فضائل سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ اور انکا ایک واقعہ
((اَللّٰھُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ ھٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إلَیْکَ: بِأَبِيْ جَھْلٍ أَوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ))
اے اللہ! ان دو آدمیوں: ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تیرے نزدیک محبوب ہے، اس کے ساتھ اسلام کو عزت دے یعنی اسے مسلمان کر دے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ عمر (رضی اللہ عنہ) اللہ کے نزدیک محبوب ترین تھے۔
(سنن الترمذی: 3681 وسندہ حسن، وقال الترمذی: ’’ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب‘‘)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب عمر (رضی اللہ عنہ) نے اسلام قبول کر لیا تو ہم اس وقت سے برابر عزت میں (غالب) رہے۔ (صحیح بخاری: 3684)
((إِنَّہٗ قَدْکَانَ فِیْمَا مَضٰی قَبْلَکُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُوْنَ، وَإِنَّہٗ إِنْ کَانَ فِيْ أُمَّتِيْ ھٰذِہٖ مِنْھُمْ أَحَدٌ فَإِنَّہٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ))
بے شک اگلی امتوں میں محدثون (جنھیں الہام و کشف حاصل تھا) ہوتے تھے اور اگر اس اُمت میں اُن میں سے کوئی (محدث) ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔
(صحیح بخاری: 3469)
اے عمر! بے شک شیطان تجھ سے ڈرتا ہے۔
(سنن الترمذی: 3690 وقال: ’’ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب‘‘ اس کی سند حسن ہے)
میں دیکھ رہا ہوں کہ جنات کے شیطان اور انسانوں کے شیطان سب (سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہ) سے بھاگ گئے ہیں۔
(الترمذی: 3691، وقال: ’’ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب‘‘ وسندہ حسن)
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اے (عمر) ابن الخطاب! تُو جس راستے پر چل رہا ہو تو شیطان اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر بھاگ جاتا ہے۔
(صحیح البخاری: 3683 وصحیح مسلم: 22/2396 وأضواء المصابیح: 6027)
((إِنَّ اللہَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِہٖ))
بے شک اللہ نے عمر (رضی اللہ عنہ) کے دل و زبان پر حق جاری کر رکھا ہے۔
(صحیح ابن حبان، موارد: 2184 وسندہ صحیح)
((لَوْکَانَ بَعْدِيْ نَبِيٌّ لَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ))
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔
(سنن الترمذی: 3686 وقال: ’’ھٰذا حدیث حسن غریب‘‘ اس کی سند حسن ہے)
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے خواب دیکھا۔ میرے سامنے لوگ پیش ہو رہے تھے۔ کسی کی قمیص سینے تک تھی اور کسی کی اس سے نیچے۔ جب میرے سامنے عمر بن خطاب پیش کئے گئے تو وہ اپنی (لمبی) قمیص کو گھسیٹ رہے تھے۔
لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: دین، یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دین میں (سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد) سب لوگوں سے زیادہ مقام رکھتے ہیں۔
(دیکھئے صحیح البخاری: 3691 وصحیح مسلم: 15/3390)
نبی کریم ﷺ نے جنت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا محل دیکھا تھا۔ (صحیح البخاری: 5226، 7024 وصحیح مسلم: 20/2394)
آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جنتی کہا۔ (الترمذی: 3747 وسندہ صحیح)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر ایک کافر مجوسی ابو لؤلؤفیروز نے حملہ کر کے سخت زخمی کر دیا تھا۔ اسلام کے سنہری دَور اور فتنوں کے درمیان دروازہ ٹوٹ گیا تھا۔ آپ کو دودھ پلایا گیا تو وہ انتڑیوں کے راستے سے باہر آگیا۔ اس حالت میں ایک نوجوان آیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کا ازار ٹخنوں سے نیچے ہے تو آپ نے فرمایا:
’’اِبْنَ أَخِيْ! اِرْفَعْ ثَوْبَکَ فَإِنَّہٗ أَنْقَی لِثَوْبِکَ وَأَتْقَی لِرَبِّکَ‘‘
بھتیجے اپنا کپڑا (ٹخنوں سے) اوپر کر، اس سے تیرا کپڑا بھی صاف رہے گا اور تیرے رب کے نزدیک یہ سب سے زیادہ تقوے والی بات ہے۔
(صحیح البخاری: 3700)