اللہ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا
وعنہ ، قال: سئل رسول اللہ ﷺ عن ذراري المشرکین، قال : ((اللہ أعلم بما کانوا عاملین)) متفق علیہ۔انہی (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کے (نابالغ) بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا : جو اعمال وہ کرنے والے تھے انہیں اللہ جانتا ہے ۔ متفق علیہ۔ (البخاری: ۱۳۸۴، و مسلم : ۲۶۵۹/۲۶)
وعن عبادۃ بن الصامت رضي اللہ عنہ، قال قال رسول اللہ ﷺ : ((إن أول ما خلق اللہ القلم، فقال لہ: اکتب : فقال : ما أکتب؟ قال: اکتب القدر. فکتب ما کان وما ھو کائن إلی الأبد.))رواہ الترمذی وقال : ھذا حدیث غریب إسناداً.(سیدنا) عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا پھر اسے کہا : لکھ ۔ تو اس (قلم ) نے کہا : میں کیا لکھوں؟ اللہ نے فرمایا: تقدیر لکھ، پس قلم نے جو ہوا ہے اور جو آئندہ ہوگا، لکھ دیا۔ اسے ترمذی (۲۱۵۵) نے روایت کیا اور کہا: یہ حدیث سند کے لحاظ سے (حسن) غریب ہے۔
ابویعلیٰ الموصلی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((اِن أول شئ خلقہ اللہ القلم و أمرہ فکتب کل شئ.)) بے شک اللہ نے جو پہلی چیز پیدا کی وہ قلم ہے اور اسے حکم دیا تو اس نے ہر چیز کو لکھ دیا۔ (مسند ابی یعلیٰ ج ۴ ص ۲۱۷ ح ۲۳۲۹ و سندہ صحیح)
شیخ البانی ؒ فرماتے ہیں: “وھو من الأدلۃ الظاھرۃ علی بطلان الحدیث المشھور ((أول ما خلق اللہ نور نبیک یا جابر!)) وقد جھدت في أن أقف علی سندہ فلم یتیسر لي ذلک۔“یہ حدیث ان واضح دلیلوں میں سے ہے جس سے (جہلاء کے درمیان) مشہور حدیث :” اے جابر ! سب سے پہلے اللہ نے تیرے نبی کا نور پیدا کیا” کے باطل ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ میں نے اس (باطل ) روایت کی سند تلاش کرنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن مجھے اس کی کوئی سند نہیں ملی ۔ (التعلیق علی المشکوۃ ج ۱ ص ۳۴ تحت ح ۹۴)
وعن مسلم بن یسار قال: سئل عمر بن الخطاب (رضي اللہ عنہ) عن ھٰذہ الآیۃ: ﴿ وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ ﴾ الآیۃ، قال عمر: سمعت رسول اللہ ﷺ یسأل عنھا فقال: ((إن اللہ خلق آدم ثم مسح ظھرہ بیمینہ فاستخرج منہ ذریۃ فقال: خلقت ھؤلاء للجنۃ، وبعمل أھل الجنۃ یعملون ثم مسح ظھرہ فاستخرج منہ ذریۃ فقال: خلقت ھؤلاء للنار و بعمل أھل النار یعملون.))فقال رجل: ففیم العمل ؟ یا رسول اللہ ! فقال رسول اللہ ﷺ : ((إن اللہ إذا خلق العبد للجنۃ استعملہ بعمل أھل الجنۃ حتی یموت علی عمل من أعمال أھل الجنۃ فید خلہ بہ الجنۃ و إذاخلق العبد للنار استعملہ بعمل أھل النار حتی یموت علی عمل من أعمال أھل النار فیدخلہ بہ النار.)) رواہ مالک والترمذي و أبوداود۔مسلم بن یسار سے روایت ہے کہ (سیدنا) عمر بن الخطاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے اس آیت “اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا” آیت کے آخر تک (الاعراف: ۱۷۲) کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس آیت کے جواب میں فرماتے ہوئے سنا : یقیناً اللہ نے جب آدم کو پیدا کیا تو ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا : میں نے انہیں جنت کے لئے پیدا کیا ہےا ور یہ جنتیوں کے کام کریں گے۔ پھر ان کی پشت پر(ہاتھ) پھیرا تو اس میں سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا :میں نے انہیں جہنم کے لئے پیدا کیا ہے اور جہنمیوں کے کام کریں گے ۔ ایک آدمی نے پوچھا : یا رسول اللہ ! پھر اعمال کی کیا ضرورت ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے جب بندے کو جنت کے لئے پیدا کیا تو اسے اس کی موت تک جنتیوں کے اعمال کی توفیق دی جو اسے جنت میں داخل کریں گے اور جب اس نے کسی بندے کو جہنم کےلئے پیدا تو اسے اس کی موت تک جہنمیوں کے اعمال پر چلایا جو اسے جہنم میں داخل کردیں گے ۔اسے مالک (الموطأ ۸۹۸/۱ ح ۱۷۲۶) ترمذی (۳۰۷۵ وقال : حسن و مسلم لم یسمع من عمر ) اور ابوداود (۴۷۰۳) نے روایت کیا ہے ۔