اہلِ بدعت کا ذبیحہ
سوال: ‘‘ اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کا ذبیحہ حرام ہے؟ پاکستان کے قصابوں کے ذبیحہ کے متعلق کیا حکم ہے؟ جبکہ اکثریت قصابوں کی بے دین ہے۔ ان آثار کی سند کیسی ہے؟۱: سعید بن منصور نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کی ہے، کہتے ہیں:سوائے مسلمانوں اور اہلِ کتاب کے کسی اور کا ذبیحہ مت کھاؤ۔ (کشاف القناع۶؍۲۰۵)۲: ابن عباس ؓ سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک مسلمان آدمی ذبیحہ کرتے وقت بسم اللہ بھول جائے تو ؟ ابن عباس نے کہا کہ ‘‘ وہ ذبیحہ کھایا جائے گا’’۔سوال ہوا: ‘‘اگر مجوسی بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے تو؟’’ انہوں نے فرمایا کہ ‘‘ وہ ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔’’ (المستدرک للحاکم ۴؍۲۳۳ح ۷۵۷۲)۳: ابن مسعود ؓ نے کہا: تم ایسے علاقے میں آ گئے ہو جہاں مسلمان قصاب نہیں ہیں بلکہ نبطی یا مجوسی ہیں لہٰذا جب گوشت خریدو تو معلوم کیا کرو، اگر وہ یہودی یا نصرانی کا ذبح کیا ہوا ہو تو کھاؤ، ان کا ذبیحہ اور کھانا تمھارے لئے حلال ہے۔(مصنف عبدالرزاق ۴؍۴۸۷ح۸۵۷۸)کیا رسول اللہ ﷺ کے صحابہ یا تابعین میں سے کوئی بھی مشرکین کے ذبیحے کے جواز کا قائل ہے؟ براہِ مہربانی اس مسئلے کی تفصیلاً راہنمائی فرمائیں۔اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین کے ذبیحے کو حرام قرار دینے والوں کے دلائل درج ذیل ہیں:۱: ذبیحہ کرنا عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ مشرک کی عبادت قبول نہیں کرتا۔۲: اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین کے ذبیحے کے حرام ہونے پر اجماع ہے۔ (یہ) امام احمد اور ابن تیمیہ نے کہا ہے۔۳: قرآن مجید میں اہلِ کتاب کے ذبیحہ کو جائز قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ باقیوں کا حرام ہے۔ (سید عبدالسلام زیدی، عبدالحکیم ضلع خانیوال)
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ !یہاں ایسے لوگ ہیں جو شرک سے تازہ تازہ مسلمان ہوئے ہیں، وہ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ‘‘ سمو اللہ علیہ وکلوا’’ اس پر اللہ کا نام لے لو اور کھاؤ۔ (صحیح بخاری: ۲۰۵۷، ۷۳۹۸)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ‘‘وَلَا تَاْ کُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہ لَفِسْقٌ’’اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ اور بے شک یہ فسق ہے۔ (الانعام: ۱۲۱)
اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ) اگر حلال جانور پر اللہ (خدا) کا نام لے کر ذبح کریں تو یہ جانور حلال ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے (وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ’’ اور اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لئے حلال ہے۔ (المآئدۃ : ۵)
اس آیت کی تشریح میں اہلِ سنت کے مشہور امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اور اہلِ کتاب، یہود و نصاریٰ کے ذبیحے تمھارے لئے حلال ہیں۔ (تفسیر طبری۶؍۶۴)
امام ابن شہاب الزہری نے عرب کے نصاریٰ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے ذبیحے کھائے جاتے ہیں کیونکہ وہ اہلِ کتاب میں سے ہیں اور اللہ کا نام لیتے ہیں۔تفسیر طبری (۶؍۶۵و سندہ صحیح) نیز دیکھئے صحیح بخاری(قبل ح ۵۵۰۸)
اس پر اجماع ہے کہ ہر یہودی اور ہر نصرانی کا ذبیحہ حلال ہے۔ (بشرطیکہ وہ اللہ کا نام لے) دیکھئے تفسیر ابن جریر طبری(۶؍۶۶)
عقیدے کے لحاظ سے اہلِ سنت کے دو گروہ ہیں:
اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ ترکِ صلوٰۃ ہے۔ بعض علماء کے نزدیک تارک الصلوٰۃ کافر ہے اور بعض اسے فاسق و فاجر کہتے ہیں۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے کتاب الصلوٰۃ میں فریقین کے دلائل جمع کر دیئے ہیں۔ محدث البانی رحمہ اللہ اور بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ تارک الصلوٰۃ کافر نہیں ہے۔
محدث عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ‘‘ بے نماز کا ذبیحہ مسلمانوں کو کھانا جائز ہے یا نہیں؟’’ تو انہوں نے جواب دیا:‘‘ بے نماز بے شک کافر ہے خواہ ایک نماز کا تارک ہو یا سب نمازوں کا کیونکہ (مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمَّدًا فَقَدْکَفَرَ) عام ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر تارکِ صلوٰۃ کافر ہے رہا بے نماز کے ذبیحہ کا حکم سووہ اہلِ کتاب کے حکم میں ہونے کی وجہ سے درست ہو سکتا ہے خواہ نیک زبح کرنے والا پاس موجود ہو یا نہ، ہاں نیک ہر طرح سے بہتر ہے اور بے نماز جب کافر ہوا تو اس کا کھانا مثل عیسائی کے کھانے کے سمجھ لینا چاہیئے ۔ حتی الوسع اس سے پرہیز رکھے عند الضرورۃ کھا لے ’’ (فتاویٰ اہلِ حدیث ج ۲ص ۶۰۴)
ہمارے استاد محترم حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: ‘‘ بے نماز کے متعلق اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے اگر یہ بات درست ہے تو کیا بے نماز کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام؟’’ تو انہوں نے جواب دیا: ‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّھُمْ) [آج حلال ہوئی تم کو سب پاک چیزیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کو حلال ہے۔]عام مفسرین نے اس مقام پر طعام کی تفسیر ذبیحہ فرمائی ہے تو جب اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہے تو کلمہ پڑھنے والوں کا ذبیحہ بھی حلال ہے خواہ وہ نماز نہ پڑھتے ہوں کیونکہ وہ اہلِ کتاب تو ہیں ہی۔ ہاں اگر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو وہ ذبیحہ حرام ہے خواہ ذبح کرنے والا پکا نمازی ہی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (وَلَا تَاْ کُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ) [اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا اور یہ کھانا گناہ ہے]نیز فرمایا: (وَمَآ اُھِلَّ لِغِیْرِ اللہِ بِہٖ) [اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا ]۱ ؍۴؍۱۴۱۸ھ’’ (احکام و مسائل ج ۱ص ۴۵۲)
حافظ عبدالمنان حفظہ اللہ سے کسی شخص نے پوچھا: ‘‘ بازاری گوشت کیسا ہے حلال یا حرام؟ جیسا کہ پاکستان کے اکثر قصاب نماز اور دین کے بارہ میں بالکل صفر ہیں اور ان کا عقیدہ تو ماشا ء اللہ اور بھی نگفتہ بہ ہوتا ہے کیا ان کا ذبیح مشرک کے زمرہ میں آتا ہے؟’’حافظ صاحب نے جواب دیا: ‘‘ حلال ہے کیونکہ اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلال ہے اور معلوم ہے کہ اہلِ کتاب کافر بھی ہیں اور مشرک بھی۔ پاکستان کے قصاب بہر حال اہلِ کتاب سے اچھے ہی ہیں پھر یہ کلمہ بھی پڑھتے ہیں مگر ایک شرط ہے کہ بوقت ذبح وہ بِسْمِ اللہِ وَاللہُ اَکْبَرُ پڑھتے ہوں غیر اللہ کے نام پر ذبح نہ کرتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَلَا تَأْ کُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ) [اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا] ۲۱؍۵؍۱۴۱۷ھ’’(احکام و مسائل۱؍۴۵۲)
۱۔ بدعتِ مکفرہ مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن مجید مخلوق ہے۔
بدعتِ کبریٰ کے تحت تمام خوارج ، روافض ، معتزلہ، جہمیہ اور منکرینِ حدیث آتے ہیں۔ اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات پیشِ خدمت ہیں:
۱: جو مشرکین ہندو مذہب یا بدھ مزہب وغیرہما سے تعلق رکھتے ہیں ان کا ذبیحہ حرام ہے۔
اہلِ بدعت کی روایات صحیحین میں موجود ہیں مثلاً:
۱: خالد بن مخلد: صحیحین کا راوی خالد بن مخلد ثقہ و صدوق ہے، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے۔ ابن سعد نے کہا: ‘‘ وکان منکر الحدیث، فی التشیع مفرطاً ’’
۲: علی بن الجعد: صحیح بخاری کا راوی اور ثقہ عند الجمہور (صحیح الحدیث) تھا۔ اس نے سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں کہا: ‘‘ أخذ من بیت المال مائۃ ألف درھم بغیر حق’’ اس نے بیت المال سے ایک لاکھ درہم نا حق لئے۔ اس پر یہ قسم بھی کھاتا تھا۔(تاریخ بغداد ۱۱؍۳۶۴ و سندہ حسن)
۳: عباد بن یعقوب: صحیح البخاری کا راوی اور موثق عند الجمہور (حسن الحدیث) تھا۔
حافظ ابن حبان نے کہا: ‘‘وکان رافضیاً داعیۃ إلی الرفض۔۔’’ اور وہ رافضی تھا (اور) رافضیت کی طرف دعوت دیتا تھا۔(المجروحین ۲؍۱۷۲)
حافظ ابن حجر نے کہا: ‘‘صدوق رافضی’’ (تقریب التہذیب : ۳۱۵۳)
جب اہلِ بدعت (ثقۃ و صدوق عند الجمھور ) کی روایات مقبول ہیں تو ان کا ذیحہ بھی حلال ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کیا خوب فرماتے ہیں: ‘‘فلنا صدقہ و علیہ بدعتہ’’ پس اس کی سچائی ہمارے لئے ہے اور اس کی بدعت اسی پر وبال ہے۔ (میزان الاعتدال ۱؍۵ترجمۃ ابان بن تغلب)
۵: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اسے ابن جریح نے عمر و بن دینار سے ‘‘عن’’ کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابن جریح مشہور مدلس ہیں۔
۶۔ حدیثِ ابن مسعود ؓ ؍مصنف عبدالرزاق: اس روایت کی سند میں ابو اسحاق السَّبِیعی مدلس ہیں اور روایت ‘‘عن’’ سے ہے لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔
۷: میرے علم کے مطابق صحابہ کرام و تابعین میں سے کوئی بھی ہندو مشرکین وغیرہ کے ذبیحے کے جواز کا قائل نہیں ہے۔ رہا مسئلہ اہلِ بدعت کا تو سیدنا ابن عمر ؓ خارجیوں اور خشبیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔ (دیکھئے طبقات ابن سعد ۱؍۱۶۹، ۱۷۰، حلیۃ الاولیاء۱؍۳۰۹ وسندہ صحیح)آپ انہیں سلام بھی کہتے تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۳؍۱۲۲، وسندہ صحیح)
آپ مشہور ظالم حجاج بن یوسف جیسے بدعتی کے پیچھے بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔(دیکھئے السنن الکبری للبیہقی ۳؍۱۲۱، ۱۲۲ ، وسندہ حسن)
تنبیہ: واضح رہے کہ راجح یہی ہے کہ بدعتِ کبریٰ کے مرتکب کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ تفصیلی تحقیق کے لئے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب‘‘ بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم’’
۸: ذبیحہ کرنا ایک عمل ہے جس کی مشروعیت کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ بعض الناس کا یہ کہنا کہ ‘‘ ذبیحہ کرنا عبادت ہے’’ اس کی دلیل مجھے معلوم نہیں ہے۔
۹: اہلِ کتاب اور اہلِ سلام کے سوا تمام مشرکین و مرتدین و کفار کا ذبیحہ بلا شک و شبہ حرام ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہلِ اسلام (کلمہ گو مدعیانِ اسلام) میں سے اہلِ بدعت کا ذبیحہ بھی حرام ہے۔
۱۰: یہود کے اکہتر اور نصاریٰ کے بہتر فرقے ہوئے جنہیں اہلِ کتاب سے خارج نہیں کیا گیا اور اسی طرح امتِ مسلمہ کے تہتر فرقے ہیں جن میں سے بہت فرقوں کی تکفیر کرنا اور امتِ مسلمہ سے خارج قرار دینا غلط ہے۔ بس صرف یہ کہہ دیں کہ یہ فرقے گمراہ ہیں اور اہلِ بدعت میں سے ہیں یا ان کے عقائد کفریہ و شرکیہ ہیں ۔ ان تمام فرقوں کے ہر شخص کو متعین کر کے ، بغیر اقامتِ حجت کے کافر ، مشرک یا مرتد قرار دینا غلط ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ درج ذیل ہے:
محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی لکھتے ہیں: ‘‘ میرے لئے دیوبندی بریلوی اختلاف ، کا لفظ ہی موجبِ حیرت ہے۔ آپ سن چکے ہیں کہ شیعہ سنی اختلاف تو صحابہ کرام ؓ کو ماننے یا نہ ماننے کے مسئلے پر پیدا ہوا، اور حنفی وہابی اختلاف ائمہ ہدیٰ کی پیروی کرنے نہ کرنے پر پیدا ہوا۔ لیکن دیوبندی بریلوی اختلاف کی کوئی بنیاد میرے علم میں نہیں ہے۔’’(اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم ص۲۵)