اسلام کیا ہے
اسلام کیا ہے ؟ خطبہ مسنونہ کے بعد : اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ. بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ. اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ[1] (سورئہ آل عمران-۱۹) تمام قسم کی تعریفات وحدہ لا شریک خالق کائنات مالک ارض و سما کے لئے ہیں اور لاکھوں کروڑوں درود و سلام ہوں اس ہستی اقدس و مقدس پر جن کا نام نامی اسم گرامی محمد اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و اصحابہ و بارک وسلم ہے۔ وہ ذات مقدسہ مبارکہ مطہرہ کہ رب العزت نے جنہیں رحمت کائنات بنا کر بھیجا اور جن کے ذریعے اہل کائنات کی ہدایت اور راہنمائی کا بندوبست فرمایا۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات میں اللہ کے آخری پیغمبر آخری نبی اور آخری رسول بنا کر مبعوث کئے گئے اور رب کائنات نے آپ کے ذریعے اہل کائنات کو ان کی ہدایت اور ان کی راہنمائی کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات اورایک مکمل نظام زندگی عطا کر کے بھیجا۔ امام کائنات علیہ الصلو والسلام نے دنیا والوں کے سامنے جو ضابطہ اور جو نظام پیش کیا خداوند عالم نے اسے اپنے کلام مجید کے اندر اسلام سے تعبیر کیا ہے۔ فرمایا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ کہ لوگو سرور گرامی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کائنات میں تشریف لے آنے کے بعد اب اللہ کی بارگاہ میں کوئی نظام قابل قبول ہے تو وہ صرف اسلام کا ہے۔ اسلام کسے کہتے ہیں ؟ آج کے خطبہ میں اختصار کے ساتھ اس پر گفتگو ہو گی۔ اسلام عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا لفظی ترجمہ ہے تسلیم کرنا مان لینا۔ اسی سے اسلام لانے والے کو مسلم کہا جاتا ہے۔ عربی زبان میں بنیادی طور پر مسلم کا لفظ اس اونٹ کے
لئے استعمال ہوتا ہے جس کی ناک میں نکیل پڑی ہوئی ہو اور اس کا سرا کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہو۔ یعنی اس اونٹ کو مسلم کہا جاتا ہے جو اپنی مرضی سے نہ چل سکتا ہے نہ رک سکتا ہے نہ اٹھ سکتا ہے نہ بیٹھ سکتا ہے نہ حرکت کر سکتا ہے نہ سکون پذیر ہو سکتا ہے۔ بلکہ وہ اونٹ تبھی حرکت میں آتا ہے جب کہ نکیل تھامنے والا اسے حرکت میں لاتا ہے۔ اسی وقت بیٹھتا ہے جب مہار تھامنے والا اسے بیٹھنے کو کہتا ہے۔ اسی وقت اٹھتا ہے جب اٹھانے والا اس کو اٹھاتا ہے۔ اس لفظ کو اس شخص کے لئے استعمال کیا گیا جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے لائے گئے نظام حیات کو تسلیم کیا۔ اسے مسلم کہا گیا ہے۔ معنی یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے آپ کو کسی ایسے نظام کے تابع کر دیا ہے جس کی باگ ڈور جس کی نکیل اور مہار اس کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس نظام کے بھیجنے والے رب اللعالمین کے ہاتھ میں ہے یا اس نظام کے لانے والے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہے۔ ایک مومن ایک مسلمان وہاں بیٹھتا ہے جہاں اللہ‘ رسول اسے بیٹھنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس جگہ رکتا ہے جہاں اللہ رسول اسے رکنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس جگہ نہیں ٹھہرتا جہاں رب رسول اسے نہیں ٹھہرانا چاہتے۔ اس جگہ نہیں بیٹھتا جس جگہ اللہ اور رسول اسے بیٹھے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ ایک مسلمان کی موٹی سی تعریف ہے اور اس طرح کے انسان کو جس نے اپنی خواہشات کو اللہ رسول کے حکم کے تابع کر دیا ہو مسلم کہا جاتا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے ارشاد فرمایا ہے۔ لا يُؤمِنُ أحدُكُم حتّى يكونَ هواهُ تَبَعًا لما جئتُ بهِ لوگو کوئی شخص اس وقت تک مومن کہلانے کا حق نہیں رکھتا جب تک کہ وہ اپنی خواہشات کو میرے حکم کے تابع نہیں بنا لیتا۔ مومن وہ ہے جس کی اپنی کوئی مرضی نہ ہو بلکہ اس نے اپنی خواہشات کو کچل کراپنی مرضی کو ختم کر کے اسے اللہ رسول کے تابع بنا دیا ہو۔ وہ شخص تو مومن ہے اور جو شخص اپنی خواہشات اپنی مرضی اور اپنے ارادوں کو اللہ اور رسول کے حکم سے بالا سمجھتا ہے قرآن اور حدیث کی رو سے وہ شخص مومن اور مسلمان کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔ یہی بات رب العالمین نے بائیسویں پارے میں ارشاد کی ہے۔ فرمایا
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔[1] (سورئہ احزاب:۳۶) مومن وہ ہیں جن کا اللہ رسول کے مقابلے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔ جو اللہ رسول کے احکامات کے مقابلے میں اپنے اختیارات کو باقی رکھتا یا باقی سمجھتا ہے وہ شخص مومن نہیں ہے۔ قرآن پاک نے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ نے ہمیں اس بات کی خبر دی ہے کہ مومن اور مسلمان صرف اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے اپنے اختیارات ختم ہو چکے ہوں اور اس نے اپنے نفس پر اپنی جان پر اپنے جسم پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی بالادستی کو تسلیم کر لیا ہو اور اپنی خواہشات کو کچل کر اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے تابع بنا لیا ہو۔ روزہ ان اختیارات کے کچلنے اور ان خواہشات کے خاتمے کا ایک چھوٹا سا سمبل (Symbol) ہے ایک معمولی سا نمونہ ہے۔ انسان کا جی کھانے کو چاہتا ہے انسان کا دل گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈی چیز پینے کو چاہتا ہے۔ انسان فطری خواہشات کو پورا کرنے کے لئے حلال راستوں کی تلاش میں رہتا ہے لیکن اللہ کے حکم پر رسول کے فرمان پر اپنی خواہش کو کچلتا ہے اپنے من کو مارتا ہے اپنے ارادوں کو ختم کرتا ہے اپنے اختیارات کو مکمل طور پر نفی میں تبدیل کرتا ہے اور اس بات کا اظہار اور اعلان کرتا ہے کہ میں نے اپنے جسم پر اپنی روح پر اپنے ارادوں پر اپنی خواہشات پر اپنے اللہ کے حکم کو غالب کر لیا ہے ۔ اپنے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو غالب کر لیا ہے کہ رب نے کہا ہے پیاس لگے تو پانی نہ پیو۔ بھوک لگے تو کھانا نہ کھاؤ گرمی لگے تو برداشت کرو اور صبر کرو۔ حرام خواہشات تو حرام خواہشات ہیں حلال خواہشات کو بھی ترک کر دو۔ روزہ ترک حلال کا نام ہے۔ حرام کے ترک کا نام نہیں ہے۔ روزہ نام ہے حلال کے ترک کرنے کا۔ حرام ترک کرنا تو ایک مومن اور ایک مسلمان کے لئے عام دنوں میں بھی اتنا ہی لازمی اور ضروری ہے جتنا رمضان المبارک کے مہینے میں ہے لیکن روزہ تو کہتے ہیں ترک حلال کو۔ ترک حرام کو روزہ نہیں کہتے۔ کھانا حلال ہے پینا حلال ہے خواہشات کو صحیح طریقہ پر ادا کرنا حلال ہے لیکن انسان اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا کر حلال کو بھی ترک کر دیتا ہے۔ حرام سے اجتناب کرنا تو
بڑی بات ہے۔ یہ انسان کو تربیت دینے کے لئے مظہر ہے کہ دیکھو مسلمان کسے کہتے ہیں ؟ مسلمان اس کو کہتے ہیں اللہ رسول حکم دیں یہاں رک جاؤ تو رک جائے۔ یہ سوال نہ کرے یہاں رکنا ٹھیک ہے کہ نہیں ہے ؟ اللہ‘ رسول کہیں چل پڑو تو چل پڑے۔ یہ سوال نہ پوچھے کہ یہاں چلنا مناسب ہے کہ نہیں ہے ؟ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ کوئی مومن مرد کوئی مومن عورت اس وقت تک ایمان دار کہلانے کا حق نہیں رکھتے جب تک کہ اللہ رسول کے مقابلے میں اپنے سارے اختیارات کو ختم نہیں کر دیتے ہیں۔ اس کا نام اسلام ہے۔ اس بات کی روشنی میں ہمیں اپنی زندگیوں کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ دیکھنا چاہئے کہ ہماری زندگی کا طرز عمل ہماری بود و باش ہماری نشست و برخاست اٹھک بیٹھک ہمارا کھانا پینا ہمارا چلنا پھرنا ہمارا بولنا چالنا ہمارا سونا جاگنا یہ اللہ کے رسول کے احکام کے مطابق ہے کہ نہیں ہے؟ اگر تو یہ سب کچھ اللہ رسول کے احکام کے مطابق ہے تو ہمیں اسلام مبارک ہو۔ مسلمان ہونا ہمارے لئے بابرکت ہو۔ لیکن اگر اٹھتے بیٹھتے اپنی مرضی سے سوتے جاگتے اپنی خواہش سے کھاتے پیتیاپنے ارادے سے چلتے پھرتے اپنی مرضی سے ہیں تو جان لو کہ مسلم کے لفظ کا اطلاق ہم پر کرنا جائز نہیں ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظروں کو آوارگی سے روکا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کو غیبت چغلی اور جھوٹ سے روکا ہے۔ اللہ رب العزت نے قدموں کو برائی کی طرف اٹھنے سے روکا ہے ۔ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہاتھوں کو ناجائز مال کی طرف لپکنے سے روکا ہے۔ اللہ رب العزت نے دل اور دماغ کو شیطان کی آماجگاہ بنانے سے روکا ہے ۔ سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذبات کو ناجائز چیزوں کا گہوارہ بننے سے روکا ہے۔ اگر ہم یہ سب کچھ نہیں کرتے اور پھر اپنے آپ کو مومن اور مسلمان کہلاتے ہیں تو ہمارا حال ان لوگوں سے مختلف نہیں ہے جن کے بارے میں رب کائنات نے اپنے کلام مجید میں ارشاد فرمایا ہے یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا
یَشْعُرُوْنَ۔[1] (سورۃ البقرہ-۹) اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں مومنوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ فرمایا نہ رب کو دھوکہ نہ ایمان داروں کو دھوکا۔ دھوکے میں اگر مبتلا کر رکھا ہے تو انہوں نے اپنے نفسوں کو مبتلا کر رکھا ہے۔ لوگو! یاد رکھو اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ میرے وہ بھائی اور دوست میری وہ مائیں اور بہنیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ اسلام صرف رمضان المبارک کے روزوں کے رکھ لینے کا نام ہے۔ باقی گیارہ مہینے پوری آزادی ہے۔ جو جی میں آئے کریں جو دل میں آئے نہ کریں یا رمضان کا روزہ رکھ لیں اور دن جس طرح جی میں آئے گزاریں رات جس طرح دل میں آئے بتائیں ۔ سمجھ لیں کہ انہوں نے نہ ایمان کو سمجھا ہے نہ اسلام کو اور نہ ہی روزہ ان کو قیامت کے دن کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اس شخص کا کوئی روزہ نہیں ہے۔ میری بات کو توجہ کے ساتھ سن کر پلے باندھ لو۔ جو شخص گیارہ مہینے رب کی نافرمانی میں زندگی گزارتا ہے۔ ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھ کر اپنے آپ کو سمجھ لیتا ہے کہ وہ جنتی بن گیا ہے مومن اور مسلمان ہو گیا ہے یہ اس کی بھول ہے۔ اس لئے کہ اس نے اسلام کو ایک ٹنڈا منڈا (ادھورا) دین سمجھا ہے جس کا سال کے گیارہ مہینوں میں تو کوئی تعلق نہیں۔ صرف ایک مہینے میں اس کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ یہ انتہائی غلط فہمی غلط سوچ اور غلط فکر کا نتیجہ ہے۔ مومن وہ ہے جو کہ بارہ مہینے اپنی زندگی رب کی مرضی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق گزارتا ہے۔ جس نے گیارہ مہینے غفلت میں بغاوت میں سرکشی میں اللہ کی نافرمانی میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی روگردانی میں گزارے اس کو یہ مہینہ کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ یہ مہینہ صرف مومنوں کے لئے مسلمانوں کے لئے باعث رحمت بنا کے بھیجا گیا ہے۔ جو مومن نہیں ہیں جو مسلمان نہیں ہیں ان کے لئے یہ مہینہ کوئی فائدہ مند نہیں ہے۔ اس کی مثال موسم بہار کی مثال ہے۔ موسم بہار میں بادل امڈتے ہیں خوشگوار ہوائیں چلتی ہیں بارشیں برستی ہیں لیکن ہر زمین کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ بارش سے ہر زمین تر و تازہ نہیں ہوتی ہر زمین پہ سبزہ نہیں اگتا۔ کلر زمین شور زمین پر بارش پڑنے سے اس کے شور میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ زمین ہریاول میں سبزہ زار میں تبدیل نہیں ہوتی ۔ صرف وہ زمین موسم بہار سے فائدہ اٹھاتی ہے جو زمین فصلوں کے لئے قابلیت رکھتی ہے۔
امام کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے دلوں کو زمینوں کے ساتھ تشبیہہ دی ہے۔ آپ نے فرمایا کافر کا دل اس کلر بنجر اور شور زمین کی طرح ہے جس پر مہینوں بارش برس جائے اس زمین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ فرمایا منافق کا دل اس زمین کی طرح ہے جس زمین کے اندر گڑھے پڑے ہوئے ہوں۔ وہ زمین بارش کا پانی اپنے اندر جمع تو کر لیتی ہے جانور اس سے پانی پی کر اپنی پیاس کو تو بجھا لیتے ہیں لیکن اس زمین کو پانی کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ گڑھوں میں بدلی ہوئی زمین نے کونسی انگوریوں کو اگانا ہے؟ کون سی فصلوں کو پیدا کرنا ہے ؟ امام کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مومن کا دل سرسبز و شاداب کھیتوں کی طرح ہے۔ اس زمین کی طرح جو پیاسی آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کے دیکھتی رہتی ہے کہ رب کی رحمت کا قطرہ برسے اسے اپنے اندر جذب کرے اور جذب کر کے اپنے دامن میں چھپی ہوئی خیر و برکات کو اگل دے کہ ساری کائنات اس سے مستفید ہو۔ بعینہ مومن کا دل اس طرح کا ہے۔ موسم بہار یعنی رمضان کا مہینہ آتا ہے اس دل کو سر سبز و شاداب کر کے چلا جاتا ہے۔ لیکن اگر دل مردہ ہے دل اللہ رسول کا باغی ہے دل نبی کا نافرمان ہے تو اس دل کو رمضان کے روزوں کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔ مسئلہ یاد رکھو۔ اگر کسی شخص نے گیارہ مہینے نماز ادا نہیں کی ہے اور اللہ کے احکامات کو تسلیم نہیں کیا ہے تو اسے رمضان کے مہینے کے روزوں کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ صرف اس شخص کو ثواب ہے جس نے اس مہینے کے روزے رکھ کر اپنی اگلی زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ جس نے ارادہ کیا کہ اب تک جو غلطی ہو گئی سو ہو گئی اب تک جو بھول ہو گئی سو ہو گئی اب تک جو خطاء ہو گئی سو ہو گئی اب تک جو لغزش ہو گئی سو ہو گئی اب اگر زندگی گزاروں گا تو رب کے احکامات کے مطابق گزاروں گا۔ اور پھر اس نے صرف رمضان کے روزوں کو ہی فرض نہیں سمجھا بلکہ اس نے جانا کہ سب سے اول اسلام کی شرط یہ ہے کہ اللہ کی توحید میں خلل نہ ڈالا جائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا شرکت غیرے اپنا امام اپنا ہادی اپنا رہبراپنا مقتدا اور اپنا رہنما تسلیم کیا جائے۔ جس طرح رب کی توحید میں رب کی الوہیت میں رب کی ربوبیت میں کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا جاتا۔ اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
امامت و رسالت و نبوت میں بھی کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ کوئی شخص کائنات میں ایسا نہیں ہے جس کی بات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مقابلے میں کوئی حیثیت رکھتی ہو۔ ایک انسان اللہ کی وحدانیت کا قائل ہے۔ اللہ کی ربوبیت کو مانتا ہے اللہ کی الوہیت پر یقین رکھتا ہے لیکن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔ کس طرح؟ کلمہ تو مدینے والے کا پڑھتا ہے لیکن حکم کسی اور کا مانتا ہے فرمان کسی اور کا تسلیم کرتا ہے۔ اس نے شرک فی الرسالت کا ارتکاب کیا اور وہ لوگ جو امامت کے لئے راہنمائی کے لئے راہبری کے لئے مدینے کو چھوڑ کر کسی اور بستی کی طرف دیکھتے ہیں انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو صحیح طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ چاہے وہ بستی بصرے کی ہو چاہے کوفے کی چاہے بغداد کی ہو چاہے شام کی چاہے ہندوستان کی ہو چاہے بریلی کی جس شخص نے اپنی دینی راہنمائی کے لئے مدینے کو چھوڑ کر کسی اور بستی کی طرف دیکھا اس کا اسلام درست نہیں ہے۔ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو صحیح معنوں میں تسلیم نہیں کیا۔ تسلیم اس نے کیا جس نے اپنی راہنمائی کے لئے دیکھا یا عرش والے کے قرآن کی طرف دیکھا یا مدینے والے کے فرمان کی طرف دیکھا۔ جس نے ان دونوں چیزوں کو چھوڑ کر کسی بڑے سے بڑے انسان کسی بڑے سے بڑے بزرگ کسی بڑے سے بڑے عالم کسی بڑے سے بڑے محدث کسی بڑے سے بڑے فقیہہ کی طرف دیکھا رب کعبہ کی قسم وہ نہ مومن ہے اور نہ مسلمان ہے۔ مومن اور مسلمان وہ ہے جس کا عقیدہ یہ ہو کہ مدینے والے کے حکم کے مقابلے میں بصرے کوفے بغداد بریلی سہارنپور اور کسی دوسرے شہر کی بات کو ماننا تو بڑی بات ہے اس کی طرف پلٹ کے دیکھنا بھی حرام ہے۔ جس نے کسی اور کی طرف پلٹ کے دیکھنا بھی گوارا کر لیا اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرا لیا اور اس نے نبی کی ختم نبوت کا انکار کر دیا۔ اس نے اپنے عمل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ میں رحمت کائنات پیغمبر عربی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین تسلیم نہیں کرتا۔ اگر وہ خاتم النبیین سمجھتا اگر وہ نبی پر نبوتوں کو ختم سمجھتا تو نبی کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی طرف دیکھنا گوارا نہ کرتا۔ اور آج ایک بڑا اہم مسئلہ آپ کو سمجھائے دیتا ہوں۔ اس کو یاد رکھئے گا۔
دنیا کے اندر ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی جو رسم چلی ہے وہ صرف مرتدوں سے نہیں چلی۔ اس گناہ کے اندر کئی اپنے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ختم نبوت کے عقیدے کا زبان سے اقرار تو کیا لیکن عملی طور پر غیر نبی کو نبی کے مقام پر رکھ کر ختم نبوت کا انکار کیا۔ ختم نبوت کا قائل صرف وہ شخص ہے جو اپنی زبان اور اپنے عمل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کی بات کو قابل حجت نہیں سمجھتا۔ جو نبی کے بعد کسی اور کی بات کو حجت سمجھتا ہے وہ عملی طور پر نبوت کا منکر ہے اس نے عملی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم الرسالت کا انکار کیا ہے ۔ مومن وہ ہے ختم نبوت کا قائل وہ ہے اللہ کے رسول کی رسالت کا ماننے والا وہ ہے جو نبی کے بعد کسی کی بات کی طرف آنکھ اٹھا کے دیکھنے کی جرات نہ کرے اور ظلم کی بات ہے افسوس کی بات ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا نبی اللہ کا پیغمبر اللہ کا رسول ناطق وحی وحیسے بولنے والا اپنی حدیث میں یہ ارشاد کرے لو کان موسی حیا لما وسعہ الا اتباعی او میری امت کے لوگو اگر موسی بھی زندہ ہو کے آجائے اس کا حکم بھی نہیں چلے گا۔ چلے گا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم چلے گا۔ نبی یہ کہے کہ کوئی نبی بھی آجائے میرے آجانے کے بعد اس کا حکم بھی نہیں چل سکتا اور ہم مسلمان کہلانے والے امتیوں کی بات کو نبی کے مقابلے میں پیش کریں۔ پھر ہم سوچیں کہ ہمارا ایمان کیا ہے؟ اگر موسی کلیم اللہ جیسا جلیل القدر پیغمبر رسول وہ نبی کے بعد آجائے اس کی بات نہیں چل سکتی تو کسی امتی کی کیسے چل سکتی ہے ؟ آج ہماری گمراہی کے کئی اسباب ہیں۔ کہ میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے ہم نے نبوت پر ڈاکے ڈالنے کے راستے خود کھولے ہیں۔ ہم نے جب کہا کہ نبی کی بات کو رہنے دو فلاں فقیہہ کی بات کافی ہے فلاں امام کی بات کافی ہے فلاں محدث کی بات کافی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے نبی کی نبوت اور امامت کو آج تک باقی نہیں مانا۔
اگر آج تک مانتے تو کسی اور امام کی بات کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت باقی نہ ہوتی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ عقیدہ بھی درست کر لو کہ جس طرح دین کے کسی معاملے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کی بات کی طرف توجہ دینا سرور کائنات کی ختم نبوت اور رسالت کا انکار کرنا ہے اسی طرح نظام حیات کے معاملے میں اسلام کے سوا کسی اور ازم کو ماننا کسی اور نظام کو ماننا یہ خدا کی توہین کے مترادف ہے۔ اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رب العزت نے اسلامی نظام عطا کر کے بھیجا اور اس نظام کو کہا اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ اِلْاِسْلَامَ دِیْنًا۔[1] (سورۃ المائدہ:۳) کہ میں نے قیامت تک کے لئے تمہارے لئے اسلام کو پسند کر لیا ہے۔ اب اگر کوئی آتا ہے کہتا ہے کہ اسلام کی بجائے سوشلزم کی ضرورت ہے کمیونزم کی ضرورت ہے بھٹو ازم کی ضرورت ہے ضیاء ازم کی ضرورت ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے نظام کو کافی نہیں سمجھتا۔ اس نے اللہ کی توہین کا ارتکاب کیا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری پیغمبر اور اسلام آخری دین ہے۔ اسلام کے سوا کوئی ضابطہ حیات نہ مانا جائے گا۔ امام مانا جائے گا تو اکیلے مدینے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا جائے گا اور نظام مانا جائے گا تو احکم الحاکمین کی طرف سے اتارے ہوئے اسلام کو مانا جائے گا۔ ان دو چیزوں کے علاوہ تیسری کسی چیز کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور جو شخص ان دونوں چیزوں کو چھوڑ کر کسی اور طرف بھٹکتا ہے چاہے دین کا دعوی کرے چاہے بے دینی کا دعوی کرے وہ قیامت کے دن رب کی بارگاہ میں سرخرو نہیں ہو سکتا۔ بات آئی ہے تو مکمل سن لو۔ اسی طرح جو شخص رمضان کے روزوں کو تو فرض سمجھتا ہے اور اس کے ترک کرنے والے کو گنہگار سمجھتا ہے اور نماز کے چھوڑنے کو جائز سمجھتا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو پیغمبر بنانے کی سازش کی ہے۔ کیونکہ یہ حق اللہ نے کسی کو نہیں دیا کہ وہ اس کے کسی فریضے کو ختم کر دے کسی چیز کو جائز کر دے کسی کو ناجائز اور عقیدہ سن لو۔ کسی چیز کے جائز اور ناجائز بنانے کا حق احکم الحاکمین نے رحمتہ للعلمین کو بھی نہیں دیا ۔کسی چیز کو جائز و ناجائز کرنے کا حق اللہ نے اپنے
نبی، اپنے رسول کو بھی عطا نہیں کیا۔ یہ حق اللہ نے صرف اپنے پاس رکھا ہے۔ اور قرآن اس پر گواہ ہے۔ اٹھائیسواں پارہ سورہ تحریم قرآن مجید میں رب نے کہا ہے کہ ایک دفعہ نبی کی زبان سے نکل گیا کہ میں نے آج سے اپنے اوپر شہد کو حرام کر لیا ہے شہد نہیں پیوں گا آسمان سے جبرائیل آگیا یٰٓایُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ۔[1] (سورۃ تحریم:۱) اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کرنے کا تجھے بھی حق حاصل نہیں ہے۔ پیغمبر کو نہیں ہے تجھ کو کہاں سے مل گیا ہے؟ تو نے اپنا نظام بنا لیا تو نے زکو سے لوگوں کو مستثنی کر دیا۔ یہ بے شرم ضیاء الحق رمضان کے مبارک مہینے میں کل کے اخبارات میں اس نے دوبارہ چھپوایا کہ جو نیشنل بیئرر بانڈ خریدے گا میں نے اس کو زکو سے مستثنی قرار دے دیا ہے۔ غلام احمد قادیانی اس نے تو نبوت کا دعوی کیا تھا یہ خدا کا دعوی کرنے والا ہے۔کسی حکمران کو کسی بے غیرت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ کے فرائض کے اندر ترمیم کی جرات کر سکے۔ کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ کسی کو اللہ کے واجبات اللہ کے فرائض کو ختم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح مسلمانو تم اپنے آپ کو دیکھو۔ تم نے جو اپنے آپ کو گیارہ مہینے کی نمازیں معاف کر لی ہیں۔ تم خدا کہاں سے بن بیٹھے ہو؟ تم نے سمجھا ہے کہ گیارہ مہینے نماز نہ پڑھو کوئی بات نہیں ہے۔ روزے رکھ لو زکو نہ دو کوئی بات نہیں۔ سن لو وہ شخص جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا جس نے اللہ کے حلال کو حرام اللہ کے حرام کو حلال اللہ کے فرائض کو ترک اور اللہ کی منہیات کا ارتکاب کیا۔ جنت میں وہی جائے گا رب کے عرش کے نیچے وہی سایہ پائے گا رحمت کائنات کے ہاتھ سے حوض کوثر کا پانی وہی پئے گا حضور کی معیت میں جنت الفردوس میں وہی جائے گا جس نے مکمل طور پر اسلام کو تسلیم کیا۔ اللہ سے دعا ہے اللہ ہمیں مکمل اسلام کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ واخر دعوانا ان الحمد للّٰه رب العالمین۔
کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ
صفحہ نمبر: 30