qurbani k ahm masail

قربانی کے بعض مسائل مکمل

0 0
Read Time:21 Minute, 48 Second


شریعت كے وہ چند مسائل جو ہمارى توجہ كسى نہ كسى تاريخى واقعہ كى طرف مبذول كرتے ہيں ان ميں سے ايك قربانى بهى ہے- ايسے مسائل سے مقصود محض انہيں مقررہ وقت پر كر لينا ہى كافى نہيں ہے بلكہ ان تاريخى واقعات پر گہرى نگاہ ڈالتے ہوئے اس جذبہ عبادت اور قربانى كى ناقابل فراموش كنہ وحقيقت كو سمجھ كر اپنانے كى كوشش كرنابهى ضرورى ہے جس كے باعث يہ مسائل ہمارى اسلامى روايات ميں جزوِلاينفك كى حيثيت اختيار كر گئے- جيسا كہ حاجيوں كے ليے صفا مروہ كى سعى كرنا محض ايك دوڑ نہيں ہے بلكہ يہ اس تاريخى واقعہ كى غماز ہے جس ميں ايك طرف ننها سا بچہ شدتِ پياس كے باعث زمين پر ايڑياں مارتا نظر آتا ہے اور دوسرى طرف حضرت ہاجِرَ عليها السلام پانى كى تلاش ميں صفا مروہ كى پہاڑيوں كے چكر لگا تى نظر آتى ہيں كہ جنہيں ابراہیم عليہ السلام اللہ تعالىٰ كے حكم پر اپنى تمام تر محبتيں قربان كر كے مكہ كى بے آب وگياہ زمين ميں تنہا چهوڑ گئے تهے- بعينہ قربانى كا مسئلہ بهى ہے یعنى عيد ِقربان كے دن جانور ذبح كرنا، كچھ گوشت تقسيم كردينا،كچھ كها لينا اور پهر خود كو شريعت كے ہر حكم سے آزاد تصور كرنا اور قربانى كے مقصد يا غرض وغايت پر سنجيدگى سے غوروفكر نہ كرنا، كسى طور كافى نہيں ہے بلكہ يہ بهى ضرورى ہے كہ جانور قربان كرنے كے ساتھ ساتھ ابراہیم علیہ السلام كى مثالى اطاعت وفرمانبردارى اور اثر آفريں عقیدت واِردات كو بهى پيش نظر ركها جائے كہ جس كى وجہ سے انہوں نے اللہ تعالى كے حكم پر اپنا كم سن خوبصورت بيٹا بهى قربان كرنے سے دريغ نہ كيا-

اگرچہ چهرى ذبح نہ كرسكى اور پهر حكم الٰہى كے مطابق مينڈها ذبح كر ديا گيا ليكن وہ اللہ تعالى سے كيسى محبت ہوگى اور اللہ تعالى كے ليے ہر چيز قربان كر دينے كا كيسا جذبہ ہوگا كہ جس كى بدولت وہ اس مشكل ترين عمل سے بهى پیچھے نہ ہٹے- پهر اللہ تعالى نے بهى اس محبت واطاعت كا صلہ يوں ديا كہ اس عمل كو تمام مسلمانوں كے ليے مسنون قرار دے كر قيامت تك كے ليے ابراہیم علیہ السلام كى سنت كو جارى وسارى كر ديا- لامحالہ ہم سے بهى اسلام صرف جانوروں كى قربانى نہيں چاہتا بلكہ اس جذبہ اطاعت اور خشيت ِالٰہى كو بهى اُجاگر كرنا چاہتا ہے جس كے ذريعے ہم اپنى ہر چيز بوقت ِضرورت اللہ تعالى كى خاطر قربان كردينے كے ليے تيار ہوجائيں – اور يقينا آج اسلام كو جانوروں كى قربانيوں سے كہيں زيادہ ہمارى محبوب ترين اشيا يعنى مال، اولاد اور جان كى قربانيوں كى ضرورت ہے- لہٰذا ہميں چاہيے كہ اس عمل كو محض ايك تہوار ورسم سمجهتے ہوئے تفاخر اور رياء ونمود كا ذريعہ ہى نہ بنا ڈاليں كہ جس كے باعث ہميں دنيا ميں تو اسلامى شعائروروايات اپنانے كا اعزاز مل جائے ليكن ہمارى عقبىٰ تباہ وبرباد ہو كر رہ جائے بلكہ ہميں چاہيے كہ اس عمل كے پيچهے چھپى اُس عظيم قربانى كو مدنظر ركهتے ہوئے اپنے ايمانوں كو اس قابل بنائيں جو ہميں دنياوى لہو ولعب اور مصنوعى عيش ونشاط سے نكال كر اپنى زندگى كا ہر لمحہ اور ہر گوشہ رضاے الٰہى كى خاطر قربان كر دينے كے ليے تيار كردے-

قربانى كا معنى ومفہوم اور وجہ تسميہ

لفظ قربانى ‘قربان’ سے مشتق ہے اور مصباح اللغات كى رو سے لغوى طورپر قُربان سے مراد
“ہر وہ چيز ہے جس سے اللہ كا تقرب حاصل كيا جائے چاہے ذبيحہ ہو يا كچھ اور” (ص668)

صاحب ِقاموس فرماتے ہيں كہ “قُربان’ضمہ ‘كے ساتھ يہ ہے كہ جس كے ذريعے اللہ تعالىٰ كا قرب حاصل كيا جائے۔”
(القاموس المحيط:ص127)

صاحب المعجم الوسیط فرماتے ہيں كہ “قربان ہر وہ چيز ہے جس كے ذريعے اللہ تعالىٰ كا تقرب حاصل كيا جائے خواہ وہ ذبیحہ ہو يا اس كے علاوہ كچھ اور-“(المعجم الوسيط :ص723)

بعض علما نے كہا ہے كہ لفظ ِ قربانى قرب سے مشتق ہے چونكہ اس عمل كے ذريعے قربِ الٰہى حاصل كرنا مقصود ہوتا ہے، اسى ليے اسے قربانى كا نام ديا گياہے-

اصطلاحى اعتبار سے قربانى سے مراد

“اونٹ، گائے اوربهيڑ بكريوں وغيرہ ميں سے كوئى جانور عيد الاضحى كے دن يا ايامِ تشريق ميں اللہ تعالىٰ كا تقرب حاصل كرنے كے ليے قربان كرنا ہے-” (فقہ السنة ازسيد سابق :3/195)

قربانى كى مشروعيت

قربانى ابراہیم عليہ السلام اور محمدﷺ دونوں كى سنت ہے اور اللہ تعالىٰ نے قرآن ميں ان دونوں انبيا كى سنت اپنانے اور اتباع كرنے كى تلقين فرمائى ہے-(آلِ عمران:31)

علاوہ ازيں قربانى كى مشروعيت كے مزيد دلائل حسب ِذيل ہيں :

(1) ارشاد بارى تعالىٰ ہے كہ
﴿
فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانْحَرْ‌﴾ ( الكوثر:2)
“پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر-“

(2) حضرت انس فرماتے ہيں كہ

“نبى كريمﷺ دو مينڈهوں كى قربانى كرتے تهے اور ميں بهى دو مينڈهوں كى قربانى كرتا تها- “ (بخارى :5553)

(3) حضرت ابو ہريرہ فرماتے ہيں كہ رسول اللہ ﷺنے فرمايا:

“جس كے پاس وسعت وطاقت ہو اور وہ قربانى نہ كرے تو وہ ہمارى عيد گاہ كے قريب بهى ہر گز نہ آئے-“ (ابن ماجہ:3123)

(4) حضرت انس بن مالك روايت كرتے ہيں كہ رسول اللہ ﷺنے فرمايا :

“جس نے نماز سے پہلے (جانور) ذبح كرليا، وہ دوبارہ قربانى كرے-“ (بخارى:5549)

(5) ايك روايت ميں ہے كہ نبىﷺ نے فرمايا :

“اے لوگو! بے شك ہر گهر والوں پر ہر سال قربانى (كرنا مشروع) ہے-“ (ابن ماجہ :3125)

(2) امام ابن قدامہ فرماتے ہيں كہ

“مسلمانوں كا قربانى كى مشروعيت پر اجماع ہے-“ (المغنى :ج13/ص360)

قربانى كا حكم

اگرچہ اس كے حكم ميں اختلاف ہے اور بعض علما نے صاحب ِاستطاعت شخص كے ليے اسے واجب بهى قرار ديا ہے ليكن راجح بات يہ ہے كہ قربانى سنت ِموكدہ ہے اور يہ موقف محض راقم ہى كا نہيں بلكہ درج ذيل كبار علما بهى يہى موقف ركهتے ہيں :

ابن عمر كا فتوى ہے:

هي سنة ومعروف
“يہ سنت ہے اور يہ امر مشہور ہے”
 (بخارى :5545)

امام ترمذى كا فتوىٰ:

“اہل علم كے نزديك اسى پر عمل ہے كہ قربانى واجب نہيں ہے بلكہ رسول اللہ ﷺ كى سنتوں ميں سے ايك سنت ہے اور اسى پر عمل كرنا مستحب ہے اور امام سفيان ثورى اور امام ابن مبارك  بهى اسى كے قائل ہيں – “(سنن ترمذى :بعد الحديث ؛1506)

وہ صورتيں جن ميں قربانى واجب ہوجاتى ہے:
(1) اگر كوئى شخص نذر كے ذريعے اپنے اوپر قربانى واجب كرلے تو اس پر قربانى واجب ہو جائے گى جيسا كہ اللہ تعالىٰ نے قرآن ميں ايمان والوں كى صفات بيان كرتے ہوئے ذكر فرمايا ہے كہ ﴿
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ‌﴾ (الدهر : 7) “وہ نذر پورى كرتے ہيں -“

اور ايك حديث ميں ہے كہ”حضرت عائشہ سے روايت ہے كہ نبى ﷺ نے فرمايا

“جس نے اللہ تعالىٰ كى اطاعت و فرمانبردارى كى نذر مانى، وہ اس كى اطاعت كرے (يعنى اس نذر كو پورا كر لے)-“ (بخارى :6696)

(2) كسى جانور كے متعلق اگر يہ نيت كر لى جائے كہ يہ اللہ كے ليے ہے يا يہ صرف قربانى كے ليے ہے تو پهر اسے اللہ كے ليے قربان كرنا ضرورى ہو جاتا ہے- كيونكہ اب وہ وقف ہو چكا ہے اور وقف چيز كا حكم يہ ہے كہ نہ تو اسے فروخت كيا جا سكتا ہے، نہ اسے ہبہ كيا جا سكتا ہے اور نہ ہى اسے وراثت ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے بلكہ اسے صرف اللہ تعالىٰ كے ليے ہى صرف كيا جائے گا جيسا كہ صحيح مسلم ميں ابن عمر كى حديث سے يہ بات ثابت ہے-(ديكهئے مسلم:4224)

(3) اگر كوئى شخص حالت ِاحرام ميں شكار كے جانوركو قتل كر بيٹها تو اس پر فديہ كے طور پر قربانى لازم ہو جائے گى- (ديكهئے المائدة :95)

(4) حج تمتع يا حج قران كرنے والوں كے ليے بهى قربانى كرنا واجب ہے-
مزيد تفصيل كے ليے ملاحظہ ہو: فقہ الحديث از راقم اورمناسكِ حج از البانى

جو قربانى كى طاقت نہيں ركهتا، وہ كيا كرے؟

جيسا كہ گذشتہ سطور ميں بيان كيا جا چكا ہے كہ قربانى سنت ِموكدہ ہے اور تقربِ الٰہى كا ذريعہ ہے- اس ليے جو قربانى كر سكتا ہے اسے ضرور قربانى كرنى چاہيے ليكن اگر كوئى اس كى طاقت ہى نہ ركهتا ہو تو يقينا اسے قربانى نہ كرنے سے كوئى گناہ نہيں ہو گا- كيونكہ يہ تو سنت ہے اور اگر انسان طاقت نہ ہونے كى وجہ سے فرض زكوٰة بهى ادا نہ كرے يا فرض حج بهى نہ كرے تب بهى اس پر بالاتفاق كوئى گناہ نہيں – ہاں ايسا شخص اگر قربانى كا اجر حاصل كرنا چاہتا ہے تو اسے چاہيے كہ ذوالحجہ كا چاند طلوع ہونے كے بعد اپنے بال اور ناخن نہ كاٹے، بلكہ عيد كے روز تك انہيں موٴخر كر دے- جيسا كہ ايك حديث ميں ہے كہ حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص سے روايت ہے كہ نبىﷺ نے فرمايا:

” مجهے يوم الاضحى كو عيد كا حكم ديا گيا ہے، اسے اللہ تعالىٰ نے اس اُمت كے ليے مقرر فرمايا ہے- ايك آدمى نے عرض كيا: آپ مجهے بتلائيں كہ اگر ميں قربانى كے ليے موٴنث دودہ دينے والى بكرى كے سوا نہ پاؤں تو كيا اس كى قربانى كروں ؟ آپﷺ نے فرمايا نہيں ،ليكن تم اپنے بال اور ناخن تراش لينا اور اپنى مونچھیں كاٹنا اور شرمگاہ كے بال مونڈ دينا- اللہ تعالىٰ كے ہاں تمہارى مكمل قربانى ہوجائے گى-“ (ابو داود ؛2789،كتاب الضحايا )

قربانى كى فضيلت

قربانى كى فضيلت ميں مندرجہ ذيل روايت پيش كى جاتى ہے:

(ماعمل ابن آدم يوم النحر عملا أحب إلى الله من إراقة دم وإنها لتأتي يوم القيامة بقرونها وأظلافها وأشعارها وإن الدم ليقع من الله عزوجل بمكان قبل أن يقع على الأرض فطيبوا بها نفسا)
“دس ذوالحجہ كو خون بہانے سے بڑھ كر ابن آدم اللہ تعالىٰ كے ہاں كوئى بہتر عمل نہيں كرتا- يہ جانور قيامت كے دن اپنے سينگوں ‘ كهروں اور بالوں سميت آئيں گے اور خون كے زمين پر گرنے سے پہلے اللہ كے ہاں اس كا ايك مقام ہوتا ہے سو تم يہ قربانى خوش دلى سے ديا كرو-“

ليكن يہ روايت ثابت نہيں 
، كما قالي الألباني (ضعيف ترمذى ؛1493) مزيد تفصيل كے ليے: ‘فضائل قربانى كى احاديث كا علمى جائزہ’ از غازى عزير (ماہنامہ محدث:ج 23 /عدد 3)

تاہم قربانى كى سنت پر عمل كا جو اجر وثواب اللہ تعالىٰ نے مقرر كر ركها ہے، وہ بہر حال قربانى كرنے والے كو ضرور ملے گا كيونكہ قربانى عبادت اور نيك عمل ہے اور ہر نيكى كے متعلق قرآن ميں اللہ تعالىٰ كا ارشاد ہے:﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ‌ أَمْثَالِهَا﴾(الانعام :160)
“جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے-“

قبوليت ِقربانى كى شرائط

(1) قربانى خالص اللہ كى رضا كے ليے كى جائے،كيونكہ قربانى عبادت ہے اوركوئى بهى عبادت اس وقت تك قبول نہيں ہوتى جب تك كہ خالصتاً اللہ كے ليے نہ كى جائے جيسا كہ اللہ تعالى نے ارشاد فرمايا كہ ﴿
وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾(البينہ:5)
“انہيں اسكے سوا كوئى حكم نہيں كہ صرف اللہ كى عبادت كريں اور اس كيلئے دين كو خالص كريں -“

اور حضرت عمر بن خطاب سے مروى ہے كہ رسول اللہﷺ نے فرمايا:

إنما الأعمال بالنيات “عملوں كا دارومدار نيتوں پر ہے-“(بخارى؛ 1)

علاوہ ازيں قربانى كے متعلق بالخصوص ايك آيت ميں يہ الفاظ موجود ہيں :
﴿
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الانعام :162)
“آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے-“

قربانى نہ تو غير اللہ كے ليے جائز ہے اور نہ ہى ايسى جگہ پر درست ہے جہاں غيراللہ كى عبادت ہوتى ہو نيز ايسى قربانى بهى حلال نہيں جس پر غير اللہ كا نام پكارا گيا ہو- حضرت علىسے مروى ہے كہ رسول اللہﷺ نے فرمايا:

“اللہ ايسے شخص پر لعنت كرے جس نے اپنے والد پر لعنت كى، اللہ تعالىٰ ايسے شخص پر لعنت كرے جس نے غيراللہ كے ليے ذبح كيا،اللہ تعالىٰ ايسے شخص پر لعنت كرے جس نے كسى بدعتى كو پناہ دى اور اللہ تعالىٰ ايسے شخص پر لعنت كرے جس نے زمين كى علامات تبديل كرديں -“ (مسلم :141)

(2) پاكيزہ مال سے ہو، حرام مال سے نہ ہو-جيسا كہ ايك حديث ميں ہے كہ حضرت ابوہريرہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا

(
أيها الناس إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا)مسلم :2346)
“اے لوگو! بے شك اللہ تعالىٰ پاك ہے اور صرف پاكيزہ چيز كو ہى قبول كرتا ہے-“
سود كى آمدن يا حرام مال سے كى ہوئى قربانى قبول نہيں ہوتى-
(مسلم:2346،كتاب الزكوٰة اور مسلم :535،كتاب الطہارة)

(3) سنت كے مطابق ہو جيسا كہ اگر كوئى شخص نماز عيد سے پہلے قربانى كر لے تو اس كى قربانى قبول نہيں ہو گى-اس كا مفصل بيان آئندہ صفحات ميں آئے گا-

(4) قربانى ايسے جانوروں كى نہ ہو جن جانوروں كى قربانى قبول نہيں ہوتى-اس كا بهى تفصيلى بيان آگے آئے گا-

قربانى كا جانور كيسا ہو؟

ايسے جانورں كى قربانى كى جائے جن پربهيمة الأنعام كا لفظ بولا جاتا ہے، قرآن ميں ہے

﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ﴾

“اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وه ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ – “(الحج :34)

بهيمة ايسے جانوروں كو كہتے ہيں جو چار ٹانگوں والے ہوں خواہ پانى ميں ہى ہوں جيسا كہ صاحب ِقاموس نے اس كى يہى وضاحت كى ہے-
(القاموس المحيط:بهم)اور أنعام ميں چار قسم كے نر اور مادّہ جانور شامل ہيں : (1) اونٹ(2)گائے(3)بهيڑ(4)بكرى

مزيد تفصيل كے ليے ملاحظہ ہو: تفسير فتح القدير :2/210 اورتفسير ابن كثير :3/100

علاوہ ازيں مذكورہ مويشيوں ميں ہر ايك كا مُسِنّة(يعنى دوندا) ہونا بهى ضرورى ہے، ہاں اگر كوئى مجبورى ہو يا ايسا جانور ميسر نہ ہو تو بهيڑ كا كهيرا بهى كفايت كر جاتا ہے جيسا كہ حضرت جابر سے مروى ہے كہ رسول اللہﷺ نے فرمايا

(لاتذبحوا إلامسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن)(مسلم :117)

“مُسِنّہ ہى ذبح كرو، الايہ كہ تم پر تنگى ہو تو بهيڑ كا كهيرا ذبح كر لو-“

ياد رہے كہ بهيڑ كے كهيرے كى اجازت كا مفہوم يہ ہر گز نہيں ہے كہ ہر حال ميں اس كى قربانى جائز ہے جيسا كہ آج كل بعض مقامات پر قربانى كا جانور بیچنے والے يہى كہہ كر عوام كو جانور فروخت كررہے ہوتے ہيں كہ كهيرے كى قربانى بهى جائز ہے، حالانكہ اس كى قربانى صرف ايك خاص صورت (يعنى مجبورى وتنگ دستى) ميں ہى جائز قرار دى گئى ہے اگر يہ صورت نہ ہو تو مُسِنّہ كے علاوہ كوئى جانور بهى كفايت نہيں كرے گا-

مُسِنّة (يعنى دوندا) ايسے جانور كو كہتے ہيں جس كے دودہ كے دانت گر چكے ہوں – امام نووى شرح صحيح مسلم ميں فرماتے ہيں كہ

المسنة هي الثنية من كل شيءمن الإبل والبقر والغنم فما فوقها وهذا تصريح بأنه لايجوز الجذع من غير الضأن في حال من الأحوال

“مُسِنّة اونٹ، گائے اور بكرى وغيرہ ميں سے دو ندے كو كہتے ہيں اور يہ واضح ہے كہ بهيڑ كے علاوہ كسى حالت ميں كهيرا قربان كرنا جائز نہيں -“ (شرح نووى :13/99،نيل الاوطار:5/202)

نيز واضح رہے كہ اونٹوں ميں دوندا عمر كے پانچويں سال ميں ہوتا ہے،گائے ميں دوندا عمر كے تيسرے سال ميں ہوتا ہے اور بكرى ميں دوندا عمر كے دوسرے سال ميں ہوتا ہے اور كهيرا (جذعہ) بهيڑ كا وہ بچہ ہوتا ہے جو ايك سال كا ہو اور دوندا نہ ہو- لہٰذا اونٹ، گائے اور بكرى ميں دوندے سے كم عمر والے جانور كى قربانى جائز نہيں ، البتہ دنبے ميں (كسى مجبورى كے وقت) دوندے سے كم عمر كے جانور كى قربانى بهى جائز ہے-

مزيد تفصيل كيلئے: ‘
جذعة من الضأن كى تحقیق’ از عبد الرحمن عزيز (محدث: ج31/عدد3)

رسول اللہﷺ كا طرزِ عمل

(1) حضرت انس سے روايت ہے كہ

(انكفأ رسول الله ! إلى كبشين أقرنين أملحين فذبحهما بيده)
“رسول اللہﷺ سينگ والے دو چتكبرے مينڈهوں كى طرف متوجہ ہوئے اورانہيں اپنے ہاتھ سے ذبح كيا-“
 (بخارى :5554)

(2) حضرت ابو سعيد خدرى  سے روايت ہے كہ

(كان رسول الله ! يضحي بكبش أقرن فحيل ينظر في سواد ويأكل في سواد ويمشي في سواد)
“رسول ﷺ سينگ والا موٹا تازه مينڈها ذبح كرتے جس كى آنكھیں ، منہ اور ٹانگيں سياہ ہوتيں -“ (ابو داود: 2796)

(3) حضرت انس سے روايت ہے كہ

“نبى ﷺ نے كهڑے كهڑے سات اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر كيے اور مدينہ ميں دو سینگوں والے چتكبرے مينڈهے ذبح كيے-“ (ابو داود:2793)

كس جانور كى قربانى افضل ہے؟

امام شوكانى كا فتوىٰ: 
“اور افضل قربانى وہ ہے جو زيادہ موٹى تازى ہو-“(الدررالبهية :كتاب الأضحية) ايك اور مقام پر رقمطراز ہيں كہ
“سب سے افضل قربانى اونٹ كى ہے،پهر گائے كى اور پهر بكرى كى-“(ايضاً:كتاب الحج)

امام ابن قدامہ  كا فتوى: 
“قربانيوں ميں افضل اونٹ ہے پهر گائے ہے پهر بكرى ہے پهر اونٹ ميں شريك ہونا ہے اور پهر گائے ميں شريك ہونا ہے” (المغنى:13/ 366)

سعودى مجلس افتا كا فتوىٰ: 
“قربانيوں ميں افضل اونٹ، پهر گائے پهر بكرى اور پهراونٹنى يا گائے كى قربانى ميں شركت ہے كيونكہ آپ ﷺ نے جمعہ كے متعلق فرمايا: “جو پہلى گهڑى ميں (مسجد ميں ) گيا گويا كہ اس نے اونٹ كى قربانى كى، اور جو دوسرى گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے گائے كى قربانى كى، اور جو تيسرى گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے سينگ والے مينڈهے كى قربانى كى اور جو چوتهى گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے ايك مرغى كى قربانى كى اور جو پانچويں گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے ايك انڈہ قربان كيا-“

اس حديث ميں محل شاہد اللہ تعالىٰ كى طرف تقرب ميں اونٹ، گائے اور بهيڑ بكريوں كے درميان ايك دوسرے پر فضيلت كا وجود ہے اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ قربانى اللہ تعالىٰ كا قرب حاصل كرنے كا بہت بڑا ذريعہ ہے اور اونٹ قیمت، گوشت اور نفع كے لحاظ سے سب سے زيادہ ہے- ائمہ ثلاثہ يعنى امام ابوحنيفہ ،امام شافعى اور امام احمد بهى اسى كے قائل ہيں اور امام مالك نے فرمايا كہ (قربانى ميں ) افضل بهيڑ كا كهيرا ہے پهر گائے اور پهر اونٹ ہے كيونكہ نبى ﷺ نے دو مينڈهے قربان كيے اور آپ ﷺ صرف افضل كام ہى كرتے تهے – اس كے جواب ميں يوں كہا جا سكتا ہے كہ يقينا آپ ﷺ بعض اوقات غير افضل كام كو بهى امت پر نرمى كرنے كى غرض سے اختيار فرما ليا كرتے تهے كيونكہ وہ آپ كى اقتدا كرتے تهے اور آپيہ پسند نہيں كرتے تهے كہ ان پر مشقت ڈاليں ليكن آپ ﷺ نے اونٹ كى گائے اور بهيڑ بكريوں پر فضيلت بيان كر دى ہے جيسا كہ ابهى پيچهے گذرا ہے- واللہ اعلم

(فتاوىٰ اسلاميہ :2/320)

1۔ قربانى كے جانور كو كهلا پلا كر موٹا كرنا مستحب ہے- (المغنى: 13/367، بخارى؛ 5553)

خصى جانور كى قربانى

خصى جانور كى قربانى جائز ہے اور اس كے دلائل حسب ذيل ہيں :
حضرت ابو ہريرہسے روايت ہے كہ 
“رسول اللہ ﷺ جب قربانى كا ارادہ فرماتے تو دو بڑے بڑے موٹے تازے سينگ والے’ چتكبرے خصى مينڈهے خريد لاتے-” )(ابن ماجہ:3122)
حضرت جابر بن عبداللہ سے روايت ہے وہ كہتے ہيں كہ 
“نبى ﷺ نے قربانى كے دن سينگ والے دوچتكبرے خصى مينڈهے ذبح كيے-“(ابو داود :2795)

امام ابن قدامہ فرماتے ہيں كہ 
“خصى جانور (قربانى ميں ) كفايت كرجاتا ہے كيونكہ نبى ﷺ نے دو خصى مينڈهے ذبح كيے-“(المغنى :13/371)
سيد سابق فرماتے ہيں كہ 
“خصى جانور كى قربانى كرنے ميں كوئى حرج نہيں -“(فقہ السنة:3/196)

بهينس كى قربانى

شريعت نے ايسے جانور بطور قربانى ذبح كرنے كا حكم ديا ہے جن پر بهيمة الأنعام كا لفظ بولا جاسكتا ہو اور وہ جانور صرف اونٹ، گائے، بهيڑ اور بكرى ہيں جيسا كہ پیچھے بيان كيا جاچكا ہے اس ليے صرف انہى جانوروں كى قربانى كرنى چاہيے او ر بهينس كى قربانى سے اجتناب ہى بہتر ہے بالخصوص اس ليے بهى كہ رسول اللہ ﷺ سے بهى بهينس كى قربانى ثابت نہيں ہے- تاہم بعض اہل علم اسے گائے كى نوع ميں شمار كركے قابل قربانى قرار ديتے ہيں -واللہ اعلم!

كن جانوروں كى قربانى جائز نہيں ؟

(1) حضرت براء بن عازب كى حديث ميں ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:

(أربع لاتجوز في الأضاحي:العوراء بيّن عورها والمريضة بين مرضها والعرجاء بين ظلعها والكسير التي لاتنقي)(ابو داود:2802)

“چار جانور قربانى ميں جائز نہيں : واضح طور پر آنكہ كا كانا، ايسا بيمار جس كى بيمارى واضح ہو، لنگڑا جس كا لنگڑا پن ظاہر ہو،اور ايسا كمزور جس ميں چربى نہ ہو”

حضرت علىسے مروى ہے كہ

أمرنا رسول الله ! أن نستشرف العين والأذن)
“رسول اللہ نے ہميں حكم ديا كہ ہم آنكہ او ركان اچهى طرح ديكھیں -“
(ابوداود :2704)

اس بنا پر بيان كردہ اوصاف والے جانور كى قربانى نا جائز ہوگى-

حاملہ جانور كى قربانى
حاملہ جانور كى قربانى جائز ہے جيسا كہ مندرجہ ذيل حديث اس پر شاہد ہے:

“حضرت ابو سعيدسے روايت ہے وہ كہتے ہيں كہ ميں نے رسول اللہ ﷺ سے پيٹ كے بچے كے متعلق سوال كيا تو آپ ﷺ نے فرمايا “اگر تم چاہو تو اسے كهالو” اور مسددكہتے ہيں كہ ہم نے كہا اے اللہ كے رسول! ہم اونٹنى’ گائے اور بكرى ذبح كرتے ہيں تو ہم اس كے پيٹ ميں بچہ پاتے ہيں كيا ہم اسے پهينك ديں يا اسے كهاليں ؟ آپ ﷺ نے فرمايا:”اگر تم چاہو تو اسے كهالو كيونكہ اس كا ذبح اس كى ماں كا ذبح كرنا ہى ہے۔”(ابو داود:2827)

اس صحيح حديث سے معلوم ہوا كہ حاملہ جانور خواہ اونٹنى ہو، گائے ہو يا بكرى ہو اسے قربانى كے ليے ذبح كيا جاسكتا ہے اور اس كے پيٹ كے بچے كو ذبح كيے بغير كهانا درست ہے ليكن اگر طبعى كراہت كے پيش نظر اسے پهينك ديا جائے تب بهى كوئى حرج نہيں كيونكہ نبى ﷺ نے صحابہ كو لازمى طور پر پيٹ كا بچہ كهانے كا حكم نہيں ديا بلكہ اسے ان كى طبيعت و چاہت پر ہى معلق ركها-

علاوہ ازيں بعض حضرات نے جو اس كى يہ تاويل كى ہے كہ اس حديث كا مطلب يہ ہے
 “بچے كو بهى اسى طرح ذبح كرو جيسے اس كى ماں كو ذبح كرتے ہو-“ يہ تاويل نہايت بے بنياد ہے اور مذكورہ حضرت ابو سعيد ﷺ كى حديث ہى اس كا رد كرديتى ہے-

قربانى كے جانور پر سوارہونا

“حضرت ابو ہريرہ سے روايت ہے كہ رسول كريم ﷺ نے ايك شخص كو قربانى كا جانور لے جاتے ديكها تو آپ ﷺ نے فرمايا كہ اس پر سوار ہو جا- اس شخص نے كہا كہ يہ تو قربانى كا جانور ہے، آپ ﷺ نے فرمايا كہ اس پر سوار ہو جا- اس نے كہا كہ يہ تو قربانى كا جانور ہے تو آپ ﷺ نے پهر فرمايا افسوس! سوار بهى ہو جاؤ (ويلك آپ ﷺ نے) دوسرى يا تيسرى مرتبہ فرمايا۔”(بخارى : كتاب الحج:،باب ركوب البدن1689، مسلم :2323)

اس حديث كى شرح ميں مولانا داود راز نقل كرتے ہيں كہ

“زمانہ جاہليت ميں عرب لوگ سائبہ وغيرہ جو جانور مذہبى نياز نذر كے طور پر چهوڑ ديتے ان پر سوار ہونا معيوب جانا كرتے تهے- قربانى كے جانوروں كے متعلق بهى جو كعبہ ميں لے جائى جائيں ان كا ايسا ہى تصور تها- اسلام نے اس غلط تصور كو ختم كيا اور آنحضرت ﷺ نے بالاصرار حكم ديا كہ اس پر سوارى كرو تا كہ راستہ كى تهكن سے بچ سكو- قربانى كے جانور ہونے كا مطلب يہ ہرگز نہيں كہ اسے معطل كر كے چهوڑ ديا جائے- اسلام اسى ليے دين فطرت ہے كہ اس نے قدم قدم پر انسانى ضروريات كو ملحوظ نظر ركها ہے اور ہر جگہ عين ضروريات انسانى كے تحت احكامات صادر كيے ہيں ۔ (شرح بخارى:3/42)

مزيد اسى حديث كے متعلق امام ترمذى رقمطراز ہيں كہ

“حضرت انسكى حديث حسن صحيح حديث ہے اور بے شك نبى ﷺ كے صحابہ اور ان كے علاوہ دوسرے لوگوں ميں سے اہل علم كى ايك جماعت نے قربانى كے اونٹ پر سوارى كى رخصت دى ہے جبكہ وہ شخص اس كى سوارى كا محتاج ہواور يہى قول امام شافعى،امام احمد اور اسحق كا بهى ہے اور ان ميں سے بعض نے كہا كہ جب تك وہ شخص اسكى طرف مجبور نہ ہو جائے سوارى نہ كرے-” (ترمذى: كتاب الحج، باب ماجآء فى ركوب البدنة)

كيا قربانى كا جانور فروخت كيا جاسكتا ہے؟

اگر انسان قربانى كى نيت سے كوئى جانور خريدے تو پهر اسے فروخت كرنا درست نہيں كيونكہ اب وہ جانور اللہ تعالىٰ كا ہو چكا ہے اب اسے صرف اللہ كے ليے قربان كرنا ہى ضرورى ہے جيسے وقف شدہ مال كو نہ فروخت كرنا جائز ہے، نہ ہبہ كرنا جائز ہے اور نہ ہى وراثت ميں تقسيم كرنا جائزہے بلكہ اسے اللہ ہى كے ليے صرف كرنا ضرورى ہے۔ (مسلم :4224)

ہاں اگر اسے فروخت كرنے سے مقصود اسے تبديل كرنا ہے تو درست ہے مثلا اگر كوئى شخص بكرى خريد لايا ہے ليكن پهر وہ اسے فروخت كر كے گائے خريدنا چاہتا ہے تو يہ درست ہے كيونكہ يہ افضل قربانى كى طرف پيشرفت ہے- اور اس صورت ميں بهى فروخت كرنا جائز ہے كہ اگر جانور خريدنے كے بعدعلم ہو كہ يہ بيمار ہے يا اس ميں كوئى ايسا نقص ہے جس كى وجہ سے يہ قربانى كے قابل نہيں تو اسے فروخت كر كے دوسرا جانور خريدا جا سكتا ہے۔
واللہ اعلم

bc778ec2c2b976000a7d66ff20ffe87c?s=400&d=mm&r=g

About Post Author

salahudin khan gorchani

I am Software Engineer ,Wordpress Web Developer and Freelancer
Happy
Happy
0 %
Sad
Sad
0 %
Excited
Excited
0 %
Sleepy
Sleepy
0 %
Angry
Angry
0 %
Surprise
Surprise
0 %

Average Rating

5 Star
0%
4 Star
0%
3 Star
0%
2 Star
0%
1 Star
0%

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *