں لڑکی کی قرآن سے شادی کر دی جاتی ہے اور یہ بات قرآن کریم کی توہین بھی ہے کہ قرآن کریم سے شادی کے مقدس عنوان پر اپنی بیٹی کے حصے کی جائیداد اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک جاگیردار اپنی بیٹی کی شادی جب کرے گا تو قانونی و شرعی طور پر اسے اپنی جائیداد کا ایک حصے اس کے نام کرنا پڑے گا، چنانچہ وہ اس کی شادی قرآن سے کر دیتا ہے تاکہ جائیداد تقسیم نہ ہو جائے۔ یعنی جائیداد بچانے کے لیے قرآن کریم کے مقدس نام کو استعمال کیا جاتا ہے کہ دو چار چھ مربع زمین نہ کسی کو دینی پڑ جائے۔ ہم نے کہا کہ تمہارے بِل میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

ہم نے کہا کہ عنوان تو اس بِل کا حقوقِ نسواں ہے لیکن عورتوں کی مظلومیت کا ایک عملی مسئلہ بھی اس میں ذکر نہیں کیا گیا۔ خیر، وہ بل تو انہوں نے ایسے ہی منظور کر لیا لیکن بعد میں ایک الگ بل ہماری تجاویز کے مطابق لے کر آئے اور منظور کیا۔

مغرب میں عورت کے ساتھ دھوکہ

اب یہاں مغرب کے حوالہ سے بھی عورت کی مظلومیت دیکھ لیں۔ ایک سوال میں اکثر کیا کرتا ہوں، آپ بھی اس پر ذرا غور فرما لیں، ہماری بہنیں بھی بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہاں مغرب میں یہ کہا جاتا ہے کہ عورتوں کو ہم نے برابر کے حقوق دیے ہیں۔ روس کے ایک سابق وزیر اعظم گورباچوف نے اس دعوے کا بھانڈا پھوڑا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’پیرسٹروئیکا‘‘ میں اس کی پوری تفصیل لکھی ہے۔ انہوں نے یورپ کی بات کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں یوں ہوا کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران قتل عام ہوا، لاکھوں کروڑوں افراد مارے گئے جس سے مغربی ممالک میں افرادی قوت کا خلا پیدا ہوگیا، فیکٹریاں بند ہوگئیں، دفتر خالی ہوگئے اور سکول ویران ہوگئے۔ گوربا چوف کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کے لیے عورت سے یہ کہا کہ تمہیں ہم برابر کے حقوق دیتے ہیں ، تم گھر سے باہر نکلو اور فیکٹری میں، دفتر میں، سکولوں میں آؤاور ہمارے لیے کام کرو۔ یعنی گھر کا کام بھی کرو اور باہر کا بھی۔ ہم عورت کو ورغلا کر گھر سے باہر لائے۔ ہم نے یہ کام کر کے اپنی افرادی قوت کے خلا کو تو پورا کر لیا لیکن ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا۔ گورباچوف کہتے ہیں کہ اب ہم چاہتے ہیں کہ وہ واپس گھر چلی جائے اور اپنے گھر کا نظام سنبھالے لیکن اسے واپس بھیجنے کا ہمیں کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔

مغرب نے بیچاری عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا، میرا یہ ایک بہت سنجیدہ سوال ہے ۔ عورت کے جو فطری فرائض ہیں وہ تو اسی کے کھاتے میں ہیں۔ بچہ جننا بھی عورت نے ہے اور پالنا بھی اسی نے ہے۔ ایک خاص عمر تک بچے کی عورت نے ہی پرورش کرنی ہے۔ مرد یہ کام نہیں کر سکتا کہ یہ اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ قدرت کی تقسیم تو بالکل فطری ہے کہ گھر کا نظام عورت کی ذمہ داری ہے اور گھر کے باہر کے معاملات کا انتظام مرد کے سپرد ہے۔ یہ قدرت کی تقسیم کار ہے جس میں کوئی حقارت یا عظمت کا پہلو نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مغرب نے عورت کو کارخانے اور دفتر میں لا کر اس کے حقوق میں اضافہ کیا یا فرائض میں؟ یعنی مغرب کے مرد نے عورت کے ساتھ یہ ظلم کیا ہے کہ اس کی کسی ڈیوٹی کو شیئر کیے بغیر اسے اپنے ساتھ اپنی ڈیوٹی میں شامل کر لیا ہے۔ اس کی کسی نیچرل ڈیوٹی میں مرد نے شیئر نہیں کیا اور نہ ہی وہ کر سکتا ہے لیکن اپنی ڈیوٹی میں اسے ساتھ ملا لیا کہ ہمارے ساتھ مل کر کام بھی کرو۔ اور عورت بجائے اس بات کو سمجھنے کے کہ دونوں طرف کی ڈیوٹی میرے کھاتے میں پڑ گئی ہے، اس عنوان پر خوش ہے کہ ہمارے حقوق برابر ہوگئے ہیں۔

جناب نبی کریمؐ کے ارشاد کے حوالے سے میں عرض کر رہا تھا کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں دو کمزوروں کے بارے میں خاص وصیت کرتا ہوں کہ وہ خود تو اپنا حق وصول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، اس لیے تم ان کا ضرور خیال رکھنا۔ ایک یتیم اور دوسرا عورت۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضورؐ کا یہ ارشاد جیسے اس سوسائٹی کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا ، ہماری آج کی سوسائٹی کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یتیم اور عورت آج بھی مظلوم اور بے بس ہیں۔

عورت کا رائے کا حق

عورت کے حقوق کے حوالے سے ایک روایت بخاری میں ہے، میں اس کا بھی یہاں ذکر کر دیتا ہوں۔ روایت یوں ہے کہ بریرہؓ ایک خاندان کی لونڈی تھی، اس نے ان سے بات کی کہ مجھ سے پیسے لے کر مجھے آزاد کر دو۔ خاندان والوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، طے ہوا کہ اتنی رقم ہوگی اور قسط وار نو سال میں ادا ہوگی۔ جب پیسے پورے ہو جائیں گے تو تم آزاد ہو جاؤ گی۔ بریرہؓ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں آئی اور گزارش کی کہ اماں جان! میں نے اپنے مالکوں سے اپنی آزادی کا سودا کر لیا ہے، اب نو سال تک قسطیں دے کر آزاد ہو جاؤں گی، آپ میری اس معاملہ میں کچھ مدد کریں۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ اپنے مالکوں سے بات کرو کہ میں سارے پیسے دے کر تمہیں آزاد کرانے کے لیے تیار ہوں لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ ولا میری ہوگی۔

یہ ولا ایک مستقل مسئلہ ہے، یہ وراثت کا آخری درجہ ہے۔ کوئی آدمی فوت ہو جائے اور اس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو تو وراثت کسے ملے گی؟ غلام عام طور پر ایسے ہی ہوتے تھے کیونکہ وہ باہر سے آتے تھے اس لیے ان کا کوئی رشتہ دار، کوئی برادری نہیں ہوتی تھی۔ اب اگر کوئی غلام فوت ہو گیا ہے اور اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے تو اس کا ترکہ کس کو ملے گا؟ اس کو حق ولا کہتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ میں سارے پیسے دے دیتی ہوں لیکن حق ولا میرا ہوگا۔ بریرہؓ گئی اور جا کر اپنے مالکوں سے بات کی لیکن وہ حق ولا دینے پر نہ مانے۔ جناب نبی کریمؐ سے پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ خرید لو الولاء لمن أعتق جس نے آزاد کرایا ہے ولا اس کی ہے۔ شرطیں لگانے سے ولا نہیں بدلتی، یہ شریعت کا قانون ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ نے بریرہ کو خرید لیا۔ (بخاری، رقم ۴۳۶)

اب بریرہؓ آزاد ہونے کے بعد حضرت عائشہؓ کی خدمت میں آ تو گئی لیکن ایک مسئلہ پیدا ہوگیا۔ اس کی ایک نوجوان مغیثؓ سے شادی ہو چکی تھی۔ غلامی کے مسائل میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ اگر مالک نے اپنی لونڈی کی شادی کسی سے کر دی ہے تو آزاد ہونے پر اب اس کو حق حاصل ہے کہ وہ خاوند کے نکاح میں رہنا چاہتی ہے یا نہیں رہنا چاہتی۔ وہ جو آزادی کی صورت میں ایک لڑکی کے نکاح کے وقت حق ہوتا ہے کہ وہ اسے تسلیم کرے یا نہیں، وہ حق اب بحال ہوگیا۔ اسے خیارِ عتق کہتے ہیں یعنی آزادی کی وجہ سے حاصل ہونے والا حق۔ چنانچہ بریرہؓ جب آزاد ہو کر حضرت عائشہؓ کی خدمت میں ان کے گھر آگئیں تو انہوں نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے مغیث صاحب کی چھٹی کرا دی۔ مغیثؓ پریشان ہوگئے۔ حضورؐ کی خدمت میں عرض کیا ، آپؐ نے فرمایا کہ اس کا حق ہے، میں کیا کر سکتا ہوں۔ اب مغیثؓ مختلف لوگوں سے سفارشیں کراتے پھر رہے ہیں کہ کوئی میری بریرہؓ سے صلح کرا دے۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ مغیثؓ گلیوں میں روتا ہوا بریرہؓ کے پیچھے پھر رہا ہے اور اس کے آنسو اس کی ڈاڑھی پر بہہ رہے ہیں۔ حضورؐ نے حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے کہا کہ اس کی محبت دیکھو کہ بیچارہ گلیوں میں روتا پھر رہا ہے جبکہ وہ اس کا نام نہیں سننا چاہتی۔ مغیثؓ کی درخواست پرحضورؐ نے بریرہؓ سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ بریرہؓ بطور خادمہ حضرت عائشہؓ کے پاس ہی رہتی تھیں۔ حضورؐ نے بریرہؓ سے پوچھا کہ مغیثؓ کا کیا قصہ ہے؟ بتایا کہ یا رسول اللہ ! میں نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ فرمایا، وہ تو بیچارہ گلیوں میں روتا پھرتا ہے۔ کہا، یا رسول اللہ ! میں نے تو اپنا حق استعمال کیا ہے۔ حضورؐ نے پوچھا، کیا تم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتی ہو؟ آخر وہ تمھارے بچوں کا باپ ہے۔ حضورؐ نے مغیثؓ کی سفارش کی۔ اب آپ خیال فرمائیے کہ سفارش کون کر رہا ہے؟ وہ لڑکی بھی بہت سمجھدار تھی، حدود سمجھتی تھی، معاملہ کو بھانپ گئی۔ آخر حضرت عائشہؓ کے گھر میں رہتی تھی۔ پوچھا، یا رسول اللہ ! حکم فرما رہے ہیں یا مشورہ دے رہے ہیں؟ مطلب یہ تھا کہ اگر تو یہ حکم ہے تو پھر کسی مسلمان کی کیا مجال ہے؟ حضورؐ نے فرمایا، حکم نہیں ہے بلکہ مشورہ ہے۔ تو فوراً کہتی ہے لاحاجۃ لی بہ پھر مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا بس کر لیا بات ختم ہوگئی۔ (بخاری، رقم ۴۸۷۵۔ ابو داؤد، ۱۹۰۴)

آج دنیا میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو رائے کا حق دیتا ہے یا نہیں۔ میں اس کا جواب دیا کرتا ہوں کہ اسلام عورت کو رائے کا ایسا حق دیتا ہے کہ ایک عورت رسول اللہؐ کا مشورہ قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس کے بعد بریرہؓ اسی گھر میں رہی ہیں، حضورؐ نے پھر کبھی بات دہرائی بھی نہیں کہ بریرہؓ تم نے میری بات نہیں مانی۔

ماتحتوں اور غلاموں کے ساتھ سلوک

جناب نبی کریمؐ نے تیسرا طبقہ غلاموں کا بتلایا۔ اس زمانے میں غلام تھے پھر آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ آج دنیا میں غلامی کا وجود بھی نہیں ہے اور غلامی کے اسباب بھی موجود نہیں ہیں لیکن آج کے بعد جب بھی دنیا میں کہیں ایسے حالات پیدا ہوں کہ غلامی دوبارہ وجود میں آئے تو اسلام کے احکام اس سلسلے میں موجود ہیں۔ حضورؐ کے زمانہ میں غلام تھے، چنانچہ آپؐ نے ان کے حقوق اور معاشرتی مقام کے حوالے سے بڑی واضح باتیں ارشاد فرمائیں۔

حضورؐ نے غلاموں کے بارے میں بطور خاص یہ وصیت کی کہ تمہارے اور ان کے معیار زندگی میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ اخوانکم خولکم تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ یہ بھی آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، یہ بھی انسان ہیں، ان کی بھی تمہاری طرح ضروریات ہیں، یہ بھی تمہاری طرح انسانی عزت و شرف کے مستحق ہیں۔ جعلھم اللّٰہ تحت ایدیکم یہ تو بس اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ یہ تمہارے ہاتھ کے نیچے آگئے ہیں۔ ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لو، اگر کوئی کام ان کی ہمت سے زیادہ ہے تو فأعینوھم ان کاہاتھ بٹاؤ، خود ساتھ مل کر وہ کام کرو (بخاری، رقم ۲۹)۔ حجۃ الوداع کے خطبے میں آپ نے فرمایا کہ

ارقاء کم ارقاء کم ارقاء کم اطعموھم مما تاکلون واکسوھم مما تلبسون فان جاء وا بذنب لا تریدون ان تغفروہ فبیعوا عباد اللہ ولا تعذبوھم۔ (مسند احمد، ۱۵۸۱۳۔ مصنف عبد الرزاق، ۱۷۹۳۵)

’’اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ جو تم خود کھاتے ہو، انھیں بھی کھلاؤ۔ جو تم خود پہنتے ہو، انھیں بھی پہناؤ۔ اگر ان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جائے جسے تم معاف نہیں کرنا چاہتے تو اللہ کے ان بندوں کو بیچ دو لیکن انھیں عذاب نہ دو۔‘‘

ایک صحابی حضرت ابو مسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کی پٹائی کر رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے آواز آئی، ابو مسعود ! جتنی قدرت تم اس پر رکھتے ہو، اس سے کہیں زیادہ قدرت والا تمہارے اوپر بھی موجود ہے۔ تم نے اپنے آپ کو مالک سمجھ کے مارا ہے، تو تمہارا بھی کوئی مالک ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جناب نبی کریمؐ تھے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے اللہ کی خاطر اسے کو آزاد کر دیا۔ فرمایا اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں لے لیتی۔ (مسلم، رقم ۳۱۳۵، ۳۱۳۶)

ہمارا اخلاقی بحران

جناب نبی اکرمؐ نے باہمی حقوق کے حوالے سے ایک بات اور ارشاد فرمائی۔ دور جاہلیت میں تو اخلاقیات کا بہت بڑا بحران تھا کہ کوئی کسی کے ہاتھ سے اور کسی کی زبان کے شر سے محفوظ نہیں تھا۔ کسی کے پاس کسی کا مال یا امانت آگئی تو ہڑپ ہوگئی۔ ہمارے آج کے مسلم معاشروں کا سب سے بڑا بحران بھی اخلاقیات کا ہی ہے۔ اگر ہم اس طرف ذرا توجہ دے سکیں تو ہماری آپس کی اخلاقیات کا بھی برا حال ہے اور دوسری اقوام کے ساتھ معاملات بھی ایسے ہی ہیں۔ ہمارے ہاں وہی شخص داؤ نہیں لگاتا جس کا داؤ لگتا نہیں ہے۔ اور جس شخص کا داؤ لگتا ہے وہ معاف نہیں کرتا، الا ماشاء اللہ۔ افراد کی بات نہیں کر رہا، افراد ہمیشہ مستثنیٰ رہے ہیں اور افراد کی استثناء سے ہی نظام چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کی برکت سے معاملات چلاتے رہتے ہیں۔ میں اپنے مجموعی حالات کی بات کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں آج کا سب سے بڑا بحران اخلاقیات کا ہے۔ آج ہماری بین الاقوامی سطح پر تجارتوں میں ناکامی کے اسباب میں ایک بڑا سبب بھی یہی ہے کہ ہم اخلاقیات اور دیانت کی پاسداری نہیں کر پاتے۔ ہم مال میں، لین دین میں، معاملات میں اور معاہدات میں مار کھا جاتے ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، بتاتے کچھ ہیں اور دیتے کچھ ہیں۔

ایک واقعہ ذہن میں آیا ہے اخلاقیات کے حوالے سے ، ذکر کر دیتا ہوں۔ پاکستان میں ایک بڑی یونیورسٹی میں مجھے لیکچر کے لیے بلایا گیا اور لیکچر بھی اخلاقیات پر تھا۔ میں نے وہاں لیکچر دیا۔ ان کا طریقہ ہے کہ وہ آنے والے مہمانوں کو کرایہ وغیرہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ مولانا صاحب آپ کیسے آئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ بھئی میں پبلک ٹرانسپورٹ پر آیا ہوں۔ پوچھا، آپ کرائے کی گاڑی نہیں لائے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں، میں تو نہیں لایا۔ کہنے لگے کہ مولوی صاحب! گاڑی کا کوئی فرضی سا نمبر لکھ دیں، ہم یونیورسٹی کی مد سے آپ کو ٹیکسی کا کرایہ دے دیتے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ خدا کا خوف کرو بھئی! میں ایک گھنٹہ کس چیز پر لیکچر دیتا رہا ہوں؟ یعنی میرے اخلاقیات پر ایک گھنٹہ بولنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے؟ میں پبلک ٹرانسپورٹ سے آیا ہوں اور اسی سے جاؤں گا، میں کوئی ٹیکسی ویکسی نہیں لایا۔ تو یہ ہماری آج کی اخلاقی حالت ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہم جو دنیا کی دوسری اقوام کا مقابلہ نہیں کر پا رہے، اس کے ظاہری اسباب میں ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم اخلاقیات کے بہت خوفناک بحران کا شکار ہیں۔ نبی کریمؐ نے ان ہدایات میں ایک بات یہ بھی ارشاد فرمائی۔ جہاں یہ فرمایا کہ دھوکہ نہیں دو گے، خیانت نہیں کرو گے، غیبت نہیں کرو گے، ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرو گے، وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ

اسمعوا منی تعیشوا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، انہ لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ۔ (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)

’’میری بات سنو، زندگی پا جاؤ گے۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ کسی شخص کا مال اس کے دل کی خوشی کے بغیر لینا حلال نہیں۔‘‘

یعنی آپؐ نے فرمایا کہ زندگی کی کامیابی اسی میں ہے کہ ظلم کا راستہ اختیار نہ کرنا، کسی پر زیادتی نہ کرنا، کسی کے ساتھ نا انصافی نہ کرنا۔ اگر ان سے بچو گے تو سوسائٹی کی زندگی اسی میں ہے، معاشرے کی حیات اس میں ہے۔

حج کے ساتھ عمرہ کی سہولت

حضورؐ نے اس موقع پر حج کیا تو حج کے ساتھ آپؐ نے عمرہ بھی ادا کیا۔ پہلے آپؐ نے عمرہ ادا کیا اور پھر بعد میں حج کیا۔ صحابہ کرامؓ نے بھی پہلے عمرہ ادا کیا اور پھر حج کیا۔ لیکن اس میں فرق تھا۔ اس زمانہ میں یہ معمول تھا کہ اصحاب ذوق اپنے گھر سے قربانی کا جانور لے کر چلتے تھے کہ وہاں منٰی میں ذبح کریں گے۔ یہ کوئی فرض واجب نہیں ہے لیکن ایک اچھی بات ہے۔ اس کو ہدی کا جانور کہتے ہیں اور اس کا بڑا ثواب اور اجر ہے۔ رسول اللہؐ بھی ہدی ساتھ لے کر گئے تھے۔ پھر یمن سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو وہ بھی حضورؐ کے لیے ہدی کے جانور لے کر آئے۔ آج کل ایسا کرنا مشکل ہے، سعودیہ والے تو کر سکتے ہیں لیکن باہر والے نہیں کر سکتے۔ یہاں سے آپ گائے یا اونٹ لے کر جانا چاہیں گے تو مشکل ہو جائے گا۔ لیکن بہرحال اگر کوئی لے جا سکے تو بڑے اجر و ثواب کی بات ہے۔

رسول اللہؐ نے باقی صحابہؓ کو حکم دیا کہ جو لوگ ہدی کا جانور ساتھ لائے ہیں جب تک ہدی کا جانور قربانی والے دن ذبح نہیں ہوگا، تب تک وہ اپنا احرام نہیں کھولیں گے اور ان کا جو حج ہے وہ حجِ قِران ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے عمرہ ادا کیا اور پھر اسی احرام میں حج بھی ادا کیا۔ ایک ہی احرام میں عمرہ اور حج دونوں ادا کرنے کو قِران کہتے ہیں۔ اس کی نیت ابتدا میں ہی کرنی ہوتی ہے کہ یا اللہ میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت کر رہا ہوں۔ حضورؐ نے خود یہی کیا تھا اور سب سے زیادہ اجر اور ثواب اسی کا ہے۔ لیکن یہ کام ہے ذرا مشکل کہ احرام کی پابندیاں قائم رکھنا آسان نہیں رہتا۔

باقی صحابہؓ کو حضورؐ نے حکم دے دیا کہ تم عمرہ ادا کر کے احرام کھول دو اور عام کپڑوں میں احرام کی پابندیوں کے بغیر چلو پھرو۔ یوم الترویہ یعنی ۸ذی الحجہ کو پھر احرام باندھنا اور ارکانِ حج ادا کرنا۔ ایسے حج کو حجِ تمتع کہتے ہیں۔ یہ حج سہولت والا ہے کہ اس میں جانے والا صرف نیت کی عمرہ کر کے جائے اور پھر عمرہ ادا کر کے احرام کھول دے۔ اس کے بعد حج کے دن آئیں تو حج کے لیے پھر الگ سے احرام باندھے۔ قرآن کریم میں بھی ہے کہ

فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْىِ ۚ (بقرہ ۲ ۔ آیت ۱۹۶)

’’عمرہ سے حج تک فائدہ اٹھائے تو قربانی سے جو میسر ہو (دے)‘‘۔

جبکہ حج کی ایک تیسری قسم بھی ہے۔ اس میں جانے والے کسی شخص نے اگر صرف حج کی نیت کی ہے ، اسے حجِ افراد کہتے ہیں۔ اور احرام اس میں بھی نہیں کھلے گا جب تک حج ادا نہ کر لے، چاہے دو مہینے وہاں رہے۔

چنانچہ نبی کریمؐ ہدی کے جانور ساتھ لے کر گئے اور فرمایا کہ میں اگر ہدی کے جانور ساتھ نہ لایا ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔ لیکن میں چونکہ ہدی کے جانور ساتھ لایا ہوں اس لیے میں احرام نہیں کھولوں گا۔ البتہ تم لوگ عمرہ ادا کر کے احرام کھول دو، پھر بعد میں حج کے لیے الگ احرام باندھ لینا۔ حضرت علیؓ یمن سے آئے، آتے ہی وہ حضورؐ سے ملے تو آپ* نے پوچھا کہ بھئی احرام باندھتے وقت کیا نیت کی تھی؟ کہا، یا رسول اللہ ! میں نے نیت کی تھی کہ جو نیت نبی اکرمؐ نے کی ہے وہی نیت میری ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ ہدی ساتھ لائے ہو؟ کہا، یا رسول اللہ ! لایا ہوں۔ فرمایا، ٹھیک ہے تم احرام اب میرے ساتھ ہی کھولو گے۔

ابو موسیٰ اشعریؓ بھی یمن سے ہی آئے تھے۔ ان سے حضورؐ نے پوچھا کہ ابوموسیٰ کیا نیت کی ہے؟ کہا، یا رسول اللہ ! میں نے بھی وہی نیت کی ہے جو آپ کی نیت ہے۔ میں نے احرام باندھتے وقت نیت کی تھی کہ یا اللہ ! جو نیت رسول اللہؐ نے کی ہے، وہی نیت میری ہے۔ حضورؐ مدینہ سے تشریف لا رہے تھے جبکہ ابو موسیٰ اشعریؓ یمن سے آرہے تھے۔ آپؐ نے پوچھا کہ ہدی کا جانور ساتھ لائے ہو؟ کہا، یا رسول اللہ ! وہ تو ساتھ نہیں لے کر آیا۔ فرمایا کہ تم احرام کھول دو، تمہاری نیت میرے والی نہیں ہے۔

یہ ایک تبدیلی آئی تھی عرب معاشرے میں حج اور عمرہ کے حوالے سے۔ اس سے پہلے حج کے دنوں میں، حج کے مہینے میں عمرہ ادا کرنے کو لوگ معیوب سمجھتے تھے۔ کہتے تھے کہ حج کے دنوں میں صرف حج اور باقی سارا سال عمرہ کے لیے ہے۔ رسول اللہؐ نے جب یہ کہا کہ پہلے عمرہ ادا کر کے احرام کھول دو تو لوگوں کو تعجب ہوا۔ لوگوں نے سمجھا کہ چونکہ بہت مدت بعد آنے کا اتفاق ہوا ہے اس لیے حضورؐ نے بطور خاص اجازت دی ہے کہ چلو اس دفعہ ان ایام میں حج اور عمرہ دونوں ادا کر لو۔ لیکن حضورؐ نے حج کے ایام میں صرف حج ادا کرنے کی یہ رسم توڑ دی۔ سراقہ ابن مالکؓ نے پوچھا ھی لنا او للأبد؟ یہ رعایت کہ حج کے لیے آئے ہیں تو ساتھ عمرہ بھی کر لیں، یہ صرف ہمارے لیے خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ فرمایا بل للابد (بخاری، رقم ۲۳۲۳) یہ ہمیشہ کے لیے ہے۔

ننگے طواف کی جاہلی رسم کا خاتمہ

حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرمؐ نے ایک رسم اور بھی توڑی جس کا اعلان پہلے ہی فرما دیا تھا۔ قریش نے اپنا ایک اور امتیاز قائم رکھا ہوا تھا۔ وہ یہ تھا کہ بہت سے قبائل کے لوگ اس زمانے میں بیت اللہ کا طواف کرنے آتے تو ننگے طواف کرتے۔ مرد بھی اور عورتیں بھی۔ عورتوں نے برائے نام سے کوئی لنگوٹی پہنی ہوتی تھی جبکہ مرد بالکل ننگے ہوتے تھے۔ دلیل ان کی یہ ہوتی تھی کہ ہم نیچرل حالت میں جارہے ہیں۔ انہوں نے شاید اسے کوئی نیچرل کلب سمجھ رکھا تھا۔ کہتے تھے کہ جس حالت میں ہم دنیا میں آئے تھے، اسی حالت میں ہم اللہ کے گھر کا طواف کرتے ہیں۔قریشی جس کو چاہتے تھے لباس پہنا دیتے تھے۔ قریشیوں نے اپنا یہ اعزاز رکھا ہوا تھا کہ وہ جس کو کرتا، چادر دے دیں وہ پہن لیتا تھا جبکہ باقی بغیر کپڑوں کے ہی رہتے تھے۔ اس بات کو بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا کہ مجھے قریش نے لباس پہنایا ہے۔ بہرحال نبی اکرمؐ نے تو ننگی حالت میں طواف کرنے کو ختم ہی کروا دیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ذریعے اس کا اعلان اس سے پچھلے سال ۹ ہجری کو ہی کروا دیا تھا کہ اگلے سال کوئی مرد یا عورت اس حالت میں طواف نہیں کرے گا۔ عورت کے لیے پورا لباس ضروری ہوگا جبکہ مرد کے لیے دو چادریں۔ تو یہ رسم بھی نبی اکرمؐ نے حج کے موقع پر توڑ دی۔

اسلامی مملکت کے شہریوں کی ذمہ داری

رسول اللہؐ نے جہاں حجۃ الوداع کے موقع پر جہاں اور ہدایات فرمائیں، ان میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ

ان امر علیکم عبد مجدع حسبتھا قالت اسود یقودکم بکتاب اللہ تعالیٰ فاسمعوا لہ واطیعوا۔ (مسلم، ۲۲۸۷)

’’اگر کسی کٹے ہوئے کان والے سیاہ فام غلام کو بھی تم پر امیر مقرر کیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔‘‘

یہ کان کٹا ہونا ایک محاورہ ہے۔ گویا رسول اللہؐ نے یہ اصول بیان فرمایا کہ امیر کے لیے کتاب اللہ کا پابند ہونا ضروری ہے، باقی جو لوگوں کے امتیازات ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی جناب نبی کریمؐ نے پیدا کی جس پر علمائے سیاسیات بڑی بحث کرتے ہیں۔ بحیثیت حکمران آنحضرتؐ نے اپنے بعد کیا نظام دیا؟ ہم اس کو خلافت کا سسٹم کہتے ہیں۔ خلافت کا لفظی معنی نیابت ہے لیکن یہ خلافت یا نیابت کس کی؟ اللہ کا خلیفہ یا پھر رسول اللہ کا خلیفہ؟ یہ ایک باریک لیکن انتہائی اہم فرق ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ایک شخص نے یوں مخاطب کیا یا خلیفۃ اللّٰہ اے اللہ کے خلیفہ! فرمایا لست بخلیفۃ اللّٰہ ولکنی خلیفۃ رسول اللّٰہ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۰۴۸) کہ نہیں بھئی ، میں اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ میں رسول اللہؐ کا خلیفہ ہوں۔

اللہ کا خلیفہ ہونے کا مطلب ہے کہ بندہ اللہ کا نمائندہ بن کر حکومت کرے، اسی کو تھیا کریسی کہتے ہیں۔ جس طرح کسی زمانے میں پاپائے روم کی حکومت ہوتی تھی، یعنی خدا کا نمائندہ جو کہہ دے، وہ خدا کی طرف سے سمجھا جائے۔ شیعہ کے ہاں امام کے اللہ کا نمائندہ ہونے کا بھی یہی مطلب ہے۔ یعنی اس کا اللہ سے جوڑ ہے ، وہ جو کہے گا وہ اللہ کی طرف سے کہا تسلیم ہوگا اور اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دو باتیں بڑی وضاحت سے کہیں۔ پہلی بات یہ کہ میں اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ میں رسول اللہؐ کا خلیفہ ہوں اور مجھے کوئی خدائی اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ امرت علیکم میں تم پر امیر بنا دیا گیا ہوں لست بخیرکم میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں، تمہارے جیسا ہی ہوں۔ یہ ان کی عاجزی اور تواضع تھی۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کے مطابق چلوں گا۔ اگر میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو۔ وان انا زغت فقومونی اور اگر میں ٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کردو (طبرانی، المعجم الاوسط، رقم ۸۵۹۷)۔

یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ واضح کیا کہ میں خدا کا نمائندہ نہیں ہوں کہ جو کہوں گا وہ بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا۔ بلکہ میں رسول اللہؐ کا خلیفہ ہوں، آپؐ کا نمائندہ ہوں۔ اور میں قرآن و سنت کا پابند ہوں اس لیے اگر ان کے مطابق چلوں تو تمہاری ذمہ داری ہے کہ میرا ساتھ دو۔ لیکن اگر میں ٹیڑھا ہو جاؤں، صحیح راستہ سے ہٹ جاؤں، قرآن کریم اور سنت رسولؐ کی پابندی نہ کر سکوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے عجیب جملہ فرمایا۔ یہ نہیں کہا کہ مجھے بتا دینا کہ میں غلطی پر ہوں، کہا کہ مجھے سیدھا کر دینا۔

اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام میں رائے عامہ کو یہ اختیار اور قوت حاصل ہے کہ وہ حاکم وقت کو قانون اور دستور کے خلاف نہ چلنے دے۔ گویا خلافت اسلامی شخصیت کی بجائے دلیل اور قانون کی حکومت کا نام ہے۔ یہاں سے اصولیین بہت سے اصول اخذ کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اسلام کی حکومت پبلک کے سامنے جواب دہ ہے۔ پبلک کو حاکم کے احتساب کا حق حاصل ہے۔ حاکم اپنی مرضی کا مختار نہیں ہے بلکہ قانون اور دستور کا پابند ہے۔ وہ قرآن و سنت کے دائرہ میں رہے گا۔ اگر وہ اس دائرہ میں نہیں رہے گا تو کسی کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اس سے پوچھے کہ بھائی کیا کر رہے ہو؟

آج اصل صورت حال کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں۔ جناب نبی کریمؐ نے اپنا جانشین نامزد نہیں کیا۔ اشارات بہت کیے کہ مصلے پر کھڑا کیا اور حج کا امیر بنایا۔ بخاری شریف کی روایت میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں، جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ ابوبکر کو بلاؤں اور ان کے بارے میں وصیت کردوں، لیکن پھر میں نے سوچا کہ

یأبی اللّٰہ والمؤمنون الا ابا بکر۔ (بخاری، رقم ۵۲۳۴)

’’اللہ اور مومنین ابوبکر کے سوا کسی کو منتخب نہیں کریں گے‘‘۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اہل السنۃ والجماعۃ کی تو بنیاد ہی اس پر ہے کہ نبی کریمؐ نے کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کیا اور اپنے جانشین کا انتخاب امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ اگر حضورؐ اپنا خلیفہ نامزد کر دیتے تو پھر اس کے بعد نامزدگی ہی چلتی رہتی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اپنے امیر کی اطاعت کرو۔ لیکن امیر کی اطاعت تب کرو جب وہ تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق اور میری سنت کے مطابق حکومت کرے۔ اس موقع پر جناب نبی کریمؐ نے اس کا دوسرا پہلو ذکر کیا۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر مسلمان حاکم کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے مطابق حکومت کرتا ہے تو اس کی اطاعت کرو، تمہارا مفاد اگر مجروح ہوتا ہے تب بھی اس کی اطاعت کرو، تم پر ظلم کر رہا ہے، تب بھی اطاعت کرو۔ اور صبر کرو، برداشت کرو تاکہ فتنہ و فساد نہ پیدا ہو۔ ہاں اگر کفر کا ارتکاب کرتا ہے تو پھر اطاعت واجب نہیں ہے (بخاری، رقم ۶۵۳۲)۔ اس کی پھر الگ تفصیل ہے جس کا اس وقت موقع نہیں۔

شیطانی مکر و فریب سے بچاؤ

نبی کریمؐ نے اس موقع پر ایک اعلان یہ بھی فرمایا کہ

الا وان الشیطان قد ایس من ان یعبد فی بلادکم ہذہ ابدا ولکن ستکون لہ طاعۃ فی ما تحتقرون من اعمالکم فسیرضی بہ۔ (ترمذی، ۲۰۸۵)

’’آگاہ رہو! شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ تمھارے اس علاقے میں اس کی دوبارہ کبھی عبادت کی جائے۔ ہاں ان اعمال میں ضرور اس کی اطاعت کی جائے گی جنھیں تم حقیر خیال کرتے ہو، اور وہ اسی پر خوش رہے گا۔‘‘

جزیرۃ العرب ہمیشہ توحید کے دائرہ میں رہے گا۔ مکہ کے گرد اور بیت اللہ میں یہ بتوں کی موجودگی اور یہ ساری جاہلی قدریں شیطان ہی کا کاروبار تھا اور اس نے ہی یہ سارا کھیل رچا رکھا تھا۔ لیکن فرمایا کہ یہ جزیرۃ العرب توحید پر قائم رہے گا لیکن شیطان بالکل بے دخل نہیں ہوگا۔ یعنی شیطان اپنی باتیں منوائے گا بظاہر چھوٹے چھوٹے کاموں میں جن کو تم بہت حقیر سمجھو گے، اور شیطان تم سے وہ کام کروا کر خوش ہوگا۔ توحید اور عقیدے کی بات میں تم اس کے پیچھے نہیں چلو گے لیکن چھوٹے چھوٹے کاموں میں شیطان تم سے اپنی بات منوائے گا۔ یہ تو ترمذی کی روایت میں ہے، جبکہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ شیطان ایک بات میں ضرور کامیاب ہوگا کہ

الا ان الشیطان قد ایس ان یعبدہ المصلون ولکنہ فی التحریش بینھم۔ (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)

’’سنو! شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ عبادت گزار اس کی عبادت کریں، لیکن وہ اہل ایمان کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی پوری کوشش کرے گا۔‘‘

شیطان تمہارا عقیدہ نہیں بگاڑ سکے گا لیکن ایک کو دوسرے پر ابھارے گا، بر انگیختہ کرے گا، ایک دوسرے کے ساتھ لڑائے گا، خانہ جنگی ہوگی اور خون بہایا جائے گا۔ یہ شیطان کے میدان ہوں گے۔ گویا آپؐ نے خبردار کیا کہ شیطان شکست کھا چکا ہے لیکن آرام سے نہیں بیٹھے گا اس لیے اس سے بچ کر رہنا۔

مستقبل کے فتنوں سے آگاہی

رسول اللہؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جہاں ہدایات دیں، نصائح فرمائے، تلقین فرمائی، قواعد و ضوابط بیان فرمائے، وہاں امت کو آنے والے فتنوں سے بھی آگاہ کیا۔ یہ بھی دین کا ایک مستقل شعبہ ہے۔ سینکڑوں روایات میں جناب نبی کریمؐ نے امت کو آنے والے دور کے فتنوں سے آگاہ کیا۔ بخاری کی ایک روایت میں حضرت اسامہ ابن زیدؓ کہتے ہیں کہ ایک دن حضورؐ مدینہ میں ایک بڑی حویلی کی دیوار پر کھڑے تھے۔ مدینہ میں بڑی حویلیاں یا چھوٹے قلعے ہوتے تھے۔ ہم دیوار کے اس طرف کھڑے تھے۔ فرمایا، کیا میں تمہیں بتاؤں مجھے دیوار کے اس طرف کیا نظر آرہا ہے؟ عرض کیا، یا رسول اللہ ! فرمائیں۔ آپ نے فرمایا

انی لأری مواقع الفتن خلال بیوتکم کمواقع القطر۔ (بخاری، رقم ۱۷۴۵)

’’میں فتنوں کو تمہارے درمیان برستا ہوا دیکھ رہا ہوں، ایسے جیسے بارش برستی ہے‘‘۔

یعنی فتنے تمہارے درمیان اتنی کثرت سے آئیں گے جیسے بارش کے قطرے آتے ہیں۔ ایک روایت میں یوں فرمایا کہ جب فتنوں کا زمانہ آئے گا تو فتنے یوں گریں گے جیسے تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور اس میں سے دانے گرنے لگیں۔ یعنی ایک فتنہ کھڑا ہوا، اسے ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہو گے کہ دوسرا فتنہ سامنے آجائے گا۔ اس سے ابھی نمٹنے کی بات ہو رہی ہوگی کہ تیسرا آجائے گا۔ تو فرمایا کہ بارش کے قطروں اور تسبیح کے دانوں کی طرح فتنے تم پر برسیں گے۔ ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ فتنوں میں یہ کیفیت بھی آئے گی کہ وہاں دین اور حق کی بات کرنا، اپنے آپ کو مسلمان کہنا اتنا مشکل ہو جائے گا کالقابض علٰی الجمر (ترمذی، رقم ۲۱۸۶) کہ جیسے انگارے ہاتھ میں لینا ہو۔ حضورؐ نے فتنوں کی سینکڑوں نوعیتیں بیان فرمائیں۔

ان میں سے ایک بڑے فتنے کا ذکر حضورؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر کیا جسے دجال کا فتنہ کہتے ہیں۔ جناب نبی کریمؐ خود بھی دعا میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے تھے اور ہمیں بھی اس کی تلقین فرمائی ہے اعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال (بخاری، رقم ۷۸۹) kh میں مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔

مسیح دو شخصیتوں کا لقب ہے۔ دونوں ایک ہی زمانہ میں آئیں گے اور دونوں کا ٹکراؤ ہوگا۔ ایک مسیح دوسرے مسیح کو قتل کر دے گا۔ ایک مسیح الدجال اور دوسرے مسیح ابن مریم علیہما الصلوٰۃ والتسلیمات۔ جناب نبی کریمؐ نے اس کی بڑی تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔ فرمایا کہ ایک بہت بڑا دجال امت میں آئے گا اور دجل اور فتنہ پھیلائے گا۔ وہ امت کی ایک بڑی تعداد کو گمراہ کر دے گا۔ آپؐ نے امت کو خبردار کیا کہ اس سے بچنا۔ راوی کہتے ہیں کہ ذکر المسیح الدجال وأطنب فی ذکرہ نبی کریمؐ نے دجال کا بڑا تفصیل سے ذکر کیا۔ اس کی نشانیاں بیان کیں، اس کی علامتیں بیان کیں۔ اور فرمایا ما بعث اللّٰہ من نبی الا وقد أنذرہ قومہ اللہ کے ہر پیغمبر نے اپنی قوم کو اس کے فتنے سے خبردار کیا ہے۔ اور میں بھی تمہیں خبر دار کرتا ہوں اور تمہیں ایک بات زائد بتاتا ہوں کہ وہ تم میں آئے گا کیونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔

حضرت حذیفہؓ کا خصوصی ذوق

میں نے عرض کیا کہ امت میں آنے والے فتنے علمِ دین کا مستقل شعبہ ہیں۔ حدیث کی کوئی کتاب کھول کر دیکھ لیں، آپ کو ایک مستقل باب ملے گا ابواب الفتن اور کتاب الفتن وغیرہ کے نام سے۔ ان میں جناب نبی کریمؐ کے وہی ارشادات مذکور ہیں جو فتنوں کے حوالے سے ہیں۔ اور میں یہ اکثر ذکر کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مختلف لوگوں کو مختلف ذوق عطا فرماتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ میں یہ ذوق حضرت حذیفہؓ کا تھا۔ جس طرح احادیث کا یاد کرنا ابوہریرہؓ کا ذوق تھا، قرآن کریم کی تفسیر و تاویل حضرت ابن عباسؓ کا ذوق تھا، استنباط و اجتہاد حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کا ذوق تھا، اور قرأت حضرت ابی ابن کعبؓ کا ذوق تھا۔ مختلف صحابہؓ کے مختلف ذوق تھے۔ فتنوں کے حوالے سے باتیں معلوم کرنا اور دوسروں کو بتانا حضرت حذیفہؓ کا ذوق تھا۔ حذیفہؓ ابن الیمان اپنا ذوق خود ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں

کان الناس یسألون رسول اللہ عن الخیر و کنت اسألہ عن الشرّ۔ (بخاری، رقم ۳۳۳۸)

’’باقی لوگ رسول اللہؐ سے خیر کی بات پوچھتے تھے اور میں شر کی بات پوچھتا تھا‘‘۔

شر کی بات پوچھنے سے مراد یہ ہے کہ یا رسول اللہ ! خرابیاں کیسے پیدا ہوں گی؟ فتنے کیسے پیدا ہوں گے؟ ان فتنوں اور خرابیوں سے ہم کیسے نمٹیں گے؟ حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ میں اس طرح کی باتیں زیادہ پوچھتا تھا۔ چنانچہ بخاری کی روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر ابن الخطابؓ بیٹھے ہوئے تھے، صحابہؓ کی مجلس تھی۔ پوچھا کہ بھئی تم میں سے کون آدمی ہے جو فتنوں کے بارے میں حضورؐ کے ارشادات کو زیادہ جانتا ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے کہا انا جی میں ہوں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا، مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ تمہیں ہی اس بارے میں زیادہ پتہ ہوگا۔ تو پھر ہمیں بتاؤ کہ فتنوں کے بارے میں نبی کریمؐ نے کیا ارشاد فرمایاتھا۔ یعنی جب فتنے شروع ہوں گے تو کیا ہوگا؟ حضرت حذیفہؓ کہنے لگے ، یا حضرت ! میں نے حضورؐ سے بہت سی باتیں پوچھی ہیں۔ بعض فتنے ایسے ہیں کہ جن کا کفارہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور صدقہ وغیرہ ہے۔ یعنی کوئی مسلمان شخصی طور پر کسی فتنے کا شکار ہو تو ان کا کفارہ نیک اعمال ہیں۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں ان فتنوں کے بارے میں نہیں پوچھ رہا، میں تو اجتماعی فتنوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ تموج کموج البحر میں جس فتنے کے بارے میں پوچھ رہا ہوں وہ تو سمندر کی موجوں کی طرح جوش مارتا ہوگا۔ میں تم سے شخصی خرابیوں کے بارے میں نہیں پوچھ رہا۔ تو حضرت حذیفہؓ کہنے لگے، یا حضرت ! آپ تسلی رکھیں، آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان ایک بڑا مضبوط دروازہ ہے اور وہ دروازہ بند ہے۔ حضرت عمرؓ سمجھ گئے کہ یہ بات خود ان کی ذات کے بارے میں ہے۔ حضرت عمرؓ خود فتنوں کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ میں حضرت عمرؓ کو ڈنڈے والا خلیفہ کہا کرتا ہوں۔ اللہ کا ایک پیغمبر ڈنڈے والا (حضرت موسٰی ؑ )تھا اور رسول اللہؐ کا ایک خلیفہ ڈنڈے والا تھا۔

حضرت عمرؓ نے پھر پوچھا یفتح او یکسر یہ بتاؤ کہ یہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا۔ یہ کوڈ ورڈز میں بات ہو رہی تھی۔ حضرت حذیفہؓ نے کہا بل یکسر یہ دروازہ توڑا جائے گا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اذا لا یغلق ابدا یہ دروازہ توڑ دیا گیا تو پھر کبھی بند نہیں ہوگا (بخاری، رقم ۴۹۴)۔ اب باقی صحابہؓ دیکھ رہے ہیں کہ یہ کس قسم کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کسی نے بعد میں حضرت حذیفہؓ سے پوچھا کہ تم لوگ کیا باتیں کر رہے تھے، یہ دروازہ اور اس کے ٹوٹنے کا معاملہ کیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں حضرت عمرؓ کو بتا رہا تھا کہ فتنوں کی راہ میں رکاوٹ یہ خود حضرت عمرؓ کی ذات ہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں شہید کیا جاؤں گا یا طبعی موت مروں گا۔ تو میں نے بتایا کہ یہ دروازہ ٹوٹے گا یعنی آپ شہید ہوں گے۔ پھر کہنے لگے کہ میں نے حدیث کی رو سے یہ بات کہی ہے، کوئی بجھارت نہیں ڈالی ۔ تمہارے لیے شاید یہ بجھارت ہو لیکن جس سے میں بات کر رہا تھا وہ میری بات سمجھ رہے تھے۔

چنانچہ حضرت عمرؓ کا وجود فتنوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ ایک ضمنی واقعہ حضرت عمرؓ کے حوالے سے اور یاد آگیا۔ خالد ابن ولیدؓ شام کے فاتحین میں سے ہیں۔ جب دمشق فتح ہوا تو آپ شام میں ہی بس گئے، ان کی قبر بھی شام میں ہی ہے۔ ایک دن ایسے ہی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے دوستانہ انداز میں اپنے ساتھیوں سے باتیں کر رہے تھے کہ یار امیر المؤمنین کو دیکھو کہ ہم نے لڑ لڑ کر شام فتح کیا، فلاں جنگ لڑی ، فلاں جنگ لڑی، اور اب جب شام کا کنٹرول مکمل ہوگیا ہے اور شام نے شہد اور گندم مدینہ بھیجنی شروع کر دی ہے تو امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کسی اور کو شام کا گورنر بنا رہے ہیں اور مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ تم ہندوستان جاؤ۔ حضرت عمرؓ کا شاید ہندوستان کوئی لشکر وغیرہ بھیجنے کا منصوبہ ہوگا۔ شام کا گورنر بنایا گیا تھا یزید ابن ابی سفیانؓ کو۔ اس پر ایک ساتھی نے حضرت خالد ابن ولیدؓ کو مشورہ دیا کہ اگر آپ ہندوستان جہاد پر نہیں جانا چاہتے تو آپ انکار کر دیں۔ دوسرا آدمی بولا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے اس طرح امیر المؤمنین کے حکم سے انکار کرنے پر فتنہ پیدا ہو جائے گا۔ اگر حضرت عمرؓ حکم دیں کہ پرچم پکڑو اور ہندوستان لڑنے کے لیے جاؤ لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو اس بات سے فتنہ پیدا ہوگا۔ اس نے جونہی یہ کہا تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے فوراً جواب دیا ، نہیں بھئی ! اما فی عھد عمر فلا کہ عمرؓ کے زمانے میں فتنہ نہیں پیداہوگا۔ یہ بڑا عجیب جملہ ہے۔ حضرت عمر کو اتنا بڑا خراج عقیدت حضرت خالد بن ولیدؓ ہی پیش کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، تسلی رکھو بھئی۔ عمرؓ کے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوگا، بعد میں دیکھا جائے گا۔

تو خیر میں فتنوں کے حوالے سے بات کر رہا تھا کہ جناب نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر دجال کے فتنے کا ذکر کیا اور اپنی امت کو خبردار کیا کہ دجال کا فتنہ جب ظاہر ہوگا تو اس کے شر سے اور اس کے دجل سے بچ کر رہنا۔ لیکن یہ اس بچاؤ کی تدبیر کیا ہوگی؟

قرآن و سنت کی پناہ گاہ

اس پر نبی کریمؐ نے ایک اصولی بات فرمائی۔ میں نے اب تک حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ کے ارشادات بارے میں جو گفتگو کی ہے، اس کا خلاصہ اس ایک جملہ میں آگیا ہے۔ حضورؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جہاں ہمیں دیگر بہت سی نصیحتیں اور تلقینات فرمائیں، وہاں یہ فرمایا کہ

یا ایھا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہ وسنۃ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (مستدرک حاکم، ۳۱۸)

’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘

فرمایا کہ قیامت تک کے لیے تمہیں یہ راہنما دے کر جا رہا ہوں۔ ایک دوسرے مقام پر اپنے وصال سے چند دن پہلے یہ جملہ ایک اور موقع پر بھی فرمایا کہ

انی ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ نبیہ۔ (موطا امام مالک، رقم ۱۳۹۵)

’’میں دو چیزیں تم میں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک انہیں تم مضبوطی سے تھامے رکھو گے، گمراہ نہیں ہوگے، قرآن کریم اور سنت رسول‘‘۔

ایک اور روایت میں جناب نبی کریمؐ نے یہ بات ایک اور انداز سے بیان فرمائی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ سے روایت ہے، جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ

یأتی علٰی النّاس الزمان لا تطاق المعیشۃ فیہ الا بالمعصیۃ فاذا کان کذالک الزمان فعلیکم بالھرب الی اللہ والٰی کتاب اللّٰہ و الی سنۃ نبیہ۔ (الدیلمی، الفردوس بماثور الخطاب، ۸۶۸۷)

’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ گناہ کے بغیر زندگی بسر کرنا کسی کی طاقت میں نہیں ہوگا، جب ایسا زمانہ آجائے تو تم اللہ کی کتاب اور اللہ کے پیغمبر کی سنت کی طرف بھاگنا۔‘‘۔

گویا آپؐ نے فرمایا کہ جب ہر طرف گناہ کا دور دورہ ہوگا، زندگی گزارنے کا جو طریقہ بھی اختیار کرو گے، گناہ اس کا گھیرا ڈالے ہوئے ہوگا۔ ’ہرب‘ بھاگنے کو کہتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر ایسا زمانہ آجائے تو تم پر لازم ہے کہ بھاگ جاؤ۔ لیکن بھاگ کر کدھر جائیں؟ خرابی اگر کسی شہر میں ہو تو شہر چھوڑ جائیں، ملک میں ہو تو ملک چھوڑ جائیں، ایک براعظم میں ہے تو براعظم چھوڑ دیں، لیکن آپ تو زمانہ فرما رہے ہیں۔ آپؐ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جب مسلمان کے لیے اپنا اخلاق بچانا مشکل ہو جائے گا، جب ہر طرف سے فتنے مسلمان کو گھیر لیں گے اور مسلمانوں کے لیے ابتلائیں و مشکلات ہوں گی، تو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کی سنت تمہاری پناہ گاہ ہوگی۔ اس طرف بھاگ کر آؤ گے تو بچ جاؤ گے ورنہ دنیا میں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔

ہدایت کے بعد گمراہی

حجۃ الوداع کے موقع پر حضورؐ نے ہمیں ایک تنبیہ فرمائی کہ

وستلقون ربکم فیسالکم عن اعمالکم الا فلا ترجعوا بعدی ضلالا یضرب بعضکم رقاب بعض۔ (بخاری ۴۰۵۴)

’’اور جلد ہی تمھاری اپنے رب سے ملاقات ہوگی اور وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ آگاہ رہو! میرے بعد دوبارہ گمراہی کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے رہو۔‘‘

گویا آپ فرما رہے ہیں کہ تمہیں دور جاہلیت سے نکالنے کے لیے میں نے بڑی محنت کی ہے، بڑے مقابلے کیے ہیں اور بڑی تکالیف اٹھائی ہیں۔ وہ کفر، ضلالت اور گمراہی کا دور تھا، اس دور کی طرف کہیں واپس نہ چلے جانا۔ اس کی سب سے بڑی علامت کیا ہوگی؟ دور جاہلیت کی اقدار میں سب سے مکروہ قدر کی نشان دہی کرتے ہوئے حضورؐ نے فرمایا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنا نہ شروع کر دینا۔ فرمایا کہ ایسا کرنا جاہلیت کے دور کی طرف واپس جانا ہوگا اور اس امت پر اس کیفیت کو امت پر خدا کے عذاب کی سب سے خوفناک شکل قرار دیا۔ قرآن کریم میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓى اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُم بَاْسَ بَعْضٍ ۗ (الانعام ۶ ۔ آیت ۶۵)

’’کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزا چکھا دے‘‘۔

عذاب کی کئی شکلیں ہیں، ایک شکل اس آیت میں یہ بیان فرمائی کہ تمہارے لیے یہ عذاب بھی ہو سکتا ہے کہ خود تمہیں ایک دوسرے کے لیے عذاب بنا دوں۔ عذاب کی سب سے خوفناک صورت یہ ہے کہ نہ اوپر سے عذاب آئے نہ نیچے سے اللہ تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے۔ اس کا محاورے کا ترجمہ میں یہ کرتا ہوں کہ تمہیں خانہ جنگی، باہمی قتل اور خونریزی کی صورت میں ایک دوسرے کے لیے عذاب بنا دے۔ فرمایا ایسا کرنا جاہلیت کے دور کی طرف واپس جانا ہوگا۔

صحیح مسلم (رقم ۵۱۴۵)کی روایت میں ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت پر خدا کا عذاب نازل ہوگا تو عذاب کی وہ صورتیں نہیں ہوں گی جو پہلی امتوں پر تھیں۔ نجی طور پر ہوں گی لیکن اجتماعی طور پر پہلی امتوں جیسا عذاب نہیں آئے گا۔ حضورؐ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ یا اللہ! میری امت ساری کی ساری قحط سالی سے برباد نہ ہو جائے۔ اللہ نے کہا، نہیں ہوگی۔ پھر درخواست کی، یا اللہ! میری امت یک بارگی پانی میں غرق ہونے تباہ نہ ہو جائے۔ اللہ نے کہا، نہیں ہوگی۔ پھر درخواست کی، یا اللہ ! میری امت آپس میں نہ لڑے۔ اللہ نے کہا، ایسا تو ہوگا۔ اس امت کی بد اعمالیوں کا عذاب یہی ہوگا کہ یہ لڑیں گے اور دنیا تماشا دیکھے گی۔

بیہقی (السنن الکبریٰ، رقم ۶۱۹۱) کی روایت میں ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں انصاف کے بجائے ظلم عام ہو جائے گا تو خدا کا عذاب آئے گا تو کان البأس بینھم یعنی خدا کے عذاب کی صورت یہ ہوگی کہ آپس میں خانہ جنگی ہوگی، آپس میں خون بہائیں گے۔ نسل پر، رنگ پر، پیسے پر، علاقہ پر، زبان پر، اور پتہ نہیں کس کس چیز پر لڑیں گے۔

عذاب کی ایک دوسری شکل بعض روایات میں یہ آئی ہے کہ جب امت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کر دیا جائے گا تو سوسائٹی پر خدا کے عذاب کی عملی شکل یہ ہوگی کہ

لیؤمرن علیکم شرارکم ثم یدعو خیارکم فلا یستجاب لکم۔ (مسند احمد، رقم ۲۲۲۲۳)

یعنی امت کے شریر لوگ چن چن کر امت پر مسلط کر دیے جائیں گے۔ امت کی قیادت شرفاء کے ہاتھ میں نہیں ہوگی اور پھر امت کے نیک لوگ دعائیں کریں گے لیکن ان کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔ چنانچہ جہاں نبی کریمؐ نے دور جاہلیت کے خاتمے کا اور دورِ علم کے آغاز کا اعلان فرمایا وہاں یہ بھی فرمایا کہ دیکھنا کہیں میرے بعد کفر کے دور کی طرف واپس نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنا شروع کر دو۔ اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہنا، یہ تمہارے لیے روشنی کا راستہ ہے، علم کا راستہ ہے اور انسانیت کا راستہ ہے۔

ختم نبوت کا اعلان

نبی کریمؐ نے اس موقع پر ایک اعلان یہ فرمایا کہ

ایھا الناس لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم وصوموا شہرکم وادوا زکاۃ اموالکم طیبۃ بھا انفسکم واطیعوا ولاۃ امرکم تدخلوا جنۃ ربکم۔ (مسند الشامیین، ۵۴۳۔ الآحاد والمثانی، ۲۷۷۹)

’’اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمھارے بعد کوئی امت نہیں۔ پس اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، پوری خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو۔ ایسا کرو گے تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

گویا اسلام کا خلاصہ حضورؐ نے ان جملوں میں ارشاد فرمایا کہ اگر ایسا کرو گے تو یہ اعمال تمہارے جنت میں داخلے کا سبب بن جائیں گے۔ اور فرمایا کہ یاد رکھو میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد قیامت تک کوئی نہیں آئے گا۔ اور تم انبیا کی امت میں سے آخری امت ہو ، تمہارے بعد اب کوئی امت نہیں ہوگی۔ رسول اللہؐ نے اس کو بنیادی عقیدہ قرار دیا۔ عقیدۂ ختم نبوت یہ ہے کہ نبی کریمؐ کے بعد قیامت تک کسی پر نئی وحی ، نئی نبوت نہیں آئے گی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی یہ اعلان فرمایا گیا اور دیگر بہت سے ارشادات میں نبی کریمؐ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ میرے بعد قیامت تک کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ اور تکمیل دین کا معنی ہی یہ ہے۔ فرمایا الیوم اکملت لکم دینکم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے تمہارے لیے دین مکمل کر دیا اور تمہارے لیے نعمت تمام کر دی۔ اس کے بعد اب کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہی، اور وہی وحی قیامت تک حجت ہے۔

آنحضرتؐ نے ایک مثال سے اس کو واضح فرمایا کہ انبیاء کرامؑ کی اور میری مثال ایسے ہے جیسے ایک عمارت بن رہی ہے ، ایک ایک اینٹ رکھی جا رہی ہے، اور عمارت مکمل ہوگئی ہے، لیکن آخر میں ایک اینٹ کی جگہ باقی ہے۔ فرمایا کہ وہ آخری اینٹ میں ہوں فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین (بخاری، رقم ۳۲۷۱)۔ گویا جس اینٹ کے ساتھ نبوت کی عمارت مکمل ہوئی ہے ، وہ آخری اینٹ میں ہوں ، میرے بعد اب اس میں کسی نئی اینٹ کی گنجائش نہیں ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کا اس پر مستقل رسالہ ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے عقیدہ ختم نبوت کا جن ارشادات میں ذکر کیا ہے وہ روایات انہوں نے اس رسالہ میں جمع کی ہیں اور مجموعی طور پر یہ ایک سو سے زیادہ روایات ہیں جن میں نبی کریمؐ نے اپنے آخری نبی ہونے کا اور اس عقیدہ کا ذکر فرمایا کہ میرے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔

آپ حضرات اس حوالہ سے اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ کر لیں کہ کہیں تھوڑا سا اشتباہ بھی اگر ہوا، کہیں ابہام پیدا ہونے کا کوئی امکان ظاہر ہوا تو نبی اکرمؐ نے فوراً وہاں وضاحت کی۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جناب نبی کریمؐ نے عام حکم دیا کہ میرے ساتھ چلو اور نہ جانے والوں پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ لیکن اس موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حکم دیا کہ آپ پیچھے رہیں گے۔ حضرت علیؓ پریشان ہوئے کہ عرب کی حدود سے باہر یہ پہلا معرکہ ہے اور میں اس میں شریک نہیں ہوں گا۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے آپ چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ہم نے زیادہ دیر باہر رہنا ہے اور پیچھے کے معاملات ایسے ہیں کہ میرے گھر کا کوئی آدمی معاملات سنبھالنے کے لیے یہاں رہنا چاہیے۔ ویسے حضورؐ نے مدینہ منورہ کا امیر عبد اللہ بن عمرو بن أم مکتوم کو بنایا تھا۔ اس غزوہ میں ایک مہینہ جانے میں لگا، ایک مہینہ وہاں رہے اور ایک مہینہ واپسی میں لگا۔ حضرت علیؓ درخواست کر رہے تھے کہ یا رسول اللہ! خود آپ جہاد پر جا رہے ہیں اور مجھے بچوں میں اور عورتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ تو حضورؐ نے ایک جملہ فرمایا کہ

اما ترضٰی أن تکون منّی بمنزلۃ ھارون من موسٰی۔

’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرا اور تیرا وہی تعلق ہو جو موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کا تھا؟ ‘‘

حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے بھائی تھے۔ موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر جاتے تھے تو پیچھے اپنا قائم مقام ہارون علیہ السلام کو بنا کر جاتے تھے۔ اب یہاں سے ایک ہلکا سا خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ ہارون علیہ السلام تو پیغمبر تھے۔ حضورؐ نے فوراً ساتھ ہی کہہ دیا کہ

الا انہ لیس نبی بعدی۔ (بخاری، ۴۰۶۴)

’’لیکن میرے بعد نبی کوئی نہیں ہوگا‘‘۔

آپؐ نے بتا دیا کہ نبوت نہیں ملے گی بھئی، نبوت میرے بعد کوئی نہیں ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اس مسئلے کی حساسیت دیکھئے ، ذرا سا شبہ آیا ذہن میں کہ ہارون علیہ السلام تو پیغمبر تھے اور جناب نبی کریم ؐ حضرت علیؓ کو ہارونؑ سے تشبیہ دے رہے ہیں ، تو شبہ دور کرنے کے لیے ساتھ ہی وضاحت فرما دی۔ بلکہ نبی کریمؐ نے اس بات کو ایک اور انداز سے تعبیر کیا۔ ایک موقع پر ہاتھ کی دو انگلیوں کو جوڑتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا کہ

بعثت انا والساعۃ کھاتین۔ (بخاری ۶۰۲۳)

’’میں اور قیامت یوں (ان انگلیوں کی طرح) ہیں‘‘۔

یعنی درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں میرے بعد بس قیامت ہے۔ میرا دور جب ختم ہوگا تو کسی اور کا دور اب نہیں آئے گا بس قیامت آئے گی۔ گویا آپؐ نے فرمایا کہ میں قیامت کی نشانیوں میں سے پہلی نشانی ہوں اور آخری نبی میں ہوں اور اس کے بعد قیامت ہے، درمیان میں کوئی اور نبی نہیں۔

آج کل کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ End of the history ہم ہیں، ہم پر تہذیب مکمل ہو رہی ہے اور ہم آخری دور ہیں۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ نہیں بھئی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ End of the history میں ہوں، تاریخ کا آخری مرحلہ اور آخری دور میں ہوں۔ میں جناب نبی کریمؐ کے اس ارشاد کی روشنی میں عرض کیا کرتا ہوں کہ مغرب کا آخری تہذیب ہونے کا دعویٰ صحیح نہیں ہے بلکہ آخری تہذیب ہم ہیں۔

دین کی تکمیل کا اعلان

بخاری شریف (رقم، ۴۲۴۰) کی روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطابؓ سے ان کے دور خلافت میں ایک یہودی عالم نے کہا یا حضرت ! آپ کے قرآن میں ایک آیت ایسی ہے کہ وہ آیت اگر ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے کے دن کو عید بنا لیتے۔ ہم اس پر باقاعدہ ڈے مناتے کہ فلاں دن یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کون سی آیت؟ اس نے کہا

اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۚ (المائدہ ۵ ۔ آیت ۳)

’’آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے‘‘۔

تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے وحی کا نزول شروع ہوا تھا اور اس کے بعد مختلف پیغمبروں کے ذریعے ہدایات و احکام نازل ہوتے رہے۔ جناب نبی کریمؐ تک وحی کا یہ سلسلہ چلتا رہا، احکام آتے بھی رہے، منسوخ بھی ہوتے رہے اور ان میں ترامیم بھی ہوتی رہیں۔ یہ ایک ارتقا کا اور تدریج کا عمل تھا۔ نبی کریمؐ پراللہ تعالیٰ نے وحی کا کام مکمل کر دیا۔ اب قیامت تک کوئی وحی نہیں ہوگی اور نہ احکام میں رد و بدل ہوگا اور نہ ہی کوئی نیا حکم آئے گا۔ چنانچہ تکمیل کا معنٰی یہ ہے کہ وہ وحی جو آدم علیہ السلام پر نازل ہونا شروع ہوئی تھی، وہ تدریج اور ارتقا کے مراحل طے کرتے ہوئے نبی کریمؐ پر مکمل ہوئی ہے۔

جب غلبۂ دین مکمل ہوا تو حجۃ الوداع اس کا سب سے بڑا مظہر تھا کہ اتنی شان و شوکت اس سے پہلے مسلمانوں کو کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر اعلان فرمایا کہ آج کے دن میں تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور میں تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔ آج کے بعد میں کسی انسان سے اسلام ہی کا دین قبول کروں گا اور کوئی دین قبول نہیں کروں گا۔ تو اس یہودی عالم نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ یا امیر المؤمنین! یہ آیت اگر ہم پر تورات میں نازل ہوئی ہوتی تو ہم آیت کے نزول والے دن کو عید بنا لیتے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ اللہ کی قدرت ہے کہ ہم پر یہ آیت نازل ہی عید والے دن ہوئی ہے۔ تم تو اس کے نزول کے دن کو خود عید بناتے۔ فرمایا یوم النحر کو منٰی میں یہ آیت نازل ہوئی تھی اور میں اس موقع پر موجود تھا۔ یوم النحر یعنی عید الاضحی اورقربانی کا دن۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ہماری تو دو عیدیں تھیں کہ سالانہ عید بھی تھی اور ہفتہ وار عید بھی تھی، یعنی وہ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔

آنحضرتؐ کا صحابہؓ سے شہادت لینا

حجۃ الوداع کے موقع پر جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ

وانتم تسالون عنی فما انتم قائلون؟ قالوا نشھد انک قد بلغت وادیت ونصحت فقال باصعبہ السبابۃ یرفعھا الی السماء وینکتھا الی الناس اللھم اشھد اللھم اشھد ثلاث مرات۔ (مسلم، ۲۱۳۷)

’’تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا، پس تم کیا کہو گے؟ لوگوں نے کہا، ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے پیغام پہنچا دیا اور پوری خیر خواہی کے ساتھ ذمہ داری ادا کر دی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور اس کے ساتھ لوگوں کی طرف اشارہ کر کے کہا: اے اللہ، گواہ رہنا۔ اے اللہ گواہ رہنا۔ اے اللہ گواہ رہنا۔‘‘

آپؐ نے فرمایا کہ ایک سوال خود تم سے تمہارے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔

وستلقون ربکم فیسالکم عن اعمالکم۔ (بخاری ۴۰۵۴)

’’اور جلد ہی تمھاری اپنے رب سے ملاقات ہوگی اور وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔‘‘

اللہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا کہ تم کیا کر کے آئے ہو ؟ پیغمبر نے کیا کیا تھا یہ بھی سوال ہو گا اور تم امتی کیا کر کے آئے ہو دنیا میں یہ بھی پوچھا جائے گا۔ اور امتی سے تو یہ سوال مرنے کے ساتھ ہی شروع ہو جائے گا۔ جناب نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ انسان اللہ کے دربار میں پیش ہوگا ، اس وقت تک قدم آگے نہیں اٹھا سکے گا جب تک ان سوالوں کا جواب نہیں دے گا عن عمرہ فیم افناھکہ میں نے تمہیں عمر دی تھی، ساٹھ، ستر، پچھتر سال کی زندگی دی تھی، کیا کیا اس کا؟ وعن شبابہ فیم ابلاہ میں نے تمہیں جوانی دی تھی، جوانی کی صلاحیتیں کدھر خرچ کیں؟ ومالہ من این اکتسبہ وفیم انفقہ اور میں نے تمہیں مال دیا تھا، رزق دیا تھا، وہ کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ وماذا عمل فی ما علم اور جتنا علم اس کو حاصل تھا، اس پرکتنا عمل کیا؟ ( ترمذی، رقم ۲۳۴۰) ۔

کائنات کی ہر چیز ٹل سکتی ہے لیکن رب کا سامنا نہیں ٹل سکتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کوئی جھٹلائے تب سامنا ہوگا اور نہ مانے تب سامنا ہوگا۔ چنانچہ آپؐ نصیحت فرما رہے ہیں کہ قیامت کے روز تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، اپنے اعمال کو سیدھا رکھو تاکہ کل اللہ کا سامنا کر سکو، سوال کا جواب دے سکو اور تمہاری پیشی صحیح ہو۔

دین کی بات دوسروں تک پہنچانا

جناب نبی کریمؐ نے ہمیں ہدایات دی ہیں، ہمیں اپنی معاشرتی، انفرادی، اجتماعی زندگیاں گزارنے کے اصول بتائے ہیں، طریقے سمجھائے ہیں، سلیقے سکھائے ہیں۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے ایک بات یہ بتائی کہ میں جو کچھ تم سے کہہ رہا ہوں، یہ تم تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ انہیں ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں ہیں۔

الا لیبلغ الشاہد الغائب فلعل بعض من یبلغہ ان یکون اوعی لہ من بعض من سمعہ۔ (بخاری، ۴۰۵۴)

’’سنو، جو موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جن کو یہ باتیں پہنچیں، ان میں سے کچھ ان کی بہ نسبت ان کو زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والوں ہوں جنہوں نے براہ راست مجھ سے سنی ہیں۔‘‘

اور حجۃ الوداع ہی کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

ایھا الناس انی واللہ لا ادری لعلی لا القاکم بعد یومی ھذا بمکانی ھذا فرحم اللہ من سمع مقالتی الیوم فوعاھا فرب حامل فقہ ولا فقہ لہ ورب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ۔ (دارمی، ۲۲۹۔ مسند ابی یعلیٰ، ۷۴۱۳۔ مستدرک حاکم، ۲۹۴)

’’اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں۔ پس اللہ اس شخص پر رحمت کرے جس نے آج کے دن میری باتیں سنیں اور انہیں یاد کیا، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں سمجھ داری کی باتیں یاد ہوتی ہیں لیکن انہیں ان کی سمجھ حاصل نہیں ہوتی۔ اور بہت سے لوگ سمجھ داری کی باتوں کو یاد کر کے ایسے لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔‘‘

چنانچہ اسلام دعوت اور اجتماعیت کا دین ہے، اسے دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان کے ذمے ہے۔ دین کی کوئی بات علم اور سمجھ میں آئے اسے آگے پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، خود عمل کر کے مطمئن ہو جانا کافی نہیں ہے۔ اور اس کا سب سے پہلا اور بنیادی دائرہ گھر کا ہے۔ قرآن کریم نے اس کا پہلا دائرہ یہ بیان فرمایا کہ

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قُـوٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (تحریم ۶۶ ۔ آیت ۶)

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں‘‘۔

انسانی زندگی میں حادثات پیش آتے ہیں۔ کسی مکان میں آگ لگ جائے اور گھر کا مالک موجود ہو، کیا وہ چھلانگ لگا کر باہر چلا جائے گا کہ جی میں تو بچ گیا ہوں باقی جانیں اور ان کا کام جانے؟ نہیں بلکہ وہ اپنی جان خطرے میں ڈالے گا اور گھر کے دوسرے افراد کو نکالنے کی کوشش کرے گا۔ جب تک وہ گھر کے سارے افراد کو آگ سے نکال کر باہر نہیں لے جائے گا، اس کا دل مطمئن نہیں ہوگا۔ اسی لیے قرآن کریم نے آگ کی مثال دی ہے کہ دنیا میں اگر آگ سے سابقہ پیش آجائے تو انسان خود بچ کر خوش اور مطمئن نہیں ہو جاتا کہ میں تو بچ گیا ہوں۔ قرآن کریم نے کہا کہ جس طرح دنیا کی آگ سے گھر والوں کو بچاتے ہو اسی طرح آخرت کی آگ سے بھی انہیں بچاؤ۔ اس آگ کا تو ایندھن ہی انسان اور پتھر ہوں گے۔ خیرخواہی کے درجات اس طرح ہیں کہ سب سے پہلے گھر کے افراد، پھر محلہ، پھر برادری، پھر سوسائٹی، پھر شہر، پھر قوم، پھر ملک اور پھر دنیا۔

آنحضرتؐ نے فرمایا کہ یہ جو باتیں میں تم سے کہہ رہا ہوں انہیں اپنے آپ تک محدود نہ رکھنا بلکہ انہیں دنیا تک پہنچاؤ۔ آپؐ نے ایک تو یہ فریضہ بتلایا اور پھر اس کی حکمت بھی بیان کی جس کا مشاہدہ ہم پچھلے چودہ سو سال کے عرصہ میں کرتے آئے ہیں۔ فرمایا کہ بسا اوقات ایک آدمی کوئی بات سنتا ہے اور اسے آگے کسی اور تک پہنچا دیتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ سننے والا اس بات پہنچانے والے سے زیادہ سمجھدار ہو اور اس بات سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ جس تک بات پہنچائی گئی ہے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زیادہ عقل دے رکھی ہو۔ پہلا آدمی گویا پائپ لائن کا کام دے رہا ہے۔ فرمایا رب حامل فقہ غیر فقیہ بسا اوقات ایک بات سن کر آگے پہنچانے والا بات کو پوری طرح نہیں سمجھ پاتا لیکن پہنچانے کا فریضہ اگر انجام دے گا تو کسی ایسے آدمی تک پہنچا دے گا جو اس سے بہت فائدے اٹھائے گا۔ اور تاریخ اسلام میں ایسا ہوا۔ حدیث کے راویوں اور حدیث کے بیان کرنے والوں نے حضورؐ کے ارشادات کو نقل کیا، اوروں تک پہنچایا، اور پھر آگے امت کے فقہا نے ان ارشادات پر محنت کی، ان پر کام کیا، ان میں سے مسائل مستنبط کیے، ان میں سے نتیجے نکالے، رہنمائی کے اصول اخذ کیے، اور یوں دین کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کر دی۔ اہل علم اور اہل دانش نے حضورؐ کے ارشادات سے خود بھی فائدہ اٹھایا اور دنیا کو بھی فائدہ پہنچایا۔

محدثین کا کام ہے حدیث بیان کرنا۔ فقہا کا کام ہے اس میں سے مسئلے نکالنا۔ ایک نے روایت بیان کی کہ حضورؐ نے یہ بات ارشاد فرمائی۔ دوسرے نے اس کا تجزیہ کیا اور اس میں سے مسائل نکالے۔ علما بتاتے ہیں کہ ایک ایک حدیث سے فقہا نے بیس بیس مسائل مستنبط کیے۔ بریرہؓ کے آزاد ہونے کے بارے میں جس روایت کا ابھی ذکر کیا گیا ہے، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ فقہا نے اس سے ایک سو سے زیادہ مسائل نکالے ہیں۔ واقعہ ایک ہے لیکن اس میں سے وضع کیے جانے والے قوانین اور مسائل سو سے زیادہ ہیں۔ چنانچہ روایت کرنے والے نے تو بات آگے پہنچا دی، اور آگے فقہاء کو اللہ رب العزت نے اس عقل، دانش اور حکمت سے نوازا کہ انہوں نے اس بات کو زیادہ سمجھا، خود بھی فائدہ اٹھایا اور دوسرے لوگوں تک بھی اس کا فائدہ پہنچایا۔

حضورؐ نے فرمایا کہ جو مجھ سے سنتے ہو، اسے اپنے تک محدود نہ رکھو بلکہ آگے اور لوگوں تک پہنچاؤ۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ دین کی بات عام ہوگی۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے تم سے وہ بات سننے والا تم سے زیادہ سمجھدار ہو۔ یہ بات پہنچانا، دعوت دینا اور دین کا مسئلہ لوگوں میں عام کرنا ، یہ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داریوں میں سے ہے۔

انسانی حقوق کا پہلا عالمی منشور

آج دنیا میں انسان کی معاشرتی ذمہ داریوں اور حقوق کے حوالہ سے اقوام متحدہ کا ہیومن رائٹس چارٹر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ سیاسی طور پر ایک بڑے سمبل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور بعض حوالوں سے وہ سمبل ہے بھی۔ جبکہ بہت سے حوالوں سے یہ اسلامی تعلیمات سے ٹکراتا بھی ہے۔ لیکن اگر ہم اس ارتقا کو دیکھیں جو چودہ سو سال میں ہوا ہے، جو دنیا کو ان اصولوں پر لایا ہے، جناب نبی کریمؐ نے انسانیت کی رہنمائی کے یہ اصول چودہ سو سال پہلے ہمیں بڑی وضاحت کے ساتھ عطا فرمائے تھے۔ اور یہ اصول انسانی برادری کے حوالے سے تھے کسی علاقائی یا نسلی حوالے سے نہیں تھے۔ آج لوگ گلوبلائزیشن اور انٹرنیشنلزم کا نعرہ لگاتے ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ نسل، رنگ، وطن اور قومیت سے بالاتر ہو کر سب سے پہلے جس شخصیت نے دنیا کو خطاب کیا ہے اس کا نام محمدؐ ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سب سے پہلی دعوت دی تو یہ کہہ کر مخاطب ہوئے کہ

یا ایھا النّاس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا۔ (مسند احمد، رقم ۱۵۴۴۸)

’’اے لوگو ! کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، تم کامیاب ہو جاؤ گے‘‘۔

تب آپ کے مخاطب عرب اور مکی تھے اور یہ بالکل ابتدائی دعوت تھی کہ ابھی دو چار لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس وقت بھی حضورؐ نے نہ عرب کا ٹائٹل اختیار کیا، نہ قریش کا، نہ علاقے کا، بلکہ کہا ایھا النّاس۔ اس لیے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ دنیا میں سب سے پہلے گلوبلائزیشن کی بات جناب نبی اکرمؐ نے کی۔ آپؐ نے قوم، رنگ، نسل اور جغرافیہ سے بالاتر ہو کر نسل انسانی کو مخاطب کیا۔ اور صرف مخاطب ہی نہیں کیا بلکہ اس کے اصول بتائے ہیں، اس کے ضوابط بتائے ہیں، اخلاقیات بتائی ہیں، اور پھر عملی طور پر ایک سوسائٹی بنا کر دکھائی ہے۔

جناب نبی کریمؐ کا یہ خطبۂ مبارکہ بین الاقوامیت کا پہلا اور سب سے جامع منشور تھا۔ آج بھی ہمارے لیے اور دنیائے انسانیت کے لیے یہی رہنما منشور ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اس کو پیش کرنے کے قابل ہو جائیں۔ میں بڑی سخت بات کہہ رہا ہوں۔ ایک یہ ہے کہ شائع کر کے دنیا تک پہنچا دینا، اور ایک یہ ہے کہ ہم عملی طور پر اس کا نمونہ پیش کر سکیں، حوالہ پیش کر سکیں، لوگ ہمیں دیکھ کر سمجھیں کہ یہ لوگ اس منشور پر عمل کرنے والے لوگ ہیں تو پھر آج بھی یہ منشور دنیا کے لیے ہدایت اور امن کا پیغام ہے۔ لیکن یہ موقوف اس پر ہے کہ کس دن ہم اپنے قول، عمل اور کردار کے حوالے سے دنیا کو دعوت دینے کی پوزیشن میں آتے ہیں۔

حضرات محترم! جناب نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو ارشادات فرمائے، ان کے کچھ اہم حصے کسی خاص ترتیب کے بغیرچار پانچ مجالس میں آپ کے سامنے عرض کیے ہیں۔ یہ رسول اللہؐ کی زندگی بھر کی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں اور ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو معاف فرماتے ہوئے ہمیں قرآن کریم اور سنت رسولؐ پر صحیح طور پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔